پاکستان کے ذرائع ابلاغ ایک دو نہیں، کئی امراضِ خبیثہ میں مبتلا ہیں۔ ایک زمانہ تھا کہ کوٹھے کی بھی ایک اخلاقیات ہوا کرتی تھی۔ ایک زمانہ یہ ہے کہ ہمارے ذرائع ابلاغ کی کوئی اخلاقیات نہیں۔ ایک زمانہ تھا کہ ہماری صحافت ایک مشن ہوا کرتی تھی، لیکن لوگ کہتے ہیں کہ وہ اب ایک کاروبار بن گئی ہے۔ تاہم کاروبار کا بنیادی اصول ایمان داری ہے۔ تاجر اگر اپنے گاہکوں کو مسلسل گھٹیا مال فروخت کرتا رہے گا تو اس کی تجارت ٹھپ ہوجائے گی۔ لیکن ہمارے ذرائع ابلاغ گھٹیا مال کو قوم کی ضرورت بنا چکے ہیں، چنانچہ ان کے کاروبار کو کاروبار کہنا بھی ٹھیک نہیں۔ قائداعظم نے کہا تھا کہ قوموں اور صحافت کا عروج و زوال ایک ساتھ ہوتا ہے۔ لیکن ہمارے ذرائع ابلاغ کا قوم کے عروج سے کوئی تعلق ہی نہیں۔ چنانچہ ذرائع ابلاغ کا زوال ہمارے مجموعی زوال کو مزید گہرا اور وسیع کررہا ہے۔ دنیا بھر میں ذرائع ابلاغ کا ایک قومی ایجنڈا ہوتا ہے، مگر ہمارے ذرائع ابلاغ کا کوئی قومی ایجنڈا ہی نہیں۔ ہمارے ابلاغی ذرائع کی بڑی تعداد یا تو امریکہ اور بھارت کے زیراثر ہے یا پھر وہ ملک کی ایجنسیوں کی آلۂ کار بنی ہوئی ہے، اور یہ دونوں صورتیں ہی آزادی کی صورتیں نہیں ہیں۔