امام غزالی ہماری تہذیب اور تاریخ کی عظیم ترین شخصیات میں سے ایک ہیں۔ ان کی دو معرکہ آراء کتب یعنی ’’المنقذ من الضلال‘‘ اور ’’تہافت الفلاسفہ‘‘ میں نے یونیورسٹی کے زمانے میں پڑھیں۔ ’’المنقذ‘‘ غزالی کی خودنوشت ہے جو ہمیں بتاتی ہے کہ غزالی کے لیے حق کی تلاش اتنی اہم تھی کہ غزالی آٹھ دس سال کے لیے بستر سے لگ گئے، اور جب ان پر حق آشکار ہوگیا تو انہوں نے اُس زمانے کی واحد یونیورسٹی کی وائس چانسلری بھی چھوڑ دی، اُن ہزاروں شاگردوں کو بھی ترک کردیا جو ان کا درس سننے آتے تھے، انہوں نے حکمرانوں کی قربت اور اس قربت سے میسر آنے والی آسائشوں کو بھی خیرباد کہہ دیا۔ مغرب کے بعض دانش ور غزالی کو شک یا Doubt کے سلسلے میں ڈیکارٹ کا ’’استاد‘‘ ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں، لیکن غزالی نے اپنی خودنوشت میں صاف لکھا ہے کہ اسلام کے بنیادی عقائد پر انہیں کبھی شک لاحق نہیں ہوا۔ انہیں شک لاحق ہوا تو اپنے زمانے میں موجود دین کی تعبیرات پر۔ ’’تہافتہ الفلاسفہ‘‘ فلسفے کی عظیم ترین کتابوں میں سے ایک ہے۔ یہ کتاب آپ کو بتاتی ہے کہ یونانی فکر کا چیلنج کیا تھا اور غزالی نے اس کا جواب کیسے فراہم کیا۔ شاہ ولی اللہ ہماری تاریخ کے عظیم ترین مجددین میں سے ایک ہیں۔ ان کی سب سے اہم تصنیف ’’حجۃ اللہ البالغہ‘‘ ہے۔ یہ تصنیف اردو میں دو ضخیم جلدوں میں ترجمہ ہوچکی ہے۔ اس کتاب کی اہمیت یہ ہے کہ اس میں عقائد و احکامات کی معنویت پر گفتگو کی گئی ہے۔ مثلاً شاہ ولی اللہ نے بتایا ہے کہ یہ جو ہم نماز کی نیت کرتے ہوئے دونوں ہاتھ فضا میں بلند کرتے ہیں تو اس کی معنویت یہ ہے کہ ایک ہاتھ اُٹھا کر ہم اعلان کرتے ہیں کہ اے خدا ہم نے تیری محبت اور رضا کے لیے دنیا ترک کردی۔ ہم دوسرا ہاتھ اٹھاتے ہیں تو ہم اعلان کرتے ہیں کہ اے خدا ہم نے تیری رضا کے لیے عقبیٰ بھی چھوڑ دی‘‘۔ شاہ صاحب نے لکھا ہے کہ جب خدا کسی شخص کو اپنا محبوب بنالیتا ہے تو وہ سب سے پہلے اس کی اطلاع اپنے مقرب فرشتوں کے حلقے کو دیتا ہے۔ اس حلقے کے فرشتے یہ بات آسمان کے فرشتوں کو بتاتے ہیں۔ آسمان کے فرشتے یہ اطلاع ان فرشتوں کو دے دیتے ہیں جن کا زمین پر آنا جانا ہوتا ہے۔ زمین پر آنے جانے والے فرشتے یہ بات بے شمار انسانوں کے قلوب پر القا کردیتے ہیں اور اس طرح خدا کا محبوب انسانوں میں بھی مشہور ہو جاتا ہے۔ شاہ صاحب نے حجۃ اللہ البالغہ میں لکھا ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنے ولیوں کو مرنے کے بعد ان فرشتوں میں شامل کردیتا ہے جو اہل زمین سے رابطے میں رہتے ہیں۔ اس طرح انتقال کے بعد بھی اولیا کا تعلق اہل زمین کے ساتھ برقرار رہتا ہے۔
اردو شاعری میں چار شاعر ایسے ہیں جنہیں آپ ساری زندگی پڑھ سکتے ہیں۔ یعنی میرے غالب، اکبر الٰہ آبادی اور اقبال۔ میر کی پوری کلیات کا مطالعہ دشوار ہے چناں چہ میں نے میر کی کلیات سے زیادہ ان کے انتخابات پڑھنے کی کوشش کی۔ اس سلسلے میں عسکری اور ناصر کاظمی کے انتخابات اہم ہیں۔ تاہم میر کا سب سے مختصر اور سب سے اچھا انتخاب محب عارفی کا ہے۔ اس انتخاب میں انہوں نے میر کے تین سو بڑے شعر منتخب کیے ہیں۔ محب عارفی صاحب نے لکھا ہے کہ میں پچاس سال تک غالب کو اردو کا سب سے بڑا شاعر سمجھتا رہالیکن میر کے مطالعے نے مجھے اپنی پچاس سالہ رائے سے رجوع کرنے پر مجبور کردیا اور اب میں میر کو غالب سے بڑا شاعر سمجھتا ہوں۔ لیکن میر کی عظمت کیا ہے؟ میر کی عظمت کے تین پہلو ہیں۔ میر کی عظمت کا ایک پہلو یہ ہے کہ میر زندگی کی کلیّت کو جس طرح بیان کرتا ہے کوئی اور شاعر زندگی کی کلیّت کو اس طرح بیان نہیں کرتا۔ میر کی عظمت کا دوسرا پہلو غزل کی روایت عشقیہ تجربے کے بیان کی روایت ہے اور یہ عشقیہ تجربے کو بیان کرنے والا سب سے بڑا شاعر ہے۔ میر کی عظمت کا تیسرا پہلو یہ ہے کہ میر نے اس وقت بڑی شاعری کی جب اردو زبان کی شاعری میں بڑے خیال اور بڑے تجربے کو بیان کرنے کے لیے کوئی سانچہ موجود نہ تھا۔ میر کو اپنی عظمت کے اس پہلو کا خود بھی ادراک تھا۔ چناں چہ انہوں نے کہا ہے ریختہ رتبے کو پہنچایا ہوا اس کا ہے معتقد کون نہیں میر کی استادی کا
لوگ کہتے ہیں کہ سرسید ہماری ملی تاریخ کے پہلے جدیدیے یا Modernist ہیں۔ لیکن ایسا نہیں ہے۔ ہماری ملی تاریخ کا پہلا جدیدیہ غالب ہے۔ اس نے اپنی شاعری میں روایتی مذہبی شعور کا مذاق اُڑایا ہے۔ عشق کا مضحکہ اُڑانے کی کوشش کی ہے لیکن اہم بات یہ ہے کہ غالب نے اپنے انحرافات سے بھی بڑی شاعری پیدا کرکے دکھائی ہے۔ عسکری صاحب کہتے ہیں کہ غالب کا اصولِ حرکت دنیا ہے۔ سلیم احمد کہتے ہیں کہ غالب کا مسئلہ انا ہے۔ یہ دونوں باتیں درست ہیں مگر غالب کی دنیا پرستی اور انا دونوں اسے بڑا آرٹ تخلیق کرنے سے نہیں روکتیں۔
اقبال کا تخلیقی وقار ایسا ہے کہ اقبال کی شاعری مردے کو زندہ کرسکتی ہے۔ پانی میں آگ لگا سکتی ہے، ماضی کی قوت اور شکوہ سے ایک نیا مستقبل تخلیق کرسکتی ہے، میں نے میر اور اقبال کو یونیورسٹی کے زمانے میں پڑھنا شروع کیا، اور ان دونوں شاعروں کو میرے شعور اور احساس نے جس طرح جذب کیا اردو کے کسی اور شاعر کو اس طرح جذب نہیں کیا۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا ہے کہ میر اور اقبال میرے شاعرانہ مزاج کے دو ستون یا دو Pole بن گئے۔ میر کے غم اور اقبال کی آرزو کا ایک جگہ جمع ہونا محال ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ میر کا غم یا افسردگی بھی گہری ہے اور اقبال کی آرزو بھی عمیق ہے۔ چناں چہ ان میں سے ایک چیز کسی شعور یا احساس میں راسخ ہو جائے تو دوسرے کے لیے جگہ ہی باقی نہیں رہتی لیکن اقبال جس آرزو کے علم بردار ہیں وہ آٹھ دس سال کی عمر سے میرے ساتھ تھی اور قصص الانبیاء کے حوالے سے دکھ کا تجربہ بھی اسی عمر میں میرے اندر جذب ہوچکا تھا، چناں چہ میرے شعور اور احساس میں ایسا ناممکن کام ممکن ہوگیا۔ اس حوالے سے میرا ایک شعر ہے۔
میرے سخن کا حال نہ پوچھ
میر کے پہلو میں اقبال
اکبر الٰہ آبادی کا تخلیقی جوہر اقبال کی سطح کا ہے۔ اقبال خود اس حقیقت سے آگاہ تھے چناں چہ انہوں نے اکبر کے انتقال پر ان کے فرزند کے نام جو خط ارسال کیا اس میں لکھا کہ آپ کے والد اتنے بڑے شاعر تھے کہ پورے ایشیا میں ان کی کوئی دوسری مثال موجود نہیں۔ لیکن ایشیا کیا دوسرے براعظموں میں بھی کوئی ایسا ثانی موجود نہیں جس کی شاعری کا خمیر دو تہذیبوں کے پیکار اور تصادم سے اُٹھا ہو۔ اکبر کی عظمت کا ایک زاویہ یہ ہے کہ برصغیر کی ملت اسلامیہ نے جو جنگ میدان کارزار میں ہار دی تھی اکبر نے وہ جنگ اپنی شاعری میں جیت کر دکھادی ہے۔ انہوں نے اسلام اور جدید مغرب کی الٰہیات کا موازنہ کیا ہے اور اسلامی الٰہیات کی فوقیت ثابت کی ہے۔ انہوں نے اسلام اور مغرب کے تصورِ علم کا موازنہ کیا ہے اور اسلام کے تصور علم کی برتری ثابت کی ہے۔ انہوں نے اسلامی تہذیب اور مغربی تہذیب کے مظاہر کو ایک دوسرے کے سامنے کھڑا کیا ہے اور اسلام کے مظاہر کے ترانے گا کر دکھائے ہیں۔ لیکن چوں کہ اکبر کی شاعری ظریفانہ ہے اس لیے عام لوگ اسے ہنسنے ہنسانے کی چیز سمجھتے ہیں لیکن اکبر کی شاعری اقبال کی شاعری سے کم سنجیدہ نہیں۔
یہاں اردو کی دو اور اہم کتابوں کا ذکر ناگزیر ہے۔ ایک کتاب ہے سرسید اور حالی کا نظریۂ فطرت، سرسید اور حالی کی فکر فطرت کے مذہبی تصور پر کھڑی ہوئی ہے، مذکورہ کتاب ڈاکٹر ظفر کا پی ایچ ڈی کا مقالہ ہے۔ یہ مقالہ انہوں نے محمد حسن عسکری کی نگرانی میں تحریر کیا۔ مگر اس کتاب پر عسکری صاحب کی چھاپ اتنی گہری ہے کہ بعض لوگ اس کتاب کو عسکری صاحب ہی کی کتاب کہتے ہیں۔ لیکن یہ اہم بات نہیں۔ اہم بات یہ ہے کہ اس کتاب میں سرسید اور حالی کے تصور فطرت کا وسیع تناظر میں جائزہ لیا گیا ہے۔ مثلاً اس کتاب میں بتایا گیا ہے کہ اسلامی، چینی، ہندو اور عیسائی تہذیب میں فطرت کا کیا تصور ہے؟ اس کے ساتھ اس کتاب میں مثالوں سے واضح کیا گیا ہے کہ جدید مغرب کا تصور فطرت، روایتی تہذیبوں کے تصور فطرت کے مقابلے پر کتنا غلط، کتنا محدود اور کتنا سطحی ہے۔ اس تجزیے سے سرسید اور حالی کی فکر معمولی اور حقیر بن کر سامنے آجاتی ہے اور سرسید اور حالی کی ساری علمیت زیر و زبر ہو کر رہ جاتی ہے۔ یہ کتاب اتنی غیر معمولی ہے کہ اس موضوع پر اردو کیا انگریزی میں بھی ایسی کتاب موجود نہیں۔
۔۔۔جاری ہے۔۔۔