ختمِ نبوت کے خلاف نواز لیگ کی سازش کے حوالے سے سوشل میڈیا پر میاں نوازشریف کے خلاف فتووں کا طوفان اٹھا تو وزیر داخلہ احسن اقبال اشتعال میں آگئے۔ انہوں نے فرمایا کہ جہاد کا اعلان اور فتوے کا اجرا ریاست کا حق ہے۔ انہوں نے خبردار کیا کہ نوازشریف کے قتل کے فتوے جاری کرنے والوں کے خلاف کارروائی کی جائے گی۔ ابھی کچھ عرصہ قبل جنرل قمر جاوید باجوہ بھی مغربی مفکر میکس ویبر کے حوالے سے فرما چکے ہیں کہ طاقت کا استعمال یا تشدد کا اختیار صرف ریاست کا حق ہے۔
جمہوری عہد میں بادشاہت کے ادارے پر اعتراض کرنے والے کہتے ہیں کہ بادشاہ مطلق العنان ہوتے تھے۔ کہنے کو وہ صرف حکمران ہوتے تھے مگر جب اُن کا جی چاہتا تھا وہ قانون اور ریاست بن کر کھڑے ہوجاتے تھے۔ بادشاہت پر یہ اعتراض غلط نہیں ہے مگر بدقسمتی سے جمہوری کہلانے والے حکمرانوں کا معاملہ بھی مختلف نہیں۔ امریکہ خود کو جمہوری دنیا کا قائد کہتا ہے مگر امریکہ کے حکمران طبقے نے قومی مفاد یا National Interest کو اتنا اہم اور مقدس بنادیا ہے کہ وہ اس کی آڑ لے کر جب چاہتے ہیں ریاست بن کر کھڑے ہوجاتے ہیں۔ چنانچہ امریکہ میں نائن الیون کے بعد پیٹریاٹ ایکٹ ون اور پیٹریاٹ ایکٹ ٹو کے تحت امریکی شہریوں بالخصوص مسلم شہریوں کی آزادیاں سلب کی گئیں۔ امریکی حکومت جب چاہے مذکورہ بالا ایکٹس کے تحت اپنے شہریوں بالخصوص مسلمانوں کو گرفتار کرسکتی ہے اور انہیں چھے ماہ تک وجہ بتائے بغیر حبسِ بیجا میں رکھ سکتی ہے، حکومت ان کے فون ٹیپ کرسکتی ہے، ان کی ڈاک اور کمپیوٹرز کی نگرانی کرسکتی ہے۔ امریکہ کے حکمرانوں نے نائن الیون کے بعد ریاست بن کر افغانستان اور عراق کے خلاف جارحیتیں ایجاد کیں۔ امریکی ذرائع ابلاغ نے قومی مفادات کے نام پر اتنا شور مچایا کہ کسی امریکی کو یہ کہنے کی کیا، سوچنے کی بھی ہمت نہ ہوئی کہ اگر بالفرضِ محال اسامہ بن لادن نائن الیون میں ملوث بھی ہے تو اس کا بوجھ طالبان پر نہیں ڈالا جاسکتا۔ عراق کے سلسلے میں یہ مسئلہ اور بھی سنگین تھا۔ اقوام متحدہ کے انسپکٹرز کہہ رہے تھے کہ امریکہ پہلے ہمیں عراق جانے اور یہ دیکھنے دے کہ وہاں بڑے پیمانے پر تباہی پھیلانے والے ہتھیار ہیں بھی یا نہیں۔ لیکن امریکہ کے حکمرانوں نے اس کی نوبت ہی نہ آنے دی۔ چونکہ امریکہ کے حکمران خود ریاست بن کر کھڑے ہوگئے تھے اس لیے ملک کے اندر ان کی طاقت اتنی بڑھ گئی تھی کہ امریکی عوام کی اکثریت نے کسی جواز کے بغیر عراق کے خلاف جارحیت کی حمایت کی۔
اسلامی جمہوریہ پاکستان میں یہ مسئلہ اور بھی سنگین ہے۔ جنرل ایوب 1958ء میں اچانک جرنیل سے ’’ریاست پاکستان‘‘ بن کر کھڑے ہوگئے۔ انہوں نے فرمایا کہ سیاست دان ملک تباہ کررہے ہیں اور فوج انہیں ایسا کرنے کے اجازت نہیں دے گی۔ چنانچہ انہوں نے سیاسی عدم استحکام کا بہانہ بناکر اقتدار پر قبضہ کرلیا۔ مگر ان کا دس سالہ دورِ اقتدار ملک کو سیاسی استحکام نہ فراہم کرسکا۔ ایسا ہوتا تو جنرل ایوب ’’اچانک‘‘ اقتدار چھوڑنے پر مجبور نہ ہوتے۔ جنرل ایوب کی جگہ جنرل یحییٰ آئے۔ اُن کی شخصیت اتنی ریاست بنی کہ اُن کے دور میں ریاست ہی دو ٹکڑے ہوگئی۔ جنرل ضیاء الحق خود کو صرف حکمران سمجھتے تو وہ دیہی سندھ میں پیپلزپارٹی کو دیوار سے لگاتے نہ شہری علاقوں میں ایم کیو ایم تخلیق کرتے۔ مگر جنرل ضیاء الحق آئین کو کاغذ کا ایک ٹکڑا اور عوام کو بے معنی حقیقت سمجھتے تھے، چنانچہ اُن کے زمانے میں دیہی سندھ میں حالات اتنے خراب ہوئے کہ قومی سطح کے رہنما یہ کہتے ہوئے پائے گئے کہ سندھ میں مشرقی پاکستان جیسی صورت حال پیدا ہوگئی ہے۔
جنرل پرویز کا ’’کمال‘‘ یہ ہے کہ انہیں نائن الیون کے بعد پوری دنیا نے ایک ٹیلی فون کال پر ’’جُون‘‘بدلتے دیکھا۔ نائن الیون کے بعد امریکہ سے آنے والی ٹیلی فون کال وصول کرنے سے قبل جنرل پرویزمشرف صرف چیف آف آرمی اسٹاف اور صدرِ مملکت تھے، لیکن کال کے ختم ہونے تک جنرل پرویز ’’ریاست پاکستان‘‘ بن چکے تھے۔ کال کرنے والے نے اُن سے کہا تھا کہ آپ یا تو ہمارے ساتھ ہیں یا پھر امریکہ کے خلاف ہیں۔ اصولی اعتبار سے جنرل پرویزمشرف کو کہنا چاہیے تھا کہ آپ مجھے چند دن کی مہلت دیں، ذرا میں اپنے کور کمانڈرز سے پوچھ لوں، اپنی کابینہ سے مشورہ کرلوں، پارلیمنٹ سے منظوری لے لوں، ذرا میں ذرائع ابلاغ میں بحث کراکے آپ کے حق میں فضا پیدا کرلوں۔ خیر سے جنرل پرویز کے کور کمانڈرز، اُن کی کابینہ‘ اُن کی پارلیمنٹ اور اُن کے ذرائع ابلاغ بھی اتنے ہی ’’ذہین‘‘ اور اتنے ہی ’’محب وطن‘‘ تھے جتنے خود جنرل پرویز تھے، اور یہ سب بالآخر وہی کہتے جو جنرل پرویز نے ٹیلی فون کال پر کہا۔ مگر جنرل پرویز کسی سے مشورے کی مہلت بھی طلب نہ کرسکے، وہ ایک لمحے میں کور کمانڈرز، کابینہ، پارلیمنٹ، ذرائع ابلاغ، پوری قوم بلکہ ’’ریاست‘‘ بن گئے۔
ہمارے سول حکمران جرنیلوں سے کم متکبر اور خودپسند نہیں۔ مگر جرنیلوں نے سول حکمرانوں کو کبھی گریڈ 23 یا گریڈ 24کے افسر سے زیادہ اہمیت نہیں دی۔ چنانچہ بھٹو صاحب اور میاں نوازشریف کی طرح کوئی سول حکمران خود کو ریاست نہ باور کرا سکا۔ بھٹو صاحب نے جب یہ کہا کہ میری کرسی بہت مضبوط ہے تو وہ دراصل یہی کہہ رہے تھے کہ میں ریاست ہوں۔ اُن کا خیال تھا کہ مجھے پھانسی دی گئی تو پہاڑ روئیں گے اور سندھ میں خون کی ندیاں بہہ جائیں گی۔ ان خیالات کی پشت پر بھی یہی بات تھی کہ میں اور ریاست دو جداگانہ حقائق نہیں ہیں۔ میاں نوازشریف نے ابھی حال ہی میں اپنی نااہلی کے بعد جس طرح سپریم کورٹ کی عزت وحرمت کو مسلسل پیروں تلے روندا ہے اور جس طرح انہوں نے ایک دن میں خود کو نواز لیگ کا صدر بنوایا ہے وہ بھی یہی بتارہا ہے کہ میاں صاحب ’’سیاسی بغض‘‘ کی حالت میں بھی خود کو ریاست سمجھنے سے باز نہیں رہ سکے ہیں۔
یہ ہماری قومی زندگی کی ایک ہولناک حقیقت ہے کہ اپنے مفادات کے لیے حکمران حکومت سے ریاست بن جاتے ہیں، مگر جب اُن کے ’’فرائض‘‘ کا معاملہ آتا ہے تو وہ ریاست کیا، ’’حاکم‘‘ بھی ثابت نہیں ہوتے۔ اس کی سب سے بڑی مثال یہ ہے کہ ملک و قوم کی آزادی کا دفاع حکمرانوں کا سب سے بڑا فرض ہے، مگر پاکستان کے فوجی اور سول حکمران پچاس سال سے امریکہ اور یورپ کی غلامی کررہے ہیں۔ امریکہ جب چاہتا ہے ملک میں مارشل لا آجاتا ہے۔ امریکہ جب حکم دیتا ہے جمہوریت بحال ہوجاتی ہے۔ جنرل ایوب بڑے تیس مار خان بنتے تھے مگر وہ امریکہ کی غلامی میں اتنا آگے بڑھ گئے تھے کہ انہیں امریکہ کی غلامی کے احساس سے نجات حاصل کرنے کے لیے ایک کتاب لکھوانی پڑی۔ اس کتاب کا مرکزی خیال یہ بات تھی کہ ہم امریکہ کے دوست ہیں اُس کے غلام نہیں۔ لیکن آزادی گفتار سے نہیں عمل سے آشکار ہوتی ہے، اور جنرل ایوب کبھی یہ ثابت نہ کرسکے کہ وہ امریکہ کے غلام نہیں تھے۔ جنرل پرویزمشرف ’’بش پرستی‘‘ میں اتنا آگے بڑھے کہ انہیں مغربی ذرائع ابلاغ نے ’’بشرف‘‘ کا خطاب عطا کردیا۔ میاں نوازشریف کا امریکہ سے یہ تعلق ہے کہ امریکہ نے کھل کر کہہ دیا ہے کہ اسے پاکستان میں نواز لیگ کی حکومت کے مستقبل کے حوالے سے تشویش ہے۔ جنرل باجوہ نے ابھی کچھ عرصہ پہلے فرمایا تھا کہ دنیا ہم سے بہت Do More کہہ چکی، اب ہم دنیا سے کہیں گے Do More۔ مگر جو کچھ ہورہا ہے وہ پوری قوم کے سامنے ہے۔ امریکہ نے پھر سے Do More کہنا شروع کردیا ہے اور ہم نے ڈونلڈ ٹرمپ کے الفاظ میں امریکہ کا احترام کرتے ہوئے
چھٹتی نہیں ہے منہ سے یہ کافر لگی ہوئی
گانا شروع کردیا ہے۔
ہمیں آزاد ہوئے 70 سال ہوگئے ہیں، اس عرصے میں حکمرانوں کو ایسا نظام وضع کرلینا چاہیے تھا کہ ملک کا ہر شہری تعلیم یافتہ ہوجاتا۔ مگر وطنِ عزیز میں تعلیم یافتہ افراد کیا، خواندہ افراد کی تعداد بھی ابھی تک پچاس پچپن فیصد ہے۔ بدقسمتی سے ماہرین ان اعداد وشمار کو بھی مشتبہ کہتے ہیں۔ آزادی کے 70 سال بعد بھی ہمارے ڈھائی کروڑ بچے اسکولوں سے باہر ہیں۔ ملک میں اعلیٰ تعلیم کا یہ حال ہے کہ جامعات کی سطح پر 60 فیصد طلبہ نجی جامعات میں پڑھ رہے ہیں۔ اس کے معنی یہ ہیں کہ حکمران طبقے نے اعلیٰ تعلیم کو غریب کیا، متوسط طبقے کے لیے بھی ایک ’’خواب‘‘ بنادیا ہے۔ اصولی اعتبار سے اعلیٰ تعلیم کو طلبہ کی اہلیت کے ساتھ منسلک ہونا چاہیے تھا، مگر ہمارے حکمرانوں نے اسے ’’سرمائے‘‘ کے ساتھ وابستہ کردیا ہے۔ پرائمری سطح پر بھی تعلیم نجی شعبے کے حوالے ہوچکی ہے، اور اس سطح پر بھی اچھی اور معیاری تعلیم وہی حاصل کرسکتا ہے جو مالدار ہے اور جو مہنگے نجی اسکولوں میں پڑھ سکتا ہے۔ سوال یہ ہے کہ اس دائرے میں حکمرانوں کو کیوں خود کو ریاست میں ڈھالنے کا خیال نہیں آتا؟ اور وہ کیوں نہیں کہتے کہ ہر سطح پر قوم کو معیاری اور سستی تعلیم فراہم کرنا ریاست کا ’’فرض‘‘ ہے۔ ہمیں آزاد ہوئے 70 سال ہوگئے، مگر آج بھی ہمارے 70 فیصد لوگ بیمار پڑتے ہیں تو ان کے علاج کے لیے کوئی مستند طبیب مہیا نہیں ہوتا۔ سرکاری اسپتالوں کا حال پتلا ہے اور نجی اسپتالوں کے اخراجات عوام کی اکثریت برداشت نہیں کرسکتی۔ اس صورت حال کا مفہوم یہ ہے کہ حکمرانوں نے عوام کی عظیم اکثریت کو امراض میں مبتلا ہونے بلکہ مرنے کے لیے چھوڑ دیا ہے۔ سوال یہ ہے کہ اس شعبے میں حکمرانوں کو کیوں خیال نہیں آتا کہ وہ ریاست ہیں اور قوم کو بہتر طبی سہولتیں فراہم کرنا اُن کا ’’فرض‘‘ ہے۔ پانی زندگی کی بنیادی ضرورت ہے، مگر پاکستان کے حکمرانوں نے صاف پانی کو بھی ’’تعیش‘‘ بنادیا ہے۔ پاکستان کے سب سے بڑے اور جدید شہر کراچی کی نصف آبادی بوند بوند پانی کو ترس رہی ہے۔ جن لوگوں کو پانی فراہم ہورہا ہے وہ حفظانِ صحت کے اصولوں کے مطابق نہیں۔ کوئٹہ میں پانی کی قلت اتنی سنگین ہوگئی ہے کہ بہت جلد کوئٹہ کی پوری آبادی کو کہیں اور منتقل کرنا پڑے گا۔ اس شعبے میں المناکی کی انتہا یہ ہے کہ ’’منرل واٹر‘‘ کے اکثر نمونے بھی جعلی ہیں اور منرل واٹر فروخت کرنے والے اکثر ادارے عوام کی صحت سے کھیل رہے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ اس شعبے میں حکمرانوں کو کیوں ریاست بن کر کھڑا ہونے کا خیال نہیں آتا اور وہ کیوں نہیں کہتے کہ پانی جیسی بنیادی ضرورت مہیا کرنا ریاست کی ذمے داری ہے؟ اس صورت حال کا مفہوم اس کے سوا کیا ہے کہ دنیا میں حکمرانوں کے جتنے فرائض ہیں پاکستان کے حکمران اُن میں سے ایک فرض بھی ادا نہیں کررہے۔ البتہ انہیں اپنے تمام حقوق یاد ہیں۔ وہ حق بھی جو کبھی حکمرانوں کا حق نہیں رہا، مثلاً فتویٰ دینا۔ فتویٰ دینا مفتی کا کام ہے اور اس کام کے لیے دین کے گہرے فہم کی ضرورت ہے، مگر ہمارے حکمرانوں کو دین کا فہم چھو کر بھی نہیں گزرا، چنانچہ اگر فتویٰ بھی ان کے ہاتھ میں آیا تو وہ فتوے کو بھی تماشا بنادیں گے، ٹھیک اسی طرح جس طرح انہوں نے ملک میں سیاست، جمہوریت، انصاف، معیشت، معاشرت اور قومی عزت و وقار کو تماشا بنایا ہوا ہے۔ اگر فتوے کو ریاست کے ہاتھ میں دینے سے مراد یہ ہے کہ اب سرکاری مفتی فتویٰ دیں گے تو عرض یہ ہے کہ جس طرح درباری وکیل، درباری جج اور درباری صحافی شرمناک ترین مخلوقات ہیں اسی طرح درباری مفتی بھی ایک شرمناک حقیقت ہوں گے اور اُن سے فتوے کا پورا ادارہ ہی منہدم ہوجائے گا۔ ہماری بدقسمتی اور شامتِ اعمال ہے کہ جن لوگوں کو سائیکل چلانے کی بھی اجازت نہیں ہونی چاہیے وہ 70 سال سے ملک چلارہے ہیں۔ یہاں ’’ملک چلانے‘‘ کی بات بھی غلط ہے۔ اس لیے کہ پاکستان کے حکمران ملک چلا کہاں رہے ہیں؟ وہ تو ملک کو گھسیٹ رہے ہیں۔ اتفاق سے اس ضمن میں سول اور فوجی کی کوئی تخصیص نہیں۔
ہمارے حکمران خود کو ’’جدید حکمران‘‘ اور پاکستان کو ’’جدید ریاست‘‘ کہتے ہیں، لیکن انہیں جدید کیا قدیم حکمرانوں سے بھی کچھ لینا دینا نہیں۔ ابن خلدون مسلم دنیا کا سب سے بڑا ماہر عمرانیات ہے، بلکہ اسے عمرانیات کا بانی بھی کہا جاتا ہے۔ اُس نے آج سے چھے ساڑھے چھے سو سال پہلے اپنی مشہورِ زمانہ تصنیف ’’مقدمۂ ابن خلدون‘‘ میں حکمرانوں کے اوصاف پر بھی گفتگو کی ہے، ابن خلدون نے لکھا:
’’ایسے لوگ کمزوروں اور عاجزوں کا بوجھ اٹھا لیتے ہیں، مہمان نواز ہوتے ہیں، فقراء کی سخت باتیں برداشت کرلیتے ہیں، اپاہجوں کی خیر خبر رکھتے ہیں، یتیموں کے سر پر ہاتھ پھیرتے ہیں، غریب و نادار اشخاص کا کام کرا دیتے ہیں، مصائب پر صبر کرلیتے ہیں، عہد پورا کرتے ہیں، عزت و آبرو کی حفاظت میں مالی قربانیان پیش کرتے ہیں، شریعت کا احترام کرتے ہیں، علماء کی عزت کرتے ہیں، شریعت کے احکامات جاننے والے ہیں۔ علماء ان کے لیے جو کام مقرر کرتے ہیں اُن پر عمل پیرا رہتے ہیں، جن کاموں سے روکتے ہیں اُن سے باز رہتے ہیں۔ ان کے بارے میں اچھے گمان رکھتے ہیں۔ دینداروں سے محبت رکھتے ہیں، ان سے برکتیں حاصل کرتے ہیں، ان کی دعائیں لیتے ہیں۔ اکابر و مشائخ سے شرماتے ہیں، ان کا ادب کرتے ہیں جو انہیں حق کی طرف بلاتے ہیں اور حکمران لپک کر حق کی طرف جاتے ہیں۔ کمزوروں کے ساتھ انصاف اور حسنِ سلوک کرتے ہیں اور ان کے حالات سنوارنے کے لیے ان پر مال بھی خرچ کرتے ہیں۔ حق کے آگے جھکے رہتے ہیں۔ مسکینوں سے عاجزی سے پیش آتے ہیں۔ دکھیوں کی شکایتیں سن کر ان کے دکھ رفع کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ دین دار ہوتے ہیں، عبادتوں پر قائم رہتے ہیں۔ غداروں سے، مکر و فریب سے، بدعہدی اور اسی طرح کی دوسری عادتوں سے دور رہتے ہیں۔‘‘ (مقدمۂ ابن خلدون، حصہ اول۔ صفحہ 373اور374)
ابن خلدون نے چھے ساڑھے چھے سو سال قبل حکمرانوں کے جو عام اوصاف بیان کیے ہیں انہیں پڑھ کر خیال آتا ہے کہ پاکستان کے موجودہ حکمران طبقات سے آئندہ چھے سو برس میں بھی ان اوصاف کے حامل افراد فراہم نہیں ہوسکتے۔
پاکستان کے حکمران طبقے کی ’’خوش قسمتی ‘‘ یہ ہے کہ پاکستان میں ’’شعور‘‘ کا کال پڑا ہوا ہے۔ عوام کی اکثریت حقیقی معنوں میں ’’اخلاقی تصورات‘‘ کے تحت زندگی بسر نہیں کررہی۔ ایسا نہ ہوتا تو عوام یا تو اپنے لیے خود ہی بہترحکمران مہیا کرچکے ہوتے یا کم از کم وہ پاکستان کے موجودہ حکمران طبقے کی بنیاد کو کھود چکے ہوتے۔