سقوطِ ڈھاکا امتِ مسلمہ کی تاریخ کا عظیم ترین سانحہ ہے۔ اس سانحے کے نتیجے میں ایک اسلامی ریاست ٹوٹ کر دوٹکڑے ہوگئی۔ ایک اسلامی فوج کے 90 ہزار فوجیوں نے دشمن کی فوج کے سامنے ہتھیار ڈالے۔ دشمن کی وزیراعظم اندرا گاندھی نے دو قومی نظریے کو خلیجِ بنگال میں غرق کرنے اور ایک ہزار سال کی تاریخ کا بدلہ لینے کا اعلان کیا۔ اور شاعر کے بقول
حادثے سے بڑا سانحہ یہ ہوا
لوگ ٹھہرے نہیں حادثہ دیکھ کر
یعنی پاکستانی قوم کو اب تک یہ معلوم نہیں کہ پاکستان کیوں ٹوٹا؟ اس سلسلے میں معروف بات یہ ہے کہ پاکستان شیخ مجیب، جنرل یحییٰ خان، بھٹو اور اندراگاندھی نے توڑا۔ بلاشبہ سقوطِ ڈھاکا کے سلسلے میں ان لوگوں کا کردار اہم ہے۔ لیکن اس سلسلے میں ایک عمومی بات کرنا سقوطِ ڈھاکا کے اوپر مٹی ڈالنے کے مترادف ہے۔ انسانی نفسیات کا مطالعہ بتاتا ہے کہ جب تک انسان اپنے ساتھ رونما ہونے والے حادثوں اور سانحوں کو شعور میں نہیں لاتا اُس وقت تک نہ سانحات کی تفہیم ممکن ہوتی ہے اور نہ ان کے خوف سے نجات ملتی ہے۔ چونکہ ہم نے سقوطِ ڈھاکا کے سانحے کو اپنے اجتماعی شعور میں جذب نہیں کیا ہے، اس لیے یہ سانحہ ایک بھوت بن کر ہمارے تعاقب میں ہے۔ چنانچہ 1980ء کی دہائی میں اندرونِ سندھ ایم آر ڈی کی تحریک چل رہی تھی تو ہمارے قومی رہنما کہہ رہے تھے کہ اندرونِ سندھ مشرقی پاکستان جیسی صورت حال پیدا ہوگئی ہے۔ 1990ء کی دہائی میں کراچی بدامنی کی لپیٹ میں تھا تو لوگ کہہ رہے تھے کہ خاکم بدہن کراچی پاکستان سے الگ ہونے والا ہے۔ بلوچستان میں حالات خراب ہوئے تو ایک بار پھر لوگوں کو مشرقی پاکستان یاد آگیا اور لوگ کہنے لگے کہ بلوچستان میں مشرقی پاکستان جیسی صورت حال پیدا ہوگئی ہے۔ ہم نے سقوطِ ڈھاکا کو اچھی طرح کھنگال لیا ہوتا اور اس کے ذمے داروں کا تعین کرلیا گیا ہوتا تو سقوطِ ڈھاکا ایک بھوت بن کر ہماری اجتماعی نفسیات پر سوار نہ ہوتا۔ لیکن یہاں سوال یہ ہے کہ پاکستان کیوں ٹوٹا؟ اس سلسلے میں چند نئے حقائق ہماری توجہ کے مستحق ہیں۔
امریکہ کے سابق وزیر خارجہ ہنری کسنجر آج سے کئی سال پہلے بھارت میں تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہہ چکے ہیں کہ مشرقی پاکستان کی علیحدگی کے سارے کرداروں کو معلوم تھا کہ کیا ہورہا ہے اور انہیں کس طرح کا طرزعمل اختیار کرنا ہے۔ اس سلسلے میں اُن کا ایک انٹرویو حال ہی میں سامنے آیا ہے۔ روزنامہ جنگ کراچی کی ایک خبرکے مطابق ہنری کسنجر نے ’’دی اٹلانٹک‘‘ کو دیے گئے ایک انٹرویو میں انکشاف کیا کہ نومبر 1971ء میں اُس وقت کے پاکستانی صدر اور پاک فوج کے سربراہ جنرل یحییٰ خان نے امریکی صدر رچرڈ نکسن سے کہہ دیا تھا کہ ان کا ملک مشرقی پاکستان کو آزاد کردے گا۔ خبر کے مطابق یہ ایک حیرت انگیز انکشاف ہے، کیونکہ اُس وقت تک بھارت نے مشرقی پاکستان پر حملہ بھی نہیں کیا تھا۔ خبر کے مطابق ہنری کسنجر نے انٹرویو میں کہا کہ پاکستان کے ذریعے چین کے ساتھ تعلقات کے بعد امریکہ نے پاکستان پر زور دینا شروع کردیا تھا کہ وہ مشرقی پاکستان کو آزاد کردے۔ نومبر (1971ء) میں پاکستان کے صدر نے نکسن سے اس بات پر اتفاق کرلیا کہ آنے والے مارچ یعنی مارچ 1972ء میں بنگلہ دیش کو آزادی دے دی جائے گی۔ (روزنامہ جنگ کراچی۔ 24نومبر 2016ء)
ہنری کسنجر کے اس ’’انکشاف‘‘ پر پاکستان کے دو کالم نویسوں نے تبصرہ کیا ہے۔ پاکستان کے معروف مؤرخ ڈاکٹر صفدر محمود نے اپنے کالم میں کہا کہ ہنری کسنجر اپنے دعوے کا ثبوت پیش کریں ورنہ ایسے دعوے کی کوئی حیثیت نہیں۔ حامد میر نے اپنے کالم میں ایسی ہی بات کہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہنری کسنجر ثبوت لائیں ورنہ ان کے انٹرویو کو ایک چال سمجھا جائے گا۔ امریکی سیاست دانوں اور سفارت کاروں کا ذہن سازشی ہوتا ہے اور امتِ مسلمہ بالخصوص پاکستان سے انہیں بیر ہے، لیکن ہنری کسنجر نے یہ بات اگر 1970ء کی دہائی میں کہی ہوتی تو اس سے امریکہ کا فائدہ اور پاکستان کا نقصان وابستہ کیا جاسکتا تھا۔ لیکن مشرقی پاکستان کو الگ ہوئے 45 سال ہوچکے ہیں، چنانچہ ہنری کسنجر کو اتنے عرصے بعد جھوٹ بولنے کی بظاہر کوئی ضرورت محسوس نہیں ہوسکتی۔ اس تناظر میں یہاں سوال یہ ہے کہ ہنری کسنجر کے انکشاف کی کیا اہمیت ہے؟
بدقسمتی سے ہنری کسنجر نے جو بات کہی ہے ویسی ہی باتیں ہماری قومی زندگی کے صفحات پر بھی موجود ہیں۔ شاہد کامرانی پاکستان کے ایک معروف افسانہ نگار اور صحافی تھے۔ وہ طویل عرصے تک پاکستان ٹیلی ویژن کے شعبۂ خبر سے وابستہ رہے۔ شاہد کامرانی اُن لوگوں میں شامل تھے جنہوں نے قیام پاکستان کے بعد بھارت کے صوبے بہار سے مشرقی پاکستان اور پھر 1971ء میں مشرقی پاکستان سے مغربی پاکستان کی جانب ہجرت کی۔ انہوں نے ایک کتاب تحریر کی ہے ’’سندھ کا سیاسی منظرنامہ‘‘۔ اس کتاب میں انہوں نے ملک کے معروف صحافی مجیب الرحمن شامی کے ساتھ 1970ء میں ہونے والی ایک ملاقات کا احوال لکھا ہے۔ اس ملاقات میں کیا باتیں ہوئیں، شاہد کامرانی کی زبانی ملاحظہ کیجیے۔ کامرانی صاحب نے لکھا:
’’ڈھاکا میں ایک دن صبح پیغام ملا کہ ’’زندگی‘‘ والے مجیب الرحمن شامی ملنا چاہتے ہیں۔ پریس کلب میں ڈھونڈنے آئے تھے۔ دوسرے دن میں اُن کے پاس پوربانی ہوٹل پہنچا۔ اُس وقت گیارہ بجے تھے اور اُن کے ساتھ احسن اللہ انجینئرنگ کالج کے ایک طالب علم جن کا تعلق جمعیت سے تھا، بیٹھے باتیں کررہے تھے۔ شامی صاحب بہت تپاک سے ملے۔ تحریری طور پر ان سے میرا تعارف اُس وقت سے تھا جب 1969ء میں انہوں نے ’’قوم‘‘ میں شائع ہونے والی رنگپور سے متعلق میری رپورتاژ ’’زندگی میں لوگ ملتے گئے کارواں بنتا گیا‘‘ کے عنوان سے شائع کی تھی۔ بہرحال گفتگو شروع ہوئی تو انہوں نے چھوٹتے ہی مجھے مشورہ دیا:
’’بھائی آپ اپنے قلم کو شیخ مجیب کے لیے استعمال کیجیے۔ ان کی پالیسی کی حمایت کیجیے، کیونکہ اسی طرح آپ لوگوں کا بھلا ہوگا۔‘‘
میں نے سوال کیا ’’کیسا بھلا؟ کیا کہنا چاہتے ہیں آپ؟‘‘
’’میں کہنا چاہتا ہوں‘‘ شامی نے کہا کہ ’’ہم نے (پاکستان کے) اس بازو کو الگ کرنے کے لیے کام شروع کردیا ہے۔ ہم بنگال کی مستقل غلامی میں نہ رہنے کا فیصلہ کرچکے ہیں۔ ہم اسے مغربی پاکستان سے الگ کردیں گے۔ اس لیے آپ کا بھلا اسی میں ہے کہ آپ بنگالیوں کا ساتھ دیں۔‘‘
میں نے عرض کیا ’’ہم ان کے مفادات کے خلاف تو نہیں، لیکن پاکستان ٹوٹنے کی کارروائی میں یقیناًفریق نہیں بنیں گے۔‘‘
’’پھر آپ کا نقصان ہوگا۔ بڑا خون بہے گا‘‘۔ جواب آیا۔
(’’سندھ کا سیاسی منظرنامہ‘‘۔ از شاہد کامرانی۔ صفحہ47)
شاہد کامرانی کی اس کتاب میں ایک اورچونکا دینے والی گواہی موجود ہے۔ شاہد کامرانی لکھتے ہیں:
’’مشرقی پاکستان کی علیحدگی 16 دسمبر1971ء کو عمل میں آئی، لیکن 27 اکتوبر 1971ء کو صبح آٹھ بجے ڈھاکا کے ہوائی اڈے پر مجھے انٹرسروسز پبلک ریلیشنز کے ایک کپتان صاحب نے جو مشرقی پاکستان سے روانگی کے لیے پی آئی اے کی اسی پرواز میں سوار ہورہے تھے جس میں، مَیں تھا، طیارے کی سیڑھیاں چڑھتے چڑھتے مجھ سے کہا:
’’اچھا ہوا تم کراچی جارہے ہو، ورنہ دسمبر میں لنگوٹیاں چھوڑ کر یہاں سے ویسے ہی جانا پڑتا۔‘‘ (’’سندھ کا سیاسی منظرنامہ‘‘۔ از شاہد کامرانی، صفحہ 48 )
تجزیہ کیا جائے تو جو بات ہنری کسنجر نے کہی ہے وہی بات سقوطِ ڈھاکا سے بہت پہلے مجیب الرحمن شامی کہہ رہے تھے اور وہی بات سقوطِ ڈھاکا سے صرف ایک ماہ قبل فوج کا ایک کپتان کہہ رہا تھا۔ مجیب الرحمن شامی ملک کے اہم صحافی ہیں مگر 1970ء کی دہائی میں وہ اتنے اہم نہیں تھے جتنے اہم آج ہیں، مگر اس کے باوجود پاکستان کے مستقبل سے متعلق اہم ترین خبر اُن کے پاس تھی اور اس خبر میں انہوں نے شاہد کامرانی کو بھی شریک کیا۔ یہی خبر فوج کے ایک کپتان کو بھی فراہم تھی اور اس نے سقوط ڈھاکا سے ایک ماہ قبل یہی بات شاہد کامرانی صاحب کو بتائی۔ سوال یہ ہے کہ کیا یہ اتفاقات ہیں؟ لیکن اس سلسلے میں ایک اور شہادت کا ذکر ضروری ہے۔
بریگیڈیئر اے آر صدیقی ہماری قومی تاریخ کا ایک اہم کردار ہیں۔ وہ 1971ء کے پُرآشوب دور میں متحدہ پاکستان کی آئی ایس پی آر کے ڈائریکٹر جنرل تھے۔ 23نومبر 2005ء کو جیو نیوز سے ان کا ایک انٹرویو نشر ہوا۔ اس انٹرویو میں صدیقی صاحب نے کیا فرمایا، ملاحظہ کیجیے:
’’سوال: آپ نے کہا انٹیلی جنس بیورو کے چیف مسٹر رضوی کے کہنے پر یحییٰ خان مولانا بھاشانی کو انتخابات کے دوران ڈھائی کروڑ روپے دینے پر راضی ہوگئے تھے، مگر بعد میں وہ ڈھائی کروڑ روپے مولانا بھاشانی کو نہیں دیے۔ مولانا بھاشانی نے غصے میں آکر انتخابات کا بائیکاٹ کردیا جس کا سارا فائدہ مجیب الرحمن کو ہوا۔ کیونکہ مولانا بھاشانی نے فوج سے وعدہ کیا تھا کہ وہ انتخابات لڑیں گے دیہاتوں میں، اور مجیب الرحمن کے ووٹوں کو توڑیں گے، یہ کیا معاملہ تھا؟
اے آر صدیقی: ہاں یہ بالکل ہوا۔ بھاشانی صاحب سے بات ہوئی ہے۔ ان کا اب کوئی تحریری ثبوت تو میرے پاس نہیں ہے، مگر میری رائے ہے یہ۔
سوال: یہ آپ کو کس نے بتایا تھا؟
اے آر صدیقی: مجھے خود ایوب خان نے بتایا، اور لوگوں نے بتایا۔ ڈھائی کروڑ پہ بات ہوئی تھی۔ دیکھیں ہوا یہ تھا کہ اُس وقت صورت حال یہ تھی کہ Rural جو مشرقی پاکستان تھا اس پر بڑی حد تک بھاشانی صاحب کا غلبہ تھا، اور Urban جو ایسٹ پاکستان تھا اس پر مجیب الرحمن تھے۔ اگر بھاشانی صاحب الیکشن کا بائیکاٹ نہ کرتے تو وہ صورت حال پیدا نہ ہوتی جو یحییٰ خان اور بھاشانی کے درمیان مفاہمت ہوئی تھی، ایگریمنٹ ہوا تھا۔
سوال: ڈھائی کروڑ روپے کیوں نہیں دیے ان کو؟
اے آر صدیقی: بس وہ نہیں دیے حماقت یا حماقت پہ حماقت۔ شاید ان کے دل میں یہ ہو کہ وہ فیصلہ کرچکے تھے کہ مشرقی پاکستان کو الگ کرنا ہے۔‘‘ (اقتباس ختم ہوا)
غور کیجیے، ہنری کسنجر کہہ رہے ہیں کہ مشرقی پاکستان کو الگ کرنے کا فیصلہ ہوچکا تھا۔ مجیب الرحمن شامی صاحب نے نہ صرف یہ کہ مشرقی پاکستان کی علیحدگی کی بات شاہد کامرانی کو بتائی بلکہ اس کا سبب بھی بتایا۔ مشرقی پاکستان کی علیحدگی کی بات آئی ایس پی آر کے ایک کپتان کو بھی قبل از وقت معلوم تھی اور آئی ایس پی آر کے اُس وقت کے ڈائریکٹر اے آر صدیقی کا بھی کہنا ہے کہ ’’وہ‘‘ مشرقی پاکستان کو الگ کرنے کا فیصلہ کرچکے تھے۔
شاہد کامرانی نے مجیب الرحمن شامی سے جو بیان منسوب کیا ہے اس سے معلوم ہوتا ہے کہ مغربی پاکستان کے حکمران طبقے نے مشرقی پاکستان کی اکثریت سے نجات حاصل کرنے کے لیے مشرقی پاکستان کو الگ کیا۔ بدقسمتی سے اس سلسلے میں بھی بڑی بڑی شہادتیں موجود ہیں کہ مغربی پاکستان کا حکمران طبقہ بنگالیوں کی اکثریت سے ہمیشہ خائف رہا، چنانچہ اس نے Parity یا مساوات کا اصول ’’ایجاد‘‘ کیا۔ مغربی پاکستان کے حکمران طبقے کو معلوم تھا کہ بنگالیوں کی آبادی پاکستان کی مجموعی آبادی کا 54فیصد ہے، چنانچہ قومی وسائل تقسیم ہوں گے تو بنگالیوں کو 100روپے میں سے 54 روپے ملیں گے۔ 100 روپے میں 54 روپے بنگالیوں کا جائز حق تھے مگر مغربی پاکستان کے حکمرانوں کو اچانک اسلام یاد آگیا اور انہوں نے کہا کہ اسلام مساوات، برابری اور Parityکا درس دیتا ہے۔ چنانچہ مشرقی پاکستان کے لوگ تسلیم کریں کہ انہیں 100 روپے میں سے 54 کے بجائے 50 روپے ملیں گے اور باقی 50 روپے 46 فیصد مغربی پاکستان کے حصے میں آئیں گے۔ یہ مشرقی پاکستان کے ساتھ ظلم تھا۔ یہ مشرقی پاکستان کی اکثریت کا انکار تھا اور اس سے نجات کی ایک صورت تھی۔ مگر مشرقی پاکستان کے لوگوں نے قومی اتحاد کے لیے یہ قربانی دینے میں کوئی عار محسوس نہیں کی۔ لیکن یہ تو بنگالیوں کی اکثریت سے انکار کی ابتدا تھی۔ دوسرے مرحلے میں مغربی پاکستان کے حکمران طبقے نے ’’ون یونٹ‘‘ ایجاد کرلیا۔ ون یونٹ کا مطلب پاکستان کی صوبائی وحدتوں کا انکار تھا۔ لیکن ون یونٹ سے پنجاب، سندھ، سرحد اور بلوچستان کو کوئی نقصان نہیں ہورہا تھا، اصل نقصان مشرقی پاکستان کا تھا۔ مشرقی پاکستان اکثریت میں تھا۔ وسائل اور روزگار میں اس کا حصہ 54 فیصد تھا، لیکن ون یونٹ بنگالیوں کی اکثریت کو ہڑپ کرگیا۔ لیکن یہ معاملہ یہیں تک محدود نہیں۔ پاکستان وجود میں آیا تو پوری دنیا میں ایک آدمی ایک ووٹ کا اصول رائج تھا، مگر انتخابات ہوتے تو پہلے ہی مرحلے میں اقتدار بنگالیوں کے ہاتھ آجاتا، چنانچہ 1947ء سے 1970ء تک one man, one vote کی بنیاد پر انتخابات کی نوبت ہی نہ آئی۔ 1970ء میں نوبت آئی تو شیخ مجیب الرحمن کی اکثریت کو نہ پاکستان کی فوجی اسٹیبلشمنٹ نے تسلیم کیا، نہ مغربی پاکستان کی اکثریتی سیاسی جماعت کے سربراہ ذوالفقار علی بھٹو نے اسے مان کر دیا۔ یہاں تک کہ انہوں نے اِدھر ہم اُدھر تم کا نعرہ لگادیا۔ (باقی صفحہ 41پر)
کوئی واقعہ ہوتا ہے تو سوال اٹھایا جاتا ہے کہ اس کا فائدہ کس کو ہوا؟ مشرقی پاکستان کی علیحدگی کے حوالے سے بھی یہ سوال اٹھایا جانا چاہیے کہ اس کی علیحدگی کا فائدہ کس کو ہوا؟ اس سوال کا جواب یہ ہے کہ مشرقی پاکستان کے الگ ہوتے ہی پاکستان بنگال کے بجائے پنجاب کی اکثریت کا ملک ہوگیا۔ لیکن اس سلسلے میں صرف پنجاب کی نشاندہی انصاف نہیں۔ پنجاب کے دو تزویراتی اتحادی بھی تھے، یعنی مہاجر اور پٹھان۔ مشرقی پاکستان کی علیحدگی نے ان تینوں پر طاقت، مرتبوں، مناصب اور مالی وسائل کے درکھول دیے۔ لیکن اس عمل میں دو قومی نظریے پر آسمان ٹوٹ کر گرگیا۔ اقبال اور قائداعظم کا خواب دوٹکڑے ہوگیا۔ دنیا کی سب سے بڑی اسلامی مملکت دولخت ہوگئی۔ کروڑوں مسلمانوں کے دل ٹکڑے ٹکڑے ہوگئے۔ اور سقوط ڈھاکا مسلمانوں کی تاریخ کی ایک تلخ ترین یاد بن کر رہ گیا۔