اسلامی تہذیب سمیت دنیا کی تمام مذہبی تہذیبیں ’’لفظ مرکز‘‘ یا Word Centric تھیں۔ یہاں تک کہ جدید مغربی تہذیب کا آغاز بھی لفظ مرکز تہذیب کی حیثیت سے ہوا تھا۔ ڈیکارٹ نے کہا تھا: میں سوچتا ہوں اس لیے میں ہوں۔ ڈیکارٹ کے اس فقرے میں فکر ماورا سے رشتہ توڑ کر انسان مرکز ہوگئی ہے، مگر بہرحال انسان کی فکر کا مرکز بھی لفظ ہی ہے۔ انسانی ذہن لفظ کے بغیر کچھ بھی سوچنے کی اہلیت نہیں رکھتا، مگر20 ویں صدی کے وسط تک آتے آتے جدید مغربی تہذیب ’’تصویر مرکز‘‘ یا Picture Centric ہوگئی ہے۔ سنیما کی ایجاد نے جامد تصویر کو ’’متحرک تصویر‘‘ میں ڈھال دیا۔ ٹی وی نے متحرک تصویر کو مزید عام کرکے اسے بہت طاقت ور بنادیا، اتنا طاقت ور کہ اب مغرب کے دانش ور کہہ رہے ہیں کہ صرف مغرب نہیں بلکہ پوری دنیا ’’بصری نوآبادیات‘‘ یا Visual Colonialism کے دائرے میں سانس لے رہی ہے۔ یونیورسٹی آف نیویارک کے پروفیسر نکولس مرزوف کے مطابق ’’بصری کلچر‘‘ اب ہماری روزمرہ کی زندگی کا حصہ نہیں بلکہ ہماری روزمرہ کی زندگی بجائے خود ’’بصری کلچر‘‘ ہے۔ نکولس مرزوف کے مطابق بصری کلچر ایسے بصری واقعات سے متعلق ہے جن میں صارف معلومات، معنی یا مسرت کے حصول کے لیے بصری ٹیکنالوجی کے کسی بھی ذریعے سے استفادہ کرتا ہے۔
(Visual Culture Reader.Edited by Nicholas Mirzoeff-Page-3)
لیکن یہ اس مسئلے کا سطحی پہلو ہے اور اسے مزید گہرائی میں دیکھا اور دکھایا جاسکتا ہے۔
لفظ اور تصویر کی معنویت کو سمجھنے کے لیے ضروری ہے کہ ہم ان کی نوعیت کا ٹھیک ٹھیک تعین کرلیں۔ بلاشبہ لفظ میں ’’تاثر‘‘ بھی ہوتا ہے، مگر لفظ کا تشخص تاثر سے نہیں بلکہ معنی سے متعین ہوتا ہے۔ تاثر لفظ کے لیے ثانوی اہمیت رکھتا ہے۔ اس کے برعکس تصویر میں معنی بھی ہوتے ہیں، مگر تصویر کا تشخص اس کے تاثر سے متعین ہوتا ہے۔ تصویر کے حوالے سے معنی کی اہمیت ثانوی ہوتی ہے۔ اسی طرح اساسی طور پر لفظ زندگی کے باطن کا اظہار کرتا ہے اور تصویر زندگی کے ظاہر کا۔ اس کے معنی یہ ہیں کہ لفظ مرکز تہذیب معنی اور باطن پر کھڑی ہوئی تہذیب ہے، اور بصری کلچر ’’تاثر‘‘ اور ’’خارج‘‘ پر کھڑا ہوا کلچر ہے۔ اس تناظر میں ولبرشرام کے مشہورِ زمانہ فقرے
’’ذریعہ ہی پیغام ہے‘‘ یعنی Medium is the Message کا مفہوم عیاں ہوکر سامنے آجاتا ہے۔ ولبرشرام کے فقرے کی رو سے پیغام کتاب میں ہوگا تو اس کا اثر کچھ روز ہوگا، ریڈیو میں ہوگا تو اس کے اثر کی نوعیت بدل جائے گی، پیغام ٹیلی ویژن پر ہوگا تو اس کا اثر کتاب اور ریڈیو کے اثر سے مختلف ہوگا۔ یہاں کہنے کی اہم بات یہ ہے کہ قارئین پریشان نہ ہوں، ان فلسفیانہ ’’نظر آنے‘‘ والی باتوں کا پاکستان کے ایک بڑے عملی مسئلے سے گہرا تعلق ہے۔ لیکن عملی مسئلہ کیا ہے؟
عملی مسئلہ یہ ہے کہ اسلام آباد ہائی کورٹ کے جسٹس جناب جسٹس شوکت صدیقی پاکستان کے ’’ٹیلی کلچر‘‘ یا ’’بصری کلچر‘‘ کے ایک پہلو سے عاجز آکر چیخ پڑے ہیں۔ اسلام آباد ہائی کورٹ میں رمضان ٹرانسمیشن اور مارننگ شوز کے ضابطہ اخلاق پر عمل درآمد کیس کی سماعت کے دوران جسٹس شوکت صدیقی نے حکم دیا ہے کہ رمضان المبارک میں کسی چینل پر کوئی نیلام گھر یا سرکس نہیں ہوگا۔ انہوں نے کہا کہ رمضان المبارک میں کوئی چینل اذان نشر نہیں کرتا۔ انہوں نے کہا کہ اذان سے بڑی بریکنگ نیوز کیا ہوسکتی ہے؟ انہوں نے کہا کہ اب ہر چینل پر پانچ وقت کی اذان نشر کرنا لازم ہوگا۔ انہوں نے صاف کہا کہ ہمارے چینلز پر جو کچھ چل رہا ہے اگر یہی سب کچھ ہونا ہے تو پھر پاکستان کے ساتھ لگا ہوا اسلامی جمہوریہ ہٹادیں۔ انہوں نے کہا کہ کسی کو اسلام کا تمسخر اڑانے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔ انہوں نے کہا کہ اداروں کے خلاف بات سنسر ہوسکتی ہے تو اسلام کے خلاف بات سنسر کیوں نہیں ہوسکتی! انہوں نے کہا کہ ٹیلی ویژن اینکرز باز نہ آئے تو ان پر تاحیات پابندی لگادیں گے۔ انہوں نے حکم دیا کہ اسلامی موضوعات پر پی ایچ ڈی اسکالر سے کم کوئی بات نہیں کرے گا۔ انہوں نے کہا کہ کرکٹ اور ہاکی کے لیے باہر سے ماہرین بلائے جاسکتے ہیں تو اسلام کے لیے کیوں نہیں بلائے جاسکتے! انہوں نے حکم دیا کہ اذان سے پانچ منٹ پہلے اشتہارات نہیں چلیں گے بلکہ درود شریف یا قصیدہ بردہ شریف نشر ہوگا۔ انہوں نے اس سلسلے میں نگرانی کے لیے وزارتِ داخلہ اور پیمرا کو حکم جاری کیا۔
جسٹس شوکت صدیقی کے مذکورہ بالا ریمارکس کو دیکھا جائے تو جسٹس صاحب شعوری طور پر نہ سہی، لاشعوری طور پر سہی، تین باتیں کہہ رہے ہیں۔ ایک یہ کہ رمضان ٹرانسمیشن اور مارننگ شوز میں معنی کا فقدان ہے اور تاثر کی فراوانی ہے۔ دوسری بات یہ کہ ان چیزوں کا کوئی باطن نہیں ہے، ان کا صرف ظاہر ہی ظاہر ہے۔ تیسری بات یہ کہ Medium ہی Message بن گیا ہے۔ ظاہر ہے کہ ان تمام چیزوں کا جدید مغربی تہذیب سے گہرا تعلق ہے۔ مگر جدید مغربی تہذیب کا ایک اور مسئلہ ہے، اور وہ یہ کہ یہ تہذیب اس حد تک دولت مرکز ہے کہ اس کے دائرے میں کار، برگر اور فلم ہی نہیں، مذہب بھی ایک Product ہے… قابلِ فروخت پروڈکٹ۔ مغرب میں مذہب اور خدا کو اذکارِ رفتہ ہوئے مدتیں ہوگئی ہیں، لیکن اگر آج بھی مغرب میں مذہب اور خدا کے ساتھ مالی فائدہ یا منافع وابستہ ہوجائے تو مغرب میں مذہب اور خدا کے موضوعات پر دھڑادھڑ کتابیں بھی شائع ہونے لگیں گی، ڈرامے اور فلمیں بھی بننے لگیں گی۔ پاکستان کے ٹیلی ویژن چینلز سرمایہ دارانہ تہذیب کا ایک مظہر ہیں، چناں چہ انہوں نے رمضان المبارک جیسے مقدس مہینے پر بھی رمضان برائے فروخت کا بورڈ لگاکر اسے بیچنا شروع کیا ہوا ہے۔ یہ مذہب کے نام پر مذہب دشمنی کی ایک بہترین صورت ہے۔ کہنے کو پاکستانی چینلز رمضان ٹرانسمیشن کے نام پر مذہب کی خدمت کررہے ہیں، مگر اسلام کا اصول رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے بیان فرما دیا ہے۔ آپؐ نے فرمایا ہے کہ عمل کا دار و مدار نیت پر ہے۔ نیت ٹھیک ہوگی تو عمل بھی ٹھیک ہوگا۔ نیت ٹھیک نہ ہوگی تو عمل بھی خراب ہوگا، خواہ اس عمل کی صورت کتنی ہی حسین کیوں نہ محسوس ہو۔ اس تناظر میں دیکھا جائے تو پاکستان کے ٹیلی ویژن چینلز بظاہر رمضان سے متعلق پروگراموں کے ذریعے مذہب، مذہب کرتے نظر آتے ہیں مگر دراصل وہ اس عمل کے ذریعے صرف پیسہ کمانا چاہتے ہیں۔ اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ جو ذہن مذہب کو بھی ایک قابلِ فروخت شے یا Marketable Product میں ڈھال سکتا ہے وہ کیا نہیں کرسکتا؟ ہماری روایت کہتی ہے کہ زندگی بندگی کے لیے ہے، اور بندگی کے بغیر زندگی شرمندگی ہے، مگر ہمارے ذرائع ابلاغ زندگی کو شرمندگی میں اور شرمندگی کو زندگی میں ڈھال رہے ہیں۔ اس کی ایک صورت یہ ہے کہ ہمارے چینلز رمضان ٹرانسمیشن کا بوجھ اداکاروں، گلوکاروں اور کھلاڑیوں پر ڈالتے رہے ہیں۔ بعض لوگ اسے ’’اتفاقی امر‘‘ سمجھتے ہیں، لیکن ایسا نہیں ہے۔ یہ معاشرے میں مذہبی اتھارٹی پر حملے کی ایک صورت ہے، اور اس کا مقصد مذہب کے حوالے سے علما کی مرکزیت کے خاتمے کی راہ ہموار کرنا ہے۔ یہ امر اس اعتبار سے بھی حیران کن ہے کہ ہر شعبے کو اس کے ماہرین کے حوالے کیا جاتا ہے۔ کرکٹ پر کرکٹرز تبصرہ کرتے ہیں، ہاکی پر ہاکی کے ماہرین رائے دیتے ہیں، معیشت پر معاشیات دان گفتگو فرماتے ہیں، ادب پر شاعر اور ادیب کلام کرتے ہیں۔ مگر پاکستان میں ٹیلی ویژن چینلز کے مالکان نے مذہب کا مرتبہ اتنا گرا دیا ہے کہ اس پر گلوکار اور اداکار بھی ماہر کی حیثیت سے گفتگو کرتے نظر آتے ہیں۔ جسٹس شوکت صدیقی نے اپنے ریمارکس میں اس مسئلے پر بھی توجہ مرکوز کی ہے۔ مزے کی بات یہ ہے کہ جس صورتِ حال پر جسٹس شوکت صدیقی روحانی، ذہنی اور نفسیاتی تکلیف سے چیخے ہیں، اس صورتِ حال پر ہماری ’’مذہبی اسٹیبلشمنٹ‘‘ کو کوئی اعتراض نہیں۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اسٹیبلشمنٹ، اسٹیبلشمنٹ ہوتی ہے، خواہ وہ سیاسی اسٹیبلشمنٹ ہو یا فوجی اسٹیبلشمنٹ، یا مذہبی اسٹیبلشمنٹ۔ اس تناظر میں دیکھا جائے تو جسٹس شوکت صدیقی نے پورے معاشرے کا فرضِ کفایہ ادا کیا ہے اور اس کا صلہ انہیں اللہ تعالیٰ ہی کے یہاں مل سکتا ہے۔ معاشرہ اس سلسلے میں کچھ اور کیا، جسٹس شوکت صدیقی کی تعریف تک کا حق ادا کرنے کے قابل نہیں۔ کہنے والے نے کہا ہے ؎
تجھ کو پرائی کیا پڑی اپنی نبیڑ تُو
بدقسمتی سے معاشرے میں اب مذہب بھی ’’پرائی چیز‘‘ بن چکا ہے۔ بالشتیوں جیسے لوگوں پر کوئی ایک فقرہ بھی اچھال دے تو وہ دیوقامت افراد کی طرح چیختے ہیں، مگر معاشرے میں عریانی و فحاشی کا سیلاب آجائے یا ختمِ نبوت کے تصور پر حملہ ہوجائے، یا شریف حکومت زنا بالرضا کی تجویز کو قابلِ غور قرار دے دے، ہر طرف سناٹے کا راج ہوتا ہے۔ اس لیے کہ یہ تمام امور معاذاللہ غیر، یعنی خدا سے متعلق ہیں۔ آخر موسیٰؑ کی قوم نے حضرت موسیٰؑ سے کہہ ہی دیا تھا کہ جہاد کرنا ہے تو تم کرو اور تمہارا خدا کرے، ہمیں جہاد سے کیا لینا؟ ویسے بھی سنا ہے کہ موسیٰؑ جس قوم سے ہمیں لڑانا چاہتے ہیں وہ بہت قوی ہے۔ تجزیہ کیا جائے تو ہمارے معاشرے کے بالائی طبقات مذہب پر ہونے والی یلغار کے حوالے سے کچھ ایسی ہی نفسیات کا مظاہرہ کررہے ہیں، وہ زبان سے تو کچھ نہیں کہہ رہے مگر اُن کا عمل ظاہر کررہا ہے کہ خدا کے دین پر حملے ہورہے ہیں تو اللہ جانے اور اللہ والے جانیں، ہم تو طاقت ور عناصر کا مقابلہ بہرحال نہیں کریں گے۔
یہ ایک سامنے کی حقیقت ہے کہ ہمارے ذرائع ابلاغ مذہب، اخلاق، تہذیب اور تاریخ کو پامال کرنے کے حوالے سے آزادی کی ہر حد پھلانگ گئے ہیں۔ اس سے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ وہ بہت آزاد ہیں، مگر ہمارے ذرائع ابلاغ کی آزادی ایک دھوکے کے سوا کچھ نہیں۔ اس سلسلے میں چند واقعات کا جائزہ مفید ہوگا۔
یہ زیادہ پرانی بات نہیں کہ پی ایس پی کے قائد مصطفی کمال پر کسی نے ایجنسیوں کا آلہ کار ہونے کا الزام لگایا تو انہوں نے کہا کہ کون سا اینکر ایسا ہے جو ایجنسیوں کے ایجنڈے پر عمل نہیں کرتا؟ مصطفی کمال کے الفاظ مختلف تھے مگر ان الفاظ کا مفہوم یہی تھا۔ مصطفی کمال کے اس الزام پر 117 چینلز کے کسی ایک اینکر کو تو کہنا چاہیے تھا کہ میں آزاد ہوں، میں کسی سے ہدایت نہیں لیتا۔ مگر کھرب پتیوں اور ارب پتیوں کے چینلز کے کروڑپتی اور لکھ پتی اینکرز میں سے کوئی ایک اینکر بھی ایسا فراہم نہ ہوسکا جسے اپنی آزادی کا دعویٰ ہو۔ جیو اور جنگ نے جنرل باجوہ، فوج اور عمران خان کے حوالے سے اپنی پالیسی اور مواد میں جو ’’اصلاحات‘‘ فرمائی ہیں وہ سامنے کی چیز ہیں اور ان سے بھی یہی معلوم ہوا ہے کہ ذرائع ابلاغ کی آزادی کی باتیں دھوکے کے سوا کچھ نہیں۔ خیر ایجنسیاں، جنرل باجوہ اور فوج تو بڑی چیز ہیں، حال ہی میں سپریم کورٹ نے ملک ریاض کے بحریہ ٹائون کے بارے میں ایک ایسا فیصلہ دیا ہے جس نے ملک ریاض اور بحریہ ٹائون کی ساکھ کی دھجیاں اڑا دیں، اور ثابت ہوا کہ ملک ریاض اور اُن کے بحریہ ٹائون کے معاملات میں خرابی ہی خرابی ہے۔ بحریہ ٹائون کے حوالے سے سپریم کورٹ کا حکم یا فیصلہ ایک ’’خبر‘‘ تھا اور خبر ہر جگہ شائع ہوتی ہے، مگر بحریہ ٹائون سے متعلق خبر صرف روزنامہ جسارت، روزنامہ ڈان اور جرأت میں شائع ہوئی۔ جنگ، دی نیوز، دنیا اور ایکسپریس میں یہ خبر شائع ہی نہیں ہوئی۔ اس خبر پر صرف جسارت اور ڈان نے اداریہ لکھا۔ کسی اور اخبار کو اس سلسلے میں اداریہ لکھنے کی بھی توفیق نہیں ہوئی۔ کیا یہی آزادیٔ اظہار ہے؟ کیا یہی صحافت ہے؟ اس صورتِ حال سے معلوم ہوتا ہے کہ طاقت ڈنڈے کی ہو یا سرمائے کی، ہمارے ذرائع ابلاغ دونوں سے ڈرتے ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ فوج اور ریاست کے کچھ وارث ہیں، اور بحریہ ٹائون کا بھی ایک مالک ہے۔ البتہ اسلامی جمہوریہ پاکستان میں چونکہ اسلام، اسلامی تہذیب، اسلامی تاریخ اور اخلاقیات کا کوئی وارث اور مالک نہیں، اس لیے ہمارے ذرائع ابلاغ ان تمام چیزوں کو روندتے رہتے ہیں۔
غور کیا جائے تو اسلام آباد ہائی کورٹ کے جسٹس شوکت صدیقی نے ٹیلی ویژن چینلز کے مواد کے حوالے سے جو کچھ کہا اُس کی نوعیت ’’بن بادل برسات‘‘ کی سی ہے۔ اس لیے کہ ملک کے تمام ریاستی اداروں نے طے کیا ہوا ہے کہ وہ اسلامی جمہوریہ پاکستان کو حقیقی اسلامی جمہوریہ بنانے کے لیے کچھ بھی نہیں کریں گے۔ اور ریاستی ادارے ایسا کیوں کریں گے جب اسلام کے لیے برپا ہونے والے ہی عریانی و فحاشی کے سیلاب اور مذہب کے Product بنائے جانے پر ٹک ٹک دیدم، دم نہ کشیدم کی تصویر بنے ہوئے ہیں! ظاہر ہے اللہ تعالیٰ اپنے دین کے دفاع اور بقا کے لیے کسی کا محتاج تو ہے نہیں۔ چناں چہ اس نے جسٹس شوکت صدیقی سے ٹیلی ویژن چینلز پر حملہ کرادیا۔ ابھی اس حملے کی گونج فضا میں موجود تھی کہ کراچی میں ٹیلی ویژن چینلز پر بھارتی مواد کی پیشکش سے متعلق اداکاروں کی درخواست کی سماعت کرتے ہوئے چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس ثاقب نثار نے عریانی و فحاشی کے سیلاب پر بھرپور وار کیا ہے۔ چیف جسٹس نے 12 مئی 2018ء کے روز اپنے ریمارکس میں اداکار عدنان صدیقی اور فیصل صدیقی سے سوال کیا کہ آپ اپنے مارننگ شوز میں خواتین کو کیسا لباس پہناتے ہیں؟ چیف جسٹس نے کہا کہ آپ قوم کو کس کلچر کا عادی بنارہے ہیں؟ انہوں نے کہا کہ میں یہ نہیں کہتا کہ خواتین برقع اوڑھ کر آئیں، مگر بے حیائی بھی برداشت نہیں کی جائے گی۔ انہوں نے کہا کہ برقع نہیں ہوگا تو ٹیلی ویژن پر خواتین کو اخلاق باختہ لباس پہننے کی بھی اجازت نہیں دی جائے گی۔ انہوں نے کہا کہ کیا ہماری بہنیں اور بیٹیاں یہ لباس پہن سکتی ہیں؟ کیا آپ کے ملک کا کلچر ختم ہوگیا ہے؟ آپ ملک کے کلچر کو فروغ کیوں نہیں دیتے؟
چیف جسٹس نے کہا کہ ٹیلی ویژن چینلز پر ایسے ایوارڈ شوز دکھائے جارہے ہیں جو مسلم معاشرے کے لیے ناقابلِ قبول ہیں۔ چیف جسٹس نے کہا کہ ہم سب ’’لبرل‘‘ ہیں مگر غیر مناسب لباس میں ماڈلنگ کی اجازت نہیں دی جاسکتی۔
اسلامی جمہوریہ پاکستان میں نام لے کر بات کرنے کا رواج نہیں، مگر چیف جسٹس نے اس رواج کو توڑا اور نام لے کر بات کہی۔ انہوں نے کہا کہ سب سے زیادہ غیر اخلاقی پروگرام ’’ہم ٹی وی‘‘ پر دکھائے جارہے ہیں۔ ثمینہ آپا نے کہا کہ یہ سب بھارت کرا رہا ہے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ آپ نے میرے منہ کی بات چھین لی۔ چیف جسٹس نے کہا کہ یہ طے کرنا ہوگا کہ ہمارے ٹی وی چینلز پر کتنا غیر ملکی مواد نشر ہوسکتا ہے؟ انہوں نے اس سلسلے میں فنکاروں سے درخواست طلب اور وصول کی اور اس کی سماعت جلد کرنے کی یقین دہانی کرائی۔
تجزیہ کیا جائے تو چیف جسٹس آف پاکستان کے یہ تمام ریمارکس بھی بن بادل برسات کی حیثیت رکھتے ہیں، اس لیے کہ چیف جسٹس صاحب کے اپنے اعتراف کے مطابق وہ ’’لبرل‘‘ ہیں مگر ’’لبرل‘‘ چیف جسٹس کی بھی ایک ’’اخلاقیات‘‘ ہے، انہیں معلوم ہے کہ مسلم معاشرے کا کلچر کیا ہے اور کیا نہیں ہوسکتا؟ خیر چیف جسٹس آف پاکستان تو پڑھے لکھے لبرل ہیں۔ بھارتی اداکارہ کنگنا رناوت نہ پڑھی لکھی ہے اور نہ اس کی کوئی اخلاقیات ہی ہے، اس لیے کہ وہ ایک انٹرویو میں کہہ چکی ہے کہ اگر اسے عام فلموں میں کام نہ ملتا تو وہ فحش فلموں میں کام کا ارادہ کرچکی تھی، مگر اس کنگنا رناوت کی بھی ایک اخلاقیات ہے، چناں چہ اس نے کہا کہ وہ یہ برداشت نہیں کرسکتی کہ کل اُس کی بیٹی بھارتی فلموں میں موجود آئٹم سانگ دیکھے۔ اس تناظر میں دیکھا جائے تو کنگنا رناوت سے لے کر چیف جسٹس آف پاکستان تک ہر جانب عریانی و فحاشی کے کلچر پر ہاہا کار مچی ہوئی ہے۔ البتہ مذہبی طبقات، علمائے کرام، مفسرین، محدثین، واعظین، مبلغین اور اسلامی مقررین لمبی تان کر سورہے ہیں۔