اسلامی تحریکیں…ماضی، حال اور مستقبل —- شاہنواز فاروقی

برصغیر میں اقبالؒ اور مولانا مودودیؒ کی پیدائش امتِ مسلمہ میں ایک نئے عہد کے ظہور کی علامت تھی۔ مگر اس دعوے کی دلیل کیا ہے؟
اقبالؒ اور مولانا مودودیؒ کو بڑی شخصیت کہا جاتا ہے۔ لیکن بڑے آدمی کی تعریف کیا ہے؟ اس سوال کا جواب یہ ہے کہ بڑا آدمی وہ ہوتا ہے جس کا فہم بسااوقات پوری قوم کیا پوری امت کے فہم سے بڑھ جاتا ہے۔ اقبال نے جب اپنی شاعری کا آغاز کیا تو امت ِمسلمہ یورپی طاقتوں کی غلام تھی اور یورپی طاقتوں کا تسلط کمزور ہونے کے بجائے قوی ہورہا تھا۔ مغربی تہذیب کا سورج نصف النہار پر تھا اور مسلم دنیا میں مغربی تہذیب کے سورج کے پجاریوں کی تعداد مسلسل بڑھ رہی تھی۔ مغربی تہذیب کے غلبے سے سرمایہ دارانہ نظام مستحکم ہورہا تھا۔ پہلی اور دوسری عالمی جنگ کے آغاز اور یورپی طاقتوں کے زوال میں ابھی بہت وقت تھا اور مسلم دنیا کے آزاد ہونے کا دور دور تک کوئی امکان نہ تھا۔ لیکن اس کے باوجود اقبال پوری قوت اور سرشاری کے ساتھ کہہ رہے تھے:

اٹھ کہ اب بزمِ جہاں کا اور ہی انداز ہے
مشرق و مغرب میں تیرے دور کا آغاز ہے
………
کھول آنکھ زمیں دیکھ فلک دیکھ فضا دیکھ
مشرق سے ابھرتے ہوئے سورج کو ذرا دیکھ

اقبال کی مشہور نظم’’مارچ1907ء ‘‘مسلم دنیا میں انقلاب برپا ہوتے دیکھ رہی تھی اور مغربی تہذیب کی موت کی پیشگوئی کررہی تھی۔ اقبال کہہ رہے تھے:
زمانہ آیا ہے بے حجابی کا، عام دیدارِ یار ہوگا
سکوت تھا پردہ دار جس کا وہ راز اب آشکار ہوگا
کبھی جو آوارۂ جنوں تھے وہ بستیوں میں پھر آبسیں گے
برہنہ پائی وہی رہے گی مگر نیا خارزار ہوگا
نکل کے صحرا سے جس نے روما کی سلطنت کو الٹ دیا تھا
سنا ہے یہ قدسیوں سے میں نے، وہ شیر پھر ہوشیار ہوگا
سفینۂ برگِ گل بنالے گا قافلہ مورِ ناتواں کا
ہزار موجوں کی ہو کشاکش مگر یہ دریا کے پار ہوگا
دیارِ مغرب کے رہنے والو خدا کی بستی دکاں نہیں ہے
کھرا جسے تم سمجھ رہے ہو وہ اب زرِ کم عیار ہوگا
تمہاری تہذیب اپنے خنجر سے آپ ہی خودکشی کرے گی
جو شاخِ نازک پہ آشیانہ بنے گا ناپائیدار ہوگا
اقبالؒ کے ان شعروں پر غور کیا جائے تو اقبال وہ سوچ رہے تھے جو پوری امت ِمسلمہ سوچنے سے قاصر تھی۔ اقبالؒ وہ دیکھ رہے تھے جو پوری امتِ مسلمہ دیکھنے سے عاجز تھی۔ اقبالؒ اور مولانا مودودیؒ کا تعلق یہ ہے کہ مولانا نے اقبال کے اجمال کو تفصیل فراہم کی۔ انہوں نے اقبال کے جذبے کو دلیل مہیا کی۔ انہوں نے اقبال کی فکر کو عمل میں ڈھالنے کے لیے جماعت اسلامی اور اسلامی جمعیت طلبہ برپا کیں۔ لیکن اقبال اور مولانا کی پیدائش نئے عہد کے ظہورکی علامت کیوں تھی اور انہیں امت کے علمائ‘ تخلیق کاروں اور رہنمائوں پر کیوں فوقیت اور فضیلت حاصل ہے؟
مغربی تہذیب کے غلبے نے پوری امت بالخصوص برصغیر کی ملت ِاسلامیہ میں ردعمل کی تین صورتیں پیدا کیں۔ ردعمل کی پہلی صورت سرسید احمد خان تھے۔ سرسید مغربی تہذیب سے متاثر نہیں بلکہ مرعوب تھے اور ان کا خیال یہ تھا کہ (برصغیر کے) مسلمانوں کو پورے اخلاص اور تندہی سے مغربی تہذیب کی طالب علمانہ پیروی کرنی چاہیے۔ اکبر کی شاعری برصغیر کی ملّتِ اسلامیہ کا عظیم سرمایہ ہے اور شاعری کی عالمی تاریخ میں کوئی دوسرا اکبر الہٰ آبادی موجود نہیں۔ مگر اکبر کی یہ شاعری اس شعور اور اس احساس کا حاصل تھی کہ اسلامی تہذیب برتر ہونے کے باوجود کم تر تہذیب سے شکست کھاگئی ہے۔ اکبر کی شخصیت اور شاعری اتنی بڑی تھی کہ خود اقبال ان سے بے پناہ متاثر تھے، مگر غیر معمولی مزاحمتی قوت کے باوجود اکبر بھی مسلمانوں کے مستقبل سے مایوس تھے۔ چنانچہ انہوں نے کہا ہے:
شعرِ اکبر کو سمجھ لو یادگارِ انقلاب
اس کو یہ معلوم ہے ٹلتی نہیں آئی ہوئی
اس دور میں طبقۂ علماء کا حال یہ تھا کہ اس نے اسلام کو انفرادی معاملہ تسلیم کرلیا تھا اور وہ سمجھتے تھے کہ اب سیاست و ریاست کے معاملات میں مغرب کا ہی سکہ چلے گا۔ اقبال اور مولانا مودودیؒ کے ’’ظہور کا جواز‘‘ یہ ہے کہ انہوں نے مسلمانوں کی ’’دفاعی حیثیت‘‘ کو اقدامی حیثیت میں ڈھال دیا۔ ’’ناامیدی‘‘ کو ’’امید‘‘ سے بدل دیا۔ ’’اضمحلال‘‘ کو مزاحمتی رویّے میں ڈھال دیا۔ اور ’’شکست خوردہ نفسیات‘‘ کو ’’فاتحانہ نفسیات‘‘ میں تبدیل کرنے کی غیر معمولی کوشش کی۔
اس عہد میں طبقۂ علماء کی ناکامی یہ تھی کہ وہ یہ تو بتارہے تھے کہ ’’حق‘‘ کیا ہے، مگر یہ نہیں بتارہے تھے کہ عصر حاضر کا ’’باطل‘‘ کیا ہے۔ اس کے معنی یہ ہیں کہ علماء کی فکر اُس دور میں ’’ادھورے پن‘‘ کا شکار ہوگئی تھی۔ اقبال اور مولانا مودودیؒ کا کمال یہ ہے کہ انہوں نے یہ بھی بتایا کہ حق کیا ہے، اور یہ بھی بتایا کہ باطل کیا ہے۔ انہوں نے کمیونزم اور سرمایہ دارانہ نظام کی تنقید لکھی اور کروڑوں مسلمانوں کو مغرب سے مرعوب ہونے سے بچالیا۔ اُس دور میں علماء کی ایک بڑی ناکامی یہ تھی کہ انہوں نے ’’مسلک‘‘ اور ’’مذہب‘‘ کو’’دین‘‘ بنالیا۔ کسی کے لیے دین کا مطلب ’’دیوبندیت‘‘ تھا، کسی کے لیے دین کا مفہوم ’’بریلویت‘‘ تھا۔ کوئی دین کو ’’اہلِ حدیث‘‘ کے دائرے میں محدود سمجھتا تھا۔ کسی کے لیے ’’حنفیت‘‘ ہی سب کچھ تھی۔کسی کے لیے اصل چیز ’’شافعیت‘‘ تھی۔ کوئی میدانِ فکر و عمل میں ’’مالکیت‘‘ کا پرچم لیے کھڑا تھا۔ کوئی ’’حنبلیت‘‘ کے گن گارہا تھا۔ اقبال اور مولانا مودودیؒ کا امتِ مسلمہ پر یہ احسان تھا کہ انہوں نے اسلام کی ’’آفاقیت‘‘، اس کی ’’عالمگیریت‘‘ اور اس کی ’’کلّیت‘‘ کا شعور عام کیا اور مسلمانوں کو فرقوں‘ مسلکوں اور مکاتیب ِفکر کی نفسیات سے بلند ہونا سکھایا۔ اس عہد میں علماء کی ایک بہت بڑی ناکامی یہ تھی کہ ان کا شعور مخصوص اصطلاحوں‘ زبان کی مخصوص ساخت اور اظہار کے مخصوص پیرایوں کا ’’اسیر‘‘ ہوگیا تھا۔ اقبال اور مولانا مودودیؒ کا کمال یہ ہے کہ انہوں نے اسلامی تصورات کی معنویت کو زائل کیے بغیر اسے عہدِ حاضر کی ذہنی‘ نفسیاتی اور لسانی ساخت کے مطابق بیان کیا۔ اقبال اور مولانا مودودیؒ اگرچہ ’’افراد‘‘ تھے مگر وہ اپنے کام کی بناء پر تحریک اسلامی بن کر ابھرے اور انہوں نے اپنے ظہور کے تہذیبی اور تاریخی جواز کو ثابت کیا۔ اقبال اور مولانا مودودیؒ جس وقت برصغیر میں اسلامی تحریک کا پرچم بلند کررہے تھے اُسی زمانے میں عالمِ عرب میں سید قطبؒ اور حسن البناؒ کی فکر اور اخوان المسلمون کے نام سے عالمِ عرب کی تحریکِ اسلامی منصۂ شہود پر آرہی تھی۔ 20 ویں صدی میں عالم اسلام میں غلبۂ اسلام کی جو جدوجہد ہوئی وہ اقبال‘ مولانا مودودی‘ سید قطب اور حسن البنا کے فکر و عمل کا حاصل ہے۔ لیکن کیا اسلامی تحریکوں کا کارنامہ اسی قدر ہے؟
اخوان المسلمون نے مصر سمیت عرب دنیا کے مختلف ملکوں میں دہائیوں پر پھیلی ہوئی شیطنت کو جھیلا ہے۔ اس کے ہزاروں کارکنوں کو شہید کیا گیا ہے، لاکھوں نے جیل کی صعوبتیں جھیلی ہیں، ہزاروں ملک چھوڑنے پر مجبور ہوئے ہیں۔ اخوان کو سیاسی میدان میں کھلے عام جلسے کرنے کی اجازت نہیں دی گئی لیکن اس کے باوجود اس نے غلبۂ اسلام کی جدوجہد ترک نہیں کی۔ جماعت اسلامی کو بھارت‘ پاکستان اور بنگلہ دیش میں کبھی ایسے حالات کا سامنا نہیں کرنا پڑا، لیکن جماعت اسلامی کے مرکز پاکستان میں جماعت اسلامی کی سیاسی جدوجہد ’’تعداد کے کھیل‘‘ کے اعتبار سے ناکام جدوجہد ہے۔ لیکن جماعت اسلامی نے اپنی نظریاتی اور اخلاقی قوت کی بنیاد پر اس ناکامی کو جس طرح ’’جذب‘‘ کیا ہے اس کی کوئی مثال پاکستانی تاریخ میں موجود نہیں۔ جماعت اسلامی نمبروں کے کھیل میں جتنی ناکام ہوئی ہے پیپلزپارٹی‘ مسلم لیگ اور ایم کیو ایم اس کا عشر عشیر بھی ناکام ہوتیں تو کب کی صفحۂ ہستی سے مٹ چکی ہوتیں۔ لیکن جماعت اسلامی نے پے درپے انتخابی شکستوں کو جذب کرکے زندگی کا ثبوت دیا ہے اور وہ آج ایک بیدار اور متحرک تحریک ہے۔ لیکن بدقسمتی سے عالم اسلام میں اسلامی تحریکوں سے متاثرہ افراد اور خود بعض اسلامی تحریکوں نے حالیہ برسوں اور مہینوں میں جس طرزعمل کا مظاہرہ شروع کیا ہے اسے نرم سے نرم الفاظ میں ’’افسوسناک‘‘ ہی کہا جاسکتا ہے۔
ترکی سیکولر آئین‘ سیکولر عدلیہ‘ سیکولر فوج اور سیکولر سیاست دانوں کا ملک ہے، چنانچہ وہاں نجم الدین اربکان کی پوشیدہ اسلامی تحریک کو سمجھوتے کی نفسیات کے ساتھ ’’سمجھوتے کی سیاست‘‘ کرنی پڑی۔ لیکن نجم الدین اربکان کا کمال یہ تھا کہ انہوں نے نہ کبھی سیکولرازم کو قبول کیا اور نہ اس کے لیے ’’جواز جوئی‘‘ کی۔ اس کے برعکس وہ اپنے مختلف اقدامات کے ذریعے اپنے ’’اسلامسٹ‘‘ ہونے کے تاثر کو گہرا کرتے رہے۔ لیکن رجب طیب ایردوان کا معاملہ یہ ہے کہ وہ نجم الدین اربکان سے ہزار گنا زیادہ ’’سیاسی طاقت‘‘کے حامل ہیں مگر انہوں نے اس کے باوجود ترکی میں اسلام کی بالادستی کے لیے ایک انچ بھی پیش قدمی نہیں کی ہے، حالانکہ انہیں اقتدار میں آئے ہوئے اب ایک دہائی ہونے کو آرہی ہے۔ انہوں نے گزشتہ آٹھ برس میں ملک کے سیکولر آئین کو اسلام سے ہم آہنگ کرنے کے لیے زبانی جمع خرچ کی بھی زحمت نہیں کی۔ انہیں ملک کے سودی نظام پر ’’تشویش‘‘ تک نہیں ہے۔ ان کے ملک میں جسم فروشی کو قانونی تحفظ حاصل ہے اور رجب طیب ایردوان کے لیے یہ کوئی ’’مسئلہ‘‘ ہی نہیں ہے۔ یہاں تک کہ وہ کچھ عرصہ پہلے مصر گئے تھے تو انہوں نے ایک انٹرویو میں یہ تک کہہ دیا کہ اسلام اور سیکولرازم میں کوئی’’تضاد‘‘ نہیں ہے۔ اطلاعات کے مطابق انہوں نے اب یہ بھی کہنا شروع کردیا ہے کہ ترکی اسلامی ممالک کے لیے ’’ماڈل ملک‘‘ ہے۔ جہاں تک رجب طیب ایردوان کے اسلام کا تعلق ہے تو انہوں نے اسلام کو اس بات تک محدودکرلیا ہے کہ وہ خود روزے نماز کے پابند ہیں اور ان کی شریک ِحیات سر پر اسکارف باندھتی ہیں۔ یہی رجب طیب ایردوان جب تک اقتدار میں نہیں تھے تو انہوں نے اپنی ایک نظم میں مسجد کو اپنی بیرک‘ مسجد کے گنبد کو اپنا ہیلمٹ اور مسجد کے میناروں کو نیزے قرار دیا تھا۔ لیکن اقتدار نے ان کی اس ’’اسلامیت‘‘ کو ہڑپ کرلیا۔
مصر کے انتخابات میں اخوان المسلمون اور دیگر مذہبی جماعتوں کی غیر معمولی کامیابی امتِ مسلمہ کے لیے مسرت اور بے پناہ تقویت کا باعث تھی لیکن صدر مرسی اور ان کے رفقاء نے حالیہ دنوں میں جس طرزِعمل کا مظاہرہ کیا ہے اس نے مصر میں ترکی کی صورت حال پیدا کردی ہے۔ صدر مرسی نے امریکہ اور اسرائیل کی خواہش کے عین مطابق بدنام زمانہ کیمپ ڈیوڈ سمجھوتے کی پاسداری کا اعلان کیا، اور مصر کی فوج نے صحرائے سینا میں ’’باغیوں‘‘ کے خلاف کارروائی تیز کردی ہے۔ لیکن ’’باغیوں‘‘ کا حوالہ محض ایک دھوکا ہے۔ اصل بات یہ ہے کہ صحرائے سینا میں ایسی سرنگوں کو بند کیا جارہا ہے جن کے ذریعے غزہ کے محصور فلسطینیوں کی مدد کی جاتی تھی۔ اس کے معنی یہ ہیں کہ صحرائے سینا میں کی جانے والی کارروائی دراصل اسرائیل کے تحفظ کے لیے ہے اور یہ امریکہ کی ہدایات کے عین مطابق ہے۔ اس کا ثبوت یہ ہے کہ امریکہ کے وزیردفاع لیون پنیٹا نے اپنے حالیہ دورۂ مصر میں یہ بات الفاط چبائے بغیر کہی تھی کہ امریکہ صحرائے سینا میں سیکورٹی کی صورت حال کے حوالے سے پریشان ہے اور ہم اس علاقے میں سیکورٹی کی صورت حال بہتر بنائیں گے خواہ ہمیں اس کے لیے کچھ بھی کیوں نہ کرنا پڑے۔ صدر مرسی کے ایک وزیر نے ایک بیان میں فرمایا ہے کہ ہم مصر کے ساحلوں اور تفریحی مقامات پر غیر ملکی سیاحوں کو عریانی اور فحاشی کے حوالے سے کسی پابندی کا شکار نہیں کرنا چاہتے کیونکہ سیاحت کے شعبے سے ملک کو مجموعی آمدنی کا دس فیصد فراہم ہوتا ہے۔ اطلاعات کے مطابق اخوان المسلمون کے نمائندوں کے ایک وفد نے حال ہی میں امریکہ کا دورہ کیا ہے۔ وفد کے ایک رکن سندوس عاصم نے واشنگٹن پوسٹ کو انٹرویو دیتے ہوئے ’’انکشاف‘‘ کیا کہ ہم ’’جدت پسند‘‘ مسلم تصورات کے نمائندے ہیں اور ہماری ترجیحات زیادہ تر ’’اقتصادی‘‘ اور ’’سیاسی‘‘ ہیں۔ صدر مرسی نے فوج میں بڑے پیمانے پر تبدیلیاں کی تھیں تو یہ خیال عام ہوا تھا کہ یہ تبدیلیاں صدر مرسی اور اخوان کی سیاسی قوت کا مظہر ہیں، لیکن امریکی اعلیٰ اہلکاروں کے بیانات سے ظاہر ہوتا ہے کہ یہ تبدیلیاںامریکہ کے مفادات اور ہدایات کے عین مطابق ہیں، اور ان تبدیلیوں کے ذریعے صرف ’’چہرے‘‘ بدلے ہیں’’نظام‘‘ وہی ہے جس کی سب سے بڑی علامت مصر کا سابق صدر حسنی مبارک تھا۔
تیونس میں راشد الغنوشی کی ’’تحریکِ اسلامی‘‘ کی حکومت ہے، اور اس حکومت کی ’’اسلام پسندی‘‘ اس امر سے ظاہر ہے کہ اس نے اسلام اور رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف امریکہ میں بننے والی فلم کے خلاف لوگوں کو مظاہروں کی اجازت نہیں دی اور ان پر سخت پابندی عائد کردی۔
مسلم دنیا میں تبدیلیوں کی لہر برپا ہوئی تھی تو ہم نے انہی صفحات پر عرض کیا تھاکہ یہ تبدیلیاں امریکہ اور یورپ کے تجزیوں اور مفادات کے برعکس ہیں، لیکن امریکہ ابھی تک اس ’’انقلاب‘‘ کو “Manage” کرنے کی پوزیشن میں ہے۔ بدقسمتی سے چند ہی ماہ میں امریکہ کی “Management” عیاں ہوکر سامنے آگئی ہے اور اس “Management” کا شکار اِس بار ’’اسلامی تحریکیں‘‘ ہیں۔ اس صورت حال سے جو حقائق عیاں ہورہے ہیں ان میں سب سے اہم حقیقت یہ ہے کہ اسلامی تحریکوں کے لیے جو اقتدار کبھی ایک ’’ذریعہ‘‘ تھا، اسلامی تحریکیں اسے ’’مقصد‘‘ بنانے کی طرف مائل ہیں۔ اسلامی تحریکوں کے طرزعمل سے دوسری بات یہ ظاہر ہورہی ہے کہ امریکہ پورے عالم اسلام کو ترکی کے ماڈل سے ہم آہنگ کرنے کے لیے متحرک ہوچکا ہے، چنانچہ اسلامی تحریکیں ’’انقلاب‘‘ کے بجائے ’’اسٹیٹس کو‘‘ کی علامت بن کر سامنے آنا شروع ہوگئی ہیں۔ اہم بات یہ ہے کہ یہ صورت حال اس وقت رونما ہورہی ہے جب اسلامی تحریکوں کی پشت پر عرب دنیا میں رونما ہونے والے انقلابات کے نفسیاتی اثرات موجود ہیں۔ اسلامی تحریکوں کے طرزعمل سے یہ بھی محسوس ہورہا ہے کہ وہ خود کو مسلم دنیا کے لیے ’’ناگزیر‘‘ سمجھ رہی ہیں، حالانکہ وہ تجربے سے جانتی ہیں کہ وہ گزشتہ ساٹھ ستّر سال میں زندہ رہی ہیں تو حق کی سربلندی کے لیے کوشاں ہونے کی بنیاد پر زندہ رہی ہیں۔ اسلامی تحریکیں حق کی سربلندی کے لیے کوشاں نہیں رہیں گی تو اللہ تعالیٰ اپنے کام کے لیے کسی اور کو برپا کردیں گے۔ اسلامی تحریکوں کو نہیں بھولنا چاہیے کہ اسلام کو ہماری ضرورت نہں، ہمیں اسلام کی ضرورت ہے۔ اللہ تعالیٰ کے نزدیک اصل چیز صحیح نیت اور کامل اخلاص کے ساتھ جدوجہد ہے۔ مسلمان جب صحیح نیت اور اخلاص کے ساتھ جدوجہد کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کے لیے راستے کھولتے چلے جاتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ بدترین حالات کے باوجود اللہ تعالیٰ نے اقبالؒ‘ مولانا مودودیؒ اور سید قطبؒ کے لیے راستے کھولے اور ساٹھ ستّر سال کے طویل سفر کے باوجود اخوان المسلمون اور جماعت اسلامی کو ’’ضائع‘‘ نہیں ہونے دیا۔ لیکن بدقسمتی سے بعض مسلم ملکوں میں اقتدار میں آتے ہی اسلامی تحریکیں خود کو ’’ضائع‘‘ کرنے کی طرف گامزن ہوچکی ہیں۔ اسلامی تحریکوں کے وابستگان اس صورت حال کا نوٹس نہیں لیں گے اور اس کا تدارک نہیں کریں گے تو خرابی بڑھتی چلی جائے گی اور اسلامی تحریکیں ریاستی نظام میں ’’جذب‘‘ ہوکر نمک کی کان کا حصہ بن جائیں گی۔
, , ,

Leave a Reply