برّی فوج کے سربراہ جنرل قمر جاوید باجوہ نے ایک بار پھر ’سب سے پہلے پاکستان‘ کا نعرہ بلند کیا ہے۔ ایبٹ آباد میں ’’بلوچ رجمنٹ‘‘ سینٹر کے دورے کے موقع پر انھوں نے کہا کہ پاک فوج قومی سلامتی کے لیے اپنا کردار جاری رکھے گی۔ انھوں نے کہا کہ سب سے پہلے پاکستان ہے، کوئی فرد یا ادارہ بعد میں ہے۔ مادرِ وطن پر کسی کو فوقیت نہیں۔
نعروں کی بات اور ہے ورنہ وطنِ عزیز کے ٹھوس حقائق راز نہیں۔ ان ٹھوس حقائق میں سے ایک تلخ حقیقت یہ ہے کہ ’سب سے پہلے پاکستان‘ کہنے والے جرنیلوں نے پاکستان میں’سب سے پہلے جنرلستان‘ کا منظر تخلیق کیا۔ پاکستان ایک عوامی جدوجہد کا حاصل تھا، لیکن جنرل ایوب نے 1958ء میں موقع ملتے ہی اقتدار پر قبضہ کرلیا۔ انھوں نے اقتدار پر قبضے کے لیے سیاسی عدم استحکام کو جواز کے طور پر پیش کیا، لیکن قوم کے سینے پر دس سال تک مونگ دلنے کے بعد جنرل ایوب کوچۂ اقتدار سے نکلے یا نکالے گئے تو ملک پہلے سے زیادہ سیاسی عدم استحکام کا شکار تھا۔ لیکن جنرل ایوب پاکستان کو جنرلستان بنانے کے عمل کا آغاز کرچکے تھے۔ جنرل ایوب نے اقتدار سول حکمرانوں سے چھینا تھا، چنانچہ اصولی اعتبار سے انھیں سیاسی نظام کو مستحکم کرکے اقتدار سول قیادت کے سپرد کرنا چاہیے تھا۔ لیکن وہ سیاست کو استحکام مہیا نہ کرسکے چنانچہ وہ اقتدار چھوڑنے پر مجبور ہوئے تو انھوں نے اقتدار ایک اور جنرل یحییٰ خان کے حوالے کردیا۔ اس منظرنامے میں ’سب سے پہلے پاکستان‘ کہیں نہیں تھا۔
جنرل یحییٰ کا تین سالہ دور خود ’سب سے پہلے جنرلستان‘ کی ذہنیت کا شاہکار تھا۔ حسن ظہیر نے اپنی تصنیف The Separation of Eeast Pakistan میں جنرل یحییٰ سے منسوب ایک بیان کا حوالہ دیا ہے۔ اس بیان میں جنرل یحییٰ نے فرمایا ہے کہ ’’میں نے فوج میں مختلف عہدوں اور مناصب پر کام کیا اور ہزاروں فوجیوں کے مسائل حل کیے، چنانچہ میں سمجھتا تھا کہ ملک کو چلانا بھی فوج کو چلانے کی طرح ہوگا‘‘۔ بلاشبہ فوج ایک بڑا ادارہ ہے اور اسے چلانا بھی اہم بات ہے۔ لیکن معاشرہ اور ریاست فوج کے مقابلے پر لاکھوں گنا بڑی حقیقت ہیں۔ چنانچہ ان کو چلانے کے لیے کہیں زیادہ اہلیت و صلاحیت کی ضرورت ہوتی ہے۔ لیکن جنرل یحییٰ کی ’’جرنیلی بصیرت‘‘ انھیں بتا رہی تھی کہ فوج اور ملک چلانے میں کوئی فرق ہی نہیں۔ لیکن جرنیلوں بالخصوص پاکستانی جرنیلوں کا مسئلہ یہ ہے کہ وہ خود کو عقلِ کُل سمجھتے ہیں۔ جنرل یحییٰ نے بھی خود کو عقلِ کُل سمجھا۔ یہی وجہ تھی کہ انھوں نے مشرقی پاکستان کے سیاسی مسئلے کو فوجی طاقت کے ذریعے حل کرنے کی کوشش کی اور مسئلے کو اس حد تک خراب کردیا کہ مشرقی پاکستان بنگلہ دیش بن گیا۔ جنرل یحییٰ شاید بھول گئے ہوں گے یا ان کی تعلیم و تربیت میں کوئی کمی رہ گئی ہوگی ورنہ وہ اس موقع پر بھی ’سب سے پہلے پاکستان‘ کا نعرہ لگا سکتے تھے۔ جنرل ضیاء الحق نے بھی 1977ء میں مارشل لا لگاتے ہوئے ’سب سے پہلے پاکستان‘ کی آڑ میں ’سب سے پہلے جنرلستان‘ کا نعرہ لگایا۔ جنرل ایوب کی طرح جنرل ضیاء الحق کا کہنا بھی یہی تھا کہ سیاست دانوں نے ملک کی سلامتی کو داؤ پر لگادیا تھا اور سیاسی عدم استحکام ملک میں خانہ جنگی کی راہ ہموار کرسکتا تھا۔ مگر دس سال بعد جنرل ضیاء الحق اس سے کہیں زیادہ سیاسی مسائل چھوڑ کر رخصت ہوئے جتنے ان کی آمد کے وقت موجود تھے۔ جنرل پرویزمشرف نے نائن الیون کے بعد عملاً ’سب سے پہلے پاکستان‘ کا نعرہ لگایا، مگر ان کے نعرے کا مطلب بھی وہی تھا جو ان سے پہلے جرنیل لگا چکے تھے۔ بلکہ جنرل پرویز حماقتوں میں اپنے سابقین سے بھی زیادہ بڑھے ہوئے تھے، چنانچہ ان کے ’سب سے پہلے پاکستان‘ کا ایک مطلب سب سے پہلے جنرل پرویزمشرف بھی تھا۔
بدقسمتی سے وطنِ عزیز کی تاریخ ’سب سے پہلے امریکہ‘ کی تاریخ بھی ہے۔ جنرل ایوب اگرچہ 1958ء میں اقتدار پر قابض ہوئے، مگر وہ 1954ء سے امریکیوں کے ساتھ خفیہ رابطوں میں تھے۔ اقتدار پر قبضے کے بعد جنرل ایوب نے ’سب سے پہلے امریکہ‘ کا رنگ اور بھی گہرا کردیا۔ وہ سیٹو اور سینٹو جیسے امریکی معاہدوں کا حصہ بن گئے۔ انھوں نے اپنی خارجہ پالیسی میں امریکہ کو بنیادی اہمیت دی۔ یہاں تک کہ انھوں نے پاکستان کے دفاع کو بھی امریکہ مرکز یا American Centric بنادیا۔ جنرل ایوب کی امریکہ پرستی اتنی بڑھی کہ خود انھیں محسوس ہونے لگا کہ وہ امریکہ کے اتحادی نہیں اس کے ادنیٰ غلام ہیں۔ چنانچہ انھوں نے اپنی خودنوشت کا نام ہی اس بات پر رکھا کہ ہم امریکہ کے دوست ہیں، امریکہ کے غلام نہیں۔ لیکن بقول ظفر اقبال:
کہیں چھپائے سے چھپتی ہے بے حسی دل کی
ہزار کہتا پھرے مست ہے، قلندر ہے
چنانچہ جنرل ایوب کی خودنوشتFriends not Masters بھی یہ ثابت نہ کرسکی کہ ’سب سے پہلے پاکستان‘ کا مطلب ’سب سے پہلے امریکہ نہیں ہے‘۔
جنرل ضیاء الحق بھی اپنے اقتدار کے ایک بڑے حصے میں ’سب سے پہلے امریکہ‘ کی مثال بنے رہے۔ البتہ وہ اپنے اقتدار کے آخری حصے میں امریکہ کی گود چھوڑنے میں کامیاب ہوگئے تھے اور یہی بات اُن کے طیارے کے حادثے کا سبب بنی۔ بے نظیر بھٹو اور میاں نوازشریف ’سب سے پہلے امریکہ‘ کا اشتہار بنے رہے۔ لیکن میاں نوازشریف کی پست مزاجی کا تو یہ عالم ہے کہ انھوں نے بھارت کو بھی امریکہ کا درجہ دے دیا ہے اور وہ موقع ملتے ہی ملک میں ’سب سے پہلے بھارت‘ کا نعرہ لگا سکتے ہیں۔ پاکستان کے حکمرانوں میں جنرل پرویز کی امریکہ پرستی سب سے زیادہ شرمناک اور افسوسناک ہے۔ انھوں نے نہ صرف یہ کہ ایک ٹیلی فون کال پر پورا پاکستان امریکہ کے حوالے کردیا بلکہ وہ جارج بش کے جوتے چاٹنے کے ’’اعزاز‘‘ میں ’’بشرف‘‘ بھی کہلائے۔ اس تناظر میں دیکھا جائے تو جنرل قمر جاوید باجوہ کے نعرے ’سب سے پہلے پاکستان‘ کا کوئی مفہوم ہی نہیں، اس لیے کہ انھیں ابھی فکر و عمل سے ثابت کرنا ہے کہ پاکستان واقعتا جنرلستان اور امریکہ پرستی سے بلند ہوچکا ہے۔ تادم تحریر اس سلسلے میں جنرل صاحب کے بیان کے سوا کوئی شہادت موجود نہیں، لیکن اگر حقیقی معنوں میں ’سب سے پہلے پاکستان‘ کا منظر طلوع ہو بھی گیا تو یہ بھی پاکستان کے اصل مقام سے کم بات ہوگی۔
اس کی وجہ ہے۔ ’سب سے پہلے پاکستان‘ اپنی اصل میں ایک قوم پرستانہ نعرہ ہے جو جنرل پرستی اور امریکہ پرستی سے تو بہت بڑی چیز ہے لیکن پاکستان کا مسئلہ یہ ہے کہ پاکستان نسل، جغرافیے اور زبان سے بلند تر حقیقت ہے۔ اس لیے کہ پاکستان کا نظریہ پاکستان سے بھی بڑی چیز ہے۔ یہ نظریہ اتنا اہم ہے کہ اس کے بغیر نہ پاکستان وجود میں آسکتا ہے، نہ اس کے بغیر پاکستان حقیقی معنوں میں پاکستان بن سکتا ہے، اور نہ اس کے بغیر پاکستان کا کوئی تصور کیا جاسکتا ہے۔ چنانچہ جو لوگ حقیقی معنوں میں پاکستان سے محبت کرتے ہیں وہ پاکستان کے نظریے کو پاکستان سے بھی زیادہ اہم خیال کرتے ہیں۔ اس لیے کہ پاکستان جسم ہے اور اس کا نظریہ اس کی روح ہے، اور جسم کا کوئی تصور روح کے بغیر نہیں کیا جاسکتا۔ مگر ہمارے جرنیل بھی جو خود کو پاکستان سے سب سے زیادہ محبت کرنے والا باور کراتے ہیں پاکستان کی بات کرتے ہیں تو اس کے نظریے کو شعوری طور پر فراموش کردیتے ہیں۔ سول حکمرانوں کا حال بھی جرنیلوں ہی کی طرح ہے۔ اس اعتبار سے دیکھا جائے تو جرنیل ہوں یا سیاسی حکمران۔۔۔ سب کی پاکستانیت جھوٹی، کھوکھلی، سطحی اور مفاد پرستانہ ہے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ پاکستان کا حکمران طبقہ ’سب سے پہلے پاکستان‘ سے بھی پہلے ’سب سے پہلے پاکستان کا نظریہ‘ کیوں نہیں کہتا؟ کیا سابق سوویت یونین یا چین میں ریاست کے نظریے کو نظرانداز کرکے ریاست کی جے جے کار کی جاسکتی تھی؟ کیا امریکہ اور یورپ میں سیکولرازم اور لبرل ازم کو نظرانداز کرکے امریکہ زندہ باد یا یورپ زندہ باد کا نعرہ لگایا جاسکتا ہے؟ لیکن یہاں اصل بات یہ ہے کہ پاکستان کا حکمران طبقہ پاکستان کے حوالے سے سب سے پہلے ’’اسلام‘‘ یا ’سب سے پہلے دو قومی نظریہ‘ کیوں نہیں کہتا؟
تجزیہ کیا جائے تو اس کی تین بنیادی وجوہ ہیں۔ پہلی وجہ یہ ہے کہ ہمارا حکمران طبقہ مسلمان ہونے کے باوجود اعتقادی بحران کا شکار ہے۔ اعتقادی بحران کا مطلب یہ ہے کہ یہ طبقہ ملک کو ’’اسلامی آئین‘‘ تو فراہم کردیتا ہے، مگر اپنے دل میں اس چور کو پال پوس کر جوان کیے ہوئے ہے کہ اسلام بہرحال عہدِ جدید کے تقاضے پورے نہیں کرسکتا۔ اس کا ایک ثبوت یہ ہے کہ قرآن مجید فرقانِ حمید سود کو خدا اور اس کے رسولؐ کے خلاف جنگ قرار دیتاہے۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے کہ سود لینا ایسا ہی ہے جیسے کوئی شخص اپنی ماں سے زنا کرے، مگر ہمارا حکمران طبقہ ملک کی معیشت اور بینکاری نظام کو سود سے پاک کرنے کے لیے تیار نہیں۔ اس کا خیال ہے کہ اگر سود کو اجتماعی زندگی سے منہا کیا گیا تو ہم کاروبارِ مملکت کیا کاروبارِ زندگی بھی چلانے کے قابل نہیں رہیں گے۔ ہمارے حکمرانوں کے ایمان کے کمزور ہونے کی ایک مثال یہ ہے کہ اقبال نے کہا ہے:
اگر ملک ہاتھوں سے جاتا ہے جائے
تُو احکامِ حق سے نہ کر بے وفائی
لیکن ہمارا حکمران طبقہ سمجھتا ہے کہ احکامِ حق سے بے وفائی کیے بغیر ملک کو بچایا ہی نہیں جاسکتا، اور اصل چیز احکامِ حق تھوڑی ہیں اصل چیز تو ملک ہے۔ بلکہ ملک بھی بڑی شے ہے، اصل چیز تو حکمرانوں کی حکومت ہے۔ چنانچہ اسلام کہتا ہے کہ مسلمانوں کے خلاف کافروں اور مشرکوں کی مدد نہ کرو، مگر نائن الیون کے بعد جنرل پرویز نے افغانستان کی اینٹ سے اینٹ بجانے میں امریکہ کی اتنی مدد کی کہ خود امریکی بھی جنرل پرویز کی امریکہ پرستی پرحیران رہ گئے۔ یہاں تک کہ جنرل پرویز نے امریکہ کی جنگ کو گود لے کر پاکستان کو جہنم بنانے میں کوئی کسر نہ چھوڑی۔
پاکستان کا حکمران طبقہ ’سب سے پہلے پاکستان‘ کے نعرے کا حق ادا کرنے کے لیے ’سب سے پہلے اسلام‘ اس لیے بھی نہیں کہتا کہ اس سے امریکہ اور یورپ ناراض ہوتے ہیں۔ امریکہ اور یورپ اسلام کو مسجد اور خانقاہ میں تو دیکھ سکتے ہیں مگر سیاست، ریاست اور معیشت میں نہیں۔ پاکستان کا حکمران طبقہ 60 سال سے امریکہ اور یورپ کے ایجنٹ کا کردار ادا کررہا ہے، چنانچہ وہ اسلام پرست تو کیا ہوگا حقیقی قوم پرست بھی نہیں۔
پاکستان کا حکمران طبقہ ’سب سے پہلے اسلام‘ اس لیے بھی نہیں کہتا کہ اگر واقعتا ہماری اجتماعی زندگی میں اسلام آگیا تو پاکستان کے حکمران طبقے کے تمام اجزائے ترکیبی تاریخ کے کوڑے دان میں جا پڑیں گے۔ اس لیے کہ اسلام کو جیسے حکمران مطلوب ہیں موجودہ حکمران طبقے کے لوگ ان کا سایہ بھی نہیں ہیں۔ پاکستان کے حکمران طبقے کے لوگ متقی اور صاحبِ علم تو کیا ہوں گے، یہ لوگ ایماندار تک نہیں۔ یہاں تک کہ موجودہ حکمران طبقہ یہ تک بتانے سے گریزاں ہے کہ میجر جنرل سے بڑے عہدوں کے فوجی اہلکاروں کو کیا مراعات دی جاتی ہیں۔ اس سلسلے میں آئی ایس پی آر کے ترجمان کا کہنا ہے کہ اگر یہ راز عیاں کیا گیا کہ میجر جنرل سے بلند عہدوں کے حامل فوجی اہلکاروں کو کیا کیا مراعات دی جاتی ہیں تواس سے مختلف اداروں میں غلط فہمیاں پیدا ہوں گی۔ واہ واہ! تالیاں۔۔۔ بلکہ ’سب سے پہلے پاکستان‘۔