میں اور میرا مطالعہ

قصص الانبیاء میں سیدنا نوحؑ ، سیدنا ابراہیمؑ اور سیدنا موسیٰؑ کے قصے بھی متاثر کن تھے۔ مگر آٹھ سال کی عمر میں سیدنا یوسفؑ کا قصہ داستانِ یوسف بار بار میرا دامنِ دل اپنی طرف کھینچتا تھا۔ ایسا کیوں تھا، اس کا اندازہ مجھے بہت بعد میں یہ جان کر ہوا کہ اللہ تعالیٰ نے سیدنا یوسفؑ اور زلیخا کے قصے کو خود احسن القصص قرار دیا ہے۔ داستانِ یوسفؑ کا ایک پہلو یہ ہے کہ سیدنا یوسفؑ نبی بھی ہیں اور دنیا کے جمیل ترین انسان بھی، مگر اس کے باوجود وہ بازارِ مصر میں ایک غلام کی حیثیت سے فروخت ہوگئے۔ ان کی بولی لگانے والوں میں ایک ایسی بڑھیا بھی شامل تھی جس کی پونجی کاتے ہوئے تھوڑے سے سوت کے سوا کچھ نہ تھی۔ داستانِ یوسفؑ کا ایک زاویہ زلیخا کا وہ خواب تھا جو خود خدا نے زلیخا کو دکھایا اور جس کی وجہ سے زلیخا سیدنا یوسفؑ کی عاشق بنی، مگر اس خواب کا مفہوم کیا ہے؟ اس سوال کا جواب ایک شعر میں یہ ہے:
حرمتِ دامنِ یوسف کے سوا کچھ بھی نہیں
لوگ پھرتے ہیں جسے دامِ زلیخا کہتے
داستانِ یوسف کا ایک دل گداز پہلو سیدنا یوسفؑ سے سیدنا یعقوبؑ کی محبت ہے۔ آپؑ سیدنا یوسفؑ کے غم میں اتنا روئے کہ بینائی جاتی رہی۔ داستانِ یوسف میں ایک ایسی بات ہے کہ داستانِ یوسف نے ہماری غزل کی روایت سے بہترین شعر کہلوائے ہیں۔ مثلاً
بھاگ اِن بردہ فروشوں سے کہاں کے بھائی
بیچ ہی ڈالیں جو یہ یوسف سا برادر ہووے
۔۔۔۔۔۔
سب رقیبوں سے ہیں ناخوش پر زنانِ مصر سے
ہے زلیخا خوش کہ محو ماہِ کنعاں ہوگئیں
۔۔۔۔۔۔
طلسم خوابِ زلیخا و دامِ بردہ فروش
ہزار طرح کے قصے سفر میں ہوتے ہیں
قصص الانبیاء کے سلسلے کی ایک کتاب رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے متعلق تھی۔ اس کا عنوان تھا ’’معراجِ رسولؐ‘‘۔ یہ ڈھائی تین سوصفحات کی کتاب تھی۔ اس میں کچھ سیرتِ طیبہؐ کا بیان تھا، لیکن کتاب کا زیادہ تر حصہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے واقعہ معراج سے متعلق تھا۔ یہ کتاب بھی میں نے پہلی بار آٹھ سال کی عمر میں پڑھی اور کتاب پڑھ کر مجھ پر ایسی حیرت و اشتیاق طاری ہوا کہ جو برسوں میرے ساتھ رہا۔ یہاں تک کہ اس کتاب کا اثر آج بھی میں اپنے قلب پر محسوس کرتا ہوں۔ اس کتاب کا اثر یہ ہوا کہ میں نے آٹھ برس کی عمر میں ایک خواب دیکھا کہ میرا پورا وجود آسمان کی طرف اُٹھ رہا ہے، بالکل اس طرح جس طرح ایک راکٹ، میزائل، خلائی شٹل فضا میں بلند ہوتی ہے۔ یہ سفر کچھ دیر جاری رہا، مگر پھر کسی نامعلوم قوت نے میرے اس سفر کو روک دیا اور میں فضا سے زمین پر گرنے لگا۔ میں نے یہ خواب پہلی بار آٹھ سال کی عمر میں دیکھا۔ اُس وقت میں اپنی خالہ کے پاس سوتا تھا۔ وہ سخت سردی کے دن تھے لیکن زمین پر گرتے ہی میری آنکھ کھلی تو میرا پورا جسم پسینے میں شرابور تھا۔ ابتدا میں یہ خواب مجھے سردیوں کے موسم میں آتا تھا، مگر پھر موسم کی کوئی تخصیص نہ رہی۔ یہ خواب مجھے آٹھ سال تک مسلسل آتا رہا۔ خواب کی ابتدا میں مجھے اس تجربے کا ٹھیک ٹھیک اندازہ نہ تھا کہ یہ کیا ہے، مگر جب خواب تواتر سے آتا رہا تو میں نے محسوس کیا کہ خواب کے عالم میں میری روح جسم سے نکل کر فضا میں بلند ہوتی ہے اور پھر کوئی قوت اسے میرے جسم کی طرف لوٹا دیتی ہے۔ روح کے جسم میں واپس آنے کا تجربہ اتنا زندہ محسوس ہوتا کہ میں روح کے کمرے کی دیوار یا دروازے سے گزرنے کو بھی محسوس کرتا اور جسم میں واپسی کو بھی۔ آٹھ سال تک مسلسل آنے کے بعد یہ خواب آنا بند ہوگیا اور آج تک یہ خواب میں نے پھر نہیں دیکھا۔ یہ خواب ایک کتاب کے مطالعے اور مفہوم کو جذب کرنے کا حاصل تھا۔ میرا مذہبی شعور، میرا مذہبی احساس اور میرا مذہبی تناظر جو بھی ہے، قصص الانبیاء کو آٹھ سال کی عمر میں پڑھنے، سمجھنے اور جذب کرنے کا حاصل ہے۔ ہماری مذہبی تحریکیں کہتی ہیں کہ ہمیں قرآن سے رجوع کرنے کی ضرورت ہے۔ اور وہ غلط نہیں کہتیں۔ قرآن ہماری تہذیب کا مرکز و محور ہے۔ لیکن رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ایک زندہ اور چلتا پھرتا قرآن تھے۔ مطلب یہ کہ ہماری انفرادی اور اجتماعی زندگی پر سیرتِ طیبہؐ کے مطالعے کا جیسا اثر ہوسکتا ہے ویسا اثر صرف قرآن پاک کے مطالعے کا نہیں ہوسکتا۔ اپنے مطالعے اور تجربے کی بنیاد پر میں کہہ سکتا ہوں کہ ایک ارب ساٹھ کروڑ مسلمانوں کو انبیاء و مرسلین اور صحابہ کرام کی سیرتیں پڑھانے کی ضرورت ہے۔ ان سیرتوں کو ہمارے ہر درجے کے نصاب، ہمارے اخبارات و جرائد، ریڈیو اور ٹیلی وژن سے نشر ہونے والے ابلاغی مواد کا حصہ ہونا چاہیے۔ انسان کا مشاہدہ اور انسان کا ٹھوس تجربہ انسان کو جس طرح بدل سکتا ہے کوئی اور چیز آدمی کو اس طرح نہیں بدل سکتی۔
مولانا مودودیؒ کی کتب میری زندگی میں ایک دھماکے کی طرح وارد ہوئیں۔ میرے والد ایوب احمد فاروقی مرحوم پاکستان ہجرت سے قبل دہلی میں جماعت اسلامی ہند کے رکن تھے۔ مگر مجھ پر میری ننہیال کا اثر تھا اور میری ننہیال علمائے دیوبند کے زیراثر تھی۔ میری خالہ جنہوں نے مجھے گود لے کر پالا اگرچہ میرے والد کا بہت احترام کرتی تھیں، مگر جب مذہبی معاملات کا ذکر آتا تو وہ ہنس کر کہتیں کہ تمہارے ابا تو ’’مودودیے‘‘ ہیں۔ اس رویّے نے میرے ذہن میں مولانا مودودی کے تاثر کو بری طرح مجروح کردیا تھا۔ مجھے یاد ہے کہ میں اُس وقت نویں جماعت کا طالب علم تھا اور میں اپنی بڑی بہن شاہین فاروقی کے سامنے مولانا مودودی کی برائی کررہا تھا۔ میری بڑی بہن اس وقت کراچی کے ڈاؤ میڈیکل کالج میں اسلامی جمعیت طالبات کی کارکن تھی۔ انہوں نے مجھ سے کہا کہ تم نے مولانا مودودی کو پڑھا بھی ہے یا یونہی مولانا کے خلاف گفتگو کررہے ہو؟ میں نے اُس وقت تک مولانا کی کوئی کتاب نہیں پڑھی تھی، چناں چہ میں نے اعتراف کیا کہ میں نے مولانا کا مطالعہ نہیں کیا ہے۔یہ سن کر انہوں نے مولانا کی کتاب ’’خلافت اور ملوکیت‘‘ میرے حوالے کردی۔ اس کتاب کے خلاف میں اپنے ننہیال میں کئی بار گفتگوئیں سن چکا تھا۔ بہرحال! میں نے ’’خلافت و ملوکیت‘‘ کا مطالعہ شروع کیا اور اسے دو دن میں پڑھ ڈالا۔ مجھے یہ کتاب غیر معمولی محسوس ہوئی۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ اس کتاب میں اس سوال کا جواب دیا گیا ہے کہ خلافت ملوکیت میں کس طرح تبدیل ہوئی؟ یہ ہماری تاریخ کا اہم سوال ہے اور مولانا سے پہلے کسی عالم اور دانش ور نے اس سوال کا جواب تلاش کرنے کی کوشش نہیں کی تھی۔ مفکرین اور دانش وروں کا بنیادی کام یہ ہے کہ وہ زندگی کے بنیادی سوالات کے جواب تلاش کریں۔ مجھے اب خلافت اور ملوکیت کی بنیادی دلیل سے اتفاق نہیں، مگر اس کے باوجود میں ’’خلافت اور ملوکیت‘‘ کو ایک بڑی کتاب سمجھتا ہوں۔ ’’خلافت اور ملوکیت‘‘ کے مطالعے کے بعد مولانا کی فکر اور ان کی تصانیف کے خلاف میرے تعصبات تحلیل ہوگئے اور میں نے مولانا کی کئی اہم کتب کو پڑھنے، سمجھنے اور جذب کرنے کی کوشش کی۔ مجھے مولانا کی جو کتب بہت پسند آئیں ان کے نام یہ ہیں: تنقیحات، تفہیمات، اسلامی تہذیب کے اصول و مبادی، قرآن کی چار بنیادی اصطلاحات، دینیات، پردہ، خطبات، الجہاد فی الاسلام۔ مولانا کی معرکہ آراء تفسیر ’’تفہیم القرآن‘‘ میں نے لفظ بہ لفظ پڑھی ہے۔ یہ تفسیر مولانا کے مجموعی علم کا نچوڑ ہے۔ مجھے اردو میں لکھی جانے والی سب سے اہم تفسیر ثناء اللہ پانی پتی کی ’’تفسیر مظہری‘‘ لگتی ہے۔ اس تفسیرکا کمال یہ ہے کہ صاحبِ تفسیر نے قرآن پاک کو قرآن، احادیث اور صحابہ کرام کے اقوال کی مدد سے سمجھنے اور سمجھانے کی کوشش کی ہے اور اس میں تاویل کا عنصر کم ہے۔ اردو کی دوسری عظیم تفسیر مولانا کی تفہیم القرآن ہے۔ اس تفسیر کا کمال یہ ہے کہ یہ دین کو ایک مکمل ضابطہ حیات کے طور پر سامنے لاتی ہے۔ اسلام کے ضابطۂ حیات کا تصور تو تفہیم مظہری میں بھی موجود ہے مگر اس تفسیر کا نقص یہ ہے کہ اس میں عصر کا شعور موجود نہیں۔ مولانا مودودی کی تفسیر کا کمال یہ ہے کہ وہ اپنے دامن میں ماضی ہی کو نہیں، عصر کو بھی سمیٹے ہوئے ہے۔ مفتی شفیع کی تفسیر ’’معارف القرآن‘‘ آٹھ جلدوں پر مشتمل ہے اور یہ تفسیر بھی میں نے لفظ بہ لفظ پڑھی ہے۔ یہ تفسیر روایتی شعور کی گہرائی اور گیرائی کو ہمارے سامنے لاتی ہے۔ سیرتِ طیبہ پر شبلی کی کتاب اردو کی عظیم ترین کتابوں میں سے ایک ہے۔ سیرتِ طیبہ پر اتنی عمدہ کتاب شاید ہی دنیا کی کسی زبان میں لکھی گئی ہو۔ اس کتاب کی صرف ایک بات مجھے پسند نہیں اور وہ یہ کہ اس میں رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی ازواج کی تعداد کے حوالے سے ایک معذرت خواہی موجود ہے جس کا کوئی جواز ہی نہیں۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو اگر اللہ تعالیٰ نے سو بیویوں کی اجازت دی ہوتی تب بھی آپؐ سردار الانبیاء، خاتم النبیین اور باعثِ تخلیقِ کائنات ہوتے۔

Leave a Reply