آخری حصہ
ہکسلے کی اس بات کا مطلب یہ ہے کہ انسانی وجود اور انسانی ذہن کی ساخت ایسی ہے کہ وہ مابعد الطبیعات سے جان چھڑا ہی نہیں سکتا۔ چوں کہ وہ ایسا نہیں کرسکتا اس لیے وہ نظریات سے بھی جان نہیں چھڑا سکتا۔ اس کی مثال یہ ہے کہ کارل مارکس نے خدا اور مذہب کا انکار کیا مگر کارل مارکس کا جدلیاتی مادیت کا نظریہ مارکسزم کا ’’اصول توحید‘‘ تھا۔ کارل مارکس کو کمیونسٹوں نے وہی حیثیت دی جو اہل مذاہب پیغمبروں کو دیتے رہے ہیں اور کارل کی داس کیپیتال سوشلسٹوں کے لیے ’’الہامی کتاب‘‘ کا درجہ رکھتی تھی۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ باطل حق کا انکار کرنے کے باوجود ہمیشہ حق کی نقل کرتا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ’’حقیقی وجود‘‘ صرف حق کا ہے۔ باطل تو ایک دھوکا ہے، سایہ ہے۔ چناں چہ حق کی نقل کے بغیر باطل خود کو ظاہر یا Menifest نہیں کرسکتا۔ اس بات کا ایک مفہوم یہ ہے کہ نظریات کا انکار بجائے خود ایک نظریہ ہے۔ مطلب یہ کہ انسان نظریات سے بھاگ کر بھی نظریے ہی کی طرف جائے گا۔ یہ اس کی ’’پسند‘‘ نہیں اس کی ’’مجبوری ہے‘‘۔
اگر ایک لمحے کے لیے خورشید ندیم کی دلجوئی کی خاطر تسلیم بھی کرلیا جائے کہ 21 ویں صدی میں نظریات کی سیاست ختم ہوگئی ہے تو ایک مسلمان کی حیثیت سے ہمیں اس بات کا ماتم کرنا چاہیے اور اعلان کرنا چاہیے کہ ہم اپنے انفرادی اور اجتماعی وجود کی پوری طاقت صرف کرکے ’’نظریاتی سیاست‘‘ کو ایک بار پھر زندہ کریں گے۔ اس لیے کہ ہمارے مذہب، ہماری تہذیب اور ہماری تاریخ کے تناظر میں نظریات کی سیات کو زندہ کرنا رسول اکرمؐ اور خلفائے راشدین کی سیاست کو زندہ کرنا ہوگا۔ رسول اکرمؐ فرما چکے ہیں کہ جو میری کسی سنت کو زندہ کرے گا وہ بہت بڑے اجر کا مستحق ہوگا۔ دین کی بنیاد پر سیاست یا نظریاتی سیاست تو رسول اکرمؐ کی عظیم الشان سنت ہے۔ اس کے احیا کے اجر و ثواب کا تو اندازہ بھی نہیں کیا جاسکتا۔ مگر غامدی صاحب کے شاگرد خورشید ندیم اپنے کالم میں اس بات پر ’’بریک ڈانس‘‘ کرتے نظر آتے ہیں کہ 21 ویں صدی میں نظریاتی سیاست کے لیے کوئی جگہ نہیں ہے۔ اقبال کا مشہور زمانہ مصرع ہے
جدا ہو دیں سیاست سے تو رہ جاتی ہے چنگیزی
مولانا مودودیؒ نے ایک جگہ اقبال کے اس مصرعے کی تعریف کرتے ہوئے کہا ہے کہ یہ ایک مصرع کسی کتاب پر بھاری ہے۔ اقبال آج زندہ ہوتے اور خورشید ندیم کے سامنے یہ مصرع پڑھتے تو خورشید ندیم پوری ڈھٹائی کے ساتھ اقبال سے پوچھتے کہ کیا آپ کا ذہنی ارتقا رُک گیا ہے اور کیا آپ 20 ویں صدی میں اٹک کر رہ گئے ہیں؟۔ حالاں کہ اقبال کا یہ مصرع کسی ایک صدی کے لیے نہیں ہر صدی کے لیے ہے۔ اس کی وجہ خود اقبال نہیں اقبال کا دین ہے، ہر صدی کا دین ہے، خورشید ندیم نے کالم کے آغاز میں مولانا ابوالکلام آزاد کا یہ فقرہ وحی کی طرح نقل کیا ہے کہ سیاست کے سینے میں دل نہیں ہوتا۔ ارے بھئی یہ سانحہ رونما ہی اس لیے ہوا ہے کہ سیاست نے دین سے پیچھا چھڑالیا ہے۔ جب تک سیاست کا محور تصور دین تھا اس وقت سیاست کے سینے ہی میں نہیں سر میں بھی دل ہوتا تھا۔ اس تناظر میں ہمیں یاد رکھنا چاہیے کہ اسلامی معاشرے میں جو سیاست دان ’’نظریاتی سیاست‘‘ نہیں کرتا وہ سیاسی میدان یعنی Political Animal ہے خواہ اس کی ڈاڑھی پانچ فٹ لمبی کیوں نہ ہو۔ کتنی عجیب بات ہے کہ جاوید غامدی غزال�ئ دوراں بنے پھرتے ہیں مگر ان کے شاگرد خورشید ندیم کے فہم دین کا یہ عالم ہے کہ انہوں نے فرمایا ہے کہ اخلاص کبھی ذہنی بلاغت کا متبادل نہیں ہوسکتا۔ زندگی کی بنیادی حقیقت یہ ہے کہ کوئی بھی چیز کسی دوسری چیز کا متبادل نہیں ہوسکتی۔ مگر دین میں اخلاص کی اہمیت بنیادی ہے۔ رسول اکرمؐ نے فرمایا ہے کہ اعمال کا دارومدار نیتوں پر ہے۔ یعنی جس کی نیت جتنی صحیح اور جتنی خالص ہے اس کا عمل بھی اتنا ہی صحیح اور اتنا ہی خالص ہے۔ اس بات کو مثال سے سمجھیے۔ اگر ایک شخص نمود و نمائش کے لیے اللہ کی راہ میں ایک کروڑ روپے دے اور ایک شخص صرف اللہ کے لیے دس ہزار روپے کا عطیہ دے تو اس شخص کے دس ہزار روپے اللہ کی جناب میں ایک کروڑ روپے سے زیادہ قیمتی ہوں گے، خواہ ایک کروڑ دینے والا شخص غامدی صاحب یا خورشید ندیم جتنا ہی ’’بالغ‘‘ کیوں نہ ہو۔ جس چیز میں اخلاص ہوتا ہے اللہ تعالیٰ اس میں برکت پیدا کردیتا ہے اور جس عمل میں اخلاص نہ ہو اللہ تعالیٰ اس کا بیج مار دیتا ہے۔ خورشید ندیم اپنی آنکھوں سے مغرب کا چشمہ اُتار دیں تو انہیں بھی یہ باتیں سمجھ میں آجائیں گی۔