بھارت کے عظیم بلے باز سنیل گاوسکر نے ایک بار اپنے بیٹے سے پوچھا کہ تم کیا بننا چاہتے ہو؟ اس نے کہا: میں یا تو گاوسکر بننا چاہتا ہوں یا عمران خان۔گاوسکر نے کہا کہ بیٹے اگر ایسا ہے تو پھر تم گاوسکر بننے کی کوشش کرو، کیونکہ تم کبھی بھی عمران خان نہیں بن سکتے۔ اس کی وجہ بیان کرتے ہوئے گاوسکر نے کہا کہ عمران خان بننے کے لیے گوشت خور ہونا ضروری ہے، اور تم سبزی خور ہو۔
جسمانی غذا اگر اتنی اہم ہے کہ انسان جو کھاتا ہے وہی بن جاتا ہے، تو پھر روحانی، اخلاقی اور علمی غذا کے اثرات کا کیا عالم ہوگا؟ اس امر کی ایک شہادت قائداعظم، برصغیر کی ملّتِ اسلامیہ اور خود پاکستان ہے کہ روحانی، اخلاقی اور علمی غذا چیزوں کو کیا سے کیا بناسکتی ہے۔ محمد علی جناح صرف ایک ’’وکیل‘‘ تھے، کانگریس کے رہنما تھے، ہندو مسلم اتحاد کے سفیر تھے… مگر اسلام نے دیکھتے ہی دیکھتے محمد علی جناح کو قائداعظم بنادیا۔ برصغیر کی ملّتِ اسلامیہ ایک بھیڑ تھی، ایک ہجوم تھی… اسلام نے اسے ایک قوم بناکر کھڑا کردیا۔ پاکستان ایک خواب تھا، ایک Fantacy تھا، ایک نعرہ تھا، جنرل باجوہ کی اصطلاح کے مطابق ماضی کی ایک یاد یا Nostalgia تھا… مگر اسلام کی قوت نے ’’کُن‘‘ یعنی ’’ہوجا‘‘ کہا اور پاکستان ’’عدم‘‘ سے ’’وجود‘‘ میں آگیا۔ خواب حقیقت میں ڈھل گیا۔ Fantacy دنیا کی سب سے بڑی اسلامی ریاست میں تبدیل ہوگئی۔ نعرے کو بے مثال جسم مہیا ہوگیا۔ Nostalgia نے زندہ تجربے کا روپ دھار لیا۔ تاریخ کے سفر میں مذہب، بالخصوص اسلام نے یہی کردار ادا کیا ہے۔ وہ ’’مُردوں‘‘ کو ’’زندہ‘‘ کردیتا ہے۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام مُردے کو سامنے دیکھ کر فرمایا کرتے تھے کہ قم باذن اللّٰہ یعنی اٹھ اللہ کے حکم سے، اور مُردہ اٹھ کھڑا ہوجاتا تھا۔ اسلام فرد، گروہ یا قوم کو چھوکر بھی گزر جائے تو اس میں زندگی کی نئی حرارت پیدا ہوجاتی ہے۔ بہت سے لوگ اس طرح کی باتوں کو ’’شاعری‘‘ یا ’’خطابت‘‘ وغیرہ سمجھتے ہیں، مگر اس سلسلے میں خود قائداعظم کی ٹھوس شہادت موجود ہے۔
قائداعظم نے 24 سے 26 دسمبر 1943ء تک کراچی میں ہونے والے آل انڈیا مسلم لیگ کے 31 ویں اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کہا:
’’آل انڈیا مسلم لیگ کے بھائیو اور خواتین و حضرات! میں اس بات پر آپ کا شکریہ ادا کرتا ہوں کہ آپ نے ایک بار پھر مجھے آل انڈیا مسلم لیگ کا صدر منتخب کیا… اگر ایک مثال کے ذریعے بھارت کے مسلمانوں کی حالت بیان کی جائے توکہا جائے گا کہ بھارت کے مسلمانوں کا وہی حال تھا جو ایک بیمار اور قرب المرگ شخص کا ہوتا ہے۔ ایسا شخص قلتِ توانائی کے باعث نہ کوئی شکایت کرتا ہے، نہ کچھ مانگتا ہے، بالخصوص وہ اس بات کے شعور کا حامل نہیں ہوتا کہ اس کے آس پاس کیا ہورہا ہے۔ اسے اس بات کی پروا نہیں ہوتی کہ اس کے یا کسی اور کے ساتھ کیا ہونے والا ہے یا دنیا کا کیا ہوگا۔ سات سال قبل بھارت کے مسلمانوں کی حالت ایسی ہی تھی۔ مگر آج بیمار شخص بسترِ مرگ سے اتر آیا ہے۔ اس نے ہوش سنبھال لیا ہے۔ اب اس کی کئی شکایات ہیں۔ اس کے پاس کئی تجاویز اور مشورے ہیں۔ وہ کئی جھگڑوں اور قضیوں کا حل چاہتا ہے۔ یہ ایک اچھی علامت ہے بشرطیکہ وہ اپنی حدود میں رہے۔ یہ ایک صحت مند انسان کی علامت ہے۔ میں مسلمانوں کی بیداری پر اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرتا ہوں۔‘‘
اس خطاب میں قائداعظم نے ہندوستان کے مسلمانوں کو بیمار، بے شعور اور بسترِ مرگ پر لیٹا ہوا قرار دیا ہے، اور قائداعظم کے تجزیے میں بڑی صداقت ہے۔ قائداعظم چاہتے تو مسلمانوں کی بیداری کو ’’اپنا کارنامہ‘‘ باور کراتے۔ وہ یہ بھی نہ کرتے تو مسلم لیگ کو مسلمانوں کی بیداری کا باعث قرار دے دیتے۔ مگر ایک ایمان دار مسلمان کی طرح انہوں نے ہندوستان کے مسلمانوں کی بیداری کو اپنے خالق و مالک کی عنایت قرار دیا، اور اس عنایت پر اپنے خالق و مالک کا شکر ادا کیا۔ یہ قائداعظم کی ’’مذہبیت‘‘ اور ان کے ’’مذہبی شعور‘‘ کی ایک مثال ہے، اور اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اسلام کس طرح ہمارے پورے تاریخی اور تہذیبی عمل اور ہماری سیاسی حرکیات یا Political Dynamic پر اثرانداز رہا ہے۔ لیکن یہ قائداعظم کا واحد اعتراف نہیں جس میں ’’خدا‘‘ فیصلہ کن اہمیت کا حامل ہو۔
قائداعظم نے 4 مارچ1944ء کو علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں طلبہ سے خطاب کرتے ہوئے کہا:
’’سات سال قبل ہماری حالت کیا تھی؟10کروڑ نفوس عملاً مُردہ تھے، بلکہ حقیقت تو یہ ہے کہ گاندھی اور لارڈ لن لتھگرو(Lord Linlithgrow) مسلمانوں کی (اجتماعی) تجہیز و تکفین کی تیاریاں کررہے تھے۔ مگر اللہ کا شکر ہے ہم بچ گئے۔‘‘
قائداعظم نے 25 نومبر 1945ء کو پشاور میں اسلامیہ کالج کے طلبہ سے خطاب کیا۔ انہوں نے 1930ء میں موجود صورتِ حال کا ذکر کرتے ہوئے کہا:
’’گاندھی اور لارڈ لن لتھگرو کے درمیان گورنمنٹ انڈیا ایکٹ 1935ء کے وفاقی حصے پر عملدرآمد کے حوالے سے سمجھوتہ طے پاگیا تھا مگر مشیتِ ایزدی نے مدد کی اور 1939ء میں دوسری عالمی جنگ شروع ہوگئی۔‘‘
اس خطاب میں قائداعظم نے Providenceکا لفظ استعمال کیا ہے جس کا ترجمہ ’’مرضیٔ الٰہی‘‘ یا ’’مشیتِ ایزدی‘‘ کے سوا کچھ نہیں ہوسکتا۔ قائداعظم کے مطابق مشیتِ ایزدی کی وجہ سے 1939ء میں دوسری عالمی جنگ چھڑ گئی۔ اس جنگ نے سلطنتِ برطانیہ کو اس قابل نہ چھوڑا کہ وہ اپنے مقبوضات، بالخصوص ہندوستان پر اپنے تسلط کوکسی اندیشے کے بغیر جاری رکھ سکے۔ ایسا نہ ہوتا تو قائداعظم کے بقول گاندھی انڈیا ایکٹ 1935ء کے تحت برطانیہ کے غلام بن کر رہنے پر آمادہ تھے۔ آپ نے دیکھا محمد علی جناح نے، جنہیں اسلام نے قائداعظم بناکر عالمی اسٹیج پر کھڑا کیا، علی گڑھ اور پشاور دونوں مقامات پر تقریر کرتے ہوئے قیام پاکستان پر اللہ تعالیٰ کی کرم نوازی اور مشیت کو سایہ فگن دیکھا۔ ہمارے زمانے میں چھوٹے موٹے کیا، بڑے بڑے رہنمائوں کا یہ حال ہے کہ انہیں ہر جگہ اپنی اہلیت و صلاحیت کا ’’جلوہ‘‘ دکھائی دیتا ہے، مگر قائداعظم کا مشاہدہ، تجربہ اور فہم انہیں بتا رہا تھا کہ پاکستان کے مطالبے، جدوجہد اور قیامِ پاکستان کے معجزے پر اللہ تعالیٰ کی مہربانی و کرم، اسلام، اس سے پیدا ہونے والے جذبے اور اس سے جنم لینے والی تہذیب و تاریخ کا سایہ ہے۔
اس تناظر میں قائداعظم نے 8 مارچ 1944ء کو علی گڑھ میں خطاب کرتے ہوئے کہا:
’’پاکستان ہندوئوں کے اچھے یا برے طرزِعمل کا حاصل نہیں۔ یہ ہمیشہ سے موجود تھا، صرف ہندوئوں کو اس کی موجودگی کا شعور نہ تھا۔ ہندو اور مسلمان (صدیوں سے) ایک گائوں اور ایک قصبے میں رہتے ہوئے بھی کبھی ایک قوم نہ تھے۔ وہ جداگانہ حقیقت تھے۔ قائداعظم نے کہا: پاکستان نے اپنی تحریک اسی وقت شروع کردی تھی جب پہلے ہندو نے اسلام قبول کیا، حالانکہ یہ برصغیر میں اسلامی حکومت کے قیام سے بہت پہلے کی بات ہے۔ جیسے ہی کوئی ہندو اسلام قبول کرتا ہے وہ صرف مذہبی اعتبار سے ہی نہیں، سماجی، ثقافتی اور اقتصادی اعتبار سے بھی ہندوازم سے خارج ہوجاتا ہے۔‘‘
اس اعتبار سے دیکھا جائے تو دو قومی نظریہ سرسید کی ’’ایجاد‘‘ نہیں، بلکہ پہلے ہندو کے قبولِ اسلام سے اس کا آغاز ہوگیا تھا۔ اسی لیے ان کالموں میں ہم عرض کرتے رہے ہیں کہ حضرت مجدد الف ثانیؒ اور جہانگیر کی کشمکش بھی اپنی اصل میں دو قومی نظریے کی کشمکش تھی۔ اسی طرح اورنگ زیب اور داراشکوہ کی آویزش بھی اسلام اور ہندوازم یا دو قومی نظریے کی آویزش تھی۔ قائداعظم کی تقریروں کے اقتباسات سے واضح اور ثابت ہوگیا کہ خود قائداعظم بھی دو قومی نظریے کو ’’جدید‘‘ نہیں ’’قدیم‘‘ سمجھتے تھے۔ انہیں اچھی طرح معلوم تھاکہ صرف کلمۂ طیبہ پڑھ لینے سے انسان کا مذہب ہی نہیں بدلتا بلکہ اس کی سماجیات، اس کی ثقافت، اس کی تہذیب، یہاں تک کہ اس کا معاشی دائرہ بھی بدل کر رہ جاتا ہے۔ یہی سبب ہے کہ قائداعظم کو قیام پاکستان کی جدوجہد میں خود سے لاکھوں گنا زیادہ خدا اور اسلام پر اعتبار تھا۔ چنانچہ انہوں نے یورپی اور امریکی اہلکاروں سے 1944ء میں خطاب کرتے ہوئے کہا:
’’اب سوال یہ ہے کہ پاکستان کیسے حاصل کیا جائے؟‘‘
اور اس کے بعد فرمایا:
’’مطالبے کے ذریعے نہیں۔ بھیک مانگ کر نہیں۔ صرف دعائوں سے بھی نہیں… بلکہ اللہ تعالیٰ پر (ایمان یا) یقین کے ذریعے۔‘‘ (ڈان 10 مارچ 1944ء)
اس اعتبار سے دیکھا جائے تو 23 مارچ 1940ء مسلمانوں کی ایک ہزار سالہ تاریخ کا صرف ایک سنگِ میل ہے۔ لیکن زیربحث مسئلے کا ایک اورپہلو بھی ہے۔
عالمی تاریخ میں کوئی ریاست بھی ایسی نہیں ہوئی ہے جس کے دائرے میں زندگی بسر کرنے والے لوگوں نے کھلے عام اس کے نظریے اور وجود پر حملے کیے ہوں۔ ازرا پائونڈ عظیم شاعر اور نقاد تھا مگر اس نے اٹلی جاکر ریڈیو پر مسولینی کی تعریف کردی۔ چنانچہ اسے’’غدار‘‘ قرار دیا گیا۔ اُس کے شاگردوں میں نوبیل انعام یافتہ شاعر اور نقاد ٹی ایس ایلیٹ بھی شامل تھا۔ اسے پائونڈ کی زندگی کی فکر ہوئی، چنانچہ ایلیٹ اور اس کے دوستوں نے مل کر پائونڈ کو نفسیاتی اسپتال میں داخل کرادیا اور پاگل قرار دیا۔ پائونڈ دس بارہ سال تک نفسیاتی اسپتال میں قید رہا جب اس کی جان بچائی جاسکی۔ پندرہ بیس سال قبل امریکہ کی ممتاز دانشور سوسن سونٹیگ نے اتنا کہا تھا کہ امریکہ کی بنیاد نسل کُشی پر رکھی ہوئی ہے۔ صرف یہ کہہ دینے پر اسے غدار کہا گیا۔ روسی انقلاب کا ایک اہم کردار ممتاز دانشور ٹروٹسکی تھا۔ ٹروٹسکی اتنا ہی بڑا سوشلسٹ انقلابی تھا جتنا بڑا انقلابی خود لینن یا اسٹالن تھا۔ مگر مارکسزم کی تعبیر پر اُس کے انقلابی قیادت سے شدید اختلافات تھے۔ ان ’’اختلافات‘‘ کو ’’غداری‘‘ سے تعبیر کیا گیا۔ چنانچہ ٹروٹسکی کو روس سے ’’فرار‘‘ ہونا پڑا۔ وہ ترکی میں رہا، فرانس میں رہا، بالآخر اس نے میکسیکو سٹی میں پناہ لی۔ مگر روس کی خفیہ ایجنسی کے جی بی اُس کے تعاقب میں رہی اور بالآخر 1940ء میں ٹروٹسکی کو اُس کے گھر میں کے جی بی کے ایک ایجنٹ نے قتل کردیا۔ جدید چین کے بانی ڈینگ ژیائو پنگ چین کے انقلابی رہنما مائوزے تنگ کے ساتھی تھے، مگر مائوازم کی ’’تشریح‘‘ پر انہیں مائو سے اختلاف ہوا تو انہیں ’’انقلاب دشمن‘‘ قرار دے کر قید میں ڈال دیا گیا۔ ایک طویل عرصے کے بعد ان کے حوالے سے شکوک کی دھند چھٹی تو انہیں دوبارہ کمیونسٹ پارٹی کا حصہ بنایا گیا۔ مگر اسلام کے نام پر وجود میں آنے والے پاکستان میں فیض احمد فیض نے پاکستان کے قیام کے حوالے سے حاصل ہونے والی آزادی کو ’’داغ داغ اجالا‘‘ اور ’’شب گزیدہ سحر‘‘ قرار دیا اور فرمایا کہ ’’چلے چلو کہ وہ منزل ابھی نہیں آئی‘‘۔ مگر پاکستان میں فیض کی زبان پکڑنے والا کوئی نہ تھا۔ لوگ کہتے ہیںکہ فیض نے آزادی کو اس لیے داغ داغ اجالا اور شب گزید سحر قرار دیا کہ قیام پاکستان کی جدوجہد میں 10لاکھ سے زیادہ لوگ شہید ہوئے۔ یہ فیض کا دفاع کرنے والوں کے نزدیک ’’بڑا انسانی نقصان‘‘ تھا۔ جبکہ روس کے انقلاب کی جدوجہد میں صرف ’’80لاکھ‘‘ اور چین کے انقلاب کی جدوجہد میں صرف ’’4 کروڑ‘‘ افراد ہلاک ہوئے، مگر فیض نے کبھی روسی یا چینی انقلاب کو داغ داغ اجالا اور شب گزیدہ سحر قرار نہ دیا۔ جہاں تک پاکستان کے سیکولر اور لبرل دانشوروں اور صحافیوں کا تعلق ہے تو وہ پچاس سال سے یہ سفید جھوٹ پھیلانے میں لگے ہوئے ہیں کہ قائداعظم سیکولر اور لبرل تھے اورپاکستان اسلام کے نام پر وجود میں نہیں آیا تھا۔ کیا روس میں 1917ء سے 1990ء تک کوئی مائی کا لعل یہ کہہ سکتا تھا کہ روس کا انقلاب مارکسزم کی بنیاد پر نہیں بلکہ اس کی ضد یا سرمایہ داری کی بنیاد پر برپا ہوا تھا؟ مگر پاکستان کے سیکولر اور لبرل عناصر اتنے قوی ہیں کہ وہ پاکستان کو اسلام کے بجائے اس کی ضد یعنی سیکولرازم سے منسوب کرتے ہیں؟کیا امریکہ اور برطانیہ میں کوئی شخص یہ کہہ سکتا ہے کہ امریکہ اور برطانیہ کے تاریخی پس منظر پر کمیونزم یا اسلام کا سایہ ہے؟ مگر اسلام کے نام پر وجود میں آنے والے پاکستان کے تاریخی پس منظر پر سیکولرازم اور لبرل ازم کی غلاظتیں اچھالی جاتی ہیں۔ فہمیدہ ریاض برسوں تک ہندوستان میں مقیم رہ کر پاکستان کے خلاف پروپیگنڈہ کرتی رہیں، پھر وہ واپس بھی آگئیں اور مزے کی زندگی بسر کرتی رہیں۔ الطاف حسین نے بھارت میں کھڑے ہوکر صاف کہا کہ اگر میں 1947ء میں ہوتا تو پاکستان کے حق میں ہرگز ووٹ نہ دیتا۔ انہوں نے بھارت سے کہا کہ اگر مہاجروں پر ظلم ہوگا تو کیا بھارت ان کے لیے اپنے دروازے نہ کھولے گا؟ مگر الطاف سے کسی نے نہ پوچھا کہ تم یہ کیا کہہ رہے ہو۔ کسی مسلمان کے لیے یہ سوچنا بھی ممکن نہیں کہ گالیوں کی تعریف کی جائے، مگر بالآخر یہ ہوا کہ الطاف حسین نے جرنیلوں کو گالیاں دیں تو ان کی زبان بند ہوئی، اور ان کی سیاست پر تالا لگایا گیا۔ اس سے معلوم ہوا کہ پاکستان میں اسلام اور خود پاکستان بھی ’’مکرم‘‘ نہیں، البتہ جرنیل اسلام اور پاکستان سے بھی زیادہ ’’محترم‘‘ ہیں۔ اس کا ثبوت یہ ہے کہ اسلام اور پاکستان کو گالی دے کر الطاف حسین پاکستان میں اپنی سیاست جاری رکھ سکتے ہیں، مگر جرنیلوں کو گالی دے کر وہ پاکستان میں اپنی سیاست جاری نہیں رکھ سکتے۔ یہ زیادہ پرانی بات نہیں کہ جیو کے پروگرام ’’رپورٹ کارڈ‘‘ میں ریٹائرڈ ایئر وائس مارشل شہزاد چودھری اور حسن نثار نے پردے کا مذاق اڑایا۔ حالانکہ پردے کا تصور کسی ’’ملاّ‘‘ یا ’’مذہبی جماعت‘‘ کی ایجاد نہیں۔ پردہ قرآن اور رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا حکم ہے۔ ذرا کوئی امریکہ اور یورپ میں آزادی، جمہوریت اور منڈی کی معیشت کا مذاق اڑا کر دیکھے۔ روزنامہ جنگ میں وجاہت مسعود اس بات پر مسلمانوں کا مذاق اڑا چکے ہیں کہ مسلمان ’’اَن دیکھے‘‘ اور ’’غیر مرئی خدا‘‘ پر ایمان لاتے ہیں اور مرئی حقائق پر غیر مرئی حقائق کو ترجیح دیتے ہیں۔ ذرا امریکہ اور یورپ میں کوئی شخص یہ کہہ کر دکھائے کہ امریکی اور یورپی اتنے احمق ہیں کہ انہوں نے خدا اور مذہب جیسے اہم حقائق کو ترک کرکے مادے کو خدا بنالیا ہے۔ 13 اگست 2010ء کو روزنامہ جنگ نے ’’رائے عامہ کے جائزے‘‘کے عنوان کے تحت تین کالم میں یہ خبر شائع کی کہ 60 فیصد افراد نے قراردادِ مقاصد کو قائداعظم کی 11 اگست کی تقریر سے متصادم قرار دیا ہے۔ حقیقت یہ تھی کہ رائے عامہ کا یہ جائزہ صرف 29 افراد کی رائے کی بنیاد پر مرتب کیا گیا تھا، اور ان میں سے 18 افراد نے جو جائزے میں موجود کُل افراد کا 68 فیصد تھے، قراردادِ مقاصد کے حق میں رائے دی تھی۔ اس جائزے کی تفصیل جاننے کے لیے ملاحظہ کیجیے طارق جان صاحب کی تصنیف ’’سیکولرازم… مباحث اور مغالطے‘‘۔ طارق جان نے اپنی تصنیف میں جنگ کے انگریزی اخبار ’’دی نیوز‘‘ میں شائع ہونے والے ایک سمپوزیم کا حوالہ دیا ہے۔ اس سمپوزیم میں مسلم پاکستان سے دلی نفرت کرنے والے طارق علی کا ایک حوالہ پیش کیا گیا ہے۔ اس حوالے میں طارق علی کہتا ہے:
’’وہ سوال جو پاکستان کی نئی نسلوں کو کسی پلٹ پلٹ کر آنے والے بھوت کی طرح پریشان کرتا ہے صرف اتنا ہی نہیں کہ یہ ملک باقی رہے گا؟ بلکہ یہ ہے کہ کیا اس کے وجود میں آنے کا کوئی جواز بنتا تھا؟‘‘
طارق علی اور دی نیوز نے جو گالی پاکستان کو دی ہے، وہی گالی جرنیلوں کو دی ہوتی تو اب تک نہ جانے ان کا کیا حال ہوچکا ہوتا۔
پاکستان میں ایسے عناصر کی بھی کمی نہیں جو کہتے ہیں کہ پاکستان کی تخلیق نے برصغیر کے مسلمانوں کو بھارت، بنگلہ دیش اور پاکستان کے مسلمانوں میں تقسیم کرکے ان کی طاقت ختم کردی۔ پاکستان نہ بنتا تو آج برصغیر میں 60 کروڑ مسلمان ہوتے۔ یہ بات بھارت کے سیاست دانوں اور صحافیوں کا تھوکا ہوا وہ نوالہ ہے جسے پاکستان کے امریکہ و بھارت پرست سیکولر اور لبرل عناصر اور ’’احمق پاکستانی‘‘ دہراتے رہتے ہیں۔ ہم کالم کے آغاز میں قائداعظم کا وہ تبصرہ نقل کرچکے ہیں جس میں انہوں نے قیام پاکستان سے پہلے کے 10کروڑ مسلمانوں کو بیمار اور بسترِ مرگ پر پڑی ہوئی شے قرار دیا ہے۔ پاکستان نہ بنتا تو 60 کروڑ مسلمان بھی کچھ نہ ہوتے۔ اس دعوے کے دلائل ہم عرض کیے دیتے ہیں۔
متحدہ بنگال مسلم اکثریتی علاقہ تھا مگر اس کی سیاست، تجارت، تعلیم، یہاں تک کہ اس کی شناخت پر بھی ہندو غالب تھے، اور یہ ہندو کسی قیمت پر مسلمانوں کو اپنے شکنجے سے نکلنے نہ دیتے۔ اس کا ثبوت یہ ہے کہ بھارت نے بنگلہ دیش کی آزادی میں اہم کردار ادا کیا مگر اسے اس حد تک اپنی ’’کالونی‘‘ بنایا کہ بنگلہ دیش کی فوج نے جنرل ضیاء الرحمن کی قیادت میں ’’بابائے قوم‘‘ شیخ مجیب کو اُن کے اہلِ خانہ سمیت قتل کرڈالا۔ آج بھی حسینہ واجد کا بنگلہ دیش بھارت کی کالونی کے سوا کچھ نہیں۔ ’’آزاد بنگلہ دیش‘‘ کا یہ حال ہے تو متحدہ بنگال میں مسلمانوں کا ’’حال‘‘ کیا ہوتا؟ سندھ کی معیشت اور تجارت بھی ہندوئوں کے زیراثر تھی۔ یہاں تک کہ سندھ کی ثقافت پر بھی ہندوئوں کا گہرا اثر تھا۔ ہمیں یاد رکھنا چاہیے کہ انگریزوں کے زمانے میں سندھ ممبئی کا حصہ تھا، اور اس کی علیحدگی پر ہندوئوں نے اتنی زبردست تحریک چلائی کہ انگریزوں کو اپنا فیصلہ واپس لینا پڑا۔ چنانچہ پاکستان نہ بنتا تو سندھ بھی عملاً بھارت اور بھارت کے ہندوئوں ہی کے زیراثر ہوتا۔ پنجاب پر 1946ء تک یونینسٹوں کا غلبہ تھا۔ یونینسٹ ایک جانب انگریزوں کے غلام تھے اور دوسری جانب کانگریس کے اتحادی تھے۔ یونینسٹ ذہنیت اتنی خطرناک تھی کہ آج پنجاب کے مقبول رہنما پاکستان کے یونینسٹ بن کر ابھرے ہیں۔ ایک جانب وہ امریکہ اور یورپ کے ’’غلام‘‘ ہیں، دوسری جانب اندرونِ خانہ وہ بھارت کے ایسے ’’اتحادی‘‘ ہیں کہ بھارت کی ساری امیدیں ان ہی کی ذاتِ شریف سے وابستہ ہیں۔ ’’آزاد پاکستان‘‘ میں پنجاب کا یہ عالم ہے تو متحدہ ہندوستان میں ’’پنجاب کا عالم‘‘ کیا ہوتا؟ خیبرپختون خوا کبھی سرحد تھا اور اس پر ’’سرحدی گاندھی‘‘ غفار خان کا قبضہ تھا۔ سرحدی گاندھی کو ’’بھارت ماتا‘‘ اور اس کے ’’سپوت‘‘ موہن داس کرم چند گاندھی سے اتنی محبت اور اتنی عقیدت تھی کہ پاکستان بن گیا تو سرحدی گاندھی نے اصل گاندھی سے شکایت کی کہ آپ نے پاکستان کو تسلیم کرکے ہمیں’’بھیڑیوں‘‘ کے آگے ڈال دیا۔ پاکستان اسلام کے نام پر بنا تھا اور سرحدی گاندھی کو پاکستان سے ایسی نفرت تھی کہ انہوں نے مرنے سے پہلے وصیت کی کہ انہیں پاکستان میں دفن نہ کیا جائے۔ اور اُن کی وصیت کے مطابق افغانستان میں انہیں دفن کیا گیا۔ پاکستان نہ بنتا تو سرحد پر سرحدی گاندھی اور اس کی ذرّیت ہی کا راج رہتا۔ بلوچستان کا قصہ یہ ہے کہ وہ کل بھی سرداروں کے زیراثر تھا اور آج بھی سرداروں کے ہی زیراثر ہے۔ قائداعظم جیسا رہنما نہ ہوتا تو بلوچ سردار کبھی پاکستان کی طرف داری نہ کرتے۔ مطلب یہ کہ متحدہ ہندوستان میں بلوچستان بھی ہندو قیادت ہی کے رحم و کرم پر ہوتا۔
متحدہ ہندوستان میں 60 کروڑ مسلمانوں کا کیا حشر ہوتا اِس کا اندازہ اس بات سے کیجیے کہ آج ہندوستان کے 25کروڑ مسلمان کس حال میں ہیں؟ بھارت کی ہندو قیادت بھارت میں رہ جانے والے مسلمانوں کو اگر صرف ’’انسان‘‘ بھی تسلیم کرلیتی اور ان کی معاشی حالت بھی درست کردیتی تو پاکستان کی تخلیق کا مقدمہ کمزور پڑجاتا۔ مگر بھارت کی تنگ دل، تنگ نظر اور متعصب ہندو قیادت نے 70 سال کے دوران بھارت میں پانچ ہزار سے زیادہ چھوٹے بڑے مسلم کُش فسادات کرائے، مسلمانوں کی معاشی طاقت کو تباہ کردیا۔ بھارت میں ہریجنوں اور دلتوں کی تعداد 47کروڑ ہے اور روزگار میں ان کا حصہ 27 فیصد ہے۔ مسلمانوں کی آبادی 25کروڑ ہے اور روزگار کے سرکاری وسائل میں ان کا حصہ ایک سے دو فیصد ہے۔ چنانچہ بھارت میں مسلمانوں کی اکثریت کی حالت شودروں سے زیادہ خراب ہے۔ مسلمان بھارت کی کُل آبادی کا 20 سے 25 فیصد ہیں، مگر ان کی سیاسی نمائندگی دو تین فیصد سے بھی کم ہوگئی ہے۔ بھارت کے وزیراعظم نریندر مودی سے ایک بار ایک انٹرویو میں پوچھا گیا کہ انہیں مسلمانوں کے مرنے کا دکھ تو ہوتا ہوگا؟ اس سوال کے چواب میں مودی نے کہا کہ آپ کی کار کے نیچے کتے کا پلا آجائے تو آپ کو دکھ تو ہوگا ہی۔ یعنی مودی کی نظر میں مسلمانوں کی حیثیت کتے کے پلے کے برابر ہے۔ یوپی کا وزیراعلیٰ آدتیہ ناتھ کہہ چکا ہے کہ مسلمان ایک ہندو ماریں گے تو ہم سو مسلمان ماریں گے، مسلمان ایک ہندو لڑکی کو مسلمان بنائیں گے تو ہم سو مسلمان لڑکیوں کو ہندو بنائیں گے۔ جس طرح ڈونلڈ ٹرمپ امریکہ کا باطن ہے اسی طرح بی جے پی اور مودی و آدتیہ ناتھ بھارت کے باطن کی علامتیں ہیں۔ بھارت پاکستان توڑ چکا ہے اور باقی ماندہ پاکستان کے درپے ہے۔ بھارت میں فوج کو ’’غیرجانب دار‘‘ سمجھا جاتا ہے، مگر مسلمانوں اور پاکستان کے سلسلے میں بھارتی فوج بی جے پی کی طرح جانب دار ہے۔ چنانچہ بھارت کے موجودہ آرمی چیف بپن راوت فرما چکے ہیں کہ پاکستان کو اذیت دیتے رہنا بھارت کی ’’پالیسی‘‘ ہے۔ بھارت میں مسلم کُش فسادات ہوتے ہیں اور کرفیو لگتا ہے تو بھارت کی پولیس اور نیم فوجی دستے مسلمانوں پر انتہا پسند ہندوئوں سے زیادہ ظلم کرتے ہیں۔ مسلمانوں نے بھارت پر ایک ہزار سال حکومت کی، مگر انہوں نے نہ ہندوئوں کو جبراً مسلمان بنایا، نہ ہندوازم میں مداخلت کی۔ مسلمان ایک ہزار سال میں ہندوئوں کو مسلمان بنانے کے لیے پانچ فیصد بھی طاقت اور سرمایہ استعمال کرتے تو آج ہندوستان میں ایک بھی ہندو نہ ہوتا۔ میاں نوازشریف کے دوست نریندر مودی کا نام بھی شاید شرافت حسین ہوتا۔ مسلمان ہندوازم میں مداخلت کرتے تو ہندوازم مٹ کر رہ جاتا۔ مسلمان کچھ اور نہیں تو نچلی ذات کے ہندوئوں کو اعلیٰ ذات کے ہندوئوں کے خلاف کھڑا کرکے ہندو ازم کی اینٹ سے اینٹ بجادیتے۔ مگر مسلمانوں نے ایسا نہ کیا۔ اس لیے کہ ان کا مذہب انہیں ایسا کرنے کی اجازت ہی نہیں دیتا۔ مگر ہندو قیادت نے 70 سال میں بھارت کے مسلمانوں کو برباد کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی، یہاں تک کہ اب تین طلاق کے مسئلے پر بھارت ایک ریاست کی حیثیت سے مسلمانوں کے پرنسل لامیں مداخلت کررہا ہے۔
یہ باتیں سن کر لوگ کہتے ہیں کہ نریندر مودی، آدتیہ ناتھ اور بی جے پی کی بات نہ کریں، یہ تو انتہا پسند ہیں۔ اتفاق سے اس وقت بھارت میں ہندوئوں کی سب سے بڑی روحانی شخصیت شری شری روی شنکر ہیں۔ شری شری روی شنکر Art of Living کے نام سے قائم ادارے کے بانی ہیں۔ وہ جہاں جاتے ہیں امن، محبت، بھائی چارے اور روحانیت کی بات کرتے ہیں۔ انہی شری شری روی شنکر نے بھارت کی نیوز ویب سائٹ The Wire کو بابری مسجد کے تنازع کے حوالے سے ایک انٹرویو دیا ہے۔ اس انٹرویو میں بھارت کی سب سے بڑی ’’روحانی‘‘ اور ’’علمی شخصیت‘‘ نے کیا کہا، ملاحظہ کیجیے:
’’اگر ایودھیا تنازع کے سلسلے میں عدالت کا فیصلہ ہندوئوں کے حق میں نہ آیا تو بھارت میں شام جیسی صورت حال پیدا ہوسکتی ہے۔‘‘
سوال یہ ہے کہ جب عدالت ’’انصاف‘‘ کرے گی تو اس کے فیصلے سے بھارت میں شام جیسی صورت حال کیوں پیدا ہوگی؟ دوسرا مسئلہ ہے کہ شری شری روی شنکر جیسی روحانی شخصیت نے بی جے پی یا بجرنگ دل کے رہنمائوں کی طرح عدالت کو دھمکایا ہے کہ وہ اپنا فیصلہ ہندوئوں کے خلاف نہ دے۔ اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ بھارت کی ’’روحانی شخصیت‘‘ اتنی ’’سیاسی‘‘ اور اتنی ’’مسلمان دشمن‘‘ ہے تو سیاسی شخصیات کتنی سیاسی اور مسلمان دشمن ہوں گی۔ دیکھا جائے تو شری شری روی شنکر نے بھارت کے 25کروڑ مسلمانوں کو بھی ڈرایا ہے کہ اگر فیصلہ تمہارے حق میں آگیا تو تم شام کی طرح خانہ جنگی کے لیے تیار رہو۔ پھر تم پر بھی وہی سب کچھ گزرے گا جو شام کے لوگوں پر گزر رہا ہے۔ شری شری روی شنکر سے جب پوچھا گیا کہ انہوں نے اپنے بیان میں شام کا حوالہ کیوں دیا؟ تو انہوں نے کہا کہ میں نے تو صرف ’’دعا‘‘ کی ہے کہ بھارت میں شام جیسی صورت حال کبھی پیدا نہ ہو۔ ظاہر ہے کہ شری شری روی شنکر اتنے ہی ’’دیالو‘‘ یا نرم دل ہوتے تو وہ اپنے بیان میں شام کا ذکر ہی نہ کرتے۔
شری شری روی شنکر نے انٹرویو میں یہ بھی کہا کہ ’’اگر عدالت نے ایودھیا میں مندر بنانے کے خلاف فیصلہ دیا تو بھارت میں کشت و خون ہوگا، آپ کا کیا خیال ہے کہ ہندو اکثریت ایسا فیصلہ قبول کرے گی؟ ایسا نہیں ہوگا۔ ہندو مسلمانوں کے خلاف ’’ناراضی‘‘ دل میں پال لیں گے، اور اگر فیصلہ مندر کے حق میں آیا تو بھارت کے مسلمان عدلیہ پر اعتبار کھو دیں گے اور ممکن ہے کہ وہ ’’انتہا پسندی‘‘ کی طرف مائل ہوں۔‘‘
ذرا شری شری روی شنکر کے اس تجزیے کا جائزہ لیجیے۔ اُن کا کہنا ہے کہ اگر فیصلہ ہندوئوں یا مندر کی تعمیر کے خلاف آیا تو بھارت میں کشت و خون ہوگا۔ کیوں بھئی؟ جب عدالت انصاف کرے گی تو کشت و خون کیوں ہوگا؟ کیا ہندو انصاف کو پسند نہیں کرتے؟ اگر ایسا ہے تو شری شری روی شنکر کیوں اس کا اظہار نہیں کرتے۔ وہ کیوں نہیں بتاتے کہ 1947ء میں پاکستان کا قیام بھی ایک ’’تاریخی انصاف‘‘ تھا مگر ہندوئوں نے اس ’’انصاف‘‘ کو بھی قبول نہ کیا اور لاکھوں مسلمانوں کو قتل کرڈالا، 80 ہزار سے زیادہ مسلم خواتین کی عزتیں لوٹ لیں۔ مزے کی بات یہ ہے کہ شری شری روی شنکر کے بقول اگر فیصلہ مسلمانوں کے خلاف یا مندر کے حق میں آیا تو مسلمان ’’انتہا پسندی‘‘ کی طرف جائیں گے۔ واہ، ہندو اپنے خلاف فیصلے پر کشت و خون کریں گے مگر وہ ’’انتہا پسند‘‘ نہ ہوں گے، جبکہ فیصلہ مسلمانوں کے خلاف آیا تو وہ ’’انتہا پسند‘‘ بن سکتے ہیں۔
شری شری روی شنکر نے یہ بھی فرمایا کہ ایودھیا کا تنازع ’’زمین‘‘ کا نہیں ’’عقیدے‘‘ کا تنازع ہے۔ برصغیر کے مسلمانوں نے پاکستان کا مطالبہ کیا تھا تو یہی کہا تھا کہ مسئلہ زمین کا نہیں، مسئلہ عقیدے اور اس سے پیدا ہونے والی تہذیب، ثقافت، اقدار اور تاریخ کا ہے۔ اب شری شری روی شنکر بھی یہی کہہ رہے ہیں۔ اس طرح انہوں نے نہ صرف یہ کہ قیام پاکستان کے مطالبے کی روح پر مہرِ تصدیق ثبت کردی ہے بلکہ بھارت کی ہندو قیادت کا رویہ بتادیا ہے کہ اگر ہندو قیادت نے خود کو نہ بدلا تو بھارت میں ایک بار پھر عقیدے اور اس کے تحفظ کا سوال کھڑا ہوسکتا ہے۔ اس کی ایک وجہ یہ ہے کہ بھار ت میں بندر اور گائے مسلمانوں سے زیادہ قابلِ احترام اور محفوظ ہیں۔ اس کی دوسری وجہ یہ ہے کہ شری شری روی شنکر جیسے ’’روحانیت‘‘ کے علَم برداروں، امن کے ’’پرچارکوں‘‘ اور ’’محبت‘‘ کے داعیوں میں بھی اگر نریندر مودی چھپا ہوا ہے تو پھر بھارت میں جو ہوجائے کم ہے۔ ان باتوں پر آپ اسلام، قائداعظم اور پاکستان کے تناظر میں غور کریں گے تو آپ پر ان تینوں کی حقیقی معنویت آشکار ہوگی۔