انبیاء و مرسلین دنیا کے عظیم ترین انسان تھے۔ لیکن بعض انبیاء کو اپنی قوموں اور اپنے اصحاب سے اچھے تجربات میسر نہیں آئے۔ حضرت نوح ؑ ساڑھے نوسو سال تک تبلیغ کرتے رہے مگر ان کی قوم ٹس سے مس نہ ہوئی۔ چنانچہ حضرت نوح ؑ کی پوری قوم کو صفحۂ ہستی سے مٹادیا گیا۔ طوفانِ نوح آیا تو حضرت نوح ؑ کے ساتھ چالیس سے کم افراد تھے۔ بعض روایات کے مطابق حضرت نوح ؑ کی قوم کے بدقماش لوگ حضرت نوحؑ کو زدوکوب کرتے رہتے تھے، یہاں تک کہ انہیں بوری میں بند کرکے مارتے تھے۔ اس تشدد سے حضرت نوح ؑ اکثر بے ہوش ہوجاتے۔
حضرت موسیٰ ؑ کی قوم بہت سوال کرنے والی تھی۔ اس سلسلے میں قربانی کی گائے کا واقعہ قرآن مجید میں تفصیل کے ساتھ بیان ہوا ہے۔ حضرت موسیٰ ؑ کی قوم کبھی پوچھ رہی تھی کہ گائے بوڑھی ہو یا جوان ہو؟ اورکبھی سوال کررہی تھی کہ اس کا رنگ کیسا ہونا چاہیے؟ حضرت موسیٰ ؑ پہاڑ پر گئے اور مقررہ دن سے زیادہ پہاڑ پر رک گئے تو ان کی قوم نے بچھڑا ایجاد کرلیا اور اس کو پوجنے لگی۔ حالانکہ حضرت موسیٰ ؑ اپنے چھوٹے بھائی حضرت شعیب ؑ کو اپنی قوم کے پاس چھوڑ کر گئے تھے جو خود بھی پیغمبر تھے۔ ایک موقع پر جنگ کا مرحلہ آیا تو حضرت موسیٰ ؑ کی قوم کے لوگوں نے حضرت موسیٰ ؑ سے صاف کہہ دیا کہ ہم جنگ میں آپ کا ساتھ نہیں دیں گے، آپ کو لڑنا ہے تو آپ لڑیں اور آپ کا خدا لڑے۔ حضرت عیسیٰ ؑ پانچ اولوالعزم انبیاء میں سے ایک ہیں، لیکن آپ ؑ کے ایک حواری Judas یہودی نے ہی آپؑ کی مخبری کرکے آپؑ کو گرفتار کرایا اور صلیب تک پہنچایا۔ اسلام کی گواہی یہ ہے کہ حضرت عیسیٰ ؑ کو صلیب پر چڑھائے جانے سے قبل ہی اللہ تعالیٰ نے انہیں زندہ حالت میں آسمان پر اٹھا لیا، مگر حضرت عیسیٰ ؑ کے حواری نے انہیں قتل کرانے میں کوئی کسر نہ چھوڑی تھی۔
سیرتِ طیبہ کا تجربہ اس کے برعکس ہے۔ بلاشبہ اہلِ مکہ نے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو مکہ میں رہنے نہ دیا۔ اہلِِ مکہ نے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو شعبِ ابی طالب میں طویل عرصے تک محصور رکھا، یہاں تک کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے قتل کی سازش کی۔ لیکن رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو جو اصحاب فراہم ہوئے اُن جیسے لوگ نہ چشم فلک نے پہلے دیکھے تھے اور نہ بعد میں دیکھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اصحاب آپؐ پر فدا تھے۔ آپؐ ان کے سامنے تشریف فرما ہوتے تو وہ اتنے ادب سے گردن جھکا کر بیٹھ جاتے جیسے ان کے سروں پر پرندے بیٹھے ہوں اور ذرا سی جنبش سے ان کے اڑ جانے کا اندیشہ ہو۔ آپؐ وضو کرتے تو آپؐ کے اصحاب وضو کا پانی زمین پر نہ گرنے دیتے۔ اسے پی جاتے یا جسم پر مَل لیتے۔ آپؐ نے حضرت ابوبکرؓ کے ساتھ مدینہ ہجرت کی تو راستے میں حضرت ابوبکرؓ کبھی آپؐ کے دائیں ہوجاتے، کبھی بائیں۔ کبھی ابوبکرؓ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے آگے چلنے لگتے، کبھی پیچھے۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ دیکھا تو پوچھا کہ ابوبکر کیا بات ہے؟ آپؐ کے استفسار پر حضرت ابوبکرؓ نے فرمایا کہ مجھے آپؐ پر دائیں جانب سے حملے کا خوف ہوتا ہے تو میں دائیں جانب ہوجاتا ہوں، بائیں جانب سے حملے کا اندیشہ ہوتا ہے تو میں بائیں جانب آجاتا ہوں۔
یہ تو خیر اصحاب کا معاملہ ہے۔ عام مسلمان بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے حد درجہ عشق کرتے تھے۔ غزوۂ احد میں کفار اور مشرکین نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے شہید ہونے کی افواہ اڑا دی۔ افواہ مدینہ پہنچی تو پورا مدینہ بے تاب ہوگیا۔ ایک خاتون بے تاب ہوکر گھر سے باہر نکل آئیں۔ انہیں میدانِ کارزار سے لوٹنے والے ایک صاحب نے بتایا کہ تمہارا بھائی شہید ہوگیا ہے۔ ان خاتون نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کیسے ہیں؟ ایک اور شخص سے ان کو اطلاع ملی کہ ان کا بیٹا بھی جنگ میں کام آگیا ہے، انہوں نے کہا: یہ بتاؤ رسول اللہ کس حال میں ہیں؟ تھوڑی دیر بعد انہیں ایک اور صاحب نے مطلع کیا کہ آپ کے شوہر بھی شہید ہوگئے ہیں تو انہوں نے سوال کیا کہ رسول اللہ کا کیا حال ہے؟ انہیں بتایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم خیریت سے ہیں۔ یہ سن کر ان خاتون نے کہا کہ پھر مجھے کسی بات کا غم نہیں۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا وصال ہوا تو شدتِ محبت اور شدتِ غم کے باعث حضرت عمرؓ کہنے لگے کہ اگر کسی شخص نے یہ کہا کہ رسول اللہ کا انتقال ہوگیا ہے تو میں اپنی تلوار سے اُس کا سر اڑا دوں گا۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے وصال پر ایک عام عورت کا تبصرہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی عظمت کے اظہار کا مظہر تھا۔ اس عورت نے کہا کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم بشر تھے اور انہیں بھی ایک دن دنیا سے رخصت ہونا تھا، مگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے رخصت ہونے سے آسمان اور زمین کے درمیان رابطہ ہمیشہ ہمیشہ کے لیے منقطع ہوگیا ہے۔ یعنی اب زمین پر کبھی وحی کا نزول نہ ہوگا۔
سیرتِ طیبہؐ کا یہ واقعہ بھی مشہور ہے کہ حضرت ابوبکرؓ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے چہرۂ انور کی جانب دیکھا اور فرمایاکہ میں نے اتنا خوبصورت چہرہ کبھی نہیں دیکھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم نے ٹھیک کہا۔ تھوڑی دیر بعد وہاں سے ابوجہل کا گزر ہوا، اُس نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے چہرۂ مبارک کی طرف دیکھا اور منفی بات کہی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم نے درست کہا۔ صحابۂ کرام نے کہا کہ یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم آپ نے دو مختلف باتوں کے جواب میں ایک ہی بات کہی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کہا کہ میں ایک آئینہ ہوں، میرے اندر سب کو اپنا عکس نظر آتا ہے۔ اور یہ بات بالکل درست ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذاتِ اقدس انسانوں کی تعریف متعین کرنے والی یا ان کے اصل کو Define کرنے والی ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں جو انسان آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے رابطے میں آئے اُن کی پانچ اقسام تھیں۔ پہلی قسم اُن لوگوں کی تھی جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے قریب تھے، جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اچھی طرح جانتے تھے، جن کو معلوم تھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کبھی جھوٹ نہیں بولتے۔ یہ وہ لوگ تھے کہ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نبوت کا دعویٰ کیا تو ان لوگوں نے کسی سوال یا تردد کے بغیر آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لانے کا اعلان کیا۔ ان لوگوں میں حضرت ابوبکرؓ ، حضرت علیؓ اور حضرت خدیجہؓ شامل تھیں۔ کچھ لوگ ایسے تھے جن کی آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے براہِ راست میل ملاقات نہ تھی۔ ان کے لیے قرآن مجید یا اللہ کا کلام تھا۔ چنانچہ انہوں نے جیسے ہی قرآن مجید سنا اُن کے دل کی دنیا بدل گئی۔ اُن کے دل نے گواہی دی کہ یہ کسی انسان کا کلام نہیں۔ اس کی سب سے بڑی مثال عمر فاروقؓ ہیں جو رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے قتل کے ارادے سے نکلے تھے مگر قرآن کا تھوڑا سا حصہ سن کر ہی انہیں معلوم ہوگیا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے نبی ہیں۔ کچھ لوگ ایسے تھے جنہوں نے ایمان لانے کے لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے معجزہ طلب کیا۔ ان لوگوں کی دو اقسام تھیں۔ ایک وہ جنہوں نے معجزہ طلب کیا، معجزہ دیکھا اور ایمان لے آئے۔ دوسرے وہ جنہوں نے معجزہ دیکھا اور کہا کہ یہ تو جادو ہے، اور وہ ایمان نہیں لائے۔ لیکن کچھ لوگوں نے معجزے کو جادو کیوں کہا؟ اس کی وجہ یہ تھی کہ اُن کی روحانی اور نفسیاتی استعداد اتنی ہی تھی، وہ جادو کو پہچان سکتے تھے مگر معجزے کو نہیں پہچان سکتے تھے۔ انسانوں کی پانچویں قسم اُن لوگوں پر مشتمل تھی جو فتح مکہ کے بعد ایمان لائے۔ یہ وہ لوگ تھے جو سیاسی بالادستی یا طاقت کے غلبے کو اہم سمجھتے تھے۔ چنانچہ جب اسلام کو سیاسی غلبہ یا طاقت حاصل ہوگئی تو ان لوگوں کو معلوم ہوگیا کہ اب جزیرہ نمائے عرب میں اسلام ہی کا سکہ چلے گا۔ اس طرح کے لوگوں کی سب سے بڑی مثال ابوسفیان ہیں۔ اہم بات یہ ہے کہ انسانوں کی یہ اقسام صرف رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانۂ مبارک تک محدود نہ تھیں۔ انسانوں کی یہ اقسام رہتی دنیا تک اسی طرح نمودار ہوتی رہیں گی جس طرح رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے عہدِ مبارک میں نمودار ہوئی تھیں۔ فرق یہ ہوگا کہ اب دنیا میں رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم موجود نہیں، چنانچہ اب جو لوگ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے متاثر ہوں گے وہ دراصل آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرتِ طیبہ کو دیکھیں گے۔ اسی طرح معجزے کا پہلو اب اسلام کی اُن جہات سے متعلق ہوگا جو دنیا میں موجود فکر کے دوسرے دھاروں سے زیادہ متاثر کن ہوں گی۔
غور کیا جائے تو سیرتِ طیبہ کے ساتھ ہمارے تعلق کی تین بنیادی جہتیں ہیں۔ ایک یہ کہ ہمیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے انتہائی درجے کی عقیدت ہو۔ دوسرے یہ کہ اپنی انفرادی اور اجتماعی زندگی میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ذکر کو زندہ رکھیں۔ تیسرے یہ کہ ہمیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے انتہائی درجے کی محبت ہو۔ عصرِ حاضر میں ان جہتوں کا معاملہ یہ ہے کہ مسلمانوں کی عظیم اکثریت کو رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے انتہائی درجے کی عقیدت ہے۔ عقیدت کا تقاضا جاں نثاری ہوتا ہے۔ آپ جس سے عقیدت رکھتے ہیں اس پہ اپنی جان نثار کردیتے ہیں۔ خدا کا شکر ہے کہ مسلمانوں کی عظیم اکثریت کے سامنے اگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف کوئی ایک کلمہ بھی کہہ دے تو مسلمان اپنی جان دے بھی سکتا ہے اور ایسا کلمہ کہنے والی کی جان لے بھی سکتا ہے۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ذکر کا حال یہ ہے کہ مسلم معاشروں میں درود و سلام، نعتیہ محفلوں اور میلاد کا سلسلہ عام ہے۔ لیکن اس سلسلے میں مسئلہ یہ ہے کہ اکثر مسلمان ان محفلوں کے انعقاد کو کافی سمجھتے ہیں اور ان کا جذبہ مزید آگے بڑھ کر سیرتِ طیبہؐ کے سانچے میں نہیں ڈھلتا۔ سیرتِ طیبہؐ سے ہمارے تعلق کی سب سے اہم ضرورت یہ ہے کہ ہمیں رسول اللہ سے انتہائی درجے کی محبت ہو۔ محبت کا تقاضا اتباع اور پیروی ہوتی ہے۔ انسان جس شخص سے محبت کرتا ہے اس کے جیسا بن جانا چاہتا ہے۔ ہم رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت کا دعویٰ تو کرتے ہیں، مگر ہمارے فکر و عمل میں رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت کی جھلک کم ہی دیکھنے میں آتی ہے۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے ہماری محبت کا دعویٰ محض دعویٰ ہی ہے، اور محض دعوے سے نہ انفرادی زندگی میں انقلاب برپا ہوتا ہے نہ اجتماعی زندگی انقلاب سے ہمکنار ہوتی ہے۔ اقبال نے جوابِ شکوہ میں خدا کی زبان سے کہلوایا ہے:
کی محمدؐ سے وفا تُونے تو ہم تیرے ہیں
یہ جہاں چیز ہے کیا لوح و قلم تیرے ہیں
ہمیں یاد رکھنا چاہیے کہ یہاں ’محمدؐ سے وفا‘ کا مفہوم رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے اتباع کے سوا کچھ نہیں۔