کلچر عہد حاضر کا ایک اہم موضوع ہے لیکن یہ موضوع جتنا اہم ہے اس کی تفہیم اتنی ہی کامیاب ہے۔ اس اعتبار سے دیکھا جائے تو ڈاکٹر جمیل جالبی کی تصنیف پاکستانی کلچر اردو میں، کلچر بالخصوص پاکستانی کلچر کے حوالے سے اہم کتاب ہے بلکہ یہ کہا جائے تو غلط نہ ہوگا کہ اردو میں پاکستانی کلچر پر اس سے اچھی کتاب موجود نہیں۔ یہ کتاب بتاتی ہے کہ کلچر کی تعریف کیا ہے؟ پاکستانی کلچر کے مسائل کیا ہیں؟ کلچر کی عدم تفہیم ہماری تخلیقی صلاحیتوں کو کس طرح متاثر کررہی ہے؟
آنند کمارا سوامی 20 ویں صدی میں روایتی آرٹ کے سب سے بڑے ماہر تھے۔ ان کا تعلق سری لنکا سے تھا۔ وہ ڈیڑھ درجن سے زیادہ زبانیں جانتے تھے۔ ان کی ہر کتاب خیال انگیز ہے مگر مجھے ان کی تصنیف “Figure Of Speech Or Figure Of Thought” انتہائی غیر معمولی محسوس ہوئی۔ اس کتاب میں “Figure Of Speech Or Figure Of Thought” کے عنوان سے موجود مضمون روایتی ادب کے موضوع پر لکھا گیا ایک شاہکار مضمون ہے۔ اس مضمون کا بنیادی خیال یہ ہے کہ انسان کا تشخص شعور سے متعین ہوتا ہے، احساس یا Feelings سے نہیں۔ آنند کمارا سوامی کے بقول Feelings کی سطح پر انسان حیوانات اور پرندوں میں کوئی فرق نہیں۔ چناں چہ روایتی آرٹ یا روایتی ادب شعور کا حاصل ہے، احساسات کا حاصل نہیں۔ اس سلسلے میں آنند کمارا سوامی نے افلاطون سے لے کر جدید عہد تک کے کئی اہم حوالے پیش کیے ہیں۔ آنند کمارا سوامی کے اس مضمون کا اثر سلیم احمد نے بھی قبول کیا ہے، چناں چہ انہوں نے اپنے شعری مجموعے بیاض کے دیباچے میں کہا ہے کہ میں شاعری کو شعور کی اولاد سمجھتا ہوں۔ سلیم احمد نے اس سلسلے میں صرف اعلان ہی نہیں کیا، ان کا شاعری مجموعہ بیاض ’’شعورکی اولاد‘‘ کا ایک بڑا ثبوت ہے۔
پی ڈی او سپینسکیP.D OUSPENSKY روس کے ممتاز دانش وروں میں سے ایک تھے۔ 1950ء، 1960ء اور 1970ء کی دہائیوں میں اس کی شہرت عالمی سطح پر ہر طرف پھیلی ہوئی تھی۔ اس کی تصنیف Fourth Way عمدہ کتاب ہے، اس کی کتاب A New Model Of The Universe اور اس کی مشہور زمانہ تصنیف In Search Of The Miraculous کو میں نے جستہ جستہ پڑھا ہے۔ اوسپینسکی انسان کے داخلی ارتقا کا قائل ہے اور اس پر بہت زور دیتا ہے۔ اس نے انسان کے داخلی ارتقا کے سات درجے بتائے ہیں۔ اس کے بقول داخلی ارتقا کے تیسرے درجے تک تمام انسان صرف ایک مشین ہوتے ہیں، مشین پن سے نجات کا پہلا تقاضا یہ ہے کہ انسان اپنا مشین ہونا تسلیم کرے۔ یہ تسلیم کرنے کے بعد حقیقی معنوں میں انسان کے داخلی ارتقا کا آغاز ہوتا ہے۔ اوسپینسکی کے نزدیک داخلی ارتقا کا ہر مرحلہ ایک نئے انسان کو ہمارے سامنے لاتا ہے۔ یہاں تک کے انسان ساتویں درجے پر پہنچ جاتا ہے۔ اس درجے پر پہنچ کر انسان مکمل طور پر خود شناس ہو جاتا ہے۔ اس درجے پر انسان کو جو علم حاصل ہوتا ہے وہ کبھی شعور سے محو نہیں ہوتا۔ سلیم احمد اوسپینسکی کے اس تصور سے متاثر تھے اور انہوں نے اپنی کتاب محمد حسن عسکری، آدمی یا انسان اس تصور کی بنیاد پر عسکری صاحب کی شخصیت کا تجزیہ کیا ہے اور عسکری کو ساتویں درجے کا آدمی یا Man No 7 قرار دیا ہے۔
میری خبر سے دلچسپی کا آغاز پانچ چھ سال کی عمر میں ہوگیا تھا۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ میری ننہیال کو جہاں میری ابتدائی پرورش ہوئی اُمت مسلمہ بالخصوص پاکستان کے ماضی، حال اور مستقبل سے عشق کی سطح پر دلچسپی تھی۔ ہمارے گھر میں پاکستان کا ذِکر اس محبت سے ہوتا کہ مجھے لگتا کہ مسلمانوں کے مقدس مقامات صرف تین ہیں۔ مکہ، مدینہ اور پاکستان۔ میرے بڑے ماموں سید نفیس حسن مرحوم صرف حافظ تھے اور انہوں نے اسکول، کالج میں باقاعدہ تعلیم حاصل نہیں کی تھی مگر ان کو اُمت مسلمہ اور پاکستان کی سیاست سے گہری دلچسپی تھی۔ اس دلچسپی کا نتیجہ یہ تھا کہ ہمارے گھر میں روزانہ ریڈیو سے تین بلیٹن سنے جاتے، پہلا بلیٹن بی بی سی کی اردو سروس کے پروگرام سیربین کی صورت میں ہوتا، اس کے کچھ دیر بعد ریڈیو پاکستان سے آٹھ بجے کی خبریں سنی جاتیں، یہ کام ہونے کے بعد بڑے ماموں کہتے، ہاں بھائی اب دیکھ بھارت کا ریڈیو اسٹیشن آکاش وانی کیا بکواس کررہا ہے، بڑے ماموں کے ساتھ مجھ سمیت پورا گھر ریڈیو سے خبریں سنتا، میرے بڑے ماموں صرف ریڈیو کی خبروں پر اکتفا نہیں کرتے تھے، وہ دو تین ہفت روزہ اخبارات بھی منگواتے تھے۔ وہ اخبار خود نہیں پڑھتے تھے، گھر کا کوئی اور فرد انہیں اخبار پڑھ کر سناتا۔ اس صورتِ حال کی وجہ سے مجھے بارہ تیرہ سال کی عمر میں پاکستان، ہندوستان اور اُمت مسلمہ کے عمومی سیاسی حالات کا کچھ نہ کچھ علم ہوگیا تھا۔ میں نے اپنی سیاسی معلومات کا اظہار اپنے محلے کے دوستوں میں کرنا شروع کیا تو اس کی اطلاع محلے میں موجود ’’بزرگوں‘‘ کے اس گروپ کو بھی ہوگئی جو کسی نہ کسی شخص کو پکڑ کر اس سے اجتماعی طور پر اخبار سُنا کرتا تھا۔ چناں چہ اس گروپ کے لوگوں کو کوئی شخص نہ ملتا تو وہ مجھے اخبار پڑھنے کے لیے بلالیتے اور میں ایک ڈیڑھ گھنٹے تک انہیں اخبار سناتا رہتا۔ اس عمل سے میری زبان و بیان بھی بہتر ہوگئے اور میری معلومات علم اور سیاسی حالات کا تجزیہ کرنے کی صلاحیت میں بھی خاطر خواہ ترقی ہوئی۔ میرے والد صاحب دو اخبارات خریدتے تھے۔ روزنامہ جسارت اور ڈیلی ڈان۔ نویں جماعت سے میں نے یہ دونوں اخبارات پڑھنے شروع کیے، لیکن انٹر کے پہلے سال تک پہنچتے پہنچتے میری اخبار بینی کا شوق اتنا بڑھا کہ میں روز نارتھ ناظم آباد میں موجود تیموریا لائبریری جانے لگا۔ لائبریری میں جسارت اور ڈان کے سوا کئی اخبارات و رسائل کا مطالعہ کرتا۔ یہ 1983ء کا زمانہ تھا۔ جسارت اس وقت ایک شاندار اخبار تھا۔ اس میں کئی اہم لکھنے والے موجود تھے مگر مجھے سلیم احمد اور خامہ بگدش کے کالم سب سے زیادہ پسند تھے۔ ایم اے کرنے کے بعد میں روزنامہ جسارت اور پی ٹی وی کراچی کے شعبہ خبر سے وابستہ ہوگیا۔ پی ٹی وی میں کام زیادہ نہیں تھا۔ چناں چہ میں وہاں فارغ وقت میں دو کام کرتا، میں اخبار پڑھتا اور جسارت کے لیے کالم اور اداریہ لکھتا۔ اس زمانے میں میں روزانہ دس سے بارہ اخبارات پڑھتا تھا۔ ان اخبارات میں روزنامہ جسارت، روزنامہ جنگ، روزنامہ نوائے وقت، ڈان، دی مسلم، دی نیشن، اسٹار، ڈیلی نیوز، خبریں، عوام اور آغاز شامل تھے۔ ہفت روزہ تکبیر، ہفت روزہ فرائیڈے اسپیشل اور ہفت روزہ زندگی بھی میں باقاعدگی سے پڑھتا تھا۔ انگریزی کے تین بین الاقوامی جریدے ’’ٹائم، نیوز ویک اور دی اکنامسٹ‘‘ مجھے جسارت سے فراہم ہوتے تھے۔ اخبارات، رسائل و جرائد کا یہ مطالعہ چودہ سال جاری رہا۔ اس زمانے میں میرے پاس اتنی معلومات ہوتی تھیں کہ مجھے پوری دنیا اپنی جیب میں پڑی ہوئی محسوس ہوتی تھی، چناں چہ ان چودہ برسوں میں میں نے روزنامہ جسارت میں ہر ماہ چالیس سے پینتالیس کالم تحریر کیے۔ اتنا لکھنے کے باوجود بھی میرے پاس کہنے کے لیے بہت کچھ باقی رہ جاتا تھا۔ لوگ کہتے ہیں کہ وہ سکون کے ساتھ کمرے میں بیٹھ کر مطالعہ کرتے ہیں مگر میں نے کراچی کی بسوں، منی بسوں اور کوچوں میں بیٹھ کر درجنوں کتابیں اور رسائل و جرائد کے سیکڑوں مضامین پڑھے ہیں۔ ظاہر ہے کہ یہ میرے مطالعے کی مکمل تصویر نہیں ہے۔ یہ میرے مطالعے کا ایک اجتماعی خاکہ ہے۔ درجنوں مفکرین، دانش وروں، فلسفیوں، شاعروں، ادیبوں اور ان کی تصانیف کا ذِکر ہونے سے رہ گیا۔ امام غزالی نے کہا ہے کہ اگر کوئی شخص تین دن تک مطالعہ نہ کرے تو اس کا ذہن مر جاتا ہے۔ میرا تجربہ ہے کہ اس مرونی کے آثار مطالعے کی عدم موجودگی کے پہلے دن ہی سے ظاہر ہونے لگتے ہیں۔ لیکن یہاں کہنے کی اصل بات یہ نہیں ہے، یہاں کہنے کی اصل بات یہ ہے کہ غزالی کا قول پوری دنیا بالخصوص اُمت مسلمہ کے لیے ایک آئینہ ہے، اس کی وجہ یہ ہے کہ اُمت مسلمہ تمام انبیاء کی وارث ہے اور انبیاء کا ورثہ تقوے اور علم کے سوا کچھ نہیں۔