وطنِ عزیز میں اسٹیبلشمنٹ کا معاملہ غالب کے الفاظ میں یہ ہے:
ہاں وہ نہیں خدا پرست جاؤ وہ بے وفا سہی
جس کو ہو دین و دل عزیز اُس کی گلی میں جائے کیوں
لیکن اس کے باوجود پاکستان کی سیاسی قیادت، یہاں تک کہ صحافیوں اور دانشوروں کی فوجِ ظفر موج بھی اسٹیبلشمنٹ کی گود میں جاکر بیٹھنے سے باز نہیں آتی۔ اس کی تین وجوہ ہیں۔ اس کی بنیادی وجہ اسٹیبلشمنٹ کی ’’طاقت‘‘ ہے۔ اس وقت دنیا میں دو ہی چیزوں کے بت پوجے جارہے ہیں۔ ایک دولت اور دوسری طاقت۔ اتفاق سے اسٹیبلشمنٹ کے پاس طاقت بھی ہے اور مال بھی۔ چنانچہ اسٹیبلشمنٹ کی کشش بلکہ ’’جادو‘‘ سے بچنا آسان نہیں۔ اسٹیبلشمنٹ کی ’’کششِ ثقل‘‘ کا ایک سبب یہ ہے کہ حب الوطنی کی ساری اسناد اسٹیبلشمنٹ کے ہاتھ میں ہیں۔ چنانچہ وہ کسی کو حب الوطنی میں میٹرک کراتی ہے، کسی کو انٹر، کسی کو ماسٹر کی ڈگری عنایت کرتی ہے اور کسی کو حب الوطنی میں پی ایچ ڈی کے مقام تک پہنچا دیتی ہے۔ اسٹیبلشمنٹ کی قوت کا ایک سبب یہ ہے کہ ہمارے سیاسی رہنما، یہاں تک کہ صحافی حضرات بھی اقبال کے اس مشورے پر عمل کرنے کے لیے تیار نہیں۔ اقبال نے کہا ہے:
اپنی دنیا آپ پیدا کر اگر زندوں میں ہے
سرِ آدم ہے ضمیر کُن فکاں ہے زندگی
اپنی دنیا آپ پیدا کرنے کے لیے کئی چیزوں کی ضرورت ہوتی ہے، مثلاً اپنی دنیا آپ پیدا کرنے کے لیے تخلیقی صلاحیتوں اور مسلسل محنت کی ضرورت ہوتی ہے، لیکن اس سے بھی زیادہ اہم چیز خود تکریمی یا Self Respect ہے۔ اور ہمارے سیاست دانوں اور صحافیوں کی عظیم اکثریت کے پاس ان تینوں میں سے کچھ بھی نہیں ہوتا۔ ہمارے اکثر سیاست دانوں کا تصورِ ذات اتنا پست ہے کہ انہیں صرف سیاسی حیوان یا Political Animal ہی قرار دیا جاسکتا ہے اور ایک سیاسی حیوان مشکل ہی سے اپنی عزت کرسکتا ہے۔ اس صورتِ حال نے پاکستانی اسٹیبلشمنٹ کی ایک مستقل پالیسی کو جنم دیا ہے۔ اس پالیسی کو ایک جملے میں بیان کرنا ہو تو کہا جائے گا:
’’اتحادیوں کو استعمال کرو اور پھینک دو‘‘۔
اس پالیسی کا تازہ ترین شکار جماعت الدعوۃ کے سربراہ حافظ سعید ہیں۔ حافظ سعید ایک دین دار اور محب وطن رہنما ہیں۔ ان کی تنظیم کی سماجی خدمات بے شمار ہیں، لیکن حافظ سعید امریکہ اور بھارت کو پسند نہیں۔ چنانچہ دونوں قوتیں حافظ صاحب کے خلاف مہم چلائے ہوئے ہیں۔ یہ مہم بالآخر مؤثر ثابت ہوئی ہے۔ میاں نوازشریف اور اسٹیبلشمنٹ نے ہم نوالہ و ہم پیالہ بن کر حافظ صاحب کو نہ صرف یہ کہ نظربند کردیا ہے بلکہ ان کا نام فورتھ شیڈول میں بھی ڈال دیا گیا ہے۔
نہ صرف یہ بلکہ ہمارے وزیر دفاع خواجہ آصف نے جنیوا میں ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے یہ بھی فرمایا ہے کہ حافظ صاحب بالواسطہ طور پر دہشت گردی میں ملوث رہے ہیں۔ اہم بات یہ ہے کہ بھارت کی وزارتِ خارجہ نے اس صورت حال پر ’’اطمینان‘‘ کا اظہار کیا ہے۔ بعض لوگ اس سلسلے میں سارا نزلہ میاں نوازشریف پر گرا رہے ہیں۔ لیکن یہ سیاسی اور صحافتی بددیانتی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ حافظ صاحب کی نظربندی اور اُن کا نام فورتھ شیڈول میں شامل کیے جانے کے عمل کے سلسلے میں جنرل باجوہ اور میاں صاحب ایک ہی صفحے پر موجود ہیں۔ لیکن یہ اپنی نوعیت کا پہلا واقعہ نہیں ہے۔ ہماری قومی تاریخ اسی طرح کی مثالوں، بلکہ اس سے بدتر مثالوں سے بھری ہوئی ہے۔
مشرقی پاکستان کا سیاسی بحران ہماری قومی تاریخ کا بدترین بحران تھا، اس لیے کہ اس بحران نے ملک کی وحدت اور سلامتی کو داؤ پر لگادیا تھا۔ اصولی اعتبار سے اس بحران کا حل یہ تھا کہ سیاسی مسئلے کو سیاسی طریقے سے حل کیا جائے۔ لیکن جنرل یحییٰ نے ایک سیاسی مسئلے کو طاقت کا مسئلہ بنادیا۔ تاہم یہاں کہنے کی اصل بات یہ نہیں ہے۔ یہاں کہنے کی اصل بات یہ ہے کہ اس صورتِ حال میں البدر اور الشمس تخلیق کی گئیں۔ البدر اور الشمس کے کارکنان اسلامی جمعیت طلبہ کے کارکنان تھے، وہ کسی اسٹیبلشمنٹ کے نہیں اپنے مذہب، اپنی تہذیب، اپنی تاریخ، اپنے وطن اور اپنی قوم کے ایجنٹ تھے اور انہوں نے ملک کے دفاع کے سلسلے میں تن من دھن کی بازی لگادی۔ لیکن ہماری اسٹیبلشمنٹ نے ان کے جذبے، خدمات اور قربانیوں کی قدر نہ کی۔ اسٹیبلشمنٹ نے خود تو بھارت کے آگے ہتھیار ڈال دیے لیکن البدر اور الشمس کے نوجوانوں کو مکتی باہنی کے غنڈوں کے آگے پھینک دیا۔ جماعت اسلامی کے سابق امیر قاضی حسین احمد نے اس صورتِ حال پر تبصرہ کرتے ہوئے ایک بار کہا تھاکہ اگر اسٹیبلشمنٹ بھارت کے آگے ہتھیار ڈالنے کا فیصلہ کرچکی تھی تو وہ چند روز پہلے ہمیں بتادیتی تاکہ ہم اپنے نوجوانوں کو مشرقی پاکستان سے نکال لیتے۔ لیکن ایسا نہ ہوسکا اور البدر اور الشمس کے کارکنان کو چن چن کر شہید کیا گیا۔ اتفاق سے یہ سلسلہ ابھی تک جاری ہے۔ جماعت اسلامی بنگلہ دیش کے رہنما آج بھی تحفظِ پاکستان کے ’’جرم‘‘ کی سزا بھگت رہے ہیں۔ انہیں دار پر کھینچا جارہا ہے، جیلوں میں ڈالا جارہا ہے۔ جماعت اسلامی اور اسلامی جمعیت طلبہ پر پابندی لگادی گئی ہے اور پاکستانی اسٹیبلشمنٹ ٹک ٹک دیدم دم نہ کشیدم کی تصویر بنی ہوئی ہے۔ ہماری اسٹیبلشمنٹ 1971ء میں جتنی بے حس اور بے حیا تھی آج بھی اتنی ہی بے حس اور بے حیا بنی ہوئی ہے۔
کشمیر کی جدوجہدِ آزادی برصغیر کی ملتِ اسلامیہ کے روشن ابواب میں سے ایک باب ہے۔ لیکن 1980ء کی دہائی میں یہ جدوجہد بڑی حد تک سرد پڑچکی تھی۔ اس فضا میں پاکستان کی اسٹیبلشمنٹ نے کشمیر کی جدوجہدِ آزادی کے رہنماؤں کو جدوجہد تیز کرنے کا مشورہ دیا۔ انہوں نے کہا کہ اگر کشمیر کی جدوجہد اہلِ کشمیر کے جذبات اور تحرک کو ایک بلند سطح پر لے آئی تو پاکستان مداخلت کرے گا اور عملاً ان کی مدد کرے گا۔ مذکورہ مشورے کے بعد مقبوضہ کشمیر کے حالات کی گرمی بڑھنے لگی اور بہت جلد وہ مرحلہ آگیا جب کشمیریوں کے جذبات طوفانِ بلاخیز بن کر سامنے آگئے، لیکن جب یہ سب کچھ ہوچکا اور کشمیر کی قیادت نے اسٹیبلشمنٹ کو اس کا ’’وعدہ‘‘ یاد دلایا تو کہا گیا کہ کشمیر کے لیے پاکستان کو خطرے میں نہیں ڈالا جاسکتا۔ یہاں بتانے کی ایک بات یہ ہے کہ یہ ہمارا ’’قیاس‘‘ نہیں ہے بلکہ پاکستان کی ایک اہم سیاسی شخصیت نے یہ بات ہمیں خود بتائی تھی۔ اہلِ کشمیر کے جذبے اور عظمت کو سلام کہ وہ دھوکہ دہی کی اس واردات کے باوجود پاکستان زندہ باد کے نعرے کی لَے کو بلند سے بلند تر کیے چلے جارہے ہیں۔
بھارتی پنجاب میں خالصتان کی تحریک ایک حد تک مقبول تحریک تھی اور اس کے ذریعے بھارتی پنجاب کو طویل عرصے تک عدم استحکام کا شکار رکھا جاسکتا تھا۔ لیکن یہ تحریک بھی اسٹیبلشمنٹ کا ایک عارضی حربہ ثابت ہوئی اور تحریک کے ایک مرحلے پر سکھوں کی تحریک کے اہم کارکنوں کی فہرستیں بھارت کے حوالے کردی گئیں۔ اس سلسلے میں پیپلزپارٹی بالخصوص پیپلزپارٹی کے اہم رہنما چودھری اعتزاز احسن کا نام سامنے آیا۔ لیکن اعتزاز احسن نے اپنے ایک انٹرویو میں کہا کہ اگر میں خود یہ فہرستیں بھارت کے حوالے کرتا تو کیا میں پھر بھی پاکستان میں رہ سکتا تھا؟ اس جواب کا مفہوم بالکل واضح ہے۔
افغانستان میں بھی ہماری اسٹیبلشمنٹ نے اتحادیوں کو استعمال کرکے پھینکا ہے۔ اس کی پہلی مثال گلبدین حکمت یار ہیں۔ گلبدین کبھی افغانستان میں پاکستان کی محبت کی سب سے بڑی علامت تھے لیکن ایک وقت وہ آیا کہ پاکستان کے دروازے اُن پر بند ہوگئے، یہاں تک کہ وہ ایران میں پناہ لینے پر مجبور ہوگئے۔ طالبان کی مثال تو گویا حال ہی کا واقعہ ہے۔ ایک وقت تھا کہ پاکستان سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات سے طالبان کو سفارتی سطح پر یہ تسلیم کرانے کے لیے کہہ رہا تھا کہ طالبان افغانی نہیں ’’ہمارے بچے‘‘ ہیں۔ لیکن جنرل پرویز مشرف نے ایک ٹیلی فون کال پر ’’اپنے بچے‘‘امریکہ کے حوالے کردیے۔ اور وہ ایسا کیوں نہ کرتے؟ انہوں نے ایک ٹیلی فون کال پر طالبان کیا پورا پاکستان امریکہ کے حوالے کردیا، یہاں تک کہ پاکستان میں افغانستان کے سفیر ملا ضعیف کو بھی امریکہ کے ہاتھ فروخت کردیا، حالانکہ ملا ضعیف کا تحفظ پاکستان کی اخلاقی، سیاسی اور سفارتی ذمے داری تھی۔ لیکن استعمال کرو اور پھینکو ہماری اسٹیبلشمنٹ کی فطرت ہے۔
(باقی صفحہ 41پر)
چنانچہ ڈاکٹر عبدالقدیر خان جیسی شخصیت بھی اس فطرت سے نہ بچ سکی۔ ڈاکٹر عبدالقدیر خان کہنے کو صرف ایک سائنس دان ہیں، لیکن پاکستان کی سلامتی اور بقا کے سلسلے میں ان کی خدمات تاریخی ہیں۔ ان کے حوالے سے یہ کہنا غلط نہیں کہ قائداعظم نے پاکستان بنایا اور ڈاکٹر عبدالقدیر نے پاکستان بچایا۔ بھارت 1971ء میں پاکستان کو دولخت کرنے میں اپنا کردار ادا کرچکا تھا۔ ڈاکٹر عبدالقدیر پاکستان کو ایٹم بم سے لیس نہ کرتے تو بھارت ایک بار نہیں باربار پاکستان کی گردن دبوچتا، لیکن ایٹم بم کے خو ف نے اب تک بھارت کو جارحیت سے باز رکھا ہے۔ لیکن ایک وقت آیاکہ پاکستان کی اسٹیبلشمنٹ نے امریکہ کے دباؤ پر قوم کے سب سے بڑے ہیرو کو زیرو بناکر کھڑا کردیا۔ ڈاکٹر عبدالقدیر نے اسٹیبلشمنٹ کے دباؤ میں آکر وہ گناہ تسلیم کیے جو انہوں نے کیے ہی نہیں تھے، اور کیے تھے تو تن تنہا نہیں کیے تھے، اسٹیبلشمنٹ کے کہنے پر کیے تھے۔ لیکن ہماری اسٹیبلشمنٹ نے ڈاکٹر قدیر کو بھی استعمال کیا اور پھینک دیا۔
اسلام آباد میں عمران خان اور ڈاکٹر طاہرالقادری کا طویل دھرنا مذاق نہ تھا۔ عمران خان اس دھرنے میں امپائر اور اس کی انگلی کی طرف دیکھتے ہوئے پائے گئے۔ یہ امپائر اسٹیبلشمنٹ کے سوا کوئی نہ تھا، اور امپائر کی انگلی دراصل اسٹیبلشمنٹ کی انگلی تھی۔ عمران خان کو یقین دلایا گیا تھا کہ یہ انگلی ضرور اٹھے گی۔ لیکن اسٹیبلشمنٹ نے عمران خان اور ڈاکٹر طاہرالقادری کو استعمال کرکے پھینک دیا۔ ڈاکٹر طاہرالقادری کی تو خیر کوئی ساکھ ہی نہیں لیکن عمران خان اگر عوام کے ایک طبقے میں واقعتا مقبول نہ ہوتے تو ان کا سیاسی کیریئر ان کے دھرنے کے ساتھ ہی ختم ہوجاتا۔ سیاسی مقبولیت رہنما کو سیاسی صدمے سہنے کے قابل بنا دیتی ہے۔ چنانچہ عمران خان کی مقبولیت نے انہیں ایک بار پھر ٹشوپیپر سے رومال میں تبدیل کردیا۔ لیکن یہاں سوال یہ ہے کہ اسٹیبلشمنٹ ایسا کیوں کرتی ہے؟
اس سوال کا جواب اقبال کے الفاظ میں یہ ہے کہ طاقت دین سے جدا ہوکر چنگیزی بن جاتی ہے اور اس کا کوئی اخلاقی اصول نہیں ہوتا۔ ہوتا ہے تو باقی نہیں رہتا۔ چنانچہ پھر ہر چیز صرف ’’فائدہ‘‘ ہوتی ہے۔ اسٹیبلشمنٹ افراد، گروہوں، تنظیموں اور جماعتوں سے فائدہ اٹھاتی ہے اور انہیں پھلانگ کر آگے بڑھ جاتی ہے۔ بین الاقوامی سطح پر یہی کام امریکہ کرتا ہے۔ ایک وقت تھا کہ ایران کا شاہ رضا پہلوی امریکہ کی آنکھ کا تارا تھا، لیکن ایران میں انقلاب آیا تھا تو امریکہ نے ایک لمحے میں رضا شاہ کو ترک کردیا۔ یہی کھیل مصر کے حسنی مبارک اور تیونس کے آمر زین العابدین کے ساتھ کھیلا گیا۔