یہ زیادہ پرانی بات نہیں، برصغیر میں ایسے ادبی رسالے موجود تھے جن کی ماہانہ اشاعت پچاس، ساٹھ ہزار سے زیادہ تھی۔ دوسرے ادبی رسائل کے لیے چار پانچ ہزار کی اشاعت معمولی بات تھی۔ یہ وہ زمانہ تھا جب معاشرے میں ادب کا شوق ہی نہیں ذوق بھی پایا جاتا تھا۔ آج اسرار الحق مجاز کو جاننے والے کم ہیں، مگر جس عہد کی ہم بات کررہے ہیں اُس دور میں مجاز نوجوانوں میں دلیپ کمار اور امیتابھ بچن کی طرح مقبول تھے۔ نوجوان اُن کی وضع قطع کی نقل کرتے۔ مجاز بلا کے مے نوش تھے۔ وہ بسا اوقات اتنے نشے میں ہوتے کہ مشاعرے کے اسٹیج پر ان کا پیشاب خطا ہوجاتا، مگر اس بات کو بھی لوگ مجاز صاحب کی ’’ادا‘‘ قرار دے کر نظرانداز کردیتے تھے۔ یہ وہ زمانہ تھا جب عسکری صاحب کا مضمون ’’جھلکیاں‘‘ کے عنوان سے ہر ماہ شائع ہوتا، اور شائع ہوتے ہی پورے برصغیر کے ادبی حلقوں میں اس پر بحث شروع ہوجاتی تھی۔ لیکن ہمارے زمانے تک آتے آتے ادب اور شاعروں، ادبیوں کی یہ اہمیت باقی نہ رہی۔ ادب کی مقبولیت اور غیر مقبولیت کے درمیانی عرصے میں صرف ابن صفی ایک ایسے ادیب نظر آتے ہیں جنہوں نے لاکھوں قارئین کا حلقہ پیدا کیا اور نئی نسلوں نے ان کے جاسوسی ناولوں کو ذوق وشوق کے ساتھ پڑھا۔ مگر ہمارا دور ڈائجسٹوں اور ’’ڈائجسٹوں کے ادب‘‘ کا دور ہے۔
ڈائجسٹوں کے لوگ اس بات کا بہت برا مانتے ہیں کہ ڈائجسٹوں میں شائع ہونے والی کہانیوں کو ’’ادب‘‘تسلیم نہیں کیا جاتا۔ مگر حقیقت یہ ہے کہ ڈائجسٹوں میں شائع ہونے والی ’’اکثر تحریریں‘‘ ادب نہیں ہوتیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ادب زندگی کے نشے سے پیدا ہوتا ہے، اور ڈائجسٹوں کی تحریریں ’’زندگی کے نشے‘‘ کے بجائے ’’نشے کی زندگی‘‘ کے تصور سے پیدا ہوتی ہیں۔ سلیم احمد نے اپنی نظم مشرق میں شکایت کی ہے کہ ہمارے زمانے میں ایسی شاعری ہورہی ہے جو شراب پی کر نہیں بلکہ شراب کی بوتل کو سونگھ کر کی جاتی ہے، اور سلیم احمد کی بات درست تھی، اس لیے کہ شاعروں کی اکثریت نے زندگی کو برتنا چھوڑ دیا تھا اور زندگی کی ظاہری چمک دمک کے مشاہدے و مطالعے کو کافی سمجھ لیا تھا۔ چنانچہ انہوں نے موضوعات اور الفاظ کی تخصیص کرلی تھی۔ کچھ موضوعات اور الفاظ ان کے نزدیک ’’ شاعرانہ‘‘ تھے، اور کچھ ’’غیر شاعرانہ‘‘۔ ڈائجسٹوں کے لکھنے والے اس سلسلے میں شاعروں سے بہت آگے نکل گئے۔ انہوں نے نشے کی زندگی کو ماڈل زندگی کے طور پر بیان کرنا شروع کردیا۔ ان میں کہیں رومانس کا نشہ تھا، کہیں محرومی کا نشہ تھا، کہیں مظلومیت کا نشہ تھا، کہیں ظلم کا نشہ تھا۔ چنانچہ ہر ڈائجسٹ نشے کی دکان بن گیا، اور دنیا میں نشہ کرنے والوں کی کبھی کمی نہیں رہی۔ اس نشے کا کمال یہ تھا کہ یہ تصور میں تھا، کردار میں تھا، زبان میں تھا، بیان میں تھا۔ ڈائجسٹوں کی مقبولیت کی سب سے بڑی وجہ یہی تھی اور آج بھی یہی ہے۔ ڈائجسٹوں کے اس پہلو کا ایک اہم زاویہ یہ ہے کہ ڈائجسٹ کبھی بھی ادب کے حقیقی قارئین میں مقبول نہیں رہے۔ ان کے قارئین کی اکثریت اُن لوگوں پر مشتمل رہی ہے جو یا تو ادب کا ذوق وشوق ہی نہیں رکھتے، یا جن کا ادب سے برائے نام تعلق ہے۔ کہنے والے کہتے ہیں کہ فلمیں بھی ’’نشہ‘‘ ہوتی ہیں، اور یہ بات ایک حد تک درست ہے، مگر ایسی درجنوں فلموں کی نشاندہی کی جاسکتی ہے جن کے اختتام پر ناظرین کو احساس ہوتا ہے کہ انہوں نے کسی بڑے افسانہ نگار کا افسانہ ابھی ابھی ختم کیا ہے۔ اس کے معنی یہ ہیں کہ مسئلہ ذریعے یا ’’Medium ‘‘کا نہیں بلکہ موضوع اور اس کی پیشکش کا ہے۔ چنانچہ فلم ’’افسانہ‘‘ بن سکتی ہے، اور افسانہ ’’فلم سے بدتر‘‘ ثابت ہوسکتا ہے۔ فلم میں ’’آرٹ‘‘ ہوسکتا ہے اور کہانی آرٹ سے محروم ہوسکتی ہے یا اس میں آرٹ کا فقدان ہوسکتا ہے۔
ڈائجسٹ اگرچہ ’’سب کے لیے‘‘ تھے، مگر ڈائجسٹوں کی بڑی تعداد بالآخر خواتین کے لیے وقف ہوگئی۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ ڈائجسٹوں کے ادب میں اُس ’’جذباتیت‘‘ کی فراوانی تھی جو خواتین کی پسندیدہ غذا ہے۔ خواتین کی شخصیت کا بنیادی پہلو یہ ہے کہ جب وہ ایک خاص ڈگر پر چل نکلتی ہیں تو پھر مڑ کر نہیں دیکھتیں۔ چنانچہ خواتین میں ڈائجسٹ مقبول ہوئے تو مقبول ہوتے ہی چلے گئے، اور ان میں سے کئی کی مقبولیت میں طویل عرصے بعد بھی نمایاں کمی نہیں ہوئی۔ ان خواتین میں کافی بڑی تعداد ایسی عورتوں کی تھی جن کے شوہر ملک سے باہر تھے اور ان کے پاس وقت کی کمی نہیں تھی، چنانچہ وہ ڈائجسٹوں میں پوری طرح جذب ہوسکتی تھیں۔
ڈائجسٹوں کی مقبولیت کی ایک وجہ یہ ہے کہ ان کے مالکان نے انہیں بارہ مصالحے کی چاٹ بنادیا۔ ڈائجسٹ کا حقیقی تصور بھی یہی ہے۔ لیکن مغرب کے ڈائجسٹوں میں بارہ مصالحے سب کے لیے ہوتے ہیں مگر ہمارے ڈائجسٹوں نے بارہ مصالحوں کو اُن خواتین تک محدود کردیا جن میں بارہ مصالحوں کی جانب فطری رغبت پائی جاتی ہے۔ اس طرح ڈائجسٹ کے مالکوں نے سرسری اور سطحی معنوں میں سہی، ڈائجسٹ کو پوری زندگی کا ترجمان بنانے کی کوشش کی۔ ڈائجسٹوں نے اپنے ’’فونٹ ‘‘ کا سائز چھوٹا کردیا، چنانچہ تین سو صفحات کے ڈائجسٹ میں 600 صفحات کی کتاب کا مواد سمانے لگا۔ ڈائجسٹ کی یہ ’’ضخامت‘‘ اس کے قاری کو پندرہ بیس دن تک ڈائجسٹ میں مصروف رکھتی ہے، اور پندرہ بیس دن کے بعد ایک نئے ڈائجسٹ کا انتظار شروع ہوجاتا ہے۔ چنانچہ ڈائجسٹ کا قاری کبھی بھی ڈائجسٹ کی فضا سے باہر نہیں نکل پاتا۔ اس صورتِ حال نے بھی ڈائجسٹوں کی مقبولیت میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ ڈائجسٹ کی مقبولیت کا ایک پہلو یہ بھی ہے کہ ڈائجسٹوں نے قارئین کے ردعمل کو بہت زیادہ اہمیت دی، جس سے قارئین کو ڈائجسٹ کے معاملات میں شرکت کا غیر معمولی احساس ہوا، اور ڈائجسٹ ایک مستحکم ادارہ بن کر ابھرا۔ لیکن یہاں سوال یہ ہے کہ کیا ڈائجسٹوں کا کوئی مثبت پہلو ہی نہیں ہے؟ ایسا نہیں ہے۔ ڈائجسٹوں نے ایسے لاکھوں پڑھنے والے پیدا کیے جو پہلے کبھی بھی نہیں پڑھتے تھے یا باید وشاید ہی کچھ پڑھتے تھے۔ کچھ نہ پڑھنے والوں سے کچھ پڑھنے والے بہرحال بہتر ہیں۔ ڈائجسٹ اگر اپنی محدود دنیا کے شعور کے حامل ہوتے اور وہ اپنے قارئین میں یہ احساس پیدا کرتے کہ ڈائجسٹ مطالعے کا محض آغاز ہے اور قارئین کو ڈائجسٹ کے بعد ادب کے مطالعے کی طرف مائل ہونا چاہیے، تو وہ معاشرے میں علم وادب اور فہم و آگہی کے فروغ میں غیر معمولی کردار ادا کرسکتے تھے۔ ڈائجسٹوں کا ایک کارنامہ یہ ہے کہ انہوں نے اپنی مخصوص فضا کے دائرے میں لکھنے والوں کی ایک بڑی تعداد پیدا کی۔ کاش ان لکھنے والوں کے لیے ڈائجسٹ میں لکھنا ایک جزوقتی کام یا مشغلہ ہوتا، اور وہ ڈائجسٹ کی دنیا سے نکل کر سنجیدہ ادب کی دنیا میں داخل ہوسکتے۔