اسلام کے ظہور سے قبل دنیا خاندان‘ قبیلے‘ قوم اور ملّت کے تصورات سے آگاہ تھی۔ خاندان معاشرے کی بنیادی اکائی تھا۔ قبیلہ خاندان کی توسیعی صورت تھا۔ قوم نسل، جغرافیے اور زبان کی وحدت کا نام تھا، اور ملّت جغرافیے، زبان اور بڑی حد تک نسل کی ’’براعظمی‘‘ صورت تھی۔ اس منظرنامے میں اسلام نے دنیا کو امت کا عظیم الشان اور انقلابی تصور دیا۔ ان تمام تصورات کے مقابلے میں امت ایک بین الاقوامی اور آفاقی حقیقت تھی۔ اسلام کی نظر میں خاندان ایک مقامی سطح کی امت تھا، اور امت بین الاقوامی خاندان تھا جس میں پوری انسانیت شامل تھی۔ اس خاندان کا اصول وحدت میں کثرت تھا۔ اس میں خاندان‘ قبیلے‘ رنگ‘ جغرافیے‘ زبان اور نسل کی کوئی تخصیص نہ تھی۔ لیکن امت کے تصورکی اصل انقلابیت یہ تھی کہ امت اپنی اصل میں ایک خدا مرکز یا
God Centric
حقیقت تھی۔ اس تصور میں خاندان‘ قبیلے‘ رنگ‘ نسل‘ جغرافیے اور زبان کا انکار نہیں تھا لیکن اللہ کی محبت ان تمام چیزوں کی محبت پر اس طرح غالب تھی کہ وہی پوری امت کا اصولِ حرکت تھی، وہی پوری امت کا طور تھی، وہی پوری امت کا مثالیہ یا آئیڈیل تھی۔ خدا کی محبت انسان کی صورت میں انسانِ کامل یعنی حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت میں ڈھل گئی تھی، اور خدا کی محبت کلام میں ڈھل کر قرآن مجید فرقانِ حمید بن گئی تھی۔ عربوں کے مزاج میں بلا کی قبیلہ پرستی تھی، بلاکی نسب پرستی تھی، اور بلا کی زبان پرستی تھی… مگر اسلام کے تصورِ امت نے قبیلے‘ نسب اور زبان کے کنوئیں میں تیرنے والوں کو دیکھتے ہی دیکھتے امت کے سمندر میں تیرنے والا بنادیا۔ بلاشبہ اسلام سے پہلے آنے والے مذاہب نے بڑی بڑی تہذیبوں کو جنم دیا، لیکن حقیقی معنوں میں ایک بین الاقوامی اور آفاقی تہذیب اسلام ہی نے خلق کی۔ یہی وجہ ہے کہ امت ِمسلمہ کے دائرے میں رنگوں‘ نسلوں‘ جغرافیائی خطوں اور زبانوں کا جیسا تنوع ہے، ویسا تنوع نہ ہندو تہذیب میں ہے‘ نہ بدھسٹ تہذیب میں اور نہ عیسائی تہذیب میں۔
دنیا کے نقشے پر نظر ڈالی جائے تو تمام تر عالمگیریت کے باوجود دنیا ’’قوم پرستی‘‘ کے نشے میں سرشار ہے۔ دنیا پر قومی ریاستوں کا غلبہ ہے۔ ریاستیں ایک دوسرے کے ساتھ ’’رابطے‘‘ میں ہیں تو اس کی وجہ ’’تعلق‘‘ نہیں’’مفاد‘‘ ہے۔ یعنی دنیا میں تعلق کے مفاد کا نہیں، مفاد کے تعلق کا دور دورہ ہے، اور اس حوالے سے ہر اتحاد میں بھی انتشار کا منظر ہے۔ دنیا کی بڑی طاقتیں خود کو بہت صاحبِ علم اور مہذب کہتی ہیں مگر انہوں نے قومی ریاستوں کے مسائل کے حل کے لیے اقوام متحدہ کے نام سے جو بین الاقوامی ادارہ بنایا ہے وہ صرف نام ہی کے اعتبار سے ’’بین الاقوامی‘‘ ہے ورنہ حقیقت یہ ہے کہ اقوام متحدہ صرف پانچ بڑی طاقتوںکی تنظیم ہے۔ اور اس تنظیم نے دنیا کو متحد کم کیا ہے منتشر بہت کیا ہے۔ اس اعتبار سے دیکھا جائے تو عصرِ حاضر میں اقوام کی قربت ایک مفروضہ ہے۔ طاقتور ملک کمزور ملکوں کے قریب آتے ہیں تو ’’استحصال‘‘ کے لیے۔ اس منظر میں اصل کمی امت کے حقیقی تصور کی ہے۔
اس حوالے سے خود امتِ مسلمہ کا حال ابتر ہے۔ امتِ مسلمہ کا اصل حوالہ اللہ تعالیٰ ہے، مگر مسلمانوں کی عظیم اکثریت خدا کو ایک حقیقت کے بجائے ایک تصور بناکر بیٹھ گئی ہے۔ مسلمانوں کا اصل حوالہ دین ہے، لیکن لوگوں نے اپنے مذاہب اور مسالک یعنی حنفیت، مالکیت‘ شافعیت اور حنبلیت کو دین بنالیا ہے، یہاں تک کہ ان کی نفسیات پر مکاتب فکر کے تعصب کا غلبہ ہوگیا ہے۔ چنانچہ ان کی مساجد الگ ہیں، مدارس الگ ہیں۔ ایک مکتبۂ فکر کے لوگ دوسرے مکتبۂ فکر کے لوگوں کی تکفیر کرتے ہیں، ان کے پیچھے نماز نہیں پڑھتے، ان کے ساتھ شادی بیاہ کا معاملہ نہیں کرتے۔ اس سلسلے میں صورتِ حال اتنی گمبھیر ہے کہ جو لوگ مختلف مکاتب فکر کے لوگوں کے درمیان اتحاد اور ہم آہنگی پیدا کرنا چاہتے ہیں وہ تمام مکاتب فکر کے لوگوں کے لیے سب سے زیادہ ناپسندیدہ ہوتے ہیں۔ مکاتب فکر کے اختلاف کی سب سے دلچسپ مثال دیوبندیوں اور بریلویوں کی ہے۔ مزے کی بات یہ ہے کہ دونوں مکاتب فکر ’’حنفیت‘‘ میں ’’جذب‘‘ ہیں۔ دونوں حضرت مجدد الف ثانیؒ اور حضرت شاہ ولی اللہؒ کی فکرکو اپنے مکاتب فکر کی اساس قرار دیتے ہیں۔ اس سے بلند تر سطح پر دونوں ایک خدا کے ماننے والے ہیں۔ دونوں ایک قرآن اور ایک نبیؐ پر ایمان رکھتے ہیں۔ دونوں کو صحابہ کرامؓ سے محبت ہے۔ دونوں دین کی تعبیر کے سلسلے میں اجماع اور قیاس کے قائل ہیں، مگر اس کے باوجود ان میں اتنے ’’شدید اختلافات‘‘ ہیں کہ وہ دونوں ایک دوسرے کا منہ دیکھنے کے روادار نہیں۔ یہاں تک کہ بیچاروں کو یہ تک معلوم نہیں کہ جس چیز کو وہ اصل اختلاف کہتے ہیں وہ کیا ہے؟ قصہ یہ ہے کہ دونوں کے درمیان اصل اختلاف حقیقتِ محمدیؐ کی تعبیر کا ہے۔ بریلوی حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی بشریت کا انکار کیے بغیر آپؐکے نوری پہلو پر اصرار کرتے ہیں، اور ایسا کرنا اس لیے ضروری ہے کہ آپؐ کی فضیلت تمام انبیاء پر ثابت اور ظاہر ہوسکے۔ دیوبندیت رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے نوری پہلو کا انکار کیے بغیر آپؐ کی بشریت پر اصرار کرتی ہے، اور ایسا کرنا اس لیے ضروری ہے تاکہ آپؐ کا واجب الاتباع ہونا ثابت ہوسکے۔ تجزیہ کیا جائے تو دونوں زاویئے اہم، ضروری اور رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت سے لبریز ہیں اور ان میں تکفیر کیا اختلاف کا رنگ بھی موجود نہیں۔ مگر عملی صورت حال یہ ہے کہ دیوبندی اور بریلوی ساٹھ ستّر سال سے ایک دوسرے کی طرف پیٹھ کیے کھڑے ہیں۔
امتِ مسلمہ کے تمام مذاہب اور مسالک کے ماننے والے بظاہر کہتے یہی ہیں کہ ان کے لیے قرآن و حدیث اہم ہیں، مگر حقیقت یہ ہے کہ وہ قرآن و حدیث کی اپنی مخصوص تعبیر کے اس حد تک اسیر ہوگئے ہیں کہ دوسرے مسلک کی بہتر اور زیادہ عالمانہ تعبیر کو محض اس لیے قبول نہیں کرتے کہ وہ ’’حریف‘‘ کی تعبیر ہے۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ ان کا مسئلہ قرآن و حدیث اور علم نہیں ان کا مسلکی یا مکتبی ’’تعصب‘‘ ہے۔ ایک مسلمان کے لیے کسی بھی قسم کا تعصب باعثِ عار ہے، مگر ہمارے مسالک اور مکاتبِ فکر کے لوگ اپنے تعصب پر ’’فخر‘‘ کرتے پائے جاتے ہیں۔ کہنے کو تمام مکاتب ِفکر کے افراد یہی کہتے ہیں کہ انہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرامؓ سے محبت ہے، مگر اصل بات یہ ہے کہ انہوں نے اپنے مسالک اور مکاتب ِفکر کی شخصیتوں کی محبت کو باقی تمام محبتوں پر غالب کرلیا ہے۔ ایسا نہ ہوتا تو وہ امت کے سمندر میں کھڑے ہوکر ’’مسلک اور مکتبہ کا کنواں‘‘ نہ کھودتے۔ امتِ مسلمہ کی یہ صورت حال صرف امت ِمسلمہ کا نہیں پوری انسانیت کا نقصان ہے۔ اس لیے کہ امتِ مسلمہ کے امکانات پوری انسانیت کے امکانات ہیں۔ امتِ مسلمہ اپنی حقیقت کو پہچانے گی اور اس کے مطابق عمل کرے گی تو وہ دنیا کی قیادت کے قابل ہوگی۔ وہ کفر کی تاریکی میں ڈوبے ہوئے اربوں انسانوں کو ایمان کی روشنی عطا کرے گی۔ وہ رنگ‘ نسل‘ جغرافیے اور زبان کی کال کوٹھڑیوں میں پڑے ہوئے اربوں لوگوں کی زندگی کو خدا مرکز بنائے گی اور انہیں اس قابل کرے گی کہ وہ ’’دوسروں‘‘ سے بھی اسی طرح محبت کریں جس طرح ’’اپنے آپ‘‘ سے محبت کرتے ہیں۔
انسانی تاریخ کے بارے میں ایک بنیادی بات یہ ہے کہ انسان نے ایک فرد کے طور پر اور ایک خاندان‘ ایک قبیلے‘ ایک قوم اور ایک ملت کے حصے کی حیثیت سے اپنے امکانات کو دریافت کیا ہے، مگر وہ ابھی تک ایک امت کی حیثیت سے اپنے امکانات کو دریافت نہیں کرسکا ہے، حالانکہ اس روئے زمین پر امت کے ’’تصور‘‘ اور ’’حقیقت‘‘ کو برپا ہوئے 14 سو سال ہوگئے ہیں۔ اس بات کے معنی یہ ہیں کہ جب پوری انسانیت حقیقی معنوں میں ایک امت بن کر سوچے اور عمل کرے گی تو وہ اُن صلاحیتوں کو دریافت کرے گی جو ابھی تک دریافت نہیں ہوئیں۔ ان محبتوں، قربتوں اور مسرتوں کا تجربہ کرے گی جو ابھی تک ایک نوع کی حیثیت سے اس کا مقدر نہیں بن سکی ہیں۔ اس تناظر میں دیکھا جائے تو امت کا تصور پوری انسانیت کا قیمتی ’’حال‘‘ ہی نہیں قیمتی ’’مستقبل‘‘ بھی ہے، اور اس حال اور مستقبل کی صورت گری کا بار مسلمانوں کے کاندھوں پر ہے، کیونکہ اللہ تعالیٰ نے انہی کو ایک عالمگیر امت کے تصور پر برپا کیا ہے۔ اس اعتبار سے دیکھا جائے تو امتِ مسلمہ کا اتحاد صرف مسلمانوں کے لیے نہیں پوری نوع انسانی کے لیے اہم ہے۔ اس حقیقت سے اس امر کی نشاندہی بھی ہوتی ہے کہ امتِ مسلمہ 14 سو سال پرانی ہونے کے باوجود دنیا کی سب سے ’’جدید‘‘ انسانی برادری ہے۔ اس لیے کہ دوسری انسانی برادریاں قوم اور ملّت کے تصور سے آگے سوچ ہی نہیں سکتیں۔ وہ نہ امت کے تصور کا ’’علم‘‘ رکھتی ہیں، نہ ان کے اندر امت کو برپا کرنے کا ’’شوق‘‘ پایا جاتا ہے، اور نہ ہی وہ حقیقی بین الاقوامیت اور آفاقیت کا ’’ذوق‘‘ رکھتی ہیں۔ مسلمانوں کے ماضی میں یہ تمام ’’اہلیتیں‘‘ پوری آب و تاب کے ساتھ نظر آتی ہیں۔ آج مسلمانوں میں ان اہلیتوں کا فقدان ہے مگر انہی میں ان اہلیتوں کو ایک بار پھر بروئے کار لانے یا انہیں Functional بنانے کی اہلیت ہے۔ اس لیے کہ صرف مسلمانوں کی تہذیب اب حقیقی معنوں میں ایک سطح پر خدا مرکز تہذیب ہے، دوسری سطح پرکتاب مرکز تہذیب ہے اور تیسری سطح پر رسولؐ مرکز تہذیب ہے۔ یہی مسلمانوں کے اتحادکی اصل بنیادیں ہیں اور یہی پوری انسانیت کو ایک امت بنانے کی صورت ہے۔