حال نے معاشرے کی ذہنی و نفسیاتی اور علمی و اخلاقی حالت کے بارے میں بنیادی سوالات اٹھادیے ہیں۔ ایک زمانہ تھا کہ مغرب میں ٹیلی وژن کو بچوں کے تناظر میں Electronic Parent کہا جاتا تھا، مگر بدقسمتی سے اب ٹیلی وژن پوری دنیا میں بڑی عمر کے لوگوں کا بھی باپ یا Parentبن گیا ہے۔ یہ ’’باپ‘‘ اب بتاتا ہے کہ معاشرے میں کیا موجود ہے، اور کیا موجود نہیں؟ معاشرے کو کیا سوچنا ہے اور کیا نہیں سوچنا ہے؟ کیا کہنا ہے، کیا نہیں کہنا ہے؟ کیا کرنا ہے اور کیا نہیں کرنا ہے؟ اس اعتبار سے دیکھا جائے تو ٹیلی وژن باپ کے مرتبے سے بھی بڑھ گیا ہے۔ اسے ’’الیکٹرانک پیر‘‘ یا ’’الیکٹرانک شیخ‘‘ کہا جائے تو زیادہ مناسب ہوگا۔ زینب کی المناک کہانی کا ایک افسوسناک پہلو یہ ہے کہ زینب کے واقعے کے عام ہوتے ہی ’’مغرب زدگان‘‘ کی ایک بڑی تعداد اپنے اپنے بلوں سے نکل آئی اور اس نے یہ راگ الاپنا شروع کردیا کہ اسکولوں میں جنسی تعلیم کو نصاب کا حصہ بنائے بغیر ایسے سانحات کو رونما ہونے سے نہیں روکا جاسکتا۔ اطلاعات کی وزیرمملکت مریم اورنگ زیب نے فرمایا کہ جب بھی جنسی تعلیم کو نصاب کا حصہ بنانے کی کوشش کی جاتی ہے اُس پر مذہبی تناظر میں اعتراضات کیے جانے لگتے ہیں۔ جیو کے شاہ زیب خانزادہ نے اس سلسلے میں ایک پورا پروگرام کرڈالا اور انہوں نے بھارتی اداکار عامر خان کے ایک پروگرام کو نمونے کے طور پر پیش کیا۔ اداکارہ ماہرہ خان، اداکار فیصل قریشی اور بالخصوص گلوکار شہزاد رائے نے اس ضمن میں کئی ٹی وی چینلز پر خاصا شور مچایا اور کہا کہ جنسی تعلیم اسکولوں کے نصاب کا حصہ نہیں ہوگی تو یہی ہوگا۔ پوری مسلم دنیا جانتی ہے کہ جنسی تعلیم کو نصاب کا حصہ بنانا امریکہ اور یورپ کا ایجنڈا ہے۔ سیکولر اور لبرل عناصر مذہبی لوگوں پر الزام لگاتے ہیں کہ وہ مذہب کے نام پر سیاست کرتے ہیں۔ مگر دیکھا جائے تو مغرب زدگان اس وقت پاکستان میں جنسی درندگی اور المناک قتل کے ایک واقعے پر پاکستان میں سیکولر مغرب کے سیکولر اور لبرل ایجنڈے کو آگے بڑھارہے ہیں۔ اس سلسلے میں سیاسی جماعتوں پر کیا، سپریم کورٹ تک پر اثرانداز ہونے کی سازش کی جارہی ہے۔ اس ضمن میں جیو سمیت کئی چینل متحرک کردار ادا کررہے ہیں۔ جنسی درندگی کی طرح یہ ’’ابلاغی درندگی‘‘ کی ایک مثال ہے۔
مسلم معاشرے میں جنسی درندگی کا ایک واقعہ بھی دل دہلا دینے والا ہے۔ اس کی جتنی مذمت کی جائے کم ہے۔ اور اس کی روک تھام کے لیے اسلام کی روشنی میں جو کچھ ممکن ہو،کیا جانا چاہیے اور اس سلسلے میں پورے معاشرے کو کردار ادا کرنا چاہیے۔ مگر بدقسمتی سے ’’مغرب زدگان‘‘ کا گروہ زینب کے واقعے کو جس طرح پیش کررہا ہے اور اس سلسلے میں مغرب کی جنسی تعلیم کو جس طرح اس مسئلے کا ’’علاج‘‘ باور کرا رہا ہے اُس سے یہ تاثر پیدا ہوتا ہے کہ مغرب کے سیکولر اور لبرل ممالک نہ صرف یہ کہ جنسی درندگی سے پاک ہیں بلکہ انہوں نے جنسی تعلیم وغیرہ کے ذریعے اس حوالے سے خود کو ’’جنت‘‘ بنالیا ہے، اس کے برعکس تاثر دیا جارہا ہے کہ پاکستان جیسا مذہبی ملک جنسی جرائم کی ’’آماجگاہ‘‘‘ بنا ہوا ہے، اور اس کی ایک وجہ یہ ہے کہ پاکستان مغربی ممالک کی طرح ’’سیکولر اور لبرل‘‘ نہیں۔ لیکن کیا واقعتا مغرب کے سیکولر اور لبرل ممالک خواتین اور بچوں کے تحفظ کے ’’قلعے‘‘ اور ان کی ’’جنت‘‘ ہیں؟ اور کیا یہ ممالک جنسی درندوں کا ’’جہنم‘‘ بنے ہوئے ہیں؟ اور ’’جنسی تعلیم‘‘ نے ان ممالک میں ’’انقلاب‘‘ برپا کیا ہوا ہے؟ آیئے دیکھتے ہیں۔
امریکہ،سیکولرازم اور لبرل ازم کی ایک جنت ہے۔ امریکہ کو دنیا کی سب سے ’’مضبوط جمہوریت‘‘ کہا جاتا ہے۔ امریکہ دنیا میں ’’انسانی حقوق‘‘ کا سب سے بڑا علَم بردار ہے۔ امریکی ’’عدالتی نظام‘‘ بے مثال ہے۔ امریکہ کی ’’پولیس‘‘ کا کوئی جواب ہی نہیں۔ امریکہ کے ذرائع ابلاغ امریکی عوام کی آزادی اور ان کے جان و مال اور عزت و آبرو کے ’’محافظ‘‘ ہیں، تاہم امریکہ کے
Rape, Abuse, and Incest National Network (RINN) کی ایک رپورٹ کے مطابق امریکہ میں 1998ء سے اب تک “Rape” کے ’’صرف‘‘ ایک کروڑ 77 لاکھ واقعات رپورٹ ہوئے ہیں۔ ان میں سے 99 فیصد واقعات کے ذمے داروں کو سزا نہیں دی جاسکی۔ عصمت دری کا نشانہ بننے والی خواتین میں سے 13 فیصد نے خودکشی کرلی۔
Rape Victims میں 90 فیصد نوجوان خواتین ہیں۔ اس رپورٹ کے مطابق امریکہ میں ہر سال Rape کے 3 لاکھ 21 ہزار 500 واقعات ہوتے ہیں۔ واقعات میں 10 میں سے 7 افراد کو معلوم ہوتا ہے کہ انہیں Rape کرنے والا کون ہے۔
امریکہ کی ایک ’’لبرل‘‘ News and Opinion Websiteکا نام Huff Post ہے۔ اس ویب سائٹ کی خواتین امور سے متعلق ایڈیٹر Alanna Vagianosکے ایک مضمون
“30 Alarming statistics that show the reality of sexual violence”کے مطابق امریکہ میں ہر98 سیکنڈ میں کسی نہ کسی پر ایک ’’جنسی حملہ‘‘ ہوتا ہے۔ مضمون کے مطابق اس طرح امریکہ میں ’’روزانہ‘‘ 570 افراد جنسی حملوں کا شکار ہوتے ہیں۔ مذکورہ مضمون 5مئی 2017ء کو ویب سائٹ پر پوسٹ ہوا۔ یہ ویب سائٹ نیویارک سٹی سے تعلق رکھتی ہے۔
سیکولرازم اور لبرل ازم کی جنت امریکہ میں بچوں پر جنسی حملوں کی صورت حال کیا ہے، اس کا اندازہ اس بات سے کیجیے کہ امریکہ کے محکمۂ انصاف کی ایک رپورٹ کے مطابق صرف 2012ء کے دوران امریکہ میں 62 ہزار 939 بچے جنسی حملوں کا نشانہ بنے۔ ان میں سے 85 فیصد بچوں نے حملوں کو رپورٹ ہی نہیں کیا۔ ان میں سے تیس سے چالیس فیصد بچوں کو خاندان کے کسی فرد نے Abuse کیا ہے۔ امریکہ کے محکمۂ انصاف کی رپورٹ کے مطابق 1998ء سے اب تک امریکہ میں 18 لاکھ ’’نوعمر‘‘ جنسی حملوں کا نشانہ بن چکے ہیں۔
امریکی فوج امریکہ کی اصل قوت ہے۔ امریکی فوج کی تعلیم و تربیت مثالی ہے۔ اس کے نظم و ضبط کا حوالہ دیا جاتا ہے۔ 28 مئی 2014ء کے نیویارک ٹائمز میں شائع ہونے والی رپورٹ میں امریکہ کے محکمہ دفاع پنٹاگون کے ایک سروے کے حوالے سے انکشاف کیا گیا ہے کہ صرف 2012ء میں امریکی فوج میں 26 ہزار ’’خواتین و حضرات‘‘ پر جنسی حملے ہوئے۔ ان میں سے صرف 3374 رپورٹ ہوئے۔ 2013ء کی پنٹاگون کی رپورٹ کے مطابق صرف 5061 فوجیوں کے جنسی حملے رپورٹ کیے گئے۔ ان میں سے صرف 484 حملوں کے سلسلے میں مقدمات قائم ہوئے اور صرف 376 افراد کو سزائیں ہوئیں۔ ہیومن رائٹس واچ کی 2016ء کی رپورٹ کے مطابق جن فوجیوں نے جنسی حملوں کے سلسلے میں شکایات درج کرائیں انہیں بعد ازاں Personality Disorder اور اسی طرح کے الزامات کے تحت ملازمتوں سے فارغ کردیا گیا۔ اس تناظر میں دیکھا جائے تو امریکہ جنسی درندوں کی جنت اور جنسی درندگی کا شکار ہونے والی خواتین اور بچوں کا جہنم نظر آتا ہے۔ پاکستان کے ’’مغرب زدگان‘‘ کی اطلاع کے لیے عرض ہے کہ امریکہ کے اسکولوں میں 1920ء سے کسی نہ کسی قسم کی اُس ’’جنسی تعلیم‘‘ کا اہتمام کیا جارہا ہے جسے پاکستان کے کئی ٹیلی وژن چینلز کے مالکان، اینکرز، اداکار اور اداکارائیں پاکستان کے تعلیمی اداروں پر مسلط کرنے کے لیے بے تاب ہیں۔ یہاں کہنے کی ایک بات یہ بھی ہے کہ امریکہ ایک مثالی سیکولر اور لبرل ریاست ہے۔ اس کا تعلیمی نظام بہترین ہے، اس کی معیشت شاندار ہے، اس کی سماجیات پر ساری دنیا کی رال ٹپک رہی ہے، اس کی پولیس اور نظامِ انصاف کی مثالیں دی جاتی ہیں، مگر اس کے باوجود امریکہ میں جنسی حملوں کا سیلاب آیا ہوا ہے اور ہر 98 سیکنڈ میں وہاں کوئی نہ کوئی عورت، بچہ یا مرد جنسی حملوں کا نشانہ بن جاتا ہے۔ اس تناظر میں دیکھا جائے تو امریکہ کے ذرائع ابلاغ پر ہر وقت جنسی حملے زیربحث ہونے چاہئیں، مگر امریکہ میں ان کا ’’ذکر‘‘ تک نہیں ہوتا، مگر اسلامی جمہوریہ پاکستان میں جہاں 60 فیصد آبادی کی مذہبی یا عام تعلیم کا سرے سے کوئی بندوبست ہی نہیں، جہاں کا تعلیمی نظام فرسودہ ہے، جہاں درجنوں بڑے بڑے معاشی اور سماجی مسائل اور محرومی کی ہولناک نفسیات موجود ہے، وہاں مغرب زدگان چاہ رہے ہیں کہ ایک یا چند واقعات چوبیس گھنٹے ذرائع ابلاغ پر چھائے رہیں، یہاں تک کہ ایک واقعے کی آڑ میں وہ جنسی تعلیم اسلامی جمہوریہ پاکستان پر مسلط کردی جائے جو 1920ء سے امریکہ میں غیر مؤثر بلکہ بچوں میں جنسی انحرافات کو بڑھانے اور معاشرے کو ’’جنسی سیلاب‘‘ میں’’غرق‘‘ کرنے کے حوالے سے ’’معاونت‘‘ کررہی ہے۔ امریکہ کی National Research Council کی 2013ء کی رپورٹ کے مطابق امریکہ میں جنسی درندگی کے سیلاب کو دیکھتے ہوئے Rape کے واقعات Under Reporting کا شکار ہونا شروع ہوگئے ہیں۔ Iowa Law Review میں شائع ہونے والے C.R Young کے ایک مضمون کے مطابق امریکہ میں ’’عصمت دری‘‘ کے واقعات کے حوالے سے دروغ گوئی کا مقصد یہ ’’دھوکا‘‘ تخلیق کرنا ہے کہ امریکہ میں تشدد آمیز جرائم پر قابو پانے میں کامیابی ہورہی ہے۔ اس تناظر میں دیکھا جائے تو پاکستان کے تمام مغرب زدگان سے عرض ہے کہ وہ اس بات پر اللہ تعالیٰ کا شکرکریں کہ وہ پاکستان میں پیدا ہوئے اور ان کا بچپن اور جوانی پاکستان میں گزری۔ ان کا بچپن اور جوانی خدانخواستہ امریکہ میں بسر ہوئی ہوتی تو امریکہ میں جنسی درندگی کے سیلاب کو دیکھتے ہوئے کہا جاسکتا ہے کہ ہمارے مغرب زدگان امریکہ میں یا تو اب تک جنسی اعتبار سے “Abused”ہوتے یا “Abuser” ۔ امریکہ میں 1920ء سے کسی نہ کسی صورت میں موجود جنسی تعلیم بھی انہیں تحفظ مہیا نہ کرپاتی۔
لیکن آپ امریکہ کے ’’ذکرِ خیر‘‘ سے یہ نہ سمجھیں کہ جنسی درندگی کا سیلاب صرف ’’امریکہ مرکز‘‘ یا America Centric ہے۔ ایسا نہیں ہے۔ فرانس یورپ کا سب سے سیکولر اور لبرل ملک ہے۔ ایک رپورٹ کے مطابق صرف ساڑھے چھ کروڑ آبادی والے ملک فرانس میں ہر سال 75 ہزار Rape Cases ہوتے ہیں۔ تاہم 2012ء کی رپورٹ کے مطابق 2012ء میں ان میں سے صرف 1293 کیس رپورٹ ہوئے۔2014ء کی ایک رپورٹ کے مطابق فرانس میں عصمت دری کے واقعات میں سے 5 سے 7 ہزار واقعات وہ ہوتے ہیں جنہیں Gang Rape کہا جاتا ہے۔ رپورٹ کے مطابق ایسے ہولناک واقعات کو فرانس میں “Pass arounds”کہا جاتا ہے۔ مغرب زدگان کی اطلاع کے لیے عرض ہے کہ فرانس میں 1973ء سے جنسی تعلیم اسکولوں کے نصاب کا حصہ ہے۔
آیئے ’’برطانیہ بہادر‘‘ پر بھی ایک ’’سرسری نظر‘‘ ڈال لیں۔ ایک رپورٹ کے مطابق برطانیہ کے صرف دو علاقوں یعنی England اور Wales میں ہر سال عصمت دردی کے 97 ہزار واقعات ہوتے ہیں۔ ان میں سے 75 ہزار خواتین اور 12 ہزار مرد ہوتے ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ برطانیہ کے صرف دو علاقوں میں ہر گھنٹے میں عصمت دردی کے 11 واقعات رونما ہوتے ہیں۔ رپورٹ کے مطابق عصمت دری کے صرف 15فیصد واقعات پولیس ریکارڈ کا حصہ بنتے ہیں۔ برطانیہ میں مارچ 2015ء سے جنسی تعلیم کا اہتمام ہورہا ہے۔ اس تناظر میں دیکھا جائے تو صرف امریکہ نہیں، مغرب کے تمام سیکولر اور لبرل ممالک جنسی درندگی کے سیلاب کی زد میں ہیں۔ کہتے ہیں کہ دنیا Globalize ہوگئی ہے، چنانچہ کیا ہی اچھا ہو کہ پاکستان کے نیوز چینلز اور شاہ زیب خانزادہ جیسے اینکر دوچار درجن نہیں تو دو چار پروگرام ہی مغرب کی جنسی درندگی کے حوالے سے کرڈالیں۔
ہمارے مغرب زدہ ٹی وی چینلز اور مغرب زدہ اینکرز اور اداکار وغیرہ معاشرے میں جنسی درندگی پر بڑے ’’پریشان‘‘ ہیں۔ ہونا بھی چاہیے۔ یہ لوگ بھی آخر معاشرے کا حصہ ہیں۔ یہ عناصر معاشرے میں ہونے والی جنسی درندگی کو تو دیکھ رہے ہیں مگر خود نام نہاد Industry Enertainment اور نام نہاد Fashion Industry میں جو ہولناک جنسی درندگی ہورہی ہے ہمارے ذرائع ابلاغ، ہمارے ٹی وی چینلز، ہمارے اینکرز اور ہمارے اداکار اور اداکارائیں اس کا ذکر بھی نہیں کرتے۔ ڈیلی ڈان کراچی نے 4 نومبر 2017ء کی اشاعت میں ہالی ووڈ کی Me too مہم سے متاثر ہوکر ایک سطحی مگر ہولناک رپورٹ شائع کی ہے۔ ملک کی معروف اداکارہ بشریٰ انصاری نے ڈان سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ وہ ایسے اداکاروں اور اداکارائوں کو جانتی ہیں جو چند سال میں ’’امیر‘‘ ہوگئے۔ بشریٰ انصاری کے بقول ایسی ’’امارت‘‘ صرف اداکاری سے ہونے والی ’’آمدنی‘‘ کا نتیجہ نہیں ہوسکتی۔ پی ٹی وی کی معروف ڈائریکٹر اور اداکارہ ساحرہ کاظمی نے کہا کہ وہ دیکھتی تھیں کہ نئی نوجوان اداکارائیں گھنٹوں ٹی وی کے ڈائریکٹرز اور معروف اداکاروں کے ساتھ کمروں میں بیٹھی ہوئی ہیں اور پھر اچانک وہ لڑکیاں ڈراموں میں اہم کردار ادا کرتی نظر آتی تھیں۔ ساحرہ کاظمی نے کہا کہ یہ ماضی میں بھی ہوتا تھا اور اب بھی ہورہا ہے۔ مشہور فلم ڈائریکٹر سید نور نے کہا کہ وہ ایسے بہت سے اداکاروں کو جانتے ہیں جو کسی کا بستر گرم کرنے یا ان کے الفاظ میں Casting Couch کا برا نہیں مانتے۔ ان کے بقول کچھ لوگ ایک رات میں امیر اور مشہور ہوجاتے ہیں اور آپ کو معلوم ہوتا ہے کہ ان لوگوں کی آمدنی کے ’’کچھ اور‘‘ ذرائع ہیں۔ Event Organizer فریحہ الطاف نے بتایا کہ انہیں اچانک Establish Designer سے کال موصول ہوتی ہے اور وہ کسی ’’ماڈل‘‘ کو شو کا حصہ بنانے کی فرمائش کردیتے ہیں۔ ان کے بقول اس دائرے میں Male Modelsکو خواتین ماڈل سے زیادہ ’’ہراسگی‘‘ کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ Stylist صائم راشد نے کہا کہ ’’ماڈلنگ‘‘ میں اہلیت و صلاحیت یا Telent کی کوئی اہمیت ہی نہیں۔ اہمیت ہے تو اس بات کی کہ آپ کسی کو ’’خوش‘‘ کرسکتے ہیں یا نہیں۔ صائم کے بقول کئی اچھے گھرانوں کے مرد ماڈلز محض اس لیے یہ پیشہ چھوڑ کر چلے گئے کہ وہ، وہ کچھ نہیں کرسکتے تھے جو اُن سے کہا جارہا تھا۔ ڈیزائنر ماہین خان نے کہا کہ شو بزنس میں Career‘Sponsorship اور Award Ceremoniesوغیرہ کسی نہ کسی ’’توہین آمیزی‘‘ پر کھڑی ہوتی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ وہ نہیں چاہیں گی کہ ان کی اولاد میں سے کوئی فیشن انڈسٹری میں آئے۔ ظاہر ہے کہ یہ تمام شہادتیں’’ملفوف الفاظ‘‘ میں انٹرٹینمنٹ اور فیشن انڈسٹری میں جاری ’’جنسی درندگی‘‘ کے واقعات کا بیان ہیں۔ ڈان کی رپورٹ کو شائع ہوئے دو ماہ سے زیادہ عرصہ ہوچکا ہے مگر کسی جیو، کسی اے آر وائی، کسی آج، کسی ڈان ٹی وی، کسی شاہ زیب خانزادہ، کسی ماہرہ خان، کسی فیصل قریشی، یہاں تک کہ کسی شہزاد رائے کو اس سلسلے میں ’’احتجاج‘‘ یا ’’مظاہرے‘‘ یا ’’ڈسکشن پروگرام‘‘ کرنے کی توفیق نہیں ہوئی۔ اس کی وجہ ظاہر ہے کہ فیشن انڈسٹری اور انٹرٹینمنٹ انڈسٹری ’’سیکولر‘‘، ’’لبرل‘‘ اور ’’روشن خیال‘‘ لوگوں کے مراکز ہیں۔ یعنی یہ ادارے خود مغرب زدگی کی علامت ہیں۔ ظاہر ہے کہ مغرب زدگان خود اپنی جیسی مخلوق کے چہرے سے کیوں پردہ اٹھانے لگے؟ اس سے معلوم ہوا کہ مغرب زدگان معصوم اور مظلوم زینب کے سلسلے میں جو ماتم کررہے ہیں اس میں کوئی اخلاص نہیں، اس میں کوئی جذبہ نہیں، اس میں کوئی پاکستانیت نہیں۔ یہ ماتم صرف اسلامی جمہوریہ پاکستان پر گندگی اچھالنے کے لیے ہے، صرف مغرب کا ایجنڈا آگے بڑھانے کے لیے ہے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ آخر پاکستان میں جنسی درندگی کے واقعات کیوں ہورہے ہیں؟
بلاشبہ پاکستان جنسی درندگی کے سلسلے میں امریکہ اور یورپ میں برپا جنسی درندگی کے سیلاب سے ہزاروں میل دور کھڑا ہے مگر اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ پاکستانی معاشرے کی اخلاقی حالت خراب ہے اور مزید خراب ہورہی ہے۔ اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ ہماری آبادی کا 60 سے 70 فیصد حصہ کسی بھی مذہبی اور اخلاقی تعلیم و تربیت سے محروم ہے۔ جن لوگوں کو کسی نہ کسی قسم کی مذہبی، اخلاقی یا عام تعلیم میسر ہے وہ جزوی ہے۔ اس سلسلے کا ایک بڑا مسئلہ یہ ہے کہ ہماری مذہیت ظاہر پر تو اثرانداز ہے مگر ’’باطن‘‘ پر اثرانداز نہیں۔ تہذیبِ نفس و تزکیہ نفس کاخیال تک اکثر لوگوں کے دل سے نکل گیا ہے۔ بدقسمتی سے ہماری تعلیم و تربیت ایسے لوگوں کے ہاتھ میں آگئی ہے جنہیں خود تعلیم و تربیت اور تزکیے کی ضرورت ہے۔ ہم خواہ کچھ کہیں، ہمارا تصورِ انسان بدل گیا ہے۔ ہمارا مطلوب اب ’’اچھا انسان‘‘ نہیں، دنیاوی معنوں میں ’’کامیاب انسان‘‘ ہے۔ کامیاب انسان اپنی اصل میں ایک مغربی یا سیکولر تصور ہے۔ رہی سہی کسر ذرائع ابلاغ نے پوری کردی ہے۔ انہوں نے معاشرے میں عورت کو صرف جنس کی علامت یا Sex Symbolکے طور پر پیش کیا ہوا ہے۔ ہماری فلمیں، ہمارے ڈرامے، ہمارے اشتہارات، ہماری موسیقی غرضیکہ ہر چیز پر Sex Symbols کا غلبہ ہے۔ اس صورت حال نے ایسے کروڑوں مردوں کی جنسی بھوک کو بہت بڑھا دیا ہے جو روحانی، اخلاقی، تہذیبی، نفسیاتی، جذباتی اور ذہنی طور پر کمزور ہیں۔ یہ بالکل ایسی ہی بات ہے کہ معاشرے میں دولت کا جنون پیدا کرکے اور معاشرے کو دولت کے مظاہر سے بھر کر غریبوں اور مفلسوں سے یہ توقع کی جائے کہ وہ پیسہ کمانے کے لیے چوری نہیں کریں گے، ڈاکے نہیں ڈالیں گے۔ ہمارے معاشرے کا المیہ ملاحظہ کیجیے کہ ذرائع ابلاغ میں کئی دن تک معصوم اور مظلوم زینب کے ساتھ ہونے والی جنسی درندگی اور اس کا سفاکانہ قتل زیر بحث رہا مگر کسی سیاسی رہنما، کسی اخبار، کسی ٹیلی وژن اور کسی دانشور نے یہ نہ کہا کہ اس صورت حال کا ذمے دار ہمارا حکمران طبقہ ہے جس نے معاشرے کی مذہبی، اخلاقی، تہذیبی اور تعلیمی صورت حال کو بہتر بنانے کے لیے گزشتہ 70 سال سے کچھ نہ کیا۔کسی نے یہ نہ کہا کہ ہماری مذہبیت صرف ظاہر کو کیوں مذہبی بنارہی ہے؟ وہ ہمارے باطن کو کیوں نہیں بدل رہی؟ کسی نے یہ نہ کہا کہ فلموں، انٹرنیٹ اور ٹیلی وژن چینلز نے پورے معاشرے میں جنسی انارکی پھیلانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی ہے۔ سوال یہ ہے کہ ’’نفسِ امارہ‘‘ سے اٹے ہوئے معاشرے میں ’’نفسِ لوامہ‘‘ اور ’’نفسِ مطمئنہ‘‘ کے مظاہر کیسے نمودار ہوں گے؟ آخر کیکر کے درخت سے انگور توڑنے کی آرزو کہاں کی صحیح الدماغی ہے؟ بلاشبہ انسانوں کی ایک قسم ایسی ہے جو صرف ’’خوف کی زبان‘‘ سمجھتی ہے۔ ایسے لوگوں کے لیے معاشرے کے ’’نظام انصاف‘‘کو درست کرنے اور مجرموں کو بروقت سخت سزائیں دینے کی ضرورت ہے۔ بدقسمتی سے ہمارے سیاست دانوں، ہمارے دانشوروں اورہمارے ذرائع ابلاغ میں سے کسی نے ان معاملات پر غور کرکے نہیں دیا۔ غور نہیں کیا تو ان نکات کا تذکرہ کون کرتا! ہوا صرف یہ ہے کہ ٹیلی وژن چینلز نے رائے سازوں کے ذہن، ان کے تجزیے کی صلاحیت اور رائے کو اغوا کرلیا اور پورا معاشرہ مغرب زدگان کی زبان بولتا ہوا نظر آیا۔
بدقسمتی سے اس سلسلے میں معاشرے کے اہم طبقات کو یہ خیال ہی نہ آیاکہ اصل کھیل کیا چل رہا ہے؟ اس سلسلے میں بعض چیزیں مریم اورنگ زیب، شہزاد رائے، شاہ زیب خانزادہ اور کئی چینلز کی ’’خصوصی نشریات‘‘ کے حوالے سے طشت ازبام ہوچکی ہیں، لیکن اس سلسلے میں سابق سوشلسٹ دانشور اور میاں نوازشریف کے غیر اعلانیہ مشیر وجاہت مسعود نے 13 جنوری 2018ء کے جنگ میں شائع ہونے والے اپنے کالم میں اصل بات کہہ دی ہے۔ وجاہت مسعود نے کیا لکھا، انہی کے الفاظ میں ملاحظہ کیجیے:
’’یہ پہلی نسل ہے جسے پوسٹ پلِ(Post Pill) اور پوسٹ پورن (Post Porn) نسل کہنا چاہیے۔ یہ سوچنا خام خیالی ہے کہ ہمارے نوجوان آج کی دنیا کے ’’حقائق‘‘ سے بے خبر ہیں۔ موبائل فون نے ہمارے نچلے طبقے کی ’’مفروضہ اقدار‘‘ کی قبا تار تار کرڈالی ہے… ہمیں اپنی جنسی اقدار پر ٹھنڈے دل سے غور و فکر کرکے نئی حدود متعین کرنے کی ضرورت ہے… تقدیسِ مشرق کا افسانہ پامال ہوچکا۔ اس افسانے کے ثنا خواں طبقے سے معاشرتی ویٹو کا حق واپس لینا آج کے پاکستان کا تقاضا ہے، اس سے ہمارے بچے زیادہ محفوظ ہوسکیں گے۔‘‘
جس طرح زلزلے یا سیلاب آنے سے ہمارے حکمران طبقوں کے افراد یہ سو چ کر خوش ہوتے ہیں کہ اب بیرونی امداد آئے گی اور مال بٹورنے کے امکانات پیدا ہوں گے، اسی طرح وجاہت مسعود اس بات پر جھوم رہے ہیں کہ پاکستان میں بھی جنسی انحرافات کا سیلاب آگیا ہے یا آنے والا ہے، اب دیکھیں گے کہ مذہب اور اس کی اقدار کیسے زندہ رہیں گی۔ جو قارئین وجاہت مسعود کی اصطلاحوں Post Pill اور Post Pornکا مطلب نہ سمجھے ہوں ان کی اطلاع کے لیے عرض ہے کہ Post Pill معاشرے سے مراد وہ معاشرہ ہے جس میں جنسی تعلقات اس لیے آسان ہوگئے ہیں کہ مانع حمل گولیاں ’’ایجاد‘‘ ہوچکی ہیں اور اب زنا کے نتیجے میں حمل رہنے کے امکانات ختم یا بہت کم ہوگئے ہیں، چنانچہ نوجوان پوری بے خوفی کے ساتھ زنا کرسکتے ہیں۔ Post Porn کا مطلب یہ ہے کہ عریاں فلموں یا Pornographyکو عام ہوئے عرصہ ہوگیا ہے اور ان فلموں کو دیکھ کر ایک ایسی نسل ہمارے سامنے آکھڑی ہوئی ہے جو جنس کے سلسلے میں مذہبی اخلاقیات کی قائل ہی نہیں رہی ہے۔ ظاہر ہے کہ یہ ایک ہولناک سانحہ ہے مگر وجاہت مسعود اس سانحے پر مسرور ہیں اور اُن کا کہنا ہے کہ اب ہمیں جنسی اقدار کے سلسلے میں نئی حدود مقرر کرنی ہوں گی، مطلب یہ کہ اب ہمیں آزاد جنسی تعلقات کو قبول کرنا ہوگا، بالکل اسی طرح جس طرح ’’ترقی یافتہ‘‘ اہلِ مغرب نے کیا۔ اس سے اگلے مرحلے پر ہمیں ہم جنس پرستی کو بھی قبول کرنا ہوگا، وغیرہ وغیرہ۔ مظلوم زینب کی آڑ میں برپا ہونے والی ’’مغرب زدگان‘‘ کی ’’آہ و بکا‘‘ کا اصل ایجنڈا یہ ہے۔ دیکھا جائے تو وجاہت مسعود اور ان جیسے اسلام بیزار لوگ کہہ رہے ہیں کہ اب اسلام کی ’’مطلق اخلاقیات‘‘ یا Absolute Moralityنہیں چلے گی۔ مگر مسئلہ یہ ہے کہ جو اخلاقیات مطلق نہ ہو وہ اخلاقیات نہیں اخلاقیات کی پیروڈی ہے۔ دوسری بات یہ کہ وجاہت مسعود کہہ رہے ہیں کہ اگر معاشرے کو ’’سرطان‘‘ کا مرض لاحق ہوگیا ہے تو اس کے علاج کی ضرورت نہیں۔ ’’سرطان‘‘ یعنی Post Pill اور Post Porn معاشرہ ایک ’’حقیقت‘‘ ہے، بس اس کو مانو، قبول کرو، اپنائو، بلکہ اس معاشرے کے ظہور کی خوشی منائو، اس سرطان کے علاج کی کوشش نہ کرو۔ ارے صاحب! آدمی سرطان کے آخری اسٹیج پر بھی ہوتا ہے تو اس سے محبت کرنے والے تب بھی سرطان سے جنگ کرتے ہیں، اس کے آگے ہتھیار نہیں ڈالتے۔ وجاہت مسعود کے اصول کو تسلیم کرلیا جائے تو ہمارے معاشرے کو چوری، ڈاکے، قتل، اغواء، منشیات کی لت، یہاں تک کہ طاقتور کے ظلم، جبر اور غلامی کو بھی قبول کرلینا چاہیے، اس لیے کہ یہ تمام چیزیں بھی ’’حقائق‘‘ کا درجہ رکھتی ہیں۔ یہاں کہنے کی بات یہ بھی ہے کہ وجاہت مسعود نے اسلام کو سوشلزم سمجھ لیا ہے جو بیچارہ 70 سے زیادہ نہ جی سکا۔ اسلام ایک ابدی حقیقت ہے۔ مسلمانوں کی روحانی، اخلاقی اور تہذیبی قوت کمزور تو پڑتی رہی ہے مگر فنا کبھی نہیں ہوئی۔ کیا وجاہت مسعود نہیں دیکھ رہے کہ اسلام مغرب کے جنس کے سیلاب میں ڈوبے ہوئے Post Pill اور Post Porn معاشروں میں لاکھوں مقامی امریکیوں اور یورپی باشندوں کو مسلمان کرچکا ہے۔ یہ ’’کمال‘‘ اس وقت ہورہا ہے جب مسلمانوں کے حقیقی نمائندوں کے پاس نہ سیاسی اقتدار ہے، نہ معاشی طاقت ہے، نہ سائنس اور ٹیکنالوجی کی قوت ہے، نہ ابلاغی ذرائع کا سرمایہ ہے۔ چنانچہ اسلام اور اس کے پیروکار وجاہت مسعود اور ان جیسی ذہنیت کے حامل لوگوں کے سینوں پر مونگ دلتے رہیں گے۔ ہمیں حیرت ہے کہ معاشرے کے مذہبی طبقات نہ مغرب کے مقامی آلۂ کاروں کے ایجنڈے کو سمجھ رہے ہیں اور نہ وہ معاشرے میں جنسی انحرافات کے سیلاب کو روکنے کے لیے کچھ کررہے ہیں۔ مذہبی طبقات سب کو خدا اور اس کے عذاب سے ڈراتے ہیں۔ ہم مذہبی طبقات اور نمائندوں کو خبردار کرتے ہیں کہ آپ مذہب کے بڑے بڑے دعوے لے کر کھڑے ہیں، آپ ان دعووں کے مطابق عمل نہیں کریں گے تو آپ پر خدا دنیا میں ہی نہیں آخرت میں بھی ایسی ذلت مسلط کردے گا جو عام لوگوں پر مسلط کی جانے والی ذلت سے کہیں زیاد ہ ہوگی۔