خورشید ندیم جاوید احمد غامدی کے شاگرد رشید ہیں چناں چہ ان کی تحریروں کو اس طرح بھی پڑھا جاسکتا ہے کہ جاوید احمد غامدی کی فکر انسانوں کو کیا سکھاتی ہے اور کیا بتاتی ہے؟۔ یعنی خورشید ندیم کی تحریروں کا مطالعہ ایک ٹکٹ میں دو مزے مہیا کرتا ہے۔ ایک مزا خورشید ندیم کو پڑھنے کا۔ دوسرا مزا ان کے استاد مکرم کے ’’بلند خیالی‘‘ کے مطالعے کا۔ آئیے 12 مارچ 2018ء کے روزنامہ دنیا میں شائع ہونے والے خورشید ندیم کے کالم سے یہ دونوں مزے لوٹتے ہیں۔
خورشید ندیم صاحب کے کالم کا ’’کمال‘‘ یہ ہے کہ اس میں اتنی فکری لغزشیں ہوتی ہیں کہ ان کے ہر کالم پر پوری کتاب لکھی جاسکتی ہے۔ خورشید ندیم کے زیر بحث کالم کا معاملہ بھی یہی ہے۔ زیر بحث کالم میں خورشید ندیم کا بنیادی مفروضہ یہ ہے کہ نظریاتی سیاست کا دور گزر چکا ہے۔ انہوں نے لکھا ہے کہ اب دنیا میں کہیں نظریاتی سیاست نہیں ہورہی۔ یہاں تک بھی خیر تھی مگر غامدی صاحب کے شاگرد نے اس سے آگے بڑھ کر یہ بھی فرمایا ہے کہ اب نظریاتی سیاست کی بات کرنا ذہنی پسماندگی کی علامت ہے۔ یہ ایسے لوگوں کا مشغلہ ہے جو بقول خورشید ندیم کے 20 ویں صدی میں زندہ ہیں اور خیال کرتے ہیں کہ دنیا بھی ان کے ساتھ تھم گئی ہے۔ یہ لوگ اب بھی دنیا کو نظریاتی ریاست کا خواب دکھاتے ہیں اور ان سے بیعت لیتے ہیں۔ ممکن ہے ان میں سے کچھ مخلصین بھی ہوں لیکن خورشید ندیم کے الفاظ میں اخلاص کبھی ذہنی بلاغت کا متبادل نہیں ہوسکتا۔ لہٰذا اس مشق کا کوئی نتیجہ برآمد نہیں ہونے والا۔
آپ نے خورشید ندیم کا ’’غامدیانہ علمی جوش‘‘ ملاحظہ فرمایا۔ مزے کی بات یہ ہے کہ انہوں نے نظریات کی سیاست کو 20 ویں صدی کی ملکیت بنا کر پوری انسانی تاریخ کی توہین کر ڈالی ہے۔ ارتھ شاستر ریاست و سیاست کے تصور پر قدیم ترین کتاب سمجھی جاتی ہے۔ ایک تاریخی اندازے کے مطابق ارتھ شاستر سیدنا عیسیٰؑ کی پیدائش سے دو سو سال قبل لکھی گئی۔ ارتھ شاستر میں چانکیہ کا نظریہ ریاست و سیاست پوری آب و تاب کے ساتھ موجود ہے۔ چانکیہ کے بہت سے خیالات منفی ہیں مگر منفی خیال بھی ایک نظریے کو جنم دے سکتا ہے۔ جمہوریہ افلاطون کی مثالی ریاست کا خاکہ ہے۔ افلاطون کا زمانہ 380 قبل مسیح کا زمانہ ہے۔ یعنی افلاطون ڈھائی ہزار سال قبل نظریاتی سیاست کا پرچم بلند کیے ہوئے تھا۔ بلاشبہ افلاطون سیاست دان نہیں تھا فلسفی تھا مگر اس کی سیاست اس کے فلسفے سے الگ کوئی چیز نہیں تھی۔ پیغمبروں کی تاریخ میں اللہ تعالیٰ نے کئی پیغمبروں کو اقتدار عطا کیا۔ مثلاً سیدنا داؤدؑ حاکم ہوئے۔ سیدنا سلیمانؑ نے حکمرانی کی۔ رسول اکرمؐ نے ریاست مدینہ قائم کی۔ چوں کہ آپؐ نے ریاست قائم کی اور سیاست کی اس لیے رسول اکرمؐ کی ریاست اور سیاست رہتی دنیا تک کے لیے مسلمانوں کے لیے نمونہ ہے۔ چوں کہ آپؐ کی شریعت دائمی ہے اس لیے مسلمان کبھی رسول اکرمؐ کی سیاست اور ریاست کے اصولوں سے صرف نظر کر ہی نہیں سکتے۔ یعنی مسلمانوں کی تاریخ میں نظریہ کبھی مر ہی نہیں سکتا۔ بہت سے سیکولر اور لبرل خواتین و حضرات یہ جھوٹا پروپیگنڈا کرتے رہتے ہیں کہ دین اور سیاست کو 20 ویں صدی میں مولانا مودودی نے باہم آمیز کیا ورنہ گزری ہوئی مسلم صدیاں مذہب اور سیاست کی دوئی یا علیحدگی کی صدیاں تھیں۔ یہ ایک سفید جھوٹ سے بھی بڑی چیز ہے۔ اس سلسلے میں پہلی بات تو یہ ہے کہ جب ہمارے لیے رسول اکرمؐ کی سیرت طیبہؐ کی مثال موجود ہے تو پھر کسی مفکر اور مدبر کی ہمارے لیے کوئی حیثیت ہی نہیں۔ اس سلسلے کی دوسری بات یہ ہے کہ الماوری نے 11 ویں صدی میں اور ابن خلدون نے 14 ویں صدی میں اپنے مقدمے کے ذریعے ریاست کو دین کے تابع کرنے کا تصور پیش کیا ہے۔ اس اعتبار سے سیاست 11 ویں اور 14 ویں صدی میں بھی نظریاتی تھی۔ مغرب میں سر تھامس مور نے Utopia یا خیالی ریاست کا تصور پیش کیا۔ اس تصور کی پشت پر بھی ایک نظریہ حیات موجود تھا۔ 16 ویں صدی میں میکیا ولی نے ’’دی پرنس‘‘ تحریر کی۔ میکیاولی کے خیالات کو ’’شیطانی‘‘ قرار دیا گیا ہے اس لیے کہ وہ طاقت پرست تھا مگر میکیاولی کی سیاست بھی اس اعتبار سے نظریاتی تھی کہ میکیاولی کا ایک تصور ریاست تھا۔ ایک تصور انسان تھا، ایک تصور حیات تھا۔ اس اعتبار سے دیکھا جائے تو پوری انسانی تاریخ پر نظریاتی سیاست چھائی ہوئی نظر آتی ہے۔ اس لیے کہ ہر صدی نظریات کی صدی تھی۔ خورشید ندیم کا خیال ہے کہ 21 ویں صدی میں جو شخص نظریاتی سیاست کی بات کرتا ہے وہ 20 ویں صدی میں پھنس کر رہ گیا ہے اور اس کا ارتقا رُک گیا ہے مگر انسانی تاریخ کا سرسری مطالعہ بتا رہا ہے کہ خورشید ندیم اور ان کے استاد مکرم کو تو ہر گزشتہ صدی نے اپنے دائرے سے باہر پھینکا ہوا ہے اور ان کے پاس تو قبل مسیح کی تاریخ کا ارتقا بھی نہیں ہے۔
خورشید ندیم کو اس بات کا زعم ہے کہ وہ خیر سے 21 ویں صدی میں ’’واک‘‘ کررہے ہیں اور 21 ویں صدی نظریات کی صدی نہیں ہے۔ اس بیان سے معلوم ہوتا ہے کہ خورشید ندیم ڈھنگ سے اخبار بھی نہیں پڑھتے۔ چین کے صدر شی جن پنگ نے چند روز پیش تر چین کی کمیونسٹ پارٹی کی کانگریس سے خطاب کرتے ہوئے صاف کہا ہے کہ صرف سوشلزم ہی چین کی بقا کی ضمانت مہیا کرسکتا ہے۔ چین دنیا کی دوسری بڑی معیشت ہے اور ایک اندازے کے مطابق سن 2040ء میں وہ عالمی معیشت کا 27 فی صد، امریکا 13 فی صد اور بھارت 7 فی صد مہیا کرے گا مگر چین کا صدر کہہ رہا ہے کہ اصل چیز نظریہ ہے۔ امریکا کا ممتاز دانش ور سموئل ہن ٹنگٹن تہذیبوں کے تصادم کا نظریہ پیش کرکے جا چکا ہے۔ جسے مغرب کا حکمران طبقہ سینے سے لگائے ہوئے ہے۔ بالخصوص اسلام اور مسلمانوں کے حوالے سے یہ ظاہر ہے کہ تہذیبوں کے تصادم کا نظریہ ایک ’’نظریاتی شے‘‘ ہے اور عالمی سیاست پر اس کا گہرا اثر ہے۔ سرمایہ دارانہ نظام کو بہت سے لوگ ’’نظریاتی چیز‘‘ نہیں سمجھتے مگر یہ ان کا دانش ورانہ چندھیا پن یا intellectual myopia ہے۔ ورنہ حقیقت یہ ہے کہ سرمایہ دارانہ نظام ایک ’’نظریاتی حقیقت‘‘ یا Ideological construct ہے۔ اس لیے اس کا ایک تصور زندگی ہے۔ اس کا ایک تصور انسان ہے۔ اس کا ایک تصور اقدار ہے۔ اس کی ایک ثقافت ہے۔ اس کی ایک سیاست ہے۔ چوں کہ سرمایہ دارانہ نظام 21 ویں صدی بھی زندہ رہے گا
اس لیے اس کی وجہ سے 21ویں صدی کی ریاست اور سیاست پر بھی سرمایہ دارانہ نظریات کا غلبہ رہے گا۔ اس مسئلے کا ایک علمی پہلو بھی ہے۔ مابعد جدیدیت یا Post modernism چوں کہ ’’نظریہ شکنی‘‘ کا اعلان کرتی نظر آتی ہے۔ اس لیے بعض لوگوں کا خیال یہ ہے کہ 21 ویں صدی بہرحال نظریات کی صدی نہیں ہوگی۔ اس سلسلے میں چند اہم باتیں عرض ہیں۔ پہلی بات یہ ہے کہ مابعد جدیدیت کو مغرب میں سامنے آئے ساٹھ ستر سال ہوچکے ہیں مگر خود مغرب کی اجتماعی زندگی پر اب تک اس کا کوئی اثر مرتب نہیں ہوا۔ مغرب کی سیاسی، سماجی، تہذیبی یہاں تک کہ فکری زندگی بھی ابھی تک جدیدیت ہی کے زیر اثر ہے۔ اگر خود مغرب میں مابعد جدیدیت یا Postmodernism کا یہ حال ہے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ دنیا کی دوسری قوموں تک اس کے اثرات پھیلنے میں کم از کم ایک صدی تو لگ ہی جائے گی۔ دوسری بات یہ ہے کہ ہکسلے نے کہیں کہا ہے کہ مسئلہ مابعد الطبیعات یا غیر مابعد الطبیعات کے درمیان انتخاب کا نہیں بلکہ مسئلہ اچھی مابعد اطبیعات اور بری مابعد الطبیعات کے درمیان انتخاب کا ہے۔
(جاری ہے)