131اکستان میں ہر پارٹی اسٹیبلشمنٹ کی پارٹی ہے۔ ذوالفقار علی بھٹو پاکستان کے سب سے بڑے ’’جمہوریت پسند‘‘ تھے۔ مگر ان کی تربیت بھی جرنیلوں نے کی تھی۔ وہ جنرل ایوب کی کابینہ کا حصہ تھے اور جنرل ایوب کو فخر کے ساتھ ’’ڈیڈی‘‘ کہا کرتے تھے۔ میاں نواز شریف آج خود کو جمہوریت سے بنا ہوا ثابت کرنے پر تلے ہوئے ہیں۔ مگر ان کی سیاسی پیدائش جنرل ضیاء الحق اور جنرل جیلانی کی مرہون منت ہے۔ جنرل ضیاء الحق اور جنرل جیلانی نہ ہوتے تو میاں نواز شریف پنجاب کے وزیراعلیٰ کیا لاہور سے کونسلر بھی منتخب نہیں ہوسکتے تھے۔ ایم کیو ایم کا معاملہ بھی بھٹو صاحب اور نواز شریف سے مختلف نہیں۔
بلاشبہ الطاف حسین جنرل ضیاء الحق کی آمد سے پہلے بھی مہاجروں کی سیاست کررہے تھے لیکن اس سیاست کا کوئی مستقبل نہ تھا۔ لیکن جنرل ضیاء الحق کے سیاسی مفادات نے ایم کیو ایم کی تخلیق اور اس کی مقبولیت میں اہم کردار ادا کیا۔ بعض لوگ اس بات کو افسانہ سمجھتے ہیں کہ ایم کیو ایم کی تخلیق جنرل ضیاء الحق کے زیر سایہ ہوئی۔ حالاں کہ آئی ایس آئی کے سابق سربراہ جنرل حمید گل ٹیلی ویژن کے ایک پروگرام میں ایم کیو ایم کی تخلیق کی ذمے داری قبول کرچکے ہیں۔ یہ حقیقت راز نہیں کہ ایم کیو ایم کی مقبولیت میں کراچی میں ہونے والے مہاجر پٹھان فسادات نے مرکزی کردار ادا کیا۔ یہ فسادات اس اعتبار سے ناقابل فہم تھے کہ شہری سندھ میں مہاجروں اور پٹھانوں کے مفادات کے ٹکراؤ کی کوئی صورت موجود نہ تھی۔ پٹھان کراچی میں ٹرانسپورٹ کے کاروبار پر چھائے ہوئے تھے اور اس شعبے میں مہاجروں کی سرمایہ کاری نہ ہونے کے برابر تھی۔ پٹھان کراچی میں محنت مزدوری کررہے تھے اور اس دائرے میں بھی مہاجروں کو پٹھانوں کے ساتھ مقابلہ درپیش نہیں تھا۔ لیکن پٹھان مہاجر فسادات نے ایم کیو ایم کو راتوں رات مہاجروں کا ’’محافظ‘‘ اور ان کے مفادات کی علامت بنادیا۔
ایم کیو ایم اگر صرف سیاسی قوت ہوتی تو کوئی مسئلہ نہیں تھا لیکن ایم کیو ایم میں پہلے دن سے دہشت گردی اور بھتا خوری کے عناصر موجود تھے۔ چناں چہ اس نے کراچی کو سیاسی طور پر فتح کرنے سے زیادہ کراچی کو اغواء کے تجربے سے دوچار کردیا۔ کراچی کا یہ اغواء اسٹیبلشمنٹ کی سرپرستی کے بغیر ممکن نہیں تھا۔ شہر میں ایم کیو ایم کی طاقت کو اسٹیبلشمنٹ نے اس حد تک بڑھا دیا کہ نواز لیگ کے وفاقی وزیر جنرل عبدالقادر بلوچ نے ایک ٹیلی ویژن پروگرام میں انکشاف کیا کہ جب وہ کراچی میں رینجرز کے سربراہ کی حیثیت سے نائن زیرو جایا کرتے تھے تو ایم کیو ایم کے کارکنان ان کی بھی تلاشی لیا کرتے تھے۔ یہ ایم کیو ایم کو سر پر بٹھانے کی انتہا تھی اور اس میں ایم کیو ایم کے لیے پیغام تھا کہ اسے شہر میں کسی کے ساتھ کچھ بھی کرنے کی اجازت ہے۔
الطاف حسین اور ایم کیو ایم کی سیاست نے کراچی میں پچیس سال کے دوران پندرہ سے بیس ہزار لاشیں گرائیں۔ اربوں روپے کا بھتا وصول کیا، سیکڑوں پُرتشدد ہڑتالیں کرائیں، لیکن اس کے باوجود ایم کیو ایم اسٹیبلشمنٹ کے سائے سے محروم نہ ہوئی۔
ایم کیو ایم اور اسٹیبلشمنٹ کے باہمی تعلقات میں پہلی دراڑ میجر کلیم کے اغواء اور ان پر تشدد کی وجہ سے پیدا ہوئی۔ یہ پہلا موقع تھا جب اسٹیبلشمنٹ کو محسوس ہوا کہ ہماری بلی ہمیں ہی میاؤں کررہی ہے۔ چناں شہر میں ایم کیو ایم کے خلاف دو آپریشنز کی نوبت آئی مگر آپریشنز کی نوعیت ایسی تھی کہ ان سے ایم کیو ایم کو نقصان کے بجائے اُلٹا فائدہ ہوا۔ مثال کے طور پر پہلے فوجی آپریشن میں بریگیڈیئر ہارون نے الزام لگایا کہ نائن زیرو سے جناح پور کا نقشہ برآمد ہوا ہے۔ اگلے ہی دن اعلیٰ ترین سطح سے نہ صرف یہ کہ اس بیان کی تردید کردی گئی بلکہ بریگیڈیئر ہارون کا بھی تبادلہ کردیا گیا۔ اس سے ایم کیو ایم کو یہ کہنے کا موقع فراہم ہوا کہ ان کے خلاف تعصب کی بنیاد پر آپریشن ہوا ہے اور اس کے خلاف بے بنیاد الزامات لگائے جارہے ہیں۔ اس واقعے نے فوجی آپریشن کے تاثر کو مجروح کرکے رکھ دیا۔
ایم کیو ایم اور اسٹیبلشمنٹ کے تعلقات کا ایک پہلو یہ ہے کہ اسٹیبلشمنٹ کو الطاف حسین سے اصل شکایت یہ نہیں ہے کہ انہوں نے ہزاروں لوگوں کو کیوں قتل کرایا؟ شہر میں بھتا خوری کا کلچر کیوں پیدا کیا؟ بوری بند لاشوں کی وبا کو کیوں عام کیا؟ ڈاکے اور رہزنی کو کیوں فروغ دیا؟۔ اسٹیبلشمنٹ کی اصل شکایت یہ ہے کہ الطاف حسین اس کی گود چھوڑ کر ایم آئی سکس اور ’’را‘‘ کی گود میں کیوں جا بیٹھے؟ الطاف حسین اسٹیبلشمنٹ کی گود میں بیٹھے رہتے اور کراچی میں قتل و غارت گری کا بازار گرم رہتا تو اسٹیبلشمنٹ کو الطاف حسین پر کوئی اعتراض نہ ہوتا۔
لوگ کہہ رہے ہیں کہ الطاف حسین کی حالیہ ملک دشمن تقریر کے بعد سب کچھ بدل چکا ہے، لیکن اس ’’بدلے ہوئے منظر‘‘ میں بہت کچھ پہلے جیسا ہے۔ مثال کے طور پر اس وقت صورت حال یہ ہے کہ اسٹیبلشمنٹ نے الطاف حسین اور ایم کیو ایم کو الگ کردیا ہے۔ حالاں کہ ایم کیو ایم کا ایک ایک رہنما، ایک ایک سیکٹر انچارج، ایک ایک یونٹ کا نگراں اور ایک ایک متحرک کارکن الطاف حسین کے جرم میں برابر کا شریک ہے۔ چناں چہ الطاف حسین اور ایم کیو ایم کی ’’دوئی‘‘ تخلیق کرنے کا کوئی جواز ہی نہیں۔ اگر ڈاکٹر فاروق ستار، مصطفی کمال، وسیم اختر اور انیس قائم خانی بھی ’’معصومین‘‘ میں شامل ہیں تو پھر پاکستان میں کوئی شخص جرائم پیشہ نہیں۔ اگر اسٹیبلشمنٹ ان لوگوں کو ’’اصلاح‘‘ کا موقع فراہم کررہی ہے تو اسلامی جمہوریہ پاکستان کی تمام جیلوں میں قید مجرموں کو بھی ’’اصلاح‘‘ کا موقع ملنا چاہیے۔
یہ منظر کسی تماشے سے کم نہیں کہ ایم کیو ایم کے رہنما وسیم اختر پر دو ماہ قبل 39 سنگین مقدمات کا بوجھ تھا اور کسی ایک مقدمے میں بھی ان کی ضمانت نہیں ہورہی تھی۔ مگر دیکھتے ہی دیکھتے تمام مقدمات میں ان کی ضمانت ہوگئی اور اب وہ ماشاء اللہ کراچی کے میئر کا منصب ’’انجوائے‘‘ کررہے ہیں۔ یہ صورتِ حال اسٹیبلشمنٹ کے ’’کرشمات‘‘ میں سے ایک ’’کرشمہ‘‘ ہے۔ اسٹیبلشمنٹ کے ایسے ہی کرشمات نے اس ملک و قوم اور بالخصوص کراچی کا بیڑا غرق کیا ہے۔ ایم کیو ایم کے رہنما بدترین خلائق میں سے ہیں اور ان کی ’’اصلاح‘‘ کا کوئی امکان موجود نہیں۔ ان لوگوں کو جیسے ہی موقع ملے گا یہ پلٹ کر وار کریں گے۔ بعض لوگوں کا خیال ہے کہ کراچی میں الطاف حسین اور ان کی ایم کیو ایم کی کہانی ختم ہوچکی ہے لیکن یہ ایک قبل از وقت قسم کا تجزیہ ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ برطانیہ نے الطاف حسین کو منی لانڈرنگ کے مقدمے میں جو رعایت دی ہے اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ برطانیہ کراچی میں الطاف حسین کے امکانات سے ابھی پوری طرح مایوس نہیں ہوا ہے اور وہ ابھی تک الطاف حسین پر داؤ کھیل رہا ہے۔ کراچی میں الطاف حسین کا کھیل حتمی طور پر ختم ہوگا تو برطانیہ ایک دن میں الطاف حسین کو ’’ترک‘‘ کردے گا۔ لیکن مسئلہ برطانیہ کا نہیں پاکستان کی اسٹیبلشمنٹ کا ہے اور پاکستان کی اسٹیبلشمنٹ الطاف حسین کو رعایت دینے کے سلسلے میں برطانیہ سے احتجاج کا حق تک ادا نہیں کرسکی ہے۔