مغرب بالخصوص امریکہ کے حکمران طبقے کے ’’مفادات‘‘ دائو پر لگ جاتے ہیں تو اس کے اراکین ایک لمحے میں تہذیب کو الوداع کہہ کر سرِعام گالیاں بکنے سے بھی گریز نہیں کرتے۔ اس کی تازہ ترین مثال امریکہ کے صدر ڈونلڈٹرمپ اور اُن کے جرنیل اور سفارت کار ہیں۔ ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنے حالیہ ٹوئٹ میں حقیقی مغربی اور امریکی انسان کے کردار کا مظاہرہ کرتے ہوئے پاکستان کو ’’جھوٹا‘‘ اور ’’دھوکے باز‘‘ قرار دیا۔ امریکہ کے قومی سلامتی کے مشیر جنرل ایچ مک ماسٹر نے ٹرمپ کی گالیوں میں اضافہ کرتے ہوئے فرمایا کہ ’’دہشت گردی‘‘ پاکستان کی خارجہ پالیسی کا حصہ ہے۔ انہوں نے پاکستان کو خبردار کیا کہ وہ ’’دھتکاری ہوئی ریاست‘‘ بننے سے گریز کرے۔ امریکہ کے محکمۂ خارجہ کی ترجمان ہیدرنوارٹ (Heathe Nauert)نے پاکستان کو یاد دلایا کہ اسے امریکہ سے ملنے والے ڈالرز کو کمانا یا “Earn” کرنا چاہیے، یعنی پاکستان کو امریکہ سے ’’بھیک‘‘ نہیں مانگنی چاہیے۔ اقوام متحدہ میں امریکہ کی سفیر نکی ہیلی نے کہا کہ پاکستان امریکہ کے ساتھ ’’ڈبل گیم‘‘ کا مرتکب ہوا ہے۔ اس صورتِ حال کو دیکھ کر کہا جاسکتا ہے کہ امریکیوں نے چار پانچ دن میں پاکستان کو چھے سات گالیاں دے دی ہیں۔ بعض لوگوں کا خیال ہے کہ مسئلہ ’’مغربی انسان‘‘ یا ’’امریکی انسان‘‘ کا نہیں بلکہ ڈونلڈ ٹرمپ کا ہے۔ خود کئی امریکیوں کا بھی یہی خیال ہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ پاگل ہے۔ امریکہ کے کثیرالاشاعت اخبار USA Today نے اپنے اداریے میں لکھا ہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ جارج ڈبلیو بش کے جوتوں پر پالش کے لائق بھی نہیں۔ مگر ایسے خیالات امریکی انسان کی نفسیات اور امریکہ کی تاریخ سے ہولناک حد تک ناواقفیت کا ثبوت ہیں۔ برطانیہ کے ممتاز اسکالر مائیکل مان نے جو اب امریکہ کے شہری ہیں، اپنی تصنیف The Dark Side of Democracy میں لکھا ہے کہ سفید فاموں نے ریڈ انڈینز کے امریکہ پر قبضے کے بعد ان کو جن القابات سے نوازا وہ یہ ہیں:
’’جاہل، بت پرست، لامذہب، ننگے، گندے، درندے، خنزیر، جنگلی سور، کتے، بھیڑیے، سانپ، بندر، گوریلے، وحشی۔‘‘
(The Dark Side of Democracy- Page-85)
اس تناظر میں دیکھا جائے تو ڈونلڈ ٹرمپ اور اُن کے رفقا وہی کہہ رہے ہیں جو اُن کے آباو اجداد کہتے رہے ہیں۔ جو اُن کی تاریخ ’’فرماتی‘‘ رہی ہے۔ اردو کے معروف مزاح نگار پطرس بخاری نے کتوں پر لکھے گئے اپنے بے مثال مضمون میں کتوں کے بارے میں ایک عمدہ بات کہی ہے۔ انہوں نے کہا ہے کہ کتوں کا کچھ بھروسا نہیں، وہ کب بھونکنا ترک کرکے کاٹنے لگیں کسی کو معلوم نہیں۔ اتفاق سے امریکہ نے پاکستان پر بھونکنے کے ساتھ ساتھ اسے کاٹنا بھی شروع کردیا ہے۔ اس کا ثبوت یہ ہے کہ امریکہ نے وعدے کے مطابق پاکستان کی سیکورٹی سے متعلق معاونت بند کردی ہے اور کہا ہے کہ جب تک پاکستان علاقے میں موجود تمام دہشت گردوں سے جنگ نہیں کرے گا اُس وقت تک اس کی Security Assistence بند رہے گی۔ البتہ امریکی محکمۂ خارجہ کی ترجمان ہیدر نوارٹ نے ’’وضاحت‘‘ کی ہے کہ امریکہ نے پاکستان کی صرف فوجی امداد پر پابندی لگائی ہے۔ تاہم مبصرین کا خیال ہے کہ امریکہ اگلے مرحلے میں اقتصادی پابندیاں بھی عائد کرسکتا ہے، پاکستان کو دہشت گردی پھیلانے والی ریاست بھی قرار دے سکتا ہے، اور بھارت اور افغانستان کے ساتھ مل کر پاکستان پر مزید دبائو بھی بڑھا سکتا ہے۔ اس سے قبل امریکی وزیر خارجہ ریکس ٹلرسن کے بقول امریکہ نے پاکستان کو ’’واچ لسٹ‘‘ میں شامل کرلیا ہے۔ پاکستان پر الزام ہے کہ وہ مذہبی آزادی کی بیخ کنی کرنے والے ممالک میں شامل ہے۔ لیکن یہ سب ’’معمولی باتیں‘‘ ہیں۔ مسلم دنیا بالخصوص پاکستان کے سلسلے میں امریکہ کا ایجنڈا اس سے کہیں بڑا ہے۔ ہمیں یاد رکھنا چاہیے کہ امریکہ کے سابق صدر جارج ڈبلیو بش نے نائن الیون کے بعد ایک شیطانی مرکز یا Axis of evil ایجاد کیا تھا اور وہ ایک نیا مشرق وسطیٰ وضع کرنے نکلے تھے۔ ہمیں یاد ہے کہ آج ڈونلڈ ٹرمپ پاکستان کے حوالے سے جو کچھ کہہ رہے ہیں امریکی کانگریس کے رکن لیری پریسلر نے اپنی تصنیف Neighbours in Arms میں کہا تھا کہ امریکہ نے پاکستان کو 6 ارب ڈالر سے زیادہ کی مالی امداد فراہم کی ہے مگر پاکستان ایٹم بم بنانے کے سلسلے میں امریکہ سے ’’جھوٹ‘‘ بول رہا ہے۔ انہوں نے اُس وقت کے صدرِ امریکہ رونالڈ ریگن سے یہ تک کہا کہ ہم بم بنانے کے سلسلے میں پاکستان کی مدد کررہے ہیں۔ آج ڈونلڈ ٹرمپ بھی 33 ارب ڈالر کا رونا روتے ہوئے پاکستان پر جھوٹ بولنے اور دھوکا دینے کا الزام لگا رہے ہیں۔ فرق یہ ہے کہ 1980ء کی دہائی میں امریکہ کو پاکستان کی ’’اشد ضرورت‘‘ تھی اور وہ اپنے مفادات کے لیے پاکستان کے ایٹم بم سے صرفِ نظر کررہا تھا۔ مگر اب عالمی منظرنامہ یکسر تبدیل ہوچکا ہے اور پاکستان کو امریکہ اور اُس کے اتحادی بھارت سے لاحق خطرات بہت بڑھ گئے ہیں۔ بدقسمتی سے پاکستان سمیت پوری مسلم دنیا میں مغربی انسان کی نفسیات اور تاریخ کا شعور نایاب ہے، چنانچہ مسلمان اندازہ ہی نہیں کرپاتے کہ مغرب اُن کے ساتھ کیا کرسکتا ہے؟ یہاں تک کہ مسلمان قرآن پاک کا یہ واضح اعلان بھی بھولے ہوئے ہیں کہ اہلِ ایمان کے حوالے سے کافروں اور مشرکوں کا جو بغض ان کی زبان پر ہے اس سے زیادہ بغض ان کے دلوں میں ہے۔ مگر سوال یہ ہے کہ مغربی انسان کی نفسیات اور اس کی تاریخ کیا ہے؟
کولمبس نے امریکہ دریافت کیا۔ ساری دنیا کولمبس کو ’’سیاح‘‘ اور دنیا کو امریکہ کا تحفہ دینے والی شخصیت سمجھتی ہے۔ لیکن امریکہ کے ممتاز مؤرخ اور ڈراما نگار ہورڈزن (Howard Zinn) نے اپنی معرکہ آراء تصنیف A People’s History of the United States میں کولمبس ہی کو نہیں امریکہ کی پوری سیاست، تاریخ اور تہذیب کو ننگا کردیا ہے۔ ہوورڈ زن کے بقول کولمبس امریکہ پہنچا تو اُس نے ’’مقامی باشندوں‘‘ کو دیکھ کر جو کچھ محسوس کیا اپنی ڈائری میں تحریر کردیا۔ کولمبس نے لکھا:
’’وہ ہمارے پاس طوطے، کپاس کے گولے اور نیزے اور ایسی ہی کئی چیزیں لے کر آئے اور انہوں نے موتیوں اور عقابوں کے پیروں میں پہنائے جانے والے گنگھروئوں سے ان اشیاء کا تبادلہ کیا۔ انہوں نے خوش دلی کے ساتھ اشیاء کا تبادلہ کیا۔ ان کی جسمانی ساخت عمدہ تھی، ان کے نقش و نگار دلکش تھے۔ وہ نہ مسلح تھے نہ ہتھیاروں سے آگاہ تھے۔ میں نے انہیں تلوار دکھائی تو انہوں نے لاعلمی کی وجہ سے اس کی دھار پر ہاتھ رکھ کر خود کو زخمی کرلیا۔ ان کے پاس لوہا نہیں تھا۔ ان کے نیزے سرکنڈوں سے بنے ہوئے تھے…(انہیں دیکھ کر خیال آیا کہ) وہ ہمارے اچھے خادم ہوں گے۔ ہم صرف پچاس لوگوں کے ذریعے ان سب کو غلام بناکر ان سے اپنی مرضی کا ہر کام کروا سکتے تھے۔‘‘
(A People’s History of the United States-Page-2)
ہوورڈ زن نے اپنی کتاب میں مقامی باشندوں کی بے انتہا تعریف کی ہے۔ اس نے لکھا ہے کہ مقامی باشندے ملنسار تھے، نرم خو تھے، اپنی ہر چیز میں دوسروں کو شریک کرنے والے تھے۔ مگر کولمبس کو ان سے مل کر پہلا خیال یہ آیا کہ یہ لوگ یورپی باشندوں کے اچھے خادم بلکہ غلام ثابت ہوسکتے ہیں، اور کولمبس یہ سوچ کر نہیں رہ گیا۔ اُس نے بالآخر طاقت کے زور پر مقامی باشندوں کو اپنا غلام بنایا اور ان کے جہاز بھر بھر کر اسپین لے گیا جہاں انہیں بازاروں میں فروخت کیا گیا۔
مائیکل مان نے اپنی تصنیف The Dark Side of Democracy میں لکھا ہے کہ کولمبس کی آمد سے قبل Americas کے علاقوں کی آبادی 6 سے 10 کروڑ تھی۔ اس میں سے آدھی آبادی یعنی 5 کروڑ افراد ہلاک ہوگئے۔ وہ علاقہ جو اب خاص امریکہ کہلاتا ہے وہاں ریڈ انڈینز کی آبادی 40 سے 90لاکھ کے درمیان تھی۔ اس میں سے 95 فیصد آبادی ختم ہوگئی۔ 1788ء میں آسٹریلیا میں موجود ایب اوریجنل باشندوں کی تعداد 30 لاکھ تھی جو 1921ء میں کم ہوکر صرف 72 ہزار رہ گئی۔
(The Dark Side of Democracy-Page-76)
یہ اعداد وشمار بتا رہے ہیں کہ جدید مغربی تہذیب کے تربیت یافتہ انسان نے امریکہ اور آسٹریلیا کے علاقوں پر قبضہ کرکے ان علاقوں کے حقیقی مالکان کی نسل کُشی کر ڈالی اور 6 سے 10 کروڑ انسانوں کو مار ڈالا۔ یہ ہمارا الزام نہیں ہے، مغرب کے دانشور اور اسکالرز اپنی تصانیف میں خود مغربی انسان کے ہولناک مظالم کو آشکار کرنے پر مجبور ہوئے ہیں۔
آج دنیا ڈونلڈ ٹرمپ کی ’’زبان اور بیان‘‘ کو ایک ’’پاگل شخص‘‘ کی زبان قرار دے رہی ہے، لیکن یہ دنیا کی اپنی لاعلمی اور جہالت ہے ورنہ امریکہ کی تاریخ اپنی اصل میں ڈونلڈ ٹرمپ ہی کی تاریخ ہے۔ جارج واشنگٹن اور تھامس جیفرسن امریکہ کے ’’روشن خیال صدور‘‘ تھے۔ امریکہ کی خانہ جنگی میں ریڈانڈینز نے برطانیہ کا ساتھ دینے کا اعلان کیا تو جارج واشنگٹن نے امریکی فوج کو حکم دیا کہ ریڈ انڈینز کی آبادیوں کو تباہ کردو اور جب تک مکمل تباہی ان کا مقدر نہ بن جائے امن کی بات پر توجہ نہ دو۔ جارج واشنگٹن نے کہا کہ ’’وہ‘‘ اگر ہم میں سے ’’کچھ‘‘ کو مار دیں گے تو ہم ’’سب کو‘‘ تباہ کردیں گے۔ جارج واشنگٹن نے ریڈ انڈینز کی زمین پر قبضے کی حمایت کی اور اُن کے دورِ صدارت میں سفید فاموں نے ریڈانڈینز کے دو لاکھ مربع کلومیٹر رقبے پر قبضہ کیا۔ امریکہ کے صدر تھامس جیفرسن کے دور میں ریڈانڈینز نے ایک سفید فام عورت کو قیدی بنالیا۔ تھامس جیفرسن اتنا مشتعل ہوا کہ اس نے کہا کہ میں ایسا کرنے والوں کے قصبات میں گھس جائوں گا اور ان کے گھروں کو نذرِ آتش کرنے اور ان کے بیوی بچوں کو قیدی بنانے میں حق بجانب ہوں گا۔ ابراہم لنکن کو امریکہ کی تاریخ کا ’’فرشتہ صفت انسان‘‘ سمجھا جاتا ہے۔ اس کے عہد میں 309’’باغیوں‘‘ کو گرفتار کیا گیا۔ لنکن سے مطالبہ کیا گیا کہ تمام باغیوں کو گولی مار دی جائے۔ لیکن لنکن نے ’’رحم‘‘ فرمایا اور اس نے صرف 39 ریڈ انڈینز کو گولی مارنے کا حکم دیا۔ باقی ماندہ ریڈانڈینز کو جیل میں ٹھونس دیا گیا۔ وہاں کے حالات اتنے ابتر تھے کہ تقریباً تمام ریڈ انڈینز ہلاک ہوگئے۔ یہ لنکن کی “Moderation” تھی۔ البتہ اس کا خیال تھا کہ ریڈ انڈینز ایک ’’برتر تہذیب‘‘ کا مقابلہ نہیں کرسکیں گے اور فنا ہوجائیں گے۔ 1863ء میں قبائلیوں کا ایک وفد وائٹ ہائوس میں صدر ابراہم لنکن سے ملا تو لنکن نے ان سے کہا:
’’زردی مائل چہروں والے (یعنی سفید فام) بہت اورخوشحال ہیں کیونکہ وہ زمین کاشت کرتے ہیں، نانِ جویں پیدا کرتے ہیں، اور زمین کی پیداوار پر انحصار کرتے ہیں، ناکہ (تمہاری طرح) گزر اوقات کے لیے شکار پر انحصار کرتے ہیں۔ یہ ہمارے اور تمہارے درمیان بنیادی فرق ہے۔ لیکن ایک اور فرق بھی ہے، اور وہ یہ کہ ہم ریڈانڈینز کی طرح آپس میں لڑنے والے اور ایک دوسرے کو ہلاک کرنے والے نہیں ہیں۔‘‘
یہ امریکہ کے سب سے ’’مہذب‘‘ سیاسی رہنما اور صدر کی ’’تہذیب‘‘ ہے۔ مائیکل مان نے صدر لنکن کا یہ اقتباس پیش کرکے لکھا ہے کہ 1863ء میں امریکہ میں سفید فاموں کے درمیان جو خانہ جنگی شروع ہوئی اُس نے ثابت کردیا کہ سرخ رو لوگوں سے کہیں زیادہ زردرو نسل کے افراد ایک دوسرے کو ہلاک کرنے والے ہیں۔ ان تما م چیزوں کے حوالے کے لیے دیکھیے
The Dark Side of Democracy- Page-92,93,94
امریکہ نے دوسری عالمی جنگ میں جاپان کے خلاف ایک بار نہیں، دو بار ایٹم بم استعمال کیا۔ امریکہ کا دعویٰ ہے کہ اس نے ایسا اس لیے کیا کہ جنگ ختم ہوجائے اور کم سے کم انسان ہلاک ہوں۔ امریکہ کے صدر ٹرومین نے کہا کہ دنیا نے یہ بات نوٹ کی ہوگی کہ ہم نے ہیروشیما پر ایٹم بم گرایا۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ ہیروشیما ایک فوجی مرکز تھا اور ہم عام لوگوں کی ہلاکتوں کو جہاں تک ممکن ہو کم کرنا چاہتے تھے۔ تاہم ہوورڈزن نے امریکہ کے Strategic Bombing Survey کا حوالہ دیتے ہوئے کہا ہے کہ ہیروشیما اور ناگاساکی پر آبادی اور (فوجی) سرگرمیوں کی بنیاد پر ایٹم بم گرائے گئے۔
(A People’s History of the United States-Page-241)
اسی کتاب میں ہوورڈزن نے امریکہ کے Strategic Bombing Surveyکے حوالے سے دعویٰ کیا ہے کہ امریکیوں نے اگست 1945ء میں جاپان کے Code کو توڑ لیا تھا اور انہیں معلوم ہوگیا تھا کہ جاپان نے ماسکو میں اپنے سفیر کو ہدایت کردی تھی کہ وہ اتحادی فوجوں کے ساتھ امن مذاکرات کے لیے بات چیت شروع کردیں۔ یعنی جاپانیوں نے ایٹم بم کے استعمال سے بہت پہلے ہتھیار ڈالنے پر گفتگو شروع کردی تھی اور امریکی یہ بات جانتے تھے، مگر اس کے باوجود انہوں نے ایٹم بم استعمال کیا۔ ہوورڈزن نے خیال ظاہر کیا ہے کہ جاپانی صرف اس بات پر اصرار کررہے تھے کہ ہمارے بادشاہ کو جو اُن کے نزدیک مقدس تھا، اپنی حیثیت برقرار رکھنے کی اجازت دے دی جائے۔ اس تناظر میں ہوورڈزن نے سوال اٹھایا ہے کہ امریکیوں نے ایٹم بم کیوں استعمال کیے؟ کیا اس کی وجہ یہ تھی کہ ہیروشیما پر گرایا جانے والا ایٹم بم “Uranium Bomb” تھا اور ناگاساکی پر گرایا جانے والا بم “Plutonium Bomb” تھا، اور یہ بم گرا کر امریکی صرف ایک سائنسی تجربہ کرنا چاہ رہے تھے؟
(A People’s History of the United States-Page-241)
امریکہ کی تاریخ کا ایک ہولناک باب ویت نام ہے۔ امریکہ نے ویت نام میں اس لیے مداخلت کی تاکہ وہ کمیونزم کی پیش قدمی روک سکے، لیکن امریکہ نے ویت نام میں دس لاکھ انسانوں کو قتل کیا۔ اس نے ویت نام میں 70لاکھ ٹن بم ویت نامیوں پر پھینکے۔ یہ بم دوسری عالمی جنگ کے دوران پورے یورپ اور ایشیا پر پھینکے گئے بموں سے زیادہ تھے۔ ویت نام کی سرزمین پر بموں سے پڑنے والے گڑھوں کی تعداد صرف دو کروڑ تھی۔ جنوبی ویت نام میں امریکی جیلوں میں 65 سے 70 ہزار قیدی موجود تھے۔ ان قیدیوں پر امریکی بدترین تشدد کرتے تھے۔
(A People’s History of the United States-Page-281)
یہ امریکہ اور اس کے رہنمائوں کی قدرے پرانی تاریخ ہے۔ امریکہ کی نئی تاریخ ہماری آنکھوں کے سامنے مرتب ہوئی ہے۔ امریکہ نے نائن الیون کی آڑ میں ایک جارحیت ایجاد کی اور اسے افغانستان پر تھوپ دیا۔ اس جارحیت سے 16برسوں کے دوران افغانستان میں ایک لاکھ سے زیادہ افغانی شہید ہوچکے ہیں۔ جنرل پرویزمشرف نے، اور ان کے بعد آنے والے جنرل کیانی، جنرل راحیل، میاں نوازشریف اور آصف زرداری نے اس جنگ کو گود لیا اور پاکستان میں 70 ہزار افراد شہید ہوگئے۔ پاکستان کو 120 ارب ڈالر سے زیادہ کا نقصان ہوا۔ افغانستان کے بعد امریکہ کے صدر جارج بش نے عراق کو نشانہ بنایا۔ بش جونیئر نے کہا کہ عراق کے پاس بڑے پیمانے پر تباہی پھیلانے والے ہتھیار ہیں جن سے امریکہ اور یورپ کی سلامتی کو خطرہ لاحق ہے۔ لیکن عراق سے بڑے پیمانے پر تباہی پھیلانے والے ہتھیاروں کا ریزہ بھی برآمد نہ ہوسکا۔ البتہ امریکہ کی جان ہاپکنز یونیورسٹی کے اعداد و شمار کے مطابق امریکہ کی جارحیت کے ابتدائی پانچ برسوں میں چھے لاکھ عراقی ہلاک ہوگئے۔ اس سے قبل امریکہ اور اس کے مغربی اتحادیوں نے عراق پر دس سال تک جو اقتصادی پابندیاں عائد کی تھیں ان سے پانچ لاکھ بچوں سمیت 10 لاکھ افراد ہلاک ہوگئے تھے۔ یہ سب افراد غذا اور دوائوں کی قلت سے ہلاک ہوئے تھے۔ اس سلسلے میں بی بی سی ورلڈ کے ایک صحافی نے اُس وقت کی امریکی وزیر خارجہ میڈلین البرائٹ سے سوال کیا تو انہوں نے کسی افسوس کے بغیر دس لاکھ معصوم افراد کی ہلاکت کے بارے میں فرمایا:
It is acceptable and worth it
یعنی پانچ لاکھ بچوں سمیت دس لاکھ معصوم اور بے گناہ افراد کی ہلاکت امریکہ کے لیے ’’قابلِ قبول‘‘ بھی تھی اور اس کی ایک “Worth” بھی تھی۔ اس اعتبار سے دیکھا جائے تو امریکہ نے صرف عراق میں پندرہ برسوں کے دوران 16لاکھ افراد مار ڈالے۔ امریکہ اور یورپی اپنے ایک ایک آدمی کا حساب مانگتے ہیں مگر وہ عراق کے 16لاکھ افراد کی ہلاکتوں کا ذکر تک نہیں کرتے۔ ظاہر ہے کہ جو شعور خود امریکہ میں 6 سے 10 کروڑ ریڈانڈینز کی ہلاکتوں کو تسلیم نہیں کرتا اور اس سلسلے میں معذرت تک پر تیار نہیں وہ شعور 16 لاکھ عراقیوں کی موت پر کیوں معافی کا خواستگار ہوگا؟ لیکن ایسا کیوں ہے کہ مغربی ذہن، مغربی نفسیات غیر مغربی اقوام کے کسی بڑے سے بڑے جانی نقصان کو نقصان تسلیم نہیں کرتے؟ اس کی وجہ نوبل انعام یافتہ مغربی شاعر اور ادیب رڈیارڈ کپلنگ نے اپنی نظم میں یہ بیان کی ہے کہ مشرق کے لوگ “Half satan, Half Child” یعنی نیم شیطان اور نیم بچے ہوتے ہیں۔ جہاں تک مسلمانوںکا تعلق ہے تو ان کے دین کو پوپ اُربن دوئم ’’شیطانی مذہب‘‘ قرار دے چکا ہے اور مغربی ذرائع ابلاغ نے حالیہ برسوں میں توہینِ رسالتؐ کو ایک ’’مستقل کھیل‘‘ بنا کر رکھ دیا ہے۔ ظاہر ہے کہ اگر مسلمانوں کا مذہب بھی شیطانی ہے اور مسلمان خود بھی آدھے شیطان اور آدھے بچے ہیں تو ان کی ہلاکت پر اہلِ مغرب بالخصوص مغرب کے حکمران طبقے کو کیوں افسوس ہوگا! غور کیا جائے تو یہ امریکہ اور امریکی نفسیات اور امریکی تاریخ کی صرف چند ’’جھلکیاں‘‘ ہیں۔ ورنہ امریکہ اور اہلِ مغرب کے مظالم کی داستان اتنی طویل ہے کہ ایک قاموس یا Encyclopedia مرتب ہوسکتا ہے اور وہ بھی کئی جلدوں میں۔ یہاں کہنے کی اصل بات یہ ہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ پاکستان کو جو گالیاں دے رہے ہیں اور جو زبان و بیان استعمال کررہے ہیں وہ امریکہ یا مغرب کے حوالے سے ہرگز بھی نئی بات نہیں۔ فرق صرف یہ ہے کہ ٹرمپ امریکہ یا مغرب کے باطن کی نمائش پر شرمندہ ہونے والوں میں سے نہیں۔
بعض لوگوں کا خیال ہے کہ امریکہ صرف مسلم مخالف ہے۔ لیکن ایسا نہیں۔ بلاشبہ اسلام اور مسلمان امریکہ کا سب سے بڑا دردِ سر ہیں مگر امریکہ کا مسئلہ چین جیسا سرمایہ دار اور سرمایہ پرست ملک بھی ہے۔ ٹرمپ صدارتی مہم کے دوران چین کے خلاف چیخ رہے تھے۔ وہ کہہ رہے تھے کہ بیجنگ ہمارے ملک کو Rape کررہا ہے اور ہمارے روزگار کو تباہ کررہا ہے۔ لیکن ٹرمپ نے اپنے حالیہ دورۂ چین کو ’’تاریخی‘‘ قرار دیا۔ انہوں نے اپنے دورے میں 250 ارب ڈالر کے سمجھوتوں پر دستخط کیے۔ انہوں نے اپنے شاندار استقبال پر چینی صدر کا شکریہ ادا کیا اور کہا کہ اگرچہ امریکہ اور چین کا تجارتی خسارہ چین کے حق میں ہے اور اسے درست کرنے کی ضرورت ہے، مگر انہوں نے کہا کہ اس کا الزام ایک ایسے ملک یعنی چین پر عائد نہیں کیا جاسکتا جو ٹرمپ کے بقول اپنے عوام کی بہتری کے لیے سوچ اور عمل کررہا ہے۔ چین کے صدر نے اس موقع پر کہا کہ ایشیا پیسفک میں امریکہ اور چین کے درمیان اختلافات ہیں لیکن ایشیا پیسفک اتنا بڑا ہے کہ اس میں امریکہ اور چین دونوں سما سکتے ہیں۔ یعنی چین نے امریکہ اور چین کے درمیان پُرامن بقائے باہمی کو ممکن بنانے اور یہ کہنے کی کوشش کی کہ دنیا ایک اتنا بڑا کیک ہے کہ اگر امریکہ اور چین اسے مل بانٹ کر کھائیں تو دونوں کا بھلا ہوسکتا ہے۔ مطلب یہ کہ ان کے درمیان تصادم کیا، مزاحمتی تعلق کا بھی جواز نہیں۔ مگر چین کے دورے کے کچھ ہی دنوں بعد ڈونلڈ ٹرمپ نے 18 دسمبر 2017ء کو قومی دفاعی حکمت عملی سے متعلق جو دستاویزجاری کی اس میں انہوں نے صاف کہا کہ چین اور روس امریکہ کے ساتھ مقابلہ اور مسابقت کرنے والے ہیں۔ دستاویز میں مزید کہا گیا ہے کہ چین اور روس امریکہ کی طاقت، اثرات اور مفادات کو چیلنج کررہے ہیں اور یہ دونوں ملک امریکہ کی سلامتی اور خوشحالی کے خاتمے کے لیے کوشاں ہیں۔ دستاویز میں کہا گیا ہے کہ رابطہ کاری یا Engagement کے ذریعے چین اور روس کو بدلا نہیں جاسکتا اور اس سلسلے میں وضع کردہ نظریہ غلط ثابت ہوچکا ہے۔ ٹرمپ نے اس دستاویز میں یہ کہنا بھی ضروری سمجھا کہ امریکہ کے ایٹمی ہتھیار اس کی حکمت عملی کی بنیاد ہیں اور ان کے ذریعے ہی امن اس کی حکمت عملی کی بنیاد ہیں اور ان کے ذریعے ہی امن اور استحکام قائم کیا جاسکتا ہے۔ یہ دستاویز امریکی ذہن، نفسیات اور ترجیحات کا ایک ثبوت ہے۔ اس ذہن اور نفسیات میں دشمن کا تصور اور اس کا مکمل خاتمہ بنیادی اہمیت کا حامل ہے۔ یہ محض اتفاق نہیں ہے کہ دنیا کی 193 ریاستوں میں سے150 ممالک میں آج بھی امریکی فوجی موجود ہیں۔ امریکہ دوسری عالمی جنگ کے بعد سے اب تک دنیا کے 24 ممالک میں مداخلت کرچکا ہے۔ مستقبل میں اس کی مداخلت کے تمام در کھلے ہیں، اس لیے کہ اسے اپنی عسکری طاقت کے بل پر خدائی کا دعویٰ ہے۔ اس تناظر میں دیکھا جائے تو امریکہ کو چیلنج کرنا 21 ویں صدی میں جھوٹی خدائی کو چیلنج کرنا ہے۔ اس کے معنی یہ ہیں کہ امریکہ کا اتحادی بننے کا مطلب وقت کے فرعون کا اتحادی بننا ہے، اور اس کا ساتھ دینا وقت کے فرعون کا ساتھ دینا ہے، اور یہ اسلام کی رو سے کفر ہے۔