جرائم اور عہدِ حاضر

انسان کی انفرادی زندگی ہو یا اجتماعی زندگی… قومی زندگی ہو یا بین الاقوامی زندگی… ہر طرف جرائم کی فراوانی ہے۔ اس فراوانی کو دیکھ کر کبھی کبھار ایسا محسوس ہوتا ہے کہ زندگی جرائم کے سمندر میں ایک جزیرے کے سوا کچھ نہیں۔ذوقؔ نے کہا تھا ؎
بشر جو اس تیرہ خاکداں میں پڑا یہ اس کی فروتنی ہے
وگرنہ قندیلِ عرش میں بھی اسی کے جلوے کی روشنی ہے
ذوقؔ نے جب یہ شعر کہا تھا تو عرش اور فرش کا فرق واضح تھا، مگر مسئلہ یہ ہے کہ اب انسان نے فرش ہی کو عرش بنالیا ہے۔
بقول شاعر ؎
روئے تمنا مانگ کے لائی اک اندھی خواہش
گہرائی کا بھیس بدل کر آئی ہے پستی
ظاہر ہے جب عرش اور فرش میں فرق نہ رہے اور پستی گہرائی کا بھیس بدل کر پستی بن جائے تو پھر دنیا جرائم کا سمندر نہیں بنے گی تو اور کیا بنے گی؟
دنیا میں جرائم کی تاریخ اتنی ہی پرانی ہے جتنی انسان کی تاریخ۔ ہابیل اور قابیل کا قصہ اس کا بیّن ثبوت ہے۔ تاہم دنیا میں جرائم سے متعلق قانون یا Criminal Law کا قصہ بھی تقریباً 3000 سال پرانا ہے۔ لیری جے سیگل نے اپنی تصنیف Criminology میں بابل کے چھٹے بادشاہ حمورابی کے حوالے سے لکھا ہے کہ اس نے سب سے پہلے جرائم سے متعلق باضابطہ قوانین مرتب کیے۔ حمو رابی کا زمانہ 1792 قبلِ مسیح بتایا جاتا ہے۔ اسرائیلی روایات کے مطابق اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کے توسط سے بنی اسرائیل کو 613 قوانین دیے اور کہا کہ بنی اسرائیل ان قوانین کی پابندی کریں گے تو خدا ان کی خبر گیری بھی کرے گا اور انہیں تحفظ بھی مہیا کرے گا۔ اسرائیلی روایات کے مطابق حضرت موسیٰ علیہ السلام کا زمانہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام سے 1200 سال قبل کا عہد تھا (Criminology- Page 14)۔ ان بیانات کی اہمیت جو بھی ہو، ان کا کمزور پہلو یہ ہے کہ ان بیانات میں گناہ اور جرم کو ہم معنی بنادیا گیا ہے۔ حالانکہ گناہ اور جرم میں اساسی طور پر یہ فرق ہے کہ گناہ اللہ تعالیٰ کے قانون کی خلاف ورزی ہے اور جرم انسانی ساختہ قانون کی خلاف ورزی کو کہتے ہیں۔ اس اعتبار سے دیکھا جائے تو گناہ اور جرم کی نفسیات ہی میں نہیں، ان کے اثرات میں بھی فرق ہے۔ اگرچہ انسان نے خدا کے قانون کو توڑنے سے بھی کبھی گریز نہیں کیا، لیکن خدا اور انسان کے بنائے ہوئے قوانین کے مابین یہ فرق ہے کہ خدا کے قانون کو توڑتے ہوئے انسان کچھ نہ کچھ ڈرتا ہے، مگر انسان کے بنائے ہوئے قانون کے بارے میں اُس کا خیال ہوتا ہے کہ یہ میرے ہی جیسے انسانوں کا بنایا ہوا ایک ضابطہ ہے۔ چنانچہ وہ انسانی ساختہ قوانین کو زیروزبر کرنے میں دیر نہیں کرتا۔ اس حوالے سے یہ ایک سامنے کی بات ہے کہ گناہ کا احساس انسان کے پورے وجود کو متاثر کرتا ہے، لیکن جرم کا احساس زیادہ سے زیادہ انسان کے ذہن پر اثرانداز ہوتا ہے۔ لیری جے سیگل نے اپنی تصنیف Criminolgy میں ایک جگہ عیسائیت کے عظیم مفکر سینٹ تھامس اکوائناس کا یہ قول نقل کیا ہے کہ ہر جرم کا تعلق فطری گناہ یا Original Sin سے ہے۔ لیکن اسلام کا تصورِ انسان اور تصورِ جرم ہرگز یہ نہیں ہے۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ ہر بچہ اپنی فطرت یا دینِ حنیف پر پیدا ہوتا ہے، یہ اس کے والدین ہوتے ہیں جو اسے عیسائی، یہودی یا مجوسی بنادیتے ہیں۔ اس کے معنی یہ ہیں کہ ماحول بہت ہی بڑی قوت ہے اور انسان کو مجرم بنانے میں ماحول کا کردار بنیادی ہے۔ اس کا مطلب یہ نہیں کہ انسان میں برائی کی طرف رغبت کا رجحان نہیں ہوتا۔ قرآن مجید نے صاف کہا ہے کہ اللہ نے انسان کے نفس پر نیکی اور بدی کے رجحان کو القا کیا ہے۔ لیکن ماحول اتنی بڑی قوت ہے کہ وہ انسان کی اصل فطرت پر غالب آجاتا ہے اور انسان کی فطرتِ ثانیہ بن جاتا ہے۔ یعنی ماحول پر خیر کا غلبہ ہوتا ہے تو انسانوں کی عظیم اکثریت خیر کی طرف راغب ہوجاتی ہے۔ ماحول پر شر کا غلبہ ہوتا ہے تو انسانوں کی عظیم اکثریت شر کی جانب مائل ہونے لگتی ہے۔ بدقسمتی سے عہدِ حاضر میں ماحول کی قوت اور اس کا جبر اتنا بڑھ گیا ہے کہ ماحول ہی انسان کی اصل فطرت بن گیا ہے۔ اس کا اندازہ اس بات سے کیجیے کہ فرانس کے ممتاز ماہر عمرانیات ایمل ڈرکھائم نے جنہیں کارل مارکس اور میکس ویبر کی سطح کا مفکر سمجھا جاتا ہے، کہا ہے کہ جرم انسان کے لیے فطری یا Natural ہے بلکہ اس سے بسااوقات ’’معاشرتی ارتقا‘‘ میں مدد ملتی ہے۔ جیسا کہ ظاہر ہے کہ ڈرکھائم کے اس تجزیے میں ’’بیماری‘‘ اور’’صحت‘‘ تقریباً ہم معنی ہوگئی ہیں۔ اس کی وجہ ظاہر ہے۔ مغرب کا تصورِ انسان ، انسان کو حیوان سے آگے نہیں پہچانتا۔ چنانچہ مغرب کے مفکرین اگر جرم کو Celebrateکرتے نظر آئیں تو اس میں حیرت کی کوئی بات نہیں۔ تاہم اہلِ ایمان رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے اس ارشادِ مبارکہ کو ایک لمحے کے لیے بھی فراموش نہیں کرسکتے کہ ہر گناہ کی جڑ دنیا کی محبت ہے۔
ہمیں یاد رکھنا چاہیے کہ دنیاکی محبت اُس وقت تک انسان سے گناہ یا جرم نہیں کرا سکتی جب تک وہ ایک مسلمان میں اللہ کی محبت اور اس کے خوف کو غیر مؤثر نہ بنادے۔ اس سلسلے میں ہمیں رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے مزید دو ارشادات یاد آرہے ہیں۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ اُس غربت سے اللہ تعالیٰ کی پناہ مانگو جو انسان کو کفر تک پہنچا دیتی ہے۔ اسی طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ ہر امت کا ایک فتنہ ہے اور میری امت کا فتنہ مال ہے۔ اس تناظر میں دیکھا جائے تو حد سے بڑھی ہوئی غربت اتنی ہولناک چیز ہے کہ وہ انسان کو اس احساس سے دوچارکرسکتی ہے کہ میرا اور اِس دنیا کا کوئی خدا نہیں ہے۔ ہوتا، تو میری زندگی اتنی کسمپرسی میں کیوں بسر ہوتی! ظاہر ہے کہ غربت کی جو ہولناک شکل انسان کو کفر تک پہنچا سکتی ہے وہ انسان سے چوری بھی کروا سکتی ہے، ڈاکا بھی ڈلوا سکتی ہے، یہاں تک کہ کسی کو قتل بھی کرا سکتی ہے۔ انتہائی شدید غربت کوئی نئی چیز نہیں، مگر ہمارے زمانے میں غربت کا احساس کئی وجوہ سے بہت شدید ہوگیا ہے۔ ایک وقت تھا کہ معاشرہ انتہائی غریب لوگوں کو کم از کم بھوک سے مرنے نہیں دیتا تھا۔ ہمیں اپنے بچپن کی ایک بات یاد ہے۔ ہمارے محلے میں ایک ضعیف خاتون اپنی جوان نواسی کے ساتھ رہتی تھیں۔ وہ اتنی غریب تھیں کہ ان کے پاس دو وقت کی روٹی بھی موجود نہ ہوتی تھی۔ چنانچہ محلے کے لوگوں نے ان کو کھانا فراہم کرنے کے حوالے سے دن مقرر کررکھے تھے۔ بعض لوگ ان مجبوروں کو کپڑا لتّا بھی مہیا کردیتے تھے۔ لیکن اب ایسا تجربہ عام نہیں، چنانچہ غریبوں میں غربت کا احساس شدید ہوگیا ہے۔ لیکن مسئلہ صرف انتہائی غربت نہیں ہے۔ مال کے فتنے کی دو صورتیں ہیں۔ ایک یہ کہ امت کے ایک طبقے کے پاس مال کی کثرت ہے، اور یہی کثرت اُس کے لیے فتنہ بن گئی ہے۔ مال کی کثرت اس طبقے کو طرح طرح کے گناہوں اور جرائم میں ملوث کررہی ہے۔ آپ دیکھ رہے ہیں کہ آصف علی زرداری ہوں یا نوازشریف اور ان کا خاندان… اربوں روپے کے مالک ہونے کے باوجود ان کی ہوسِ زر کی تسکین کا سامان مہیا نہیں ہو پارہا۔ مال کے فتنے کی ایک صورت یہ ہے کہ غریب، زیریں متوسط اور متوسط طبقہ معاشی اعتبار سے بالائی طبقے کی طرف دیکھ رہا ہے۔ وہ کسی بھی صورت میں بالائی طبقے کی طرح ہونا چاہتا ہے۔ کچھ لوگ امیر بننے کے لیے محنت کرتے ہیں، اہلیت مہیا کرتے ہیں، مگر محنت اور اہلیت مہیا نہ ہوسکے تو ’’دوسرے راستوں‘‘ کا رخ کیا جاتا ہے، بلکہ بسا اوقات محنت کرنے اور صلاحیت رکھنے والے بھی “Short Cut” تلاش کرتے اور اس سے ’’استفادہ‘‘ کرتے نظر آتے ہیں۔ اس جدوجہد میں ہماری زندگی اتنی ’’دولت مرکز‘‘ یا “Money Centric” ہوگئی ہے کہ اب معاشرے میں عزت ہے تو دولت سے… وقار ہے تو دولت سے… مقام ہے تو دولت سے… یہاں تک کہ شرافت، نجابت اور علم بھی اہلِ زر سے منسلک ہوکر رہ گیا ہے۔ اس تناظر میں دیکھا جائے تو پورا معاشرہ ہی ’’جرائم پیشہ‘‘ بن گیا ہے۔ آخر جو ’’اسلامی معاشرہ‘‘ تقویٰ اور علم کو ’’فضیلت‘‘کی بنیاد تصور نہ کرے بلکہ دولت کے ہاتھ میں فضیلت کا پرچم تھما دے… روحانی، اخلاقی، علمی اور تہذیبی اعتبار سے اُسے جرائم پیشہ نہ کہا جائے تو اورکیا کہا جائے؟
دولت کے حوالے سے غیراسلامی معاشروں کا حال اور بھی ابتر ہے۔ اس ابتری کا اندازہ اس امر سے کیا جاسکتا ہے کہ دولت اور اس سے منسلک سہولتوں نے پوری انسانیت اور پوری دنیا کو چار ذاتوں میں تبدیل کردیا ہے۔ پہلی دنیا ترقی یافتہ دنیا ہے۔ اس دنیا کے پاس سرمائے کی فراوانی ہے، اس بنیاد پر یہ دنیا ’’برہمنوں‘‘ کی دنیا ہے۔ دوسری دنیا ’’ترقی پذیر‘‘ملکوں کی دنیا ہے۔ یہ دنیا ترقی یافتہ بننے کے لیے کوشاں ہے۔ اس کے پاس ترقی یافتہ دنیا سے کم سرمایہ ہے۔ اس دنیا کے لوگ ’’شتریہ‘‘ ہیں۔ تیسری دنیا نام کے اعتبار سے بھی تیسری دنیا ہے۔ یہ غریب ملکوں کی دنیا ہے۔ اس دنیا کے پاس ترقی پذیر ملکوں سے کم سرمایہ ہے۔ چنانچہ یہ دنیا ’’ویش‘‘ کی دنیا ہے۔ چوتھی دنیا پسماندہ قوموں کی دنیا ہے۔ اس دنیا میں وہ ملک بھی شامل ہیں جنہیں مغرب بصدِ شوق “Failed States” یا ناکام ریاستیں کہتا ہے۔ یہ دنیا ’’شودروں‘‘ کی دنیا ہے۔ اس دنیا کی مالی عدم مساوات کا یہ عالم ہے کہ دنیا کی ایک فیصد آبادی کے پاس دنیا کے 82 فیصد مالی وسائل موجود ہیں، اور دنیا کی 99 فیصد آبادی صرف 18 فیصد وسائل پر گزارہ کررہی ہے۔ Oxfam کی ایک رپورٹ کے مطابق دنیا کے امیر ترین لوگ تقریباً8 ہزار ارب ڈالرز کو چھپائے ہوئے ہیں اور اتنے بڑے سرمائے پر ایک پیسہ بھی ٹیکس کی مد میں ادا نہیں کرتے۔ ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان میں 6کروڑ 20 لاکھ محنت کشوں میں سے صرف دو فیصد کو یونین کا سایہ مہیا ہے، باقی تمام محنت کش سرمایہ داروں کے استحصال کو برداشت کرنے پر مجبور ہیں۔ ’’دولت کی فحاشی‘‘ کا یہ عالم ہے کہ امریکہ کی عام گارمنٹ فیکٹری کے ایک “CEO” کی ایک روز کی تنخواہ عام محنت کش کی پورے سال کی آمدنی کے برابر ہے۔ اس صورتِ حال کی ہولناکی کا اندازہ اس بات سے کیا جاسکتا ہے کہ دنیا کی پانچ بڑی گارمنٹس کمپنیوں کے ایک سی ای او کی چار دن کی تنخواہ بنگلہ دیش کی ایک خاتون ٹیکسٹائل ورکر کی پوری زندگی کی آمدنی کے مساوی ہے۔ ایسی دنیا میں دولت، اس کی محبت، اس کی پرستش اور اس کی تمنا جتنے جرائم خلق کردے کم ہے۔
ماحول کے جبر کا اندازہ اس امر سے بھی بخوبی کیا جاسکتا ہے کہ دنیا میں طاقت کے کسی بھی بڑے مرکز کو چیلنج کرنا ناممکن ہوچلا ہے۔ الطاف حسین اور ان کی ایم کیو ایم 30 سال تک کراچی میں ’’جرائم کی گنگا‘‘ بہاتی رہی۔ ریاست کے تمام ادارے اس صورتِ حال پر یا تو خاموش رہے یا انہوں نے شعوری یا لاشعوری طور پر ایسے اقدامات کیے کہ ’’ظالم‘‘دیکھتے ہی دیکھتے ’’مظلوم‘‘ بن گیا۔ یہ تو پاکستان کے ایک شہر کی ’’داستان‘‘ ہے۔ ذرا عالمی منظرنامے پر نظر ڈالیے۔ اسرائیل نے فلسطین اور بھارت نے کشمیر میں ریاستی جرائم کی لاکھوں داستانیں رقم کردی ہیں مگر اُن کا ہاتھ پکڑنے والا کوئی نہیں۔ امریکہ اور اُس کے اتحادیوں نے گزشتہ پچیس برس میں عراق میں 16لاکھ اور افغانستان میں ڈیڑھ لاکھ سے زیادہ عام مسلمانوں کو قتل کرڈالا، مگر امریکہ دنیا کی واحد سپر پاور ہے، اُسے لگام دینے والی کوئی قوت روئے زمین پر موجود نہیں۔ دنیا جس چیز کو International Order کہتی ہے وہ اصل میں International Disorder ہے، مگر دنیا کے پانچ بڑے بدمعاش بین الاقوامی Disorder کے محافظ ہیں۔ ان کے پاس سلامتی کونسل میں ویٹو پاور ہے۔ یہ کتنی عجیب و غریب بات ہے کہ امریکہ شمالی کوریا کو ایٹمی اسلحہ سے محروم کرنا چاہتا ہے، اور اس نے ایران کو بھی ایٹمی ہتھیاروں کی تیاری سے دور کردیا ہے، مگر خود بڑی طاقتیں ایٹمی ہتھیاروں کی ’’نئی نسل‘‘ تیار کرنے میں لگی ہوئی ہیں۔ یہ طاقت کا ننگا ناچ ہے، اور اس ناچ سے یہ حقیقت آشکار ہوتی ہے کہ پوری بین الاقوامی زندگی جرائم پیشہ اذہان کی مٹھی میں ہے، اور ان اذہان نے عالمی منظرنامے کو بڑے بڑے انسانیت سوز جرائم سے بھر دیا ہے۔ ممتاز ماہر نفسیات ایرک فرام نے مغرب کی جرائم پیشہ ذہنیت کو اپنی مشہور زمانہ تصنیف The Anatomy of Human Destructivenessمیں کھول کر بیان کیا ہے اور کہا ہے کہ مغرب نے گزشتہ چار سو سال میں 2600 سے زیادہ جنگیں ایجاد کی ہیں۔ ان جنگوں میں دو عالمی جنگیں بھی شامل ہیں۔ ایک اندازے کے مطابق دو عالمی جنگوں میں 7 سے 10 کروڑ افراد ہلاک ہوئے۔ اصول ہے کہ جنگ میں ایک آدمی ہلاک ہوتا ہے تو 3 زخمی ہوتے ہیں۔ اس حوالے سے دیکھا جائے تو جدید مغرب گزشتہ چار سو سال سے ایک عالمگیر Killing Machine بنا ہوا ہے۔ مغرب کے پیدا کردہ ’’جدید انسان‘‘ کے ’’کارناموں‘‘ کو دیکھتے ہوئے ایرک فرام یہ کہنے پر مجبور ہوگیا کہ قدیم انسان (جسے مغرب غیر مہذب کہتا ہے) صرف اس لیے دفاع میں کسی کو قتل کرتا تھا کہ اس کی اپنی جان بچ جائے۔ قدیم انسان کسی کو قتل نہیں کرتا تھا۔ اس کے برعکس جدید انسان کے لیے انسانوں کا قتل ایک کھیل ہے۔
انسانی تاریخ کا مطالعہ بتاتا ہے کہ انسان کو انسان بنانے والی صرف چار چیزیں ہیں: ایمان، اخلاق، محبت اورعلم۔ بدقسمتی سے دنیا کے کروڑوں نہیں اربوں انسان ان چاروں ہی سے محروم ہیں۔ کسی کے پاس ایمان ہے تو گہرا اور مؤثرنہیں ہے، چنانچہ کروڑوں انسانوں کے لیے ایمان ذہن کی مُردنی کے سواکچھ نہیں۔ مغرب اخلاق کو مطلق نہیں اضافی، Relativeیا افادی سمجھتا ہے۔ اور اخلاق کی الف، ب جاننے والوں کو بھی معلوم ہے کہ اضافی اور افادی اخلاق حقیقی اور زندہ اخلاق نہیں۔ جو لوگ اخلاق کو مطلق مانتے ہیں اُن کی اکثریت کا مسئلہ یہ ہے کہ اخلاق ان کے لیے ایک ’’تصور‘‘ ہے، اور تصور اگر زندہ تجربہ نہ بن سکے تو اس کی کوئی اہمیت ہی نہیں ہے۔ رہی محبت، تو اس کی موت کے تجربے کی مختلف صورتوں کے بیان سے جدید اردو غزل بھری پڑی ہے۔ چند مثالیں ملاحظہ کیجیے:
اپنی تکمیل کر رہا ہوں میں
ورنہ تجھ سے تو مجھ کو پیار نہیں
(فیض)
……
میں روز ادھر سے گزرتا ہوں کون دیکھتا ہے
میں جب ادھر سے نہ گزروں گا کون دیکھے گا
(مجید امجد)
……
عشق کے نام پہ کب ہم نے اٹھایا گھاٹا
صبح تک بھول گئے رات کا چوما چاٹا
(سلیم احمد)
……
اچھا تو مروت ہی تیرا بوسۂ لب ہے
اچھا یہ کوئی دل کا تقاضا بھی نہیں تھا
(عزیز حامد مدنی)
……
رنجش ہی سہی دل ہی دکھانے کے لیے آ
آ پھر سے مجھے چھوڑ کے جانے کے لیے آ
(احمد فراز)
……
زیست اب کس طرح بسر ہو گی
دل نہیں لگ رہا محبت میں
(جون ایلیا)
……
عزیز اتنا ہی رکھو کہ جی سنبھل جائے
اب اس قدر بھی نہ چاہو کہ دم نکل جائے
(عبیداللہ علیم)
مسئلہ یہ ہے کہ اگر انسان، انسان سے محبت نہیں کرسکتا تو خدا سے کیا محبت کرے گا! اس بات کو اس طرح بھی کہا جاسکتا ہے کہ جو شخص خدا سے محبت نہیں کرتا وہ انسانوں سے خاک محبت کرے گا! خدا کا معاملہ یہ ہے کہ ہم خدا کے لیے جان دے سکتے ہیں مگر اس کے احکامات پر عمل نہیں کرسکتے۔ علم کا قصہ یہ ہے کہ ہمیں معلومات اور علم کا فرق تک معلوم نہیں۔ غزالیؒ نے کہیں کہا ہے کہ شے شعور پر غالب آجائے تو یہ معلومات ہے۔ شعور شے پر غالب آجائے تو یہ علم ہے۔ اس بات کو اس طرح بھی کہا جاسکتا ہے کہ جو حقائق باہمی ارتباط اور تناظر سے محروم ہوں وہ معلومات ہیں، اور جن حقائق کا باہمی ربط تلاش کرکے انہیں تناظر میں مہیا کردیا گیا ہو وہ علم ہے۔ سلیم احمد نے کہا تھا ؎
گاہک کا کال دیکھ کے دھندا بدل دیا
کھولی تھی پہلے ہم نے بھی جذبات کی دکان
’’علم کی دکان‘‘ کا حال ’’جذبات کی دکان‘‘ سے زیادہ پتلا ہے۔ زندگی اگر ایمان، اخلاق، محبت اور علم سے Define نہیں ہوگی تو پھر جرائم سے Define ہوگی۔ اسی لیے جرائم عہدِ حاضر کا مسئلہ بھی ہیں اور اس کی پہچان بھی۔

Leave a Reply