آج سے بیس بائیس سال پہلے کی بات ہے، ایک مجلس میں ’’کمزور مسلمانوں‘‘ اور ’’طاقت ور مغرب‘‘ کی کشمکش کے امکانات پر گفتگو ہورہی تھی۔ گفتگو کے ایک اہم مرحلے پر ہمیں اقبال کا بے مثال شعر یاد آگیا۔ ہم نے عرض کیا:
کافر ہے تو شمشیر پہ کرتا ہے بھروسہ
مومن ہے تو بے تیغ بھی لڑتا ہے سپاہی
یہ شعر اور اس کا پیغام ایک ایسے ’’عقل پرست‘‘ مذہبی دانشور سے برداشت نہ ہوا جو سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ کا لٹریچر پڑھ کر جوان ہوئے۔ انہوں نے شعر سنا اور بولے:
’’یہ شاعری ہے، یہ شاعری ہے۔ شاعری کا ’’حقیقت‘‘ کی دنیا سے کوئی تعلق نہیں ہوتا‘‘۔ اس سلسلے میں مزید گفتگو سے محفل کی فضا کے مکدر ہونے کا اندیشہ تھا۔ چنانچہ ہم خاموش رہے۔ لیکن مذکورہ بالا شخصیت کے ردعمل سے ہمیں خیال آیا کہ ان کا تصورِ شاعری ہی نہیں، تصورِ اسلام، تصورِ ایمان، تصورِ تاریخ اور تصورِ انسان بھی پست ہے۔ مذہب، محبت اور بڑی شاعری میں یہ قدر مشترک ہے کہ تینوں یہ بھی بتاتے ہیں کہ زندگی ’’کیا ہے‘‘ اور یہ بھی بتاتے ہیں کہ زندگی کو ’’کیا ہونا‘‘ چاہیے۔ چنانچہ حاضر و موجود کو مذہب بھی چیلنج کرتا ہے، محبت بھی اور شاعری بھی۔ انسان کو مذہب بھی بدلتا ہے، محبت بھی بدلتی ہے اور بڑی شاعری بھی بدلتی ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ مذہب، محبت اور شاعری کو انسان کے ’’امکانات‘‘ پر کامل بھروسہ ہوتا ہے۔ انبیاء و مرسلین جب بھی آئے، کفر اور شرک کا غلبہ تھا۔ بادشاہوں اور ریاستوں کا جبر ہر طرف چھایا ہوا تھا۔ مگر ایک فرد ہوکر بھی انبیاء و مرسلین نے اپنے زمانے کے حاضر و موجود کو چیلنج کیا۔ اہم بات یہ ہے کہ ایسا کرتے ہوئے ان کے پاس ظاہر میں اہمیت رکھنے والی کوئی قوت نہیں تھی۔ نہ ان کے پاس ریاست تھی، نہ حکومت تھی، نہ بے مثال فوج تھی، نہ مال و متاع تھا۔ غزوۂ بدر میں جب رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم 313 افراد کا لشکر لے کر کھڑے ہوئے تو ان کے مقابلے پر ایک ہزار نفوس کا لشکرِ جرار تھا۔ اس لشکر کے پاس تلواریں تھیں، ڈھالیں تھیں، زرہ بکتروں کا ڈھیر تھا، نیزے تھے، گھوڑے تھے، اونٹوں کی کثرت تھی۔ اس کے مقابلے پر اسلامی لشکر کے پاس صرف ایک یا دو گھوڑے تھے، چند اونٹ تھے، چند زرہ بکتر تھیں، یہاں تک کہ ہر سپاہی کے پاس تلوار بھی نہیں تھی۔ چنانچہ بعض مسلمان صرف ڈنڈے اٹھائے کھڑے تھے۔ اس کو کہتے ہیں کہ ’’مومن ہے تو بے تیغ بھی لڑتا ہے سپاہی‘‘۔ خیر یہ تو عہدِ رسالت صلی اللہ علیہ وسلم تھا۔ اس میں کچھ بھی ممکن تھا۔ مگر اسلام، اس کی تاریخ اور اس کا پیدا کردہ جذبہ متحجر یا Fossilized شے نہیں۔ اسلام قیامت تک کے لیے آیا ہے، اس لیے جو کچھ عہدِ رسالت صلی اللہ علیہ وسلم اور خلفائے راشدین کے زمانے میں ہوا، اس کے ’’ادنیٰ نمونے‘‘ ہر دور میں سامنے آتے رہیں گے۔ اتفاق سے یہ بات بھی ’’خیالی پلائو‘‘ یا ’’شاعری‘‘ نہیں ہے۔
افغانستان میں سوویت یونین کے خلاف جہاد شروع ہوا تو اقبال کا شعر پورے افغانستان پر چھایا ہوا تھا، یعنی ؎
کافر ہے تو شمشیر پہ کرتا ہے بھروسہ
مومن ہے تو بے تیغ بھی لڑتا ہے سپاہی
سوویت یونین وقت کی دو سپر پاور میں سے ایک تھا۔ اس کے پاس جدید طیارے تھے، جدید سیارے تھے، ہیلی کاپٹر تھے، میزائل تھے، ٹھینک تھے، توپیں تھیں، بے پناہ مالی وسائل تھے۔ اس کے برعکس مجاہدین کے پاس کچھ بھی نہ تھا۔ ان کے پاس بندوقیں اور رائفلیں تھیں، وہ بھی کئی کئی دہائیوں پرانی۔ بلاشبہ امریکہ اور یورپ بھی اس جہاد میں اپنے مقاصد کے لیے شریک ہوگئے، مگر اس کے باوجود مجاہدین کے پاس نہ فضائیہ تھی، نہ ٹینک اور توپیں تھیں۔ امریکہ نے مجاہدین کو اسٹنگر میزائل دیے مگر جہاد کے بالکل آخری مرحلے میں۔ اس سے قبل طاقت کا ہولناک عدم توازن مجاہدین کا تعاقب کررہا تھا، اور معرکے میں ایک طرف ایمان، جذبۂ جہاد اور شوقِ شہادت تھا اور دوسری طرف طاقت کے تمام مظاہر۔ لیکن نائن الیون کے بعد امریکہ افغانستان میں آیا تو طاقت کا عدم توازن اور بھی ہولناک تھا۔ امریکہ اور مجاہدین کی سیاسی قوت میں ایک اور ایک لاکھ کی نسبت تھی، امریکہ اور مجاہدین کی مالی طاقت میں ایک اور ایک کروڑ کی نسبت تھی، امریکہ اور مجاہدین کی عسکری طاقت میں ایک اور ایک ارب کی نسبت تھی۔ اہم بات یہ تھی کہ اِس بار مجاہدین کی پشت پر کوئی قوت نہیں تھی۔ نہ روس، نہ چین، نہ یورپ، نہ امریکہ… یہاں تک کہ جنرل پرویز بھی مشرف بہ امریکہ ہوگئے اور انہوں نے مجاہدین کی پیٹھ میں ایک دو نہیں، ہزاروں خنجر گھونپے۔ اس منظرنامے میں ایک بار پھر اقبال کا شعر یعنی
کافر ہے تو شمشیر پہ کرتا ہے بھروسہ
مومن ہے تو بے تیغ بھی لڑتا ہے سپاہی
حقیقت بن کر ابھرا۔ کیا یہ بات ساری دنیا کے سامنے نہیں کہ بے تیغ مومنوں نے وقت کی واحد سپر پاور کو بدترین شکست دے دی ہے۔ امریکہ 17 سال سے افغانستان میں ہے مگر وہ طالبان کو ختم نہیں کرسکا۔ امریکہ 17 سال سے افغانستان میں ہے مگر افغانستان کا 40 فیصد علاقہ امریکہ کے اپنے بیان کے مطابق طالبان کے ہاتھ میں ہے۔ امریکہ 17 سال سے افغانستان میں ہے مگر وہ وہاں کوئی مضبوط حکومت قائم نہیں کرسکا۔ امریکہ آج افغانستان سے نکل گیا تو صرف ایک ہفتے میں اس کی تخلیق کی ہوئی ’’شاندار حکومت‘‘ منہ کے بل گری ہوگی۔ اس کی ڈیڑھ لاکھ فوج اور اتنی ہی پولیس بے تیغ مومنوں کے سامنے بھاپ بن کر اڑ جائے گی۔ امریکہ 17 سال سے افغانستان میں ہے اور وہ افغانستان میں ایک ہزار ارب ڈالر خرچ کرچکا ہے، مگر بے تیغ مومنوں نے اُس کے ایک ہزار ارب ڈالرز کی اوقات ’’چار آنے‘‘ سے بھی کم بنادی ہے۔ کسی کو اس سلسلے میں غلط فہمی نہیں ہونی چاہیے، یہ طالبان کی فتح نہیں ہے، یہ اسلام کی فتح ہے، یہ ایمان کی فتح ہے، یہ جہاد کی فتح ہے، یہ شوقِ شہادت کی فتح ہے۔ کون کہتا ہے کہ غزوۂ بدر ’’پرانا‘‘ ہوگیا ؟ کون کہتا ہے کہ ریاست مدینہ کی کسی نہ کسی درجے میں ’’بازیافت‘‘ ممکن نہیں؟
اس تناظر میں دیکھا جائے تو اہلِ فلسطین اور اہلِ کشمیر کی ’’سعادت‘‘ یہ ہے کہ وہ غزوۂ بدر کی روایت اور اس کے جذبے سے کسی نہ کسی درجے میں منسلک ہیں۔ مقبوضہ کشمیر میں بھی گزشتہ 70 سال، بالخصوص گزشتہ 35 سال، اور علی الخصوص گزشتہ پانچ چھے سال سے اقبال کا شعر گلی گلی گونج رہا ہے یعنی ؎
کافر ہے تو شمشیر پہ کرتا ہے بھروسہ
مومن ہے تو بے تیغ بھی لڑتا ہے سپاہی
ساری دنیا جانتی ہے کہ بھارت دنیا کی چھٹی بڑی طاقت ہے۔ سب جانتے ہیں کہ بھارت کشمیر میں سات لاکھ سے زیادہ فوج تعینات کیے ہوئے ہے۔ ہر باشعور شخص اس سے آگاہ ہے کہ بھارت اور مجاہدین کی سیاسی، معاشی اور عسکری قوت میں زمین آسمان کا فرق ہے۔ مگر اس کے باوجود وہ اہلِ کشمیر کی خواہشِ آزادی اور جذبۂ حریت کو شکست نہیں دے سکا۔ ایک وقت تھا کہ بھارت کہتا تھا: پاکستان مجاہدین کی پشت پر ہے۔ مگر اب یہ قصہ تمام ہوئے مدت ہوچکی۔ اصولی اعتبار سے دیکھا جائے تو پاکستان کی حمایت کے بغیر اہلِ کشمیر کی تحریک کو بہت کمزور پڑجانا چاہیے تھا، مگر ہوا اس کے برعکس ہے۔ جب تک پاکستان کشمیر کی تحریکِ آزادی کی پشت پر تھا، یہ تحریک ’’غیر مقامی‘‘ بھی تھی اور ایک خاص طبقے تک محدود تھی، مگر اب کشمیر کی تحریکِ آزادی الف سے ے تک ’’مقامی‘‘ بھی ہے اور حقیقی معنوں میں ’’عوامی‘‘ بھی۔ یہاں تک کہ اس تحریک میں اب اسکول کے بچے اور بچیاں، اورکالج کے لڑکے اور لڑکیاں بھی شامل ہیں۔ فراقؔ نے کیا خوب کہا ہے ؎
تُو ایک تھا مرے اشعار میں ہزار ہوا
اس اک چراغ سے کتنے چراغ جل اٹھے
بلاشبہ کشمیر کی تحریکِ آزادی کا ہر رہنما قابلِ قدر اور قابلِ احترام ہے، مگر سید علی گیلانی کی کوئی نظیر ہی نہیں۔ لیکن سید علی گیلانی کی اصل قوت ان کا اسلام ہے، رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اورآپؐ کی امت اور امت کے شہداء سے ان کی محبت ہے۔ علی گیلانی کے لیے پاکستان کے فوجی اور سیاسی حکمرانوں کی طرح پاکستان کوئی جغرافیہ، کوئی دکان، کوئی لمیٹڈ کمپنی نہیں۔ اُن کے لیے پاکستان ایک نظریہ ہے، اُن کے لیے پاکستان کا مطلب لاالٰہ الااللہ محمدرسول اللہ کے سوا کچھ نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ سید علی گیلانی مدتوں سے روئے زمین پر موجود سب سے ’’بڑے پاکستانی‘‘ ہیں۔ ایک زمانے میں جنرل پرویزمشرف سید علی گیلانی سے ناراض تھے اور دہلی کے پاکستانی سفارت خانے میں سید علی گیلانی اور جنرل پرویزمشرف کی ملاقات بہت تلخ ثابت ہوئی تھی۔ اُس وقت ہم نے اپنے کالم میں لکھا تھاکہ سید علی گیلانی کی پاکستانیت اور جنرل پرویز مشرف کی پاکستانیت ایسی ہے کہ علی گیلانی تھوک دیں تو اس سے پچاس جنرل پرویز برآمد ہوجائیں۔ یہ ’’تجزیہ‘‘ بھی کوئی نعرہ یا ’’شاعری‘‘ نہیں تھی۔ اس تجزیے کے کچھ ’’دلائل‘‘ہیں۔ پاکستان کے جرنیلوں اور سیاست دانوں کے لیے ’’پاکستانیت‘‘ کا مظاہرہ سراسر فائدے کا سودا ہے۔ اس سے پاکستان میں ان کی حب الوطنی کو چار چاند لگتے ہیں، ان کی عزت میں اضافہ ہوتا ہے، ان کے عہدے اور مناصب بڑھتے ہیں، یہاں تک کہ ان کی پاکستانیت سے انہیں مالی فوائد بھی حاصل ہوتے ہیں۔ مگر مقبوضہ کشمیر میں پاکستانیت کے مظاہرے کا مطلب ’’یقینی موت‘‘ ہے۔ مگر سید علی گیلانی عرصے سے یقینی موت کو للکار رہے ہیں، اس کا تعاقب کررہے ہیں۔ ان کی پاکستانیت کا ہر دن خون آلود ہے، غمزدہ کردینے والا ہے، اعصاب شکن ہے، مایوس کردینے والا ہے۔ مگر سید علی گیلانی پر غزوۂ بدر کی روایت کا سایہ ہے۔ انہیں رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اور آپؐ کی امت سے محبت ہے۔ انہیں ہر وقت یہ خیال دامن گیر رہتا ہے کہ اگر انہوں نے کشمیر کے شہداء کے خون کا سودا کیا تو وہ میدانِ حشر میں رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو کیا جواب دیں گے۔ ہمارے پاس ایک مصدقہ اطلاع ایسی ہے جسے دیکھ کر کہا جاسکتا ہے کہ اگر سید علی گیلانی نہ ہوتے تو برسوں پہلے کشمیر پر سودے بازی ہوچکی ہوتی۔ اس تناظر میں ہم کہہ سکتے ہیں کہ صرف بھارت ہی نہیں، پاکستان کے حکمران طبقے میں سے بھی کئی لوگ اس بات کے انتظار میں ہوں گے کہ سید علی گیلانی کب منظر سے ہٹتے ہیں۔ لیکن اب اس بات کی کیا اہمیت ہے کہ سید علی گیلانی کب تک ہمارے سامنے رہتے ہیں۔ ہم کیا، ہزاروں لاکھوں لوگ میدانِ حشر میں اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے گواہی دیں گے کہ سید علی گیلانی نے اسلام کی سربلندی، جہاد، شہدا کے خون کی پاسداری اور اسلامی جمہوریۂ پاکستان سے محبت کا حق ادا کردیا ۔ ہمارے لیے تو سید علی گیلانی مدتوں سے ’’زندہ شہید‘‘ہیں۔ نام کے نہیں کام کے زندہ شہید۔ یہ گواہی کسی کو یونہی مہیا نہیں ہوتی۔ اس کے لیے رات کی تاریکی میںشمع کی طرح لمحہ لمحہ جلنا اور پگھلنا پڑتا ہے، اور سید علی گیلانی تو شمع بھی نہیں ہیں، وہ ایک ماہتاب ہیں۔ سیاست اور مزاحمت کی رات کا ماہتاب۔ دیکھا جائے تو آج مقبوضہ کشمیر میں جو کچھ ہورہا ہے وہ سید علی گیلانی کے ایمان، ایقان، جدوجہد اور قربانیوں کا فیضان ہے۔ بلاشبہ آسیہ اندرانی مقبوضہ کشمیر میں خواتین کی علی گیلانی ہیں۔
ہمارے لیے مقبوضہ کشمیر کی ہر تنظیم لائقِ محبت ہے، مگر حزب المجاہدین اور اس کے شاہینوں کی بات ہی اور ہے۔ برہان وانی جس طرح منظر پر طلوع ہوئے اور انہوں نے جس طرح کا طرزِعمل اختیار کیا، ایک محدود دائرے میں سہی، اقبال کا ایک اور شعر روشنی بن کر ظاہر ہوا۔ اقبال نے کہا ہے ؎
جس سے جگرِ لالہ میں ٹھنڈک ہو وہ شبنم
دریائوں کے دل جس سے دہل جائیں وہ طوفان
اس اعتبار سے دیکھا جائے تو برہان وانی کے کردار اور گفتار میں سید صلاح الدین کے کردار اور گفتار کی جھلک صاف دکھائی دے رہی تھی۔ لیکن یہاں سوال یہ ہے کہ آخر کافر شمشیر پر کیوں بھروسہ کرتا ہے اور مومن تیغ سے محروم رہ کر بھی کیوں میدانِ کارزار میں دادِ شجاعت دیتا ہے؟
اس سے قبل کہ ہم اس بات کی وضاحت کریں، یہاں یہ کہنا ضروری ہے کہ فی زمانہ ’’شمشیر‘‘ کا مطلب صرف ’’ہتھیار‘‘ نہیں۔ اس کا مطلب سیاسی، سفارتی اور معاشی طاقت بھی ہے۔ اسی طرح بے تیغ ہونے کا مفہوم اب صرف ہتھیاروں سے محروم ہونا نہیں، بلکہ اس کا مطلب سیاسی، معاشی اور سفارتی طاقت سے بھی بے نیاز ہونا ہے۔ اس تناظر میں دیکھا جائے تو کافر اور مومن کا فرق یہ ہے کہ کافر مفادات کے لیے لڑتا ہے۔ ذاتی، قبائلی یا قومی عصبیت کے لیے لڑتا ہے۔ فتح کے لیے لڑتا ہے۔ شکست سے بچنے کے لیے لڑتا ہے۔ اس کے برعکس مومن اس لیے بے تیغ بھی لڑنے پر آمادہ ہوجاتا ہے کہ وہ صرف ’’شہادتِ حق‘‘ کا فریضہ انجام دیتا ہے، اس کا کوئی ذاتی، گروہی، قبائلی یا قومی مفاد نہیں ہوتا۔ فتح اس کی آرزو ضرور ہوتی ہے، مگر وہ فتح اور شکست سے بے نیاز ہوتا ہے۔ مومن کی جرأت اس بات سے پیدا ہوتی ہے کہ اسے موت کا خوف نہیں ہوتا، بلکہ شہادت کی صورت میں یعنی موت کی طرف دوڑتا ہے۔ اس کے برعکس کافر چونکہ انا مرکز یا مفاد مرکز ہوتا ہے اس لیے وہ ہر صورت میں زندہ رہنا چاہتا ہے اور وہ موت سے بھاگتا ہے اور اس سے بچنا چاہتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ’’شمشیر‘‘ بھی اس کے لیے ’’ناکافی‘‘ ہوجاتی ہے، اور مومن کا پورا وجود ’’شمشیر‘‘ بن جاتا ہے۔ کشمیر میں جب نوجوان اور عام لوگ نعرہ لگاتے ہیں ’’پاکستان کا مطلب کیا… لا الٰہ الا اللہ، تیرا میرا رشتہ کیا… لا الٰہ الااللہ‘‘ تو وہ اعلان کررہے ہوتے ہیں کہ ان کا مسئلہ محض پاکستان میں شمولیت نہیں بلکہ ایک ’’نظریاتی پاکستان‘‘ میں شمولیت ہے۔ وہ اعلان کررہے ہوتے ہیں کہ ان کا مسئلہ سیاسی اور اقتصادی آزادی نہیں، ’’نظریاتی آزادی‘‘ ہے۔ ورنہ بھارت کے ساتھ رہ کر انہیں کون سا اقتصادی اور سیاسی فائدہ حاصل نہیں ہوسکتا! مسلمانوں میں درجنوں خرابیاں ہیں، انہیں اپنے سیاسی اور اقتصادی فائدے بھی بہت عزیز ہیں، پاکستان کے حکمران طبقے کو یہ مفادات اتنے عزیز ہیں کہ وہ مدتوں سے ’’سیاسی حیوان‘‘ اور ’’معاشی حیوان‘‘ بنے نظر آرہے ہیں، یہاں تک کہ پاکستان کے صحافیوں کی عظیم اکثریت کو دیکھا جائے تو وہ صحافتی حیوان نظر آتے ہیں، مگر مسلمانوں کی تاریخ کا تجربہ یہ ہے کہ جب مسلمانوں کو واقعتا اسلام عزیز ہوجاتا ہے، یہاں تک کہ انہیں اسلام صرف چھو کر گزر جاتا ہے، تو وہ سیاسی اور اقتصادی فائدوں اور سودوزیاں کی فکر سے بلند ہوجاتے ہیں۔ سید علی گیلانی اور حزب المجاہدین کی جدوجہد اور کشمیر کے شہدا کی داستانیں اس بات کا ٹھوس اور ناقابلِ تردید ثبوت ہیں۔
ہم نے کالم کے آغاز میں کہا تھا کہ مذہب، محبت اور بڑی شاعری جہاں یہ بتاتی ہے کہ زندگی کیسی ہے، وہیں یہ بھی بتاتی ہے کہ زندگی کو کیسا ہونا چاہیے۔ مقبوضہ کشمیر میں سید علی گیلانی، حزب المجاہدین، اس کے شاہینوں اور لاکھوں عام کشمیریوں کی جدوجہدِ آزادی کو دیکھا جائے تو خیال آتا ہے کہ کشمیر کی تحریکِ آزادی یہ بھی بتا رہی ہے کہ مقبوضہ کشمیر میں موجود زندگی کیسی ہے، اور اس کے ساتھ ساتھ وہ یہ بھی بتا رہی ہے کہ تحریک کے بے تیغ رہنما اور بے تیغ کارکن اسے کیسی دیکھنا چاہتے ہیں۔ اس اعتبار سے دیکھا جائے تو کشمیر کی تحریکِ آزادی پر مذہب کا سایہ بھی ہے، محبت کا سایہ بھی۔ رہی بڑی شاعری، تو بے شک کشمیر کی تحریکِ آزادی الفاظ کی شاعری نہیں ہے لیکن تحریکِ آزادی کا عمل بڑی شاعری سے کم شاعرانہ، کم بامعنی اور کم جمیل نہیں ہے۔ بقول میرؔ ؎