اصول ہے ’’بڑا سوچو، بڑا بن جائو‘‘۔ جماعت اسلامی نے کراچی میں لوڈشیڈنگ کے مسئلے پر بڑی حد تک کامیاب ہڑتال کراکے ثابت کیا ہے کہ وہ ایک بار پھر کراچی میں بڑا سوچنے کی پوزیشن میں آگئی ہے۔ جماعت اسلامی جیسی نظریاتی جماعت بڑا سوچے گی تو بھلا اسے کراچی میں بڑا بننے سے کون روک سکے گا؟ مگر اس کے لیے ضروری ہے کہ بڑی سوچ بڑا عمل بھی پیدا کرے۔
یہ حقیقت راز نہیں کہ کراچی میں الطاف حسین اور ایم کیو ایم کا ظہور اسٹیبلشمنٹ کی سیاسی، نظریاتی اور سماجی انجینئرنگ کا شاخسانہ تھا۔ اس انجینئرنگ نے الطاف حسین کو سیاسی رہنما اور ایم کیو ایم کو سیاسی جماعت کے بجائے سیاسی ’’بلیک ہول‘‘ میں تبدیل کردیا۔ یہ بلیک ہول مہاجروں کا نظریاتی تشخص کھا گیا، ان کی تہذیب کو ہڑپ کر گیا، ان کی علمی لیاقت اور سیاسی شعور کو نگل گیا۔ یہاں تک کہ اس بلیک ہول نے الطاف حسین اور ایم کیو ایم کے متبادل کے خیال کو بھی فنا کردیا۔ اس صورتِ حال نے کراچی میں تمام سیاسی جماعتوں کے لیے بقا کا مسئلہ پیدا کردیا، اور ہم نے اپنی آنکھوں کے سامنے جمعیت علمائے پاکستان کو کمزور پڑتے اور پیپلز پارٹی کو پس منظر میں جاتے ہوئے دیکھا۔ اس منظرنامے میں جماعت اسلامی اور اسلامی جمعیت طلبہ نے جس استقامت کا مظاہرہ کیا اس کی مثال تلاش کرنا دشوار ہے۔ حالات کا جبر افراد اور تنظیموں کو نظریات بدلنے یا کم از کم خاموش ہوجانے پر مجبور کردیتا ہے۔ مگر جماعت اسلامی اور اسلامی جمعیت طلبہ نے ایم کیو ایم کے جبر کے 30 برسوں میں نہ نظریہ بدلا، نہ میدان چھوڑا اور نہ خاموشی اختیار کی۔ ہمیں اچھی طرح یاد ہے کہ سید منور حسن سے گزشتہ 30 برسوں میں جب بھی ایم کیو ایم کے بارے میں رائے معلوم کی گئی تو انہوں نے صرف ایک ہی بات کہی، اور وہ یہ کہ ایم کیو ایم سیاسی جماعت نہیں ہے، ایم کیو ایم دہشت گرد اور فاشسٹ جماعت ہے، اس نے شہر کو بوری بند لاشوں اور بھتہ خوری کا کلچر دیا ہے۔ سید منورحسن اگر صرف سیاست دان ہوتے تو وہ ہرگز اتنے سخت خیالات کا اظہار نہ کرتے، اس لیے کہ جو لوگ صرف سیاست دان ہوتے ہیں اُن کے لیے سیاست دکانداری کی طرح ہوتی ہے، اور دکانداری میں اصل چیز فائدہ یا نقصان ہوتا ہے، مگر نظریاتی سیاست میں نظریات سے زیادہ اہم کچھ نہیں ہوتا۔ اگر ایک نظریاتی انسان باطل کو باطل نہ کہے تو اُس کا ایمان خطرے میں پڑجائے گا، اور ایمان اتنی بڑی چیز ہے کہ اس کے تحفظ کے لیے جان بھی دینی پڑ جائے تو اس کی پروا نہیں کرنی چاہیے۔ سید منورحسن سمیت جماعت اسلامی کے اکثر رہنمائوں کو الطاف حسین اور ایم کیو ایم کے حوالے سے کبھی جان کے خوف میں مبتلا نہ پایا گیا۔ ایک دن ایسا بھی آیا کہ سید منورحسن کو بتایا گیا کہ آپ پر حملے کا منصوبہ ہے، گھر سے نکلنا ٹھیک نہیں، مگر انہوں نے یقینی خطرے کی رتی برابر پروا نہ کی۔ انہوں نے اپنے ڈرائیور سے کہا تو صرف یہ کہ تم میرے ساتھ جانے یا نہ جانے میں آزاد ہو۔ مگر سید منورحسن کے ڈرائیور پر جماعت اسلامی کے نظریاتی شعور اور خود سید منورحسن کا کچھ نہ کچھ تو اثر ہونا ہی تھا، چنانچہ اس نے سید منورحسن کا ساتھ چھوڑنے سے انکار کردیا۔ کراچی میں نعمت اللہ خان کی گاڑی پر ایک جگہ فائرنگ ہوئی، ان کے ڈرائیور نے کہا کہ واپسی میں کسی اور راستے سے جائیں گے۔ مگر نعمت صاحب نے کہا کہ راستہ بدلا نہیں جا سکتا۔ تقریب سے واپسی پر وہ اُسی راستے سے واپس لوٹے۔ انہوں نے گولڈلیف کے چار سگریٹ خریدوائے۔ دو خود رکھے، دو ڈرائیور کو دیے اور جس مقام پر ان کی گاڑی کو نشانہ بنایا گیا تھا وہاں گاڑی رکوائی، گاڑی سے باہر نکلے اور نعمت صاحب اور ان کے ڈرائیور نے دو دو سگریٹ پیے۔ اس کے بعد گاڑی میں بیٹھے اور گھر کی راہ لی۔ یہ کوئی ’’سیاسی تماشا‘‘ نہیں تھا۔ یہ نظریے کے زیراثر بسر ہونے والی زندگی کی جھلکیاں تھیں۔ ایم کیو ایم کا بلیک ہول صرف نائن زیرو میں نہیں تھا، وہ ہر کالج، ہر یونیورسٹی، ہر محلے اور ہر گلی میں موجود تھا، لیکن اسلامی جمعیت طلبہ کے نوجوانوں نے اس عفریت کو کالجوں اور یونیورسٹیوں میں بھی جھیل کر دکھایا اور گلی کوچوں میں بھی۔ انہوں نے نہ تعلیمی ادارے چھوڑے، نہ کراچی کے گلی کوچوں کو ترک کیا، اس حال میں جب خدا کے سہارے کے سوا کوئی سہارا انہیں دستیاب نہ تھا۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ اسلامی جمعیت طلبہ کے ایک درجن سے زیادہ کارکنان شہید ہوئے، مگر یقینی موت کا خوف بھی جمعیت کو اپنی نظریاتی اور سیاسی جدوجہد سے نہ روک سکا۔ کہنا آسان ہے، کرنا دشوار ہے۔ ناصرکاظمی کا شعر ہے:
کہتے ہیں غزل قافیہ پیمائی ہے ناصرؔ
یہ قافیہ پیمائی کوئی کر کے تو دیکھے
جماعت اسلامی اور اسلامی جمعیت طلبہ کو اپنی تاریخ کے طویل سفر میں کہاں مشکلات کا سامنا نہیں رہا! مگر جماعت اسلامی اور جمعیت نے جیسی مشکل کراچی میں جھیلی اس کا اندازہ بھی دشوار ہے۔ لیکن جماعت اسلامی اور جمعیت نے یہ مشکل کیسے جھیلی؟ اس سوال کا ایک ہی جواب ہے: اپنی نظریاتی تعلیم و تربیت کے ذریعے، اپنے نظریاتی شعور کی مدد سے، لسانی تعصبات سے بلند ہونے کی قوت کے ذریعے، الطاف اور ایم کیو ایم کے مہاجر فاشزم کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر دیکھنے کی روحانی، تہذیبی، اخلاقی اور علمی اہلیت کے ذریعے۔ یہ جماعت اسلامی اور اسلامی جمعیت طلبہ کا ایسا ماضی ہے جس پر اگر شعور ہو تو پوری قوم کو فخر ہوسکتا ہے۔ لیکن یہاں کہنے کی اصل بات یہ ہے کہ اپنے نظریاتی شعور اور نظریاتی کردار کی برکت سے جماعت اسلامی کراچی میں 30 سال کے جبر کو جذب کرنے میں کامیاب رہی۔ اس داخلی اہلیت کی وجہ سے جماعت اسلامی آج بھی ایک زندہ اور امکانات کی حامل جماعت ہے، چنانچہ وہ کراچی کے حال اور مستقبل پر اثرانداز ہونے کی صلاحیت رکھتی ہے۔
الطاف حسین اور ایم کیو ایم کی سیاست کی ہولناکی صرف قتل و غارت گری اور بھتہ خوری سے عبارت نہیں تھی، بلکہ الطاف حسین نے ایم کیو ایم میں اپنی مرکزیت سے ایم کیو ایم کو ایک Cult بنا دیا تھا۔ Cult سے پیدا ہونے والی ذہنیت میں ’’متبادل‘‘ کا کوئی تصور نہیں ہوتا۔ چنانچہ الطاف حسین اور ایم کیو ایم کی سیاست نے کراچی کے لاکھوں لوگوں کو اس قابل نہیں چھوڑا تھا کہ وہ الطاف حسین اور ایم کیو ایم کے سوا کچھ سوچ سکیں۔ چنانچہ کراچی گزشتہ 30 سال سے کولہو کا بیل بنا ہوا تھا اور ایک ہی دائرے میں گردش کررہا تھا۔ اتفاق سے الطاف حسین نے جرنیلوں کو گالیاں دینی شروع کیں تو کراچی میں Minus Altaf کا سیاسی تجربہ سامنے آگیا۔ توقع کے عین مطابق اس تجربے نے کراچی کے لوگوں میں موجود Cult Mentality کو شدید نقصان پہنچایا اور کولہو کے بیلوں میں ایم کیو ایم کے سوا کسی اور حقیقت کو دیکھنے کی رغبت پیدا ہوئی۔ اسٹیبلشمنٹ نے دس سال قبل کراچی میں ’مائنس الطاف‘کا تجربہ کرلیا ہوتا تو آج کراچی بہت پُرامن شہر ہوتا۔ لیکن اسٹیبلشمنٹ نے جو کیا ہے ’’تنگ آمد بجنگ آمد‘‘ کے مصداق کیا ہے، ورنہ کولہو کے بیل کی گردش کا تماشا مزید جاری رہ سکتا تھا۔ بہرحال الطاف حسین کے ’مائنس‘ ہونے سے کراچی میں نئے سیاسی امکانات پیدا ہوگئے ہیں۔ مشکل یہ ہے کہ اسٹیبلشمنٹ نے الطاف حسین کو چھوڑا ہے، ایم کیو ایم کو نہیں۔ لیکن الطاف حسین کے بغیر ایم کیو ایم پہلے والی ایم کیو ایم نہیں رہی ہے۔
اس صورت میں امیر جماعت اسلامی کراچی حافظ نعیم الرحمن نے شہر کو درپیش بڑے مسائل کی نشاندہی اور ان کے حل کے لیے جدوجہد شروع کی۔ انہوں نے شناختی کارڈ، کے الیکٹرک کی لوٹ مار اور فراہمیٔ آب کی صورتِ حال پر توجہ مرکوز کی۔ ان کی جدوجہد کا دائرہ زیادہ وسیع نہیں تھا، مگر چونکہ انہوں نے مذکورہ مسائل پر تسلسل کے ساتھ توجہ مرکوز کی اس لیے کراچی کی بدلی ہوئی سیاسی فضا میں ان کی جدوجہد کا نوٹس لیا گیا اور شہر میں یہ بات موضوع گفتگو بنتی دکھائی دی کہ جماعت اسلامی واحد جماعت ہے جو اہلِ کراچی کو درپیش سنگین مسائل کے حل کے لیے کچھ کررہی ہے۔ کوئی بات جب عوام میں موضوعِ گفتگو بنتی ہے تو اس کا نتیجہ ضرور سامنے آتا ہے۔ چنانچہ جماعت اسلامی کی جدوجہد کا نتیجہ یہ نکلا کہ پی ایس پی، ایم کیو ایم بہادر آباد گروپ اور پیپلزپارٹی بھی ’کے۔ الیکٹرک‘ کے مظالم اور لوڈشیڈنگ پر بیانات دیتے اور مظاہروں کا اہتمام کرتے نظر آئے۔ جماعت اسلامی نے لوڈشیڈنگ کے حوالے سے وزیراعلیٰ ہائوس پر دھرنے کا اعلان کیا تو سندھ کے وزیراعلیٰ سید مراد علی شاہ کو ادارۂ نورِحق کا دورہ کرنا پڑا اور یہ کہنا پڑا کہ سندھ حکومت لوڈشیڈنگ کے حوالے سے جماعت اسلامی کی ہڑتال کی اخلاقی حمایت کرے گی۔ جماعت اسلامی کراچی کے مسائل کے حوالے سے گزشتہ ایک ڈیڑھ سال سے جو جدوجہد کررہی تھی وہ اپنی جگہ اچھی تھی، مگر اس کا دائرہ یا Scale محدود تھا، تاہم لوڈشیڈنگ کے حوالے سے ہڑتال کے اعلان نے جماعت اسلامی کی جدوجہد کے دائرے کو ’’کراچی گیر‘‘ کردیا۔ اس وقت جماعت اسلامی کی سیاسی جدوجہد کی اصل ضرورت یہی ہے کہ وہ جو کچھ بھی کرے اُس کا اثر علاقوں تک محدود نہ رہے بلکہ پورا شہر جماعت اسلامی کی موجودگی، جدوجہد، تحرّک اور مسائل کے حل کے سلسلے میں اس کی کوششوں کو محسوس کرے۔ بلاشبہ جماعت اسلامی کی ہڑتال ’’شاندار‘‘ نہیں تھی۔ وہ کہیں مکمل طور پر کامیاب رہی، کہیں اسے جزوی کامیابی ملی، اور کہیں وہ جزوی کامیابی سے نچلی سطح پر محسوس ہوئی، مگر ہڑتال کا ’’تاثر‘‘ پورے شہر پر مرتب ہوا ہے، یہاں تک کہ وہ ذرائع ابلاغ جو شعوری طور پر جماعت اسلامی کی سرگرمیوں کو نظرانداز کرتے ہیں اُن میں بھی ہڑتال کی گونج موجود تھی۔ اور جماعت اسلامی کی حال اور مستقبل کی جدوجہد کے حوالے سے یہ صورتِ حال بہت حوصلہ افزا ہے۔ ایک ایسا شہر جو پچیس تیس سال سے جماعت اسلامی کے لیے اندھا، بہرہ اور گونگا بنا ہوا تھا اُس کی سماعت جماعت اسلامی کے لیے بحال ہوئی ہے، اور جماعت اسلامی کی جدوجہد سے اسے مزید بہتر بنایا جاسکتا ہے۔ وہ شہر جسے پچیس تیس سال سے جماعت اسلامی کہیں نظر نہ آتی تھی اُس کی نگاہ کی کمزوری کچھ کم ہوئی ہے اور اُسے جماعت اسلامی نظرآنا شروع ہوئی ہے۔ بلاشبہ ابھی اُسے جماعت اسلامی نظر کے چشمے کی مدد سے نظر آرہی ہے، مگر جماعت اسلامی کی جدوجہد یہاں بھی فرق پیدا کرسکتی ہے۔ جو شہر گزشتہ پچیس تیس سال سے جماعت اسلامی کے لیے گونگا بنا ہوا تھا اُسے جماعت اسلامی، یہاں تک کہ امیر حلقہ حافظ نعیم الرحمن کا نام لیتے ہوئے دیکھا جا رہا ہے۔ اس دائرے میں بھی جماعت اسلامی کی جدوجہد سے حیرت انگیز فرق واقع ہوسکتا ہے۔ لیکن ان باتوں کو صرف ’’تبدیلی‘‘ سمجھنا چاہیے، انقلاب نہیں۔ البتہ ماضی کے تناظر میں یہ چھوٹی چھوٹی تبدیلیاں بھی اہم ہیں۔ یہ تبدیلیاں بتا رہی ہیں کہ صحیح سمت میں جدوجہد کی جائے تو جماعت اسلامی کراچی میں پھر مرکزیت حاصل کرسکتی ہے۔
کراچی ’’مسائلستان ہے‘‘، اس لیے یہاں سیاسی جدوجہد آسان بھی ہے اور دشوار بھی۔ آسان اس لیے کہ جس مسئلے پر چاہو پورے شہر کی توجہ مرکوز کرالو۔ دشوار اس لیے ہے کہ مسائل اتنے زیادہ ہیں کہ ان کے حوالے سے جدوجہد کے لیے بہت زیادہ انسانی وسائل بھی درکار ہیں اور مالی وسائل بھی۔ لیکن جماعت اسلامی صرف سیاسی جماعت نہیں ہے۔ وہ اپنی اصل میں ایک نظریاتی جماعت ہے، اور وہ نظریاتی شعورکو عام کیے بغیر نہ معاشرے کو نظریاتی بنا سکتی ہے اور نہ خود بہت دیر تک نظریاتی رہ سکتی ہے۔ چنانچہ جماعت اسلامی کراچی کو نظریاتی مسائل پر بھی توجہ مرکوزکرنی چاہیے۔ بلاشبہ ’کے۔ الیکٹرک‘ کی لوڈشیڈنگ بہت بڑا مسئلہ ہے، اس لیے کہ اس سے لاکھوں لوگوں کی زندگی متاثر ہورہی ہے۔ لیکن معاشرے میں مختلف حوالوں سے موجود ’’روحانی لوڈ شیڈنگ‘‘ بھی ایک بڑا مسئلہ ہے۔ ’’اخلاقی لوڈشیڈنگ‘‘ نے بھی تباہی مچائی ہوئی ہے۔ ’’نظریاتی لوڈشیڈنگ‘‘ بھی قیامت برپا کیے ہوئے ہے۔ ’’علمی لوڈ شیڈنگ‘‘ بھی عذاب بن چکی ہے، بلکہ اب تو ’’نظریاتی تناظر‘‘ بھی نایاب پرندہ بن چکا ہے۔ جماعت اسلامی کو ان مسائل پر بھی اپنی توجہ اور وسائل صرف کرنے چاہئیں۔ کراچی میں ان مسائل کے حوالے سے جدوجہد کے لیے فضا دوسرے علاقوں کی نسبت زیادہ سازگار ہے۔ ایسا کرنا اس لیے ضروری ہے کہ جماعت اسلامی پیدا ہی نظریاتی سیاست کے لیے ہوئی ہے۔ ایسا کرنا اس لیے بھی ضروری ہے کہ نظریے کا عمل دخل مختلف وجوہ سے زندگی میں کم ہوتا جارہا ہے۔ انسانوں کی عظیم اکثریت معاشی حیوان بنتی جا رہی ہے۔ ’’کیریئر ازم‘‘ عصرِ حاضر کا ایک بڑا ’’ازم‘‘ بن چکا ہے۔ جس طرح ہماری اسٹیبلشمنٹ نے معاشرے کو غیر سیاسی بنایا ہے یا Depoliticize کیا ہے اسی طرح اب معاشروں اور ریاستوں کو غیر نظریاتی یاNon Ideological بنایا جا رہا ہے۔ اس رجحان کے خلاف ایک بڑی فکری و عملی مزاحمت کی ضرورت ہے۔ کراچی کبھی پاکستان کا سب سے زیادہ نظریاتی شہر تھا اور اس کی کئی وجوہ میں سے ایک وجہ خود جماعت اسلامی بھی تھی۔ اللہ تعالیٰ نے کراچی میں جماعت اسلامی کی جدوجہد کے لیے امکانات پیدا کیے ہیں تو اسے نظریاتی اور عملی سیاست کے امتزاج کے نمونے کے ساتھ سامنے آنا چاہیے۔ بلاشبہ امت کا درد پورے ملک میں پایا جاتا ہے، مگر جماعت اسلامی جب بھی کراچی میں امت کے کسی بڑے مسئلے کے حوالے سے جلسہ جلوس کرتی ہے تو اُسے ملک کے دیگر حصوں کے مقابلے میں کراچی میں زیادہ پذیرائی ملتی ہے۔ یہ صورتِ حال شہر کے ’’نظریاتی امکانات‘‘ کی موجودگی کا پتا دیتی ہے۔ اب جبکہ کراچی میں جماعت اسلامی کے لیے فضا قدرے سازگار ہونا شروع ہوئی ہے تو شہر کے نظریاتی امکانات کو تلاش کرنا اور انہیں سطح پہ لانا اور ان کے حوالے سے فکری غذا مہیا کرنا بھی جماعت اسلامی کی جدو جہد کا حصہ ہونا چاہیے۔ جماعت اسلامی کی نظریاتی سیاست سے اس کی عملی سیاست کو فائدہ ہوگا، اور عملی سیاست سے نظریاتی سیاست اور نظریاتی جدوجہد کو تقویت ملے گی۔ کراچی ایک بار پھر نظریاتی شہر بن گیا تو اس کا اثر پورے پاکستان اور اس کی سیاست پر ضرور پڑے گا۔ جو ماضی میں ہوچکا ہے وہ مستقبل میں بھی ضرور ہوگا۔