بھارت کے ساتھ میاں نوازشریف کے عشق کو دیکھا جائے تو میاں نوازشریف کے گھر کا پتا یہ ہونا چاہیے:
میاں نواز شریف
مکان نمبر: 420
توہین پورہ
ذلت نگر
پن کوڈ007-
لیکن ہمارا زمانہ انٹرنیٹ کا زمانہ ہے، اس اعتبار سے دیکھا جائے تو میاں صاحب کا برقی پتا یہ ہوگا: شرمندگی ڈاٹ کام۔ لیکن یہ تو میاں صاحب کے بھارت کے ساتھ عشق کو سمجھنے کا عوامی اسٹائل ہے۔ میاں صاحب کے بھارت سے عشق کو خواص کی زبان میں بیان کرنا ہو تو غالب کا ایک شعر کافی ہے۔
غالب نے کہا ہے
دل پھر طوافِ کوئے ملامت کو جائے ہے
پندار کا صنم کدہ ویراں کیے ہوئے
میاں نوازشریف بھارت کے سلسلے میں مدتوں سے اس شعر کی عملی تفسیر بنے ہوئے ہیں۔
یادش بخیر، میاں نوازشریف نے واجپائی کو لاہور بلایا تو پوری قوم واجپائی کی لاہور یاترا کے خلاف تھی، جماعت اسلامی نے اس سلسلے میں احتجاج کا حق ادا کیا تو میاں صاحب پنجاب پولیس کے ساتھ جماعت اسلامی لاہور کے دفتر لٹن روڈ پر چڑھ دوڑے۔ انہوں نے دفترِ جماعت کا محاصرہ کرلیا اور کئی گھنٹے تک دفتر پر آنسو گیس کے حملے کیے، یہاں تک کہ دفتر کی فضا میں سانس لینا دشوار ہوگیا۔ یہ جماعت اسلامی کی پوری قیادت کو منصورہ میں دم گھونٹ کر مار دینے کی ’’شریفانہ کوشش‘‘ تھی۔ لیکن نوازشریف نے صرف اسی کوشش پر اکتفا نہ کیا، انہوں نے پولیس سے ستّر ستّر سال کے بوڑھوں پر وہ تشدد کرایا جس کی کوئی مثال موجود نہ تھی۔ اتفاق سے اس تشدد کی ویڈیو بنالی گئی اور میاں صاحب کی شرافت تاریخ کے ریکارڈ کا حصہ بن کر رہ گئی۔
میاں نوازشریف چوتھی بار اقتدار میں آئے تو خیال تھا کہ انہوں نے ماضی کے تجربات سے کچھ سیکھا ہوگا۔ لیکن میاں صاحب اِس بار بھی بھارت کے ساتھ عشق کے حوالے سے اپنے گھر کا پتا بدلنے پر آمادہ نہ ہوئے۔ چناں چہ انہوں نے مودی کی تقریبِ حلف برداری میں شرکت کی۔ نواز لیگ کے اراکین کہتے ہیں کہ یہ نواز مودی ملاقات تھی۔ لیکن یہ اگر نواز مودی ملاقات ہوتی تو اس میں کوئی حرج نہ تھا۔ حقیقت یہ ہے کہ یہ مودی کے دربار میں نوازشریف کی حاضری تھی۔ قوم کو مودی کے دربار میں نوازشریف کی حاضری پر بھی کوئی اعتراض نہیں۔ میاں صاحب ذاتی حیثیت میں مودی کے جوتے بھی چاٹیں تو انہیں اس کا حق حاصل ہے۔ مگر بدقسمتی سے نوازشریف پاکستان کے وزیراعظم ہیں۔ اس تناظر میں دیکھا جائے تو میاں صاحب کی بھارت یاترا مودی کے دربار میں پاکستان کی حاضری تھی، اور پاکستان کا معاملہ یہ ہے کہ وہ بھارت سے ملاقات تو ایک لاکھ بار کرسکتا ہے، مگر بھارت کے دربار میں حاضری ایک بار بھی نہیں دے سکتا، خواہ پاکستان کو اس کی کوئی بھی قیمت کیوں نہ چکانی پڑے۔
بدقسمتی سے شرمندگی ڈاٹ کام کے حامل میاں نوازشریف نے گزشتہ ایک سال سے بھی کچھ نہ سیکھا۔ گزشتہ ایک سال میں پاکستان اور بھارت کے درمیان کیا نہیں ہوا؟ بھارت نے ڈیڑھ ہزار سے زیادہ مرتبہ کنٹرول لائن کی خلاف ورزی کی۔ اس نے کشمیر میں آزادی کی تحریک کو کچلنے کے لیے ڈیڑھ سو دنوں میں سوا سو کشمیریوں کو شہید کر ڈالا۔ سیکڑوں افراد کو پیلٹ گن کے وار کرکے اندھا کردیا۔ اس نے مقبوضہ کشمیر کی پوری قیادت کو نظربند کیا ہوا ہے۔ بھارتی حکومت کچھ اور کیا کشمیر میں نمازِ جمعہ بھی نہیں ہونے دے رہی۔ بھارت نے پٹھان کوٹ حملے کا الزام پاکستان پر لگایا ہے۔ بھارت نے پاکستان کے کئی سفارت کاروں کو ملک بدر کردیا۔ اُس نے بھارت میں پاکستان کے سفیر کو نئی دہلی میں محدود کیا ہوا ہے۔ یہاں تک کہ بھارت نے پاکستانی اداکاروں کا ناطقہ بند کردیا۔ انتہا یہ کہ بھارت میں جونیئر ہاکی ورلڈ کپ کے دروازے پاکستان پر بند کردیے۔ لیکن اس کے باوجود میاں نوازشریف نے سرتاج عزیز کو ہارٹ آف ایشیا کانفرنس میں شرکت کے لیے بھارت بھیجنا ضروری سمجھا۔ اس کو کہتے ہیں مان نہ مان میں تیرا مہمان۔ میاں صاحب توہین پورہ، ذلت نگر اور شرمندگی ڈاٹ کام کے ’’مزے‘‘ لوٹ رہے ہیں تو ہمیں اس پر کوئی اعتراض نہیں، مگر وہ پاکستان کے 20 کروڑ عوام کے گلے میں توہین پورہ، ذلت پورہ اور شرمندگی ڈاٹ کام کی مالا کیوں ڈال رہے ہیں؟ لیکن سوال یہ ہے کہ بھارت کے سلسلے میں میاں نوازشریف کا مسئلہ کیا ہے؟
میاں نوازشریف کا ایک مسئلہ تو یہ ہے کہ پاکستان ایک نظریاتی ریاست ہے مگر خود نوازشریف کا کوئی نظریہ نہیں۔ ان کا نہ کوئی نظریاتی تشخص ہے اور نہ وہ قومی زندگی کو نظریات کی عینک سے دیکھتے ہیں۔ ٹیپو سلطان نے کہا تھا کہ شیرکی ایک دن کی زندگی گیدڑ کی سوسالہ زندگی سے بہتر ہے۔ مگر میاں نوازشریف شیر کی زندگی کو حماقت اور گیدڑ کی زندگی کو سعادت سمجھتے ہیں۔ چناں چہ بھارت اُن کے منہ پر کتنے ہی طمانچے کیوں نہ مار لے، میاں صاحب ایک اور مار، ایک اور مار کی مالا جپتے رہیں گے۔ نظریات سے عاری شخص اس کے سوا کر بھی کیا سکتا ہے؟
میاں نوازشریف کا ایک مسئلہ یہ ہے کہ وہ بھارت کے حجم یا سائز سے مرعوب ہیں، حالاں کہ تہذیبی اور تاریخی اعتبار سے اس کا کوئی جواز ہی نہیں۔ مسلمانوں نے بھارت پر ایک ہزار سال تک حکومت کی ہے اور وہ اقلیت میں ہونے کے باوجود کبھی اکثریت میں ضم نہیں ہوئے۔ تاریخی اعتبار سے دیکھا جائے تو قائداعظم نے انگریزوں اور ہندوؤں کی متحدہ قوت سے لڑ کر پاکستان حاصل کیا۔ تہذیب اور تاریخ کا یہ تجربہ میاں صاحب کا بھی ’’اثاثہ‘‘ ہے مگر میاں صاحب اثاثے کو بوجھ اور بھارت کی غلامی کو اعزاز سمجھتے ہیں۔
میاں صاحب کا ایک مسئلہ یہ ہے کہ وہ اول و آخر تاجر ہیں، چناں چہ اُن کا خیال ہے کہ ہمیں کشمیر وغیرہ کی طرف نہیں دیکھنا چاہیے بلکہ ہمیں بھارت کے ساتھ تجارت کی طرف دیکھنا چاہیے۔ بعض حلقوں کا اصرار ہے کہ میاں صاحب بھارت میں سرمایہ کاری کیے ہوئے ہیں، اگر ایسا نہ بھی ہو تو ایسی سرمایہ کاری میاں صاحب کا خواب ضرور ہے، اس لیے کہ وہ جتنے مال دار ہیں اُس سے کہیں زیادہ مال دار ہونا چاہتے ہیں۔
یہ حقیقت بھی راز نہیں کہ امریکا اور یورپ بھارت کو خطے کا بالادست ملک دیکھنا چاہتے ہیں، لیکن بھارت کی علاقائی بالادستی کی راہ میں صرف ایک ہی رکاوٹ حائل ہے، پاکستان۔ امریکا اور یورپ میاں نوازشریف کے ذریعے اس رکاوٹ کو ہٹانا چاہتے ہیں۔ ہماری تاریخ کا ایک المناک پہلو یہ ہے کہ ہم نے بنگالیوں کو غدار کہا، سندھیوں کو غدار کہا، بلوچوں کو غدار کہا، لیکن میاں صاحب کا تعلق پنجاب سے ہے اور پنجاب کا آدمی غدار کیسے ہوسکتا ہے؟ چناں چہ اندیشہ یہ ہے کہ بھارت کے ہاتھوں ملک کو بیچ بھی د یا گیا تو ملک کے سب سے اہم صوبے پنجاب میں کوئی ردِعمل نہیں ہوگا۔ امریکا، یورپ، بھارت اور خود میاں نوازشریف اپنی اس حیثیت کا مکمل ادراک رکھتے ہیں۔ اس تناظر میں دیکھیں تو میاں نوازشریف کا بھارت سے عشق پاکستان کے لیے ایک انتہائی خطرناک بات ہے۔ بعض حلقوں کا خیال ہے کہ جنرل راحیل شریف اپنے خاندان سمیت ہزاروں خاندانوں کے شہدا کے وارث تھے اس لیے وہ بھارت کے خلاف صف آراء تھے، لیکن ان کے رخصت ہوتے ہی میاں صاحب نے شعوری طور پر سول فوج گٹھ جوڑ کا تاثر اُبھارنا شروع کردیا ہے۔ سرتاج عزیز کا بھارت جانا بھی کم اہم نہیں۔ تو کیا کسی گٹھ جوڑ کے ذریعے پاکستان بھارت کے آگے ہتھیار ڈال سکتا ہے؟ جنرل باجوہ کو اس سوال کا جواب دینا چاہیے۔