بعض باتیں ایسی ہوتی ہیں جنہیں سن یا پڑھ کر آدمی حیران، ہکا بکا اور ششدر رہ جاتا ہے۔ امریکہ کے باطن یعنی ڈونلڈ ٹرمپ نے چند روز پیشتر ایک ایسی ہی بات کہی ہے۔ واشنگٹن میں اردن کے شاہ عبداللہ سے ملاقات کے بعد نیوز کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے امریکہ کے صدر نے داعش کے خاتمے کے عزم کا اعادہ کیا اور فرمایا:
’’ہم داعش کا خاتمہ کریں گے اور تہذیب کا تحفظ کریں گے۔‘‘
تہذیب کا تحفظ؟ یہ کام تو ’’مہذب لوگ‘‘ کرتے ہیں، اور امریکہ کیا پورا مغرب کبھی مہذب نہیں رہا۔ کم از کم مغرب کی ’’سرکاری حیثیت‘‘ یا Official Position یہی ہے۔ لیکن یہاں سوال یہ ہے کہ تہذیب کا مفہوم کیا ہے؟
مولانا رومؒ نے اس سوال کا جواب ایک فقرے میں دیا ہے۔ مولانا نے فرمایا ہے: اصل تہذیب ’’احترامِ آدمیت‘‘ ہے۔ تو کیا مغرب کی تاریخ احترامِ آدمیت کی تاریخ ہے، یا مغرب کی تاریخ آدمیت کی تذلیل کی تاریخ ہے؟ اس سلسلے میں ہمیں اکبر الٰہ آبادی کا ایک شعر بھی یاد آرہا ہے۔ اکبر نے کہا ہے
سید کی روشنی کو اللہ رکھے باقی
بتیّ بہت ہے موٹی روغن بہت ہی کم ہے
اس شعر میں سید سے مراد سرسید ہیں۔ اکبر کہہ رہے ہیں کہ سرسید نے جدید علوم کی جو شمع یا لالٹین روشن کی ہے اُس کا مسئلہ یہ ہے کہ اس کی بتی تو بہت موٹی ہے مگر اس لالٹین میں تیل بہت ہی کم ہے، اور ظاہر ہے کہ روشنی روغن یعنی تیل سے ہوتی ہے بتی سے نہیں۔ اس کے معنی یہ ہیں کہ تہذیب کا ایک مفہوم شعور ہے، اور اکبر کے شعر میں اصل شکایت یہ ہے کہ سید کی لالٹین کی بتی موٹی ہے، یعنی ظاہر بڑا اور نمایاں ہے لیکن شعور کم ہے۔ اردو میں اس کو کہتے ہیں نام بڑا اور درشن چھوٹے۔ کھودا پہاڑ نکلا چوہا۔ لفظ بڑا اور مفہوم چھوٹا۔ یہاں اقبال کا یہ شعر یاد آنا ہی تھا
نظر کو خیرہ کرتی ہے چمک تہذیبِ حاضر کی
یہ صنّاعی مگر جھوٹے نگوں کی ریزہ کاری ہے
مطلب یہ کہ تہذیب کا پروپیگنڈا زیادہ، تہذیب برائے نام۔ لیکن یہاں ہم مولانا روم کی تعریف کی طرف لوٹتے ہیں ’’اصل تہذیب احترامِ آدمیت ہے‘‘۔ سوال یہ ہے کہ مغرب نے کبھی آدمیت کا احترام کیا ہے؟
انسانی تاریخ میں آدمیت کی سب سے بڑی اور سب سے روشن مثال رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سردار الانبیا ہیں۔ باعثِ تخلیقِ کائنات ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم خیر مجسم ہیں۔ آپؐ کی حیاتِ طیبہ کا ایک ایک لمحہ خدا مرکز ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت کی پیشگوئی بائبل میں موجود ہے۔ لیکن عیسائی مغرب نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو سردار الانبیا کیا صرف پیغمبر بھی تسلیم نہیں کیا۔ مغرب یہ تو کہتا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم تاریخ کی بڑی شخصیات میں سے ایک ہیں۔ آپ عبقری یا Genius ہیں، مگر عیسائیت کی سرکاری پوزیشن آج بھی یہ ہے کہ آپؐ پیغمبر نہیں ہیں۔ چنانچہ عیسائی مغرب اسلام کو آسمانی مذہب نہیں سمجھتا، بلکہ اس کا کہنا یہ ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے معاذ اللہ کچھ یہودیت سے لیا، کچھ عیسائیت سے لیا اور کچھ اپنی طرف سے ایجاد کرکے اسلام کے نام سے ایک نیا مذہب گھڑ لیا۔ اہم بات یہ ہے کہ مغرب نے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے سلسلے میں صرف انکارِ رسالت پر اکتفا نہ کیا بلکہ اس نے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی توہین کو ایک ’’علم‘‘ بنانے کی سازش کی۔ چنانچہ مستشرقین نے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی ازواج کی تعداد پر اعتراضات کیے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے جہاد و قتال پر اعتراضات کیے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ریاست و سیاست سے متعلق معاملات پر اعتراضات کیے، اور صرف عام اعتراضات نہیں، رکیک اعتراضات۔۔۔ یہاں تک کہ نزولِ وحی کے وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی جو کیفیت ہوتی تھی اسے مرگی کے دورے سے تعبیر کیا۔ کیا تہذیب یافتہ افراد یا اقوام ایسا ہی کرتے ہیں؟ یہ بات تاریخی ریکارڈ کا حصہ ہے کہ صلیبی جنگوں کا آغاز مسلمانوں یا مغرب کے کسی عام فرد نے نہیں اُس وقت کے پوپ اربن دوئم نے کیا۔ اس نے کہا کہ معاذ اللہ اسلام ایک شیطانی مذہب ہے اور عیسائیوں کا فرض ہے کہ وہ شیطانی مذہب کے پیروکاروں کا نام و نشان مٹادیں۔ یہ مغربی تہذیب کی سب سے بڑی شخصیت کا بیان تھا۔ سوال یہ ہے کہ جس تہذیب کی سب سے بڑی شخصیت کی تہذیب کا یہ حال ہو وہ تہذیب کتنی ’’مہذب‘‘ ہوگی؟ بیسویں صدی کے آخر تک آتے آتے مغرب نے یہ واردات کی کہ سلمان رشدی پیدا کردیا، تسلیمہ نسرین ایجاد کرلی، یہاں تک کہ مغرب میں رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے کارٹون بناکر اسے ’’آزادئ اظہار‘‘ کا نام دے دیا۔ مزے کی بات یہ ہے کہ مغرب میں عام آدمی کی عزت کے تحفظ کے لیے سخت قوانین موجود ہیں، مگر اسلامی تہذیب کی سب بڑی ہستی کی تکریم کے تحفظ کی وہاں کوئی صورت نہیں۔ کیا یہی مغرب کی تہذیب ہے؟ لیکن یہ تو مغرب کے بارے میں مسلمانوں کا نقطۂ نظر ہے۔
اس سلسلے میں خود مغرب کا بھی ایک زاویۂ نگاہ موجود ہے۔ مغرب کی تاریخ کے دو حصے ہیں۔ ایک عیسائی مغرب، دوسرا سیکولر اور لبرل مغرب۔ یہاں کہنے کی اصل بات یہ ہے کہ جدید مغرب خود عیسائی مغرب کو Dark Ages یعنی دورِ ظلمات یا تاریک ادوار میں گھرا ہوا مغرب قرار دیتا ہے۔ اہم بات یہ ہے کہ تاریک ادوار میں گھرے ہوئے مغرب کا زمانہ دو چار سال، یا دوچار دہائی نہیں۔۔۔ ہزار بارہ سو سال ہے۔ ظاہر ہے کہ مغرب نے جو زمانہ تاریکی میں بسر کیا ہے اُس میں تہذیب یا احترامِ آدمیت تو ہرگز موجود نہ ہوگا۔ خود جدید مغرب اس سلسلے میں مثالیں پیش کرتا رہتا ہے۔ جدید مغرب بتاتا ہے کہ Dark Ages میں گھرا ہوا مغرب توہم پرست تھا۔ دورِ ظلمات میں مبتلا مغرب میں چرچ اور بادشاہ کا گٹھ جوڑ وجود میں آچکا تھا، اور یہ دونوں ادارے مل کر عوام کا استحصال کررہے تھے۔ تاریکی میں ڈوبے ہوئے مغرب کا یہ حال تھا کہ مذہبی طبقات سائنس دانوں اور اُن کے انکشافات و اکتشافات کے دشمن ہوگئے تھے اور سائنس دانوں کو زندہ جلایا جارہا تھا، ان پر سرعام تشدد ہورہا تھا اور ان سے کہا جارہا تھاکہ وہ کائنات سے متعلق اپنے نظریات واپس لیں، اور سائنس دان جان بچانے کے لیے ایسا کررہے تھے۔ سوال یہ ہے کہ اس منظرنامے میں تہذیب کہاں ہے؟ احترامِ آدمیت کہاں ہے؟ جسم میں روح اور لفظ میں معنی کہاں ہیں؟
جدید مغرب نوآبادیات، توسیع پسندی اور دوسری اقوام کو غلام بنانے، ان کے وسائل لوٹنے، ان کی تہذیب و ثقافت اور لسانی روایت کو تباہ کرنے کی علامت ہے۔ اہم بات یہ ہے کہ نوآبادیاتی تجربہ دس بیس سال پر نہیں بلکہ ڈیڑھ سو، دوسو سال پر محیط ہے۔ سوال یہ ہے کہ جو تہذیب ڈیڑھ سو دوسو سال تک یہ سب کرسکتی ہے کیا وہ مہذب کہلا سکتی ہے؟ کیا اس کے دل میں آدمیت کے احترام کی رمق بھی موجود ہوسکتی ہے؟
اس سلسلے میں مغرب کی تین بڑی شخصیات کے بیانات تاریخی ریکارڈ کا حصہ ہیں۔ ان بیانات کے مطابق نٹشے نے کہا کہ خدا مر گیا ہے۔ آندرے مالرو نے اعلان کیا کہ انسان مرچکا ہے، اور ڈی ایچ لارنس نے چیخ کر کہا کہ انسانی تعلقات کا ادب موت سے ہمکنار ہوچکا ہے۔ سوال یہ ہے کہ جس تہذیب میں یہ تینسانحات وقوع پذیر ہوچکے ہوں کیا وہ زندہ تہذیب ہوگی؟ کیا اس تہذیب کے دائرے میں زندگی بسر کرنے والے مہذب کہلانے کا حق رکھتے ہوں گے؟ اور کیا ایسی تہذیب سے وابستہ لوگوں کے دلوں میں احترامِ آدمیت کی کوئی رمق موجود ہوگی؟ بدقسمتی سے خود مغرب کے مفکرین اس سلسلے میں مغرب کے خلاف گواہ بن کر کھڑے ہیں۔ مغرب کے ممتاز مؤرخ اشپنگلر نے 20 ویں صدی کی ابتدائی دہائی میں ’’زوالِ مغرب‘‘ جیسی معرکہ آراء کتاب لکھ کر گواہی دی کہ مغربی تہذیب زوال پذیر ہوچکی ہے۔ مغرب کے دوسرے ممتاز مؤرخ ٹوائن بی نے ایک گفتگو میں اس بات کی تصدیق کی کہ مغربی تہذیب مرچکی ہے البتہ اگر اس میں کسی طرح کی روحانیت داخل کردی جائے اور جدید مغربی تہذیب ٹیکنالوجی کی محبت سے جان چھڑالے تو اس تہذیب کو مکمل طور پر مرنے سے بچایا جاسکتا ہے۔ مغرب کے ممتاز اور نوبل انعام یافتہ ادیب ٹی ایس ایلیٹ نے اپنی مشہور زمانہ نظم Waste Land میں اعتراف کیا ہے کہ جدید مغرب بنجر سرزمین بن چکا ہے۔ امریکہ کی ممتاز دانشور آنجہانی سوسن سونٹیک نے ایک مضمون میں مغرب کی سب سے بڑی علامت امریکہ کے بارے میں صاف کہا کہ امریکہ کی بنیاد نسل کُشی پہ رکھی ہوئی ہے۔ امریکہ کے ممتاز دانشور نوم چومسکی امریکہ کو دنیا کی سب سے بدمعاش ریاست کہتے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ جس تہذیب کے بارے میں خود مغرب کے فلسفی، دانشور اور ادیب یہ سب کچھ کہہ رہے ہوں وہ تہذیب کیا ’’مہذب‘‘ اور احترامِ آدمیت کی حامل ہوسکتی ہے؟
ہمیں یاد رکھنا چاہیے کہ جدید مغرب صدیوں سے نسل پرست ہے۔۔۔ اور نسل پرست تہذیب، نسل پرست اقوام کبھی مہذب نہیں ہوسکتیں۔ اس لیے کہ نسل پرستی ایک پست جذبہ ہے۔ وحشیوں کا جذبہ ہے۔ حقیقی تہذیب آدمی کو اس جذبے سے اوپر اٹھاتی ہے۔ لیکن مغرب صدیوں سے نسل پرست چلا آرہا ہے۔ ہم سب جانتے ہیں کہ امریکہ کبھی ریڈ انڈینز کا ملک تھا، لیکن سفید فام یورپی باشندوں نے امریکہ پر قبضہ کرکے دو کروڑ ریڈ انڈینز کو مار ڈالا اور پورے امریکہ پر قبضہ کرلیا۔ یہی کہانی آسٹریلیا میں دہرائی گئی۔ آسٹریلیا ایب اوریجنلز کا ملک نہیں براعظم تھا۔ مگر سفید فام یورپیوں نے پورے براعظم پر قبضہ کرکے چالیس لاکھ سے زیادہ مقامی باشندوں کو مار ڈالا۔ یہی کہانی یورپی اقوام نے اپنے مقبوضات میں دہرائی۔ اہم بات یہ ہے کہ ان سب کی بنیاد نسل پرستی اور توسیع پسندی پر رکھی ہوئی تھی۔ ہمیں نہیں بھولنا چاہیے کہ مغرب قوم پرست رہا ہے، اور ہر مغربی ملک میں قوم پرستی ایک بار پھر سر اٹھا رہی ہے۔ بلاشبہ قوم پرستی بھی تہذیب کی ضد ہے۔ اس لیے کہ قوم پرستی کی بنیاد نسل، جغرافیے اور زبان پر رکھی ہوئی ہے۔۔۔ کسی روحانی، اخلاقی یا علمی فضیلت پر نہیں۔ سوال یہ ہے کہ جو قومیں نسل پرست اور قوم پرست ہوں وہ مہذب ہوسکتی ہیں؟
جدید مغرب کے سلسلے میں ہمیں مغرب کے ممتاز ماہر نفسیات ایرک فرام کی بات بھی غور سے سننی چاہیے۔ ایرک فرام فرائیڈ کا شاگرد ہے، اس کا شمار مغرب کے چار پانچ بڑے ماہرین نفسیات میں ہوتا ہے۔ ایرک فرام نے”The Anatomy of Human Destructiveness” کے عنوان سے ایک زبردست کتاب لکھی ہے۔ اس کتاب میں ایرک فرام نے کہا ہے کہ انسان بھی دوسرے حیوانوں کی طرح ایک حیوان ہے، لیکن یہ حیوان دوسرے حیوانوں سے اس لیے مختلف ہے کہ دوسرے حیوان قاتل یا Killer نہیں ہیں مگرانسان قاتل یا Killer ہے۔ یہاں اس امر کی وضاحت ضروری ہے کہ انسان سے ایرک فرام کی مراد جدید مغربی انسان ہے۔ ایرک فرام نے صاف کہا ہے کہ ماقبل تاریخ کا انسان بھی تباہی پسند یا Destrutive تھا مگر اُس کی تباہی اپنے دفاع اور بقا سے متعلق تھی، لیکن تاریخ کے دائرے میں چہل قدمی کرتا ہوا انسان حقیقی معنوں میں قاتل ہے۔ اس سلسلے میں ایرک فرام نے گزشتہ پانچ سوسال کے دوران لڑی جانے والی جنگوں کے اعداد و شمار پیش کیے ہیں۔ یہ اعداد و شمار ہم پہلے بھی اپنے کالموں میں پیش کرچکے ہیں۔ قارئین کی ’’یاددہانی‘‘ کے لیے ہم ایک بار پھر یہ اعداد و شمار پیش کررہے ہیں۔ ایرک فرام کے مطابق مغرب نے گزشتہ تقریباً پانچ سو برس میں جو جنگیں لڑیں ان کی تفصیل یہ ہے:
1480ء سے 1499ء تک
9 جنگیں
1500ء سے 1599ء تک
87 جنگیں
1600ء سے 1699ء تک
239 جنگیں
1700ء سے 1799ء تک
781 جنگیں
1800ء سے 1899ء تک
651 جنگیں
1900ء سے 1940ء تک
892 جنگیں
اس طرح مغربی اقوام نے 1480ء سے 1940ء تک 2659 جنگیں لڑیں۔
(The anatomey of Human Destractiveness Page -243)
جنگوں کی اس فہرست کو دیکھا جائے تو مغرب نے گزشتہ پانچ سوسال میں جنگوں کو زندگی کا ’’معمول‘‘ بنادیا۔ سوال یہ ہے کہ جو اقوام اتنی جنگجو ہوں وہ مہذب یا احترام آدمیت کی حامل ہوسکتی ہیں؟
مغرب کی جنگ پسندی کی تازہ ترین مثالیں ہم نے نائن الیون کے بعد ملاحظہ کیں۔ امریکہ نے نائن الیون کی آڑ میں کسی ٹھوس ثبوت کے بغیر افغانستان پر حملہ کیا اور ابتدائی پانچ چھ برسوں میں ایک لاکھ عام افراد کو مار ڈالا۔ مغرب نے صدام حسین پر الزام لگایا کہ اس کے پاس بڑے پیمانے پر تباہی پھیلانے والے ہتھیار ہیں۔ اس الزام کی آڑ میں مغرب نے عراق کی اینٹ سے اینٹ بجادی اور ابتدائی پانچ برسوں میں چھے لاکھ عراقی مار ڈالے۔ مغرب نے بگرام ایئربیس، ابوغریب جیل اور گوانتاناموبے کے عقوبت خانے ایجاد کیے اور ان میں سے کسی بات پر معذرت تک کی زحمت نہ کی، حالانکہ ثابت ہوگیا کہ صدام حسین کے پاس بڑے پیمانے پر تباہی پھیلانے والے ہتھیار نہ تھے۔ یہ کھیل بھی ہماری آنکھوں کے سامنے ہے کہ مغرب نے لیبیا کو تباہ کیا، شام کو برباد کیا اور اب ڈونلڈ ٹرمپ نے شام میں کیمیائی ہتھیاروں کے دوبارہ استعمال کے بعد شام پر میزائل داغے ہیں تو اس میں بھی غیر اہم لوگوں کو نشانہ بنایا گیا ہے۔ بشارالاسد جو شام کی تباہی کا ذمہ دارہے اب بھی پوری طرح محفوظ ہے۔ یہ بھی تازہ ترین واقعہ ہے کہ مصر کے فوجی آمر جنرل سیسی نے شام پر میزائل داغنے والے ڈونلڈ ٹرمپ سے حال ہی میں ملاقات کی ہے۔ اس ملاقات میں ڈونلڈ ٹرمپ نے جنرل سیسی کی تعریف فرمائی اور کہا کہ آپ نے مصر میں بڑا “Fantastic” کام کیا ہے؟ سب جانتے ہیں کہ جنرل سیسی کا Fantastic کام یہ ہے کہ اس نے اخوان المسلمون کے منتخب صدر کو کسی اخلاقی اور سیاسی جواز کے بغیر اقتدار سے بے دخل کیا۔ چند دنوں میں اخوان کے پانچ چھ ہزار کارکنوں کو سڑکوں اور گلی کوچوں میں گولیاں مار کر، ان پر ٹینک چڑھا کر شہید کیا۔ دس ہزار سے زیادہ اخوانیوں کو زخمی کیا اور مزید ہزاروں کو جیلوں میں ٹھونس دیا۔ سوال یہ ہے کہ کیاFantastic کام اسی کو کہتے ہیں؟ اہم بات یہ ہے کہ پورے مغرب نے اس Fantastic کام پر خاموشی اختیار کیے رکھی۔ سوال یہ ہے کہ جو لوگ انسانوں کے قتلِ عام، ان پر تشدد اور ان کے حقوق پر ڈاکے کو Fantastic کام قرار دیں اور جو اس کام پر خاموش رہیں وہ مہذب اور احترامِ آدمیت کے حامل ہوسکتے ہیں؟ کیا ان کے جسم میں انسانوں کی روح ہوسکتی ہے؟ کیا ان کی زندگی میں کوئی انسانی معنویت ہوسکتی ہے؟ یہ زیادہ پرانی بات نہیں کہ پوپ فرانسس نے کہا تھا کہ یورپ کی نئی نسلیں گمشدہ نسلیں یاLost Generatoins ہیں۔ یہ مغرب کی سب سے بڑی روحانی شخصیت کی گواہی ہے۔ اس گواہی پر ہم صرف اتنا اضافہ کریں گے کہ گمشدہ نسلیں کبھی مہذب اور احترام آدمیت کی حامل نہیں ہوسکتیں۔