ہماری زبان اور تہذیب میں ایک دور ایسا بھی گزرا ہے جب بزرگوں کو ازراہِ احترام ’’قبلہ و کعبہ‘‘ کہا جاتا تھا۔ ہماری معاشرتی اور تہذیبی زندگی میں اس زمانے کو گزرے اب عرصہ ہوگیا ہے۔ فی زمانہ اگر کوئی چھوٹا، بڑوں کو صرف ’’بزرگ‘‘ بھی تسلیم کرلے تو حیرت آمیز مسرت ہوتی ہے۔ لیکن اتفاق سے ہماری سیاست اور صحافت میں آج بھی اسٹیبلشمنٹ کو نہ صرف یہ کہ قبلہ و کعبہ سمجھا جاتا ہے بلکہ ہماری سیاست و صحافت اظہارِ عقیدت کے طور پر صبح سے شام تک اسٹیبلشمنٹ کا طواف کرتی نظر آتی ہیں۔ ہماری سیاست و صحافت اپنی تہذیب اور تاریخ بلکہ اپنے خدا اور رسول کی بات سنیں یا نہ سنیں، اسٹیبلشمنٹ کی بات ضرور مانتی ہیں۔ بدقسمتی سے کوئی سیاست دان، کوئی سیاسی جماعت، کوئی اخبار، کوئی ٹی وی چینل اور کوئی صحافی، کوئی کالم نگار، کوئی اینکر پرسن یہ ماننے کے لیے تیار نہیں ہوتا کہ وہ اسٹیبلشمنٹ کے گرد طواف کرتا ہے، لیکن کراچی میں مصطفی کمال کی پی ایس پی اور فاروق ستار کی ایم کیو ایم کے درمیان ہونے والی ’’مرغوں کی لڑائی‘‘ نے پاکستان کی سیاست، صحافت اور خود اسٹیبلشمنٹ کو پوری طرح ’’آشکار‘‘ کردیا ہے۔
کراچی میں ہونے والی مرغوں کی لڑائی کے ایک مرحلے پر اطلاع آئی کہ مصطفی کمال اور فاروق ستار کی جماعتوں میں ’’اتحاد‘‘ ہوگیا ہے۔ دوسرے مرحلے میں معلوم ہوا کہ دونوں کے درمیان اتحاد نہیں ’’انضمام‘‘ ہوا ہے۔ خود فاروق ستار نے اپنے آپ کو دلہا والا اور مصطفی کمال کو دلہن والا باور کرایا۔ تیسرے مرحلے پر مصطفی کمال اور فاروق ستار نے مشترکہ نیوز کانفرنس سے خطاب کیا۔ اس خطاب سے معلوم ہوا کہ دونوں جماعتیں ایک نام، ایک منشور اور ایک انتخابی نشان کے ساتھ آئندہ انتخابات میں شرکت کریں گی، نیز یہ کہ اس سلسلے میں دو طرفہ مشاورت جاری رہے گی۔ لیکن اگلے ہی دن فاروق ستار پی ایس پی اور ایم کیو ایم پاکستان کے ادغام سے مکر گئے۔ یہاں تک کہ انہوں نے ’’سنتِ الطافیہ‘‘ کی پیروی کرتے ہوئے سیاست سے دست برداری کا اعلان کردیا، لیکن جیسا کہ الطاف حسین ’’ناظرین‘‘ کے ’’بے حد اصرار‘‘ پر استعفیٰ لے لیتے تھے، ٹھیک اسی طرح فاروق ستار نے دوبارہ ایم کیو ایم پاکستان کی قیادت سنبھالنے کا اعلان کیا۔ وہ اس سلسلے میں اپنی والدہ تک کو ’’بروئے کار‘‘ لانے سے نہ ہچکچائے۔ فاروق ستار نے اس موقع پر فرمایا کہ انہوں نے آرمی چیف، آئی ایس آئی اور ایم آئی کے سربراہوں اور وزیراعظم کو ایک خط تحریر کیا ہے۔ انہوں نے ’’دھمکایا‘‘ کہ اگر مجھ پر مزید دبائو ڈالا گیا تو اس ’’خفیہ‘‘ خط کے مندرجات کو طشت ازبام کردوں گا۔ مرغوں کی اس لڑائی کا فیصلہ کن مرحلہ مصطفی کمال کی نیوز کانفرنس تھی۔ اس کانفرنس میں مصطفی کمال نے کوئی لفظ چبائے بغیر صاف کہا کہ ان کے اور فاروق ستار کے درمیان ایک “Safe House”میں مذاکرات ہوئے، اور یہ مذاکرات فاروق ستار کی خواہش پر اسٹیبلشمنٹ نے کرائے۔ انہوں نے انکشاف کیا کہ فریقین کے درمیان ملاقاتوں کا سلسلہ گزشتہ آٹھ ماہ سے جاری تھا۔ انہوں نے کہا کہ پی ایس پی کو اسٹیبلشمنٹ کی پارٹی کہنے والے فاروق ستار کی جماعت خود اسٹیبلشمنٹ کی پیداوار ہے۔ انہوں نے اعتراف کیا کہ وہ کسی بھی سیاسی رہنما سے زیادہ اسٹیبلشمنٹ کے ’’رابطے‘‘ میں ہیں۔ اس کی دلیل انہوں نے یہ دی کہ الطاف حسین ’را‘ کے ایجنٹ ہیں، اور کراچی میں ’را‘ کے ایجنٹ کا مقابلہ اسٹیبلشمنٹ کی مدد کے ذریعے ہی کیا جاسکتا ہے۔
مصطفی کمال نے فاروق ستار کے اس دعوے کو جھٹلانے کے لیے کہ ’دونوں جماعتوں کو باہم مدغم کرنے کا کوئی فیصلہ نہیں ہوا تھا‘ وہ تحریر بھی ذرائع ابلاغ کو مہیا کردی جو فاروق ستار کی ایم کیو ایم کے رہنما خواجہ اظہارالحسن کے ہاتھ سے لکھی گئی ہے اور جس میں صاف الفاظ میں واضح کیا گیا ہے کہ دونوں جماعتیں آئندہ انتخابات میں ایک نام، ایک منشور اور ایک انتخابی نشان کے تحت حصہ لیں گی۔ ایم کیو ایم پاکستان کے فیصل سبزواری نے مصطفی کمال کی نیوز کانفرنس کا جواب دیا مگر وہ اس جواب میں صرف بکری کی طرح ممیاتے نظر آئے۔ لیکن یہاں سوال یہ ہے کہ مصطفی کمال نے اپنے اور اسٹیبلشمنٹ کے تعلق کے بارے میں جو کچھ کہا اس کا مفہوم کیا ہے؟ اس سوال کا جواب بیک وقت دو سطحوں پر ہی دیا جاسکتا ہے۔ ایک سطح پر مصطفی کمال کے انکشافات کو ’’سیاسی بے حیائی‘‘ کے سوا کچھ نہیں کہا جاسکتا۔ لیکن دوسری سطح پر اُن کے انکشافات میں ایک ’’اخلاقی جرأت‘‘ موجود ہے۔ اخلاقی جرأت اس لیے کہ اسٹیبلشمنٹ کی ’’کٹھ پتلیاں‘‘ تو بہت ہیں مگر کوئی سیاسی رہنما اپنی اصل حیثیت کا اعتراف نہیں کرتا۔ اس اعتبار سے دیکھا جائے تو سیاسی جماعتیں خوش قسمت ہیں کہ ان میں کوئی مصطفی کمال موجود نہیں۔ ہوتا تو ہر سیاسی جماعت سے ایک ہی صدا آتی
ہم ’’ان کے‘‘ ہیں، ہمارا پوچھنا کیا؟
لیکن بدقسمتی سے یہ معاملہ صرف سیاست تک محدود نہیں۔ کراچی میں برپا ہونے والی ’’سیاسی مرغوں‘‘کی لڑائی میں پاکستانی صحافت کا بھیانک چہرہ بھی سامنے آگیا۔
اس اجمال کی تفصیل یہ ہے کہ فاروق ستار نے جیو کے شاہ زیب خانزادہ کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا کہ میں نے صورتِ حال کی اطلاع کے لیے آرمی چیف، آئی ایس آئی اور ایم آئی کے سربراہوں اور وزیراعظم کو خط لکھا ہے۔ مزے کی بات یہ ہے کہ شاہ زیب خانزادہ کو فاروق ستار کے خط کے مندرجات کا علم تھا۔ انہیں معلوم تھا کہ فاروق ستار اور مصطفی کمال کی ملاقات اسٹیبلشمنٹ نے کرائی ہے۔ انہیں معلوم تھا کہ ملاقات ایک Safe house میں ہوئی ہے۔ انہیں علم تھا کہ ملاقات 8 گھنٹے جاری رہی۔ انہیں خبر تھی کہ ملاقات میں پی ٹی آئی کے ایک رہنما بھی موجود تھے۔ فاروق ستار نے ان میں سے کسی بھی بات کی تصدیق سے انکار کیا مگر شاہ زیب نے بار بار مسکراتے ہوئے فخریہ کہا کہ انہیں ’’سب‘‘ معلوم ہے۔ صحافیوں کی ’’باخبری‘‘ بہت اچھی بات ہے۔ صحافیوں کا کام باخبر رہنا ہی ہے۔ مگر وہ باتیں جو صرف خفیہ اداروں کے متعلقہ اہلکاروں کو معلوم ہوتی ہیں ان کا کسی صحافی کو معلوم ہونا خفیہ اداروں اور صحافی کے تعلق کو مشتبہ بنادیتا ہے۔ اور سوال یہ پیدا ہوجاتا ہے کہ جو خفیہ ادارہ مخصوص اطلاع کسی صحافی کو دے رہا ہے وہ اس کے جواب میں صحافی سے بھی کچھ نہ کچھ طلب کرے گا، اور اس طرح کٹھ پتلی سیاست کی طرح کٹھ پتلی صحافت وجود میں آئے گی۔ اتفاق سے مرغوں کی لڑائی کے مابین ایک موقع پر مصطفی کمال یا فاروق ستار میں سے کسی نے زور دے کر یہ بات بھی کہی کہ تم سیاست دانوں کو کیا کہہ رہے ہو، ملک کا کون سا اینکر ہے جو اسٹیبلشمنٹ سے رہنمائی نہیں لیتا، یا جو اسٹیبلشمنٹ سے رابطے میں نہیں! اس تناظر میں دیکھا جائے تو جس طرح درجنوں ’’ممتاز سیاست دان‘‘مشتبہ قرار پائے ہیں اسی طرح ملک کے درجنوں ’’ممتاز‘‘ صحافی، کالم نگار، ایڈیٹرز، رپورٹرز اور اینکرز بھی مشتبہ دکھائی دے رہے ہیں۔ اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ عامل صحافیوں کا یہ ’’حال‘‘ ہے تو اخبارات و رسائل اور ٹیلی وژن چینلز کے ’’مالکان‘‘ کا کیا ’’حال‘‘ ہوگا؟
ہم گزشتہ 27 سال سے اپنے کالم میں عرض کررہے ہیں کہ کراچی کی سیاست پر اسٹیبلشمنٹ کا گہرا سایہ ہے۔ ایم کیو ایم اسٹیبلشمنٹ کی ’’تخلیق‘‘ہے۔ الطاف حسین اسٹیبلشمنٹ کی ایجاد ہیں۔ ایم کیو ایم مہاجرقومی موومنٹ سے متحدہ قومی موومنٹ ہوئی تو اسٹیبلشمنٹ کے حکم پر۔ الطاف حسین ملک سے فرار ہوئے تو اسٹیبلشمنٹ نے ایسا چاہا ہوگا۔ الطاف حسین دو دہائیوں سے لندن میں بیٹھ کر پاکستان کو برا بھلا کہہ رہے تھے اور کراچی میں پُرتشدد سیاست فرمارہے تھے تو اسٹیبلشمنٹ کو اس پر کوئی پریشانی نہیں ہوگی۔ ہوتی تو وہ کم از کم اسی طرح الطاف حسین کا منہ بند کردیتی جیسا کہ اس نے 22 اگست کی تقریر کے بعد بجا طور پر کیا۔ اب مصطفی کمال نے بتادیا ہے کہ ایم کیو ایم پاکستان بھی اسٹیبلشمنٹ نے بنوائی ہے اور خود ان کی جماعت کا وجود بھی اسٹیبلشمنٹ کا رہینِ منت ہے۔ خدا کا شکر ہے کہ کراچی میں سوا سال سے امن ہے۔ بھتہ خوری نہ ہونے کے برابر رہ گئی ہے۔ گلی کوچوں کے جرائم میں کمی ہوئی ہے۔ جن ذرائع ابلاغ میں الطاف حسین اور ایم کیو ایم کے بارے میں ایک فقرے کی تنقید نہیں ہوسکتی تھی وہاں اب الطاف حسین اور ایم کیو ایم کی مذمت کے دریا بہہ رہے ہیں۔ اس منظر میں نہ نوازشریف ہیں، نہ کوئی سیاسی جماعت ہے، نہ کوئی ذریعہ ابلاغ ہے۔ اس منظر کا “Credit” صرف اسٹیبلشمنٹ کو جاتا ہے، بالکل اسی طرح طویل عرصے تک کراچی کی ایم کیو ایم زدگی کا Dis-Credit ایم کیو ایم کے بعد اسٹیبلشمنٹ کے حصے میں آتا ہے۔ یہاں سوال یہ بھی ہے کہ جو اسٹیبلشمنٹ آج کراچی میں پوری طرح ’’مؤثر‘‘ ثابت ہورہی ہے وہ اسٹیبلشمنٹ گزشتہ 30 سال کے دوران کراچی میں کیوں ’’مؤثر‘‘ نہ ہوسکی؟ یہاں سوال یہ بھی ہے کہ فاروق ستار آٹھ ماہ تک اسٹیبلشمنٹ کی سواری پر سوار رہنے کے بعد صرف ایک دن میں اس سواری سے اتر کر کیوں بھاگے؟ اس سوال کا ایک جواب یہ ہے کہ اب تک کراچی میں الطاف حسین کی طاقت موجود ہے، لیکن یہ طاقت اسٹیبلشمنٹ کی طاقت سے زیادہ نہیں۔ البتہ الطاف حسین کی پشت پر بھارت، برطانیہ اور امریکہ کی مشترکہ قوت اسٹیبلشمنٹ کی طاقت سے زیادہ ہے۔ یہ کتنی عجیب بات ہے کہ برطانیہ کو گزشتہ 30 سال میں معلوم ہی نہیں ہوسکا کہ الطاف حسین پاکستان میں کیا کرتے رہے ہیں۔ اس سے بھی زیادہ عجیب بات یہ ہے کہ اسٹیبلشمنٹ الطاف حسین کا منہ تو بند کیے ہوئے ہے مگر وہ الطاف حسین کو پناہ دینے والے برطانیہ کے خلاف ’’گرم احتجاج‘‘ کیا ’’نرم احتجاج‘‘ کا حق بھی ادا نہیں کرسکی۔ قوم یہ سمجھنے سے بھی قاصر ہے کہ جب الطاف حسین اور ان کی جماعت کا ملک دشمن ہونا ثابت ہے تو اس کے خلاف سپریم کورٹ میں ریفرنس دائر کرکے اسے خلافِ قانون کیوں قرار نہیں دیا جارہا؟ بلاشبہ ایم کیو ایم پر پابندی مسئلے کا ’’تکنیکی حل‘‘ ہے، لیکن یہ تکنیکی حل مسئلے کے ’’اصل حل‘‘ میں مددگار ہوگا، اور اس کے بغیر اصل حل تک پہنچنا ممکن نہ ہوسکے گا۔ یہ ایک افسوسناک منظر تھا کہ پی ایس پی اور ایم کیو ایم پاکستان کو باہم ملا کر اس کی قیادت جنرل(ر) پرویزمشرف جیسے شخص کے حوالے کی جارہی تھی۔ جنرل(ر) پرویزمشرف کی علمی، تجزیاتی اور اخلاقی حالت کا اندازہ اس بات سے کیا جاسکتا ہے کہ 9 نومبر کو مصطفی کمال اور فاروق ستار نے مشترکہ نیوز کانفرنس کی تو جنرل(ر) پرویز نے اس کا خیرمقدم فرمایا، لیکن 10نومبر کو فاروق ستار اسٹیبلشمنٹ کی گاڑی سے اتر کر بھاگے اور 11نومبر کو مصطفی کمال نے فاروق ستار کے خلاف نیوز کانفرنس کی تو جنرل(ر) پرویز نے فرمایا کہ پی ایس اپی اور ایم کیو ایم پاکستان کا ادغام ’’غیرفطری‘‘ تھا۔ حیرت ہے کہ جو شخص ایک دن کے ’’پار‘‘ دیکھنے کی صلاحیت نہیں رکھتا وہ کبھی ہمارا آرمی چیف بھی تھا اور صدر بھی۔ مزے کی بات یہ ہے کہ اسٹیبلشمنٹ اپنے اس ’’ہیرے‘‘ کو احتساب سے بچا کر ملک سے باہر لے گئی اور اب اسے ایک بار پھر ملک کی سیاست میں اہم کردار دینے کی کوششیں نظر آرہی ہیں۔ افسوس کہ جو لوگ ایم کیو ایم کی سائیکل نہیں چلاسکتے وہ ملک چلاتے رہے ہیں۔ لیکن زیرِ بحث موضوع کے زیادہ اہم پہلو کچھ اور ہیں۔
دنیا بھر میں سیاست دان اور صحافی قوم کے رہنما اور معمار تصور کیے جاتے ہیں، مگر ہمارے ملک میں سیاست دانوں اور صحافیوں نے اسٹیبلشمنٹ کی بالادستی کو اس طرح تسلیم کرلیا ہے جیسے یہی ان کا واحد’’مقصدِ پیدائش‘‘ ہے۔ آخر اس کی کیا وجہ ہے؟ کیا ملک کے سیاست دان اور صحافی سمجھتے ہیں کہ اسٹیبلشمنٹ اُن سے زیادہ ’’محبِ وطن‘‘ ہے؟ اگر ایسا ہے تو انہیں خود کو سیاسی رہنما اور صحافی کہتے ہوئے شرم آنی چاہیے۔ اس لیے کہ اسٹیبلشمنٹ تو ’’پروفیشنل حب الوطنی‘‘ کا مظہر ہے۔ یعنی ملک کے نظریے اور سلامتی کا دفاع ان کی “Job”ہے۔ اس Jobکی انہیں تنخواہ ملتی ہے۔ سات آٹھ بڑی بڑی مراعات اس کے علاوہ ہیں۔ ان سے زیادہ محبِ وطن تو ہم جیسے عام لوگ ہیں جنہیں اگر معلوم ہو کہ ملک مشکل میں ہے تو وہ ایک آواز پر ملک کے لیے فدا ہونے کے لیے تیار ہوجائیں، حالانکہ ہم جیسے عام لوگوں کو ملک نے نہ کوئی بڑا عہدہ و منصب دیا ہے، نہ ہمارے پاس بڑے لوگوں کی سی ’’تکریم‘‘ ہے، نہ ہمیں خصوصی مراعات حاصل ہیں۔ سیاست دان اور صحافی اگر اسٹیبلشمنٹ کو خود سے زیادہ علم والا اور ذہین سمجھتے ہیں تو بھی انہیں شرم سے کہیں ڈوب مرنا چاہیے، اس لیے کہ اصولی اعتبار سے سیاسی رہنمائوں اور صحافیوں کے علم کو جرنیلوں سے زیادہ ہونا چاہیے، کیونکہ سیاسی رہنما اور صحافی معلومات، علم اور تفہیم کے دائروں میں قوم کی رہنمائی کرنے والے ہوتے ہیں۔ لیکن جن لوگوں کو قوم کی معلومات، علم، تفہیم، ذہن اور شعور کا مرکز ہونا چاہیے وہ خود کسی اور کے Vision کی پیروی کررہے ہیں، اس حد تک کہ وہ اسٹیبلشمنٹ کی کٹھ پتلیاں نظر آنے لگے ہیں۔ میاں نوازشریف نام لیے بغیر اسٹیبلشمنٹ کو برا بھلا کہہ رہے ہیں۔ جب وہ کہتے ہیں کہ میرے خلاف سازش ہورہی ہے تو وہ اسٹیبلشمنٹ پر سازشی ہونے کا الزام لگاتے ہیں۔ جب وہ کہتے ہیں کہ میں ڈکٹیشن نہیں لوں گا تو وہ کہتے ہیں کہ اسٹیبلشمنٹ مجھے ڈکٹیٹ نہیں کرسکتی۔ مگر حقیقت یہ ہے کہ جب تک میاں صاحب وزیراعظم رہے انہوں نے آپریشن، جنرل پرویز اور پرویز رشید وغیرہ کی برطرفی پر اسٹیبلشمنٹ کی ڈکٹیشن قبول کی۔ اب بھی یہ صورتِ حال ہے کہ اُن کی جماعت نے جرنیلوں اور عدلیہ کے احتساب سے یہ کہہ کر دامن چھڑا لیا کہ ان اداروں میں داخلی احتساب کا نظام موجود ہے۔ یہی مؤقف پیپلزپارٹی نے بھی اختیار کیا۔ سوال یہہے کہ یہ اسٹیبلشمنٹ کے طواف کی صورت نہیں تو اور کیا ہے؟
اس مسئلے کا ایک پہلو یہ ہے کہ اصل حکمران قوم کے باپ کی طرح ہوتے ہیں، اور دنیا کا ہر باپ چاہتا ہے کہ اس کی اولاد روحانی، علمی، ذہنی، نفسیاتی اور جذباتی اعتبار سے ترقی کرے۔ لیکن بدقسمتی سے ہماری فوجی اور سیاسی اسٹیبلشمنٹ دونوں ہی قوم کو روحانی، علمی، ذہنی، نفسیاتی اور جذباتی اعتبار سے ’’مفلس‘‘ بلکہ ’’معذور‘‘ دیکھنا چاہتی ہیں۔ اسٹیبلشمنٹ سیاسی رہنمائوں اور صحافیوں کو کٹھ پتلیوں کی طرح نچا رہی ہے تو اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ وہ عام پاکستانیوں کو کیا سمجھتی ہوگی؟ لیکن اس سے بھی المناک بات یہ ہے کہ سیاسی رہنمائوں اور صحافیوں نے اپنے منصب کو نہ صرف یہ کہ قبول کرلیا ہے بلکہ وہ اسے “Enjoy” کرتے نظر آتے ہیں، ایسے جیسے انہیں بہت ’’صاحبِِ عزت‘‘ سمجھا جارہا ہو، جیسے ان کے سر پر ’’تاج‘‘ رکھا ہوا ہو، جیسے ان کی بہت ’’قدروقیمت‘‘ ہو۔ لیکن کٹھ پتلیوں کے مقدر میں نہ حقیقی عزت ہوتی ہے، نہ حقیقی معنوں میں ان کی کوئی قدروقیمت ہوتی ہے۔ وہ پرانی ہوجاتی ہیں تو ان کی جگہ ’’نئی‘‘ کٹھ پتلیاں آجاتی ہیں۔