وگوں کو کیا ہوگیا ہے؟ وہ اونٹ نگل جاتے ہیں اور مچھر پر اعتراض کرتے ہیں۔ سمندر کا طوفان انہیں نظر نہیں آتا مگر چائے کے کپ میں سونامی برپا کرکے کہتے ہیں دیکھیے پانچویں درجے کا طوفان آنے والا ہے۔ وہ ختم نبوت کے قانون پر حملے کو ’’معمولی بات‘‘ کی طرح لیتے ہیں اور مدرسے کا ایک نوجوان نواز شریف کی طرف جوتا اچھال دے تو انہیں مذہب، اخلاق اور تہذیب یاد آجاتی ہے۔
جامعہ نعیمیہ میں ایک طالب علم نے میاں نواز شریف کو جوتا مارا برا کیا مگر ہمیں مذہبی، اخلاقی اور تہذیب کی دہائی دینی ہے تو انصاف کا دامن تھامنا ضروری ہے۔ کیا یہ ایک ناقابل تردید حقیقت نہیں ہے کہ میاں نواز شریف کی حکومت نے دن دہاڑے ختم نبوؤ کے قانون پر کلہاڑا چلا کر ایک ارب 60 کروڑ مسلمانوں کے ایمان پر حملہ کیا۔ کیا اس حملے کی ترغیب انہیں جرنیلوں یا عدلیہ نے دی تھی؟ کیا ملک کے عوام کی عظیم اکثریت نے میاں صاحب کی حکومت سے تقاضا کیا تھا کہ ختم نبوتؐ کے تصور کو روند ڈالا؟ نہیں۔ اس کے برعکس میاں نواز شریف کی حکومت نے یہ ذلیل، رکیک اور شیطانی حرکت کی۔ کیا نواز لیگ میں کوئی ایسا مائی کا لعل ہے جو میاں نواز شریف اور ان کے خاندان کی مرضی اور ہدایت کے بغیر ختم نبوتؐ جیسے تصور پر حملے کی جرأت کرے۔ نواز لیگ پر میاں صاحب کی گرفت ایسی ہے کہ نواز لیگ کے رہنما چھینکنے اور جماہی لینے کے لیے بھی میاں نواز شریف کی اجازت کے محتاج ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ختم نبوتؐ کے قانون پر حملہ میاں نواز شریف کی اجازت سے ہوا۔ سوال یہ ہے کہ اگر میاں نواز شریف ایک ارب 60 کروڑ مسلمانوں کے ’’عقیدے‘‘ اور ’’ایمان‘‘ پر حملہ کرسکتے ہیں تو ایک نوجوان ’’ردِعمل‘‘ میں ’’جذباتی‘‘ ہو کر میاں نواز شریف کو جوتا کیوں نہیں مار سکتا؟ کیا میاں نواز شریف کی شخصیت ’’عقیدہ ختم نبوتؐ‘‘ سے زیادہ ’’اہم‘‘ اور ’’مقدس‘‘ ہے۔ آخر جوتے کی مذمت کرنے والوں کے سامنے ترجیحات کی کوئی تو فہرست ہوگی؟ میاں نواز شریف کے غیر اعلانیہ ترجمان روزنامہ جنگ کی خبر کے مطابق میاں صاحب پر جوتا پھینکنے والے لبیک، لبیک کے نعرے لگارہے تھے۔ روزنامہ جنگ کے کالم نگار سہیل وڑائچ کے مطابق جامعہ نعیمیہ کی انتظامیہ نے انہیں بتایا کہ ختم نبوتؐ پر حملے کے حوالے سے جامعہ کے طلبہ ہی کے جذبات کو ہی نہیں اساتذہ کے جذبات کو بھی کنٹرول کرنے میں دشواری ہورہی ہے۔ اس کی وجہ ظاہر ہے۔ ختم نبوتؐ کا مسئلہ مسلمانوں کے لیے زندگی اور موت سے بھی بڑی چیز ہے۔ کمزور سے کمزور مسلمان بھی موت کو قبول کرسکتا ہے مگر ختم نبوت پر سودے بازی قبول نہیں کرسکتا۔
بدقسمتی سے میاں نواز شریف نے امریکا اور یورپ کے اشارے پر ختم نبوت کو کھلے عام نشانہ بنایا۔ احتجاج ہوا تو ختم نبوت کے قانون میں ترمیم کو واپس لے لیا گیا مگر ذمے داروں کا تعین پھر بھی نہ کیا جاسکا۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ اسلام آباد میں طویل دھرنے کی نوبت آئی۔ پنجاب میں نواز لیگ کے رہنماؤں اور منتخب نمائندوں کے گھروں پر حملے ہوئے۔ اس صورت حال میں میاں نواز شریف نے اپنے وفاقی وزیر قانون زاہد حامد کی ’’قربانی‘‘ دے دی۔ لیکن زاہد حامد کی یہ ’’بساط‘‘ اور ’’اوقات‘‘ نہیں تھی کہ وہ میاں صاحب اور ان کے اہل خانہ کو نظر انداز کرکے ختم نبوت کے تصور پر حملہ کریں۔ چناں چہ تحقیقات کا مطالبہ ہوا تو میاں نواز شریف نے راجا ظفر الحق کی قیادت میں ایک تین رکنی کمیٹی قائم کی جسے رپورٹ مرتب کرنی تھی اور ذمے داروں کا تعین کرنا تھا۔ کمیٹی نے اپنی رپورٹ مرتب کی مگر اب تک یہ رپورٹ عام نہیں ہوئی اور نہ ان ناپاک لوگوں کا تعین ہوا جنہوں نے ختم نبوت کے قانون پر حملے کی ’’سازش‘‘ کی۔ سوال یہ ہے کہ یہ رپورٹ اب تک کیوں عام نہیں کی گئی؟ اس سوال کا جواب یہ ہے کہ نواز لیگ میاں نواز شریف کی ’’باندی‘‘ ہے، ان کی ’’غلام‘‘ ہے۔ یقیناًمیاں نواز شریف ہی نے رپورٹ کو عام نہیں کرنا چاہا ہوگا۔ اگر ایسا ہے تو یہ ختم نبوت کے تصور پر ایک اور حملہ ہے اور رپورٹ کو عام نہ کرکے میاں صاحب حملے کے ذمے داروں کا تحفظ کررہے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ کیا اس صورت حال میں صاحب ایمان مسلمان کے جذبات مشتعل نہیں ہوں گے؟ اور وہ میاں نواز شریف، ان کے خاندان اور ان کی جماعت سے حد درجہ ناراض نہیں ہوگا؟ کوئی کہہ سکتا ہے کہ ایسے لوگ تو بہت ہیں۔ بلاشبہ یہ ایک درست قیاس ہے مگر یہاں کہنے کی اصل بات یہ ہے کہ جس شخص میں ختم نبوت کے تصور پر حملے کے حوالے سے میاں صاحب کے خلاف غم و غصہ نہیں اسے اپنے ایمان، اپنے اسلام اور رسول اکرمؐ کے ساتھ اپنے تعلق کا جائزہ لینا چاہیے، خواہ وہ کوئی نام نہاد عالم دین، سیاسی رہنما، دانش ور اور صحافی ہی کیوں نہ ہو۔
اتفاق سے سینیٹ کے چیئرمین کے انتخاب سے نواز لیگ کے رہنما راجا ظفر الحق نمایاں ہو کر سامنے آئے ہیں اور بعض لوگ ان کی شرافت کے گن گاتے نظر آرہے ہیں۔ آخر راجا ظفر الحق کی یہ کیسی شرافت ہے جو انہیں اس رہنما اور اس جماعت سے وابستہ کیے ہوئے ہے جس نے ایک ارب 60 کروڑ مسلمانوں کے ختم نبوت سے متعلق عقیدے پر حملہ کیا۔ اس تناظر میں دیکھا جائے تو راجا صاحب اتنے ’’شریف‘‘ ہیں کہ ان کے لیے شرافت ایمان سے زیادہ اہم ہے۔ میاں نواز شریف ختم نبوتؐ کے تصور سے زیادہ قیمتی ہیں۔ ایسا نہ ہوتا تو راجا ظفر الحق ختم نبوت پر حملے کے سامنے آتے ہی میاں نواز شریف اور ان کی جماعت کو الوداع کہہ دیتے۔ راجا ظفر الحق کی ’’شرافت‘‘ کی ’’Anatomy‘‘ اس امر سے بھی ظاہر ہے کہ وہ اپنی ہی نگرانی میں مرتب ہونے والی اس رپورٹ پر سانپ بن کر بیٹھے ہوئے ہیں جس میں مبینہ طور پر ان لوگوں کے نام ہیں جو ختم نبوت کے قانون پر حملے کے ذمے دار ہیں۔ ماشا اللہ شرافت ہو تو ایسی۔ ایمان جائے مگر میاں نواز شریف سے تعلق نہ ختم ہو۔ آخر میاں نواز شریف کے سامنے ایمان کی حیثیت ہی کیا ہے؟ (معاذ اللہ) اس اعتبار سے دیکھا جائے تو جو لوگ راجا ظفر الحق کی شرافت کے ترانے گاتے ہوئے پائے گئے ہیں انہیں خود اپنے ایمان اور اسلام کا جائزہ لینا چاہیے۔ جو لوگ ذرائع ابلاغ میں میاں صاحب کا مقدمہ لڑتے ہیں ان میں سے ایک صاحب سہیل وڑائچ بھی ہیں۔ انہوں نے اپنے ایک حالیہ کالم میں لکھا ہے کہ میاں نواز شریف اپنی نااہلی کے بعد سپریم کورٹ کے سلسلے میں جو کچھ کہہ رہے ہیں وہ مرغ بسمل کی پھڑپھڑاہٹ کے سوا کچھ نہیں۔ بہ الفاظ دیگر سپریم کورٹ نے میاں صاحب کو نااہل کردیا ہے۔ وہ تکلیف کی وجہ سے سپریم کورٹ پر برس رہے ہیں۔ کتنی عجیب بات ہے کہ میاں صاحب سپریم کورٹ پر توہین، تذلیل، تحقیر اور مذمت کے جوتے برسائیں تو یہ مرغ بسمل کی ’’پھڑپھڑاہٹ‘‘ ہے۔ ان کی تکلیف کا ’’اظہار‘‘ ہے۔ مگر ایک ’’نوجوان‘‘ ختم نبوت کے تصور پر حملے کی وجہ سے ’’بلبلا‘‘ کر اور ’’پھڑپھڑا‘‘ کر میاں صاحب کو جوتا دے مارے تو یہ فعل ’’خلاف اسلام‘‘ ہے، ’’خلاف تہذیب‘‘ ہے، ’’خلاف اخلاق‘‘ ہے۔ اسلام، تہذیب اور اخلاق کو یاد کرنا بہت اچھی بات ہے مگر جن لوگوں کو جوتے کے حوالے سے یہ تینوں چیزیں یاد آئیں انہیں آج تک ختم نبوت پر حملے اور عدلیہ پر پھینکے گئے سیکڑوں لفظی جوتوں کے حوالے سے اسلام، تہذیب اور اخلاق کیوں یاد نہیں آیا؟ اس سوال کا جواب واضح ہے، میاں صاحب کے پاس مال بھی بہت ہے اور سیاسی طاقت بھی بے پناہ اور ان دونوں چیزوں سے دانش وروں، سیاسی رہنماؤں، صحافیوں، عالم، اخبار، رسالے اور ٹیلی وژن چینل سمیت کسی کو بھی خریدا جاسکتا ہے۔ اس سے معلوم ہوا کہ مسئلہ اصل میں اسلام، تہذیب، اخلاق کا نہیں مسئلہ ’’مفادات‘‘ کا ہے۔
ہمیں حیرت ہے کہ بے شمار لوگ عقیدے اور ایمان کو معمولی چیز سمجھتے ہیں اور ان کے نزدیک مذہبی جذبے کی کوئی اہمیت ہی نہیں ہوتی۔ آئیے اس حوالے سے تاریخ پر ایک سرسری نظر ڈالتے ہیں۔ موہن داس کرم چند گاندھی جدید ہندوستان کے سب سے بڑے رہنما ہیں۔ وہ جدید ہندوستان کے بانی تھے۔ وہ صرف سیاسی رہنما ہی نہیں ہندوؤں کے لیے روحانی شخصیت بھی تھے۔ چناں چہ کروڑوں ہندو انہیں مہاتما یعنی ’’عظیم روح‘‘ اور ’’باپو‘‘ یعنی باپ کہتے تھے۔ مگر آر ایس ایس سے وابستہ لوگوں کا خیال تھا کہ گاندھی نے ان کے مذہبی اور سیاسی جذبات کو پامال کیا ہے۔ گاندھی نے پاکستان کو تسلیم کیا ہے۔ چناں چہ آر ایس ایس سے وابستہ نتھورام گوڈسے نے گاندھی کو گولی مار کر ہلاک کردیا۔ اہم بات یہ ہے کہ آر ایس ایس آج بھی نتھورام گوڈسے کی مذمت نہیں کرتی بلکہ اسے ’’ہیرو‘‘ کا درجہ دیتی ہے۔ اسرائیل کے وزیراعظم اسحق رابین نے یاسر عرفات کے ساتھ اوسلو سمجھوتے پر دستخط کیے۔
اوسلو سمجھوتا اسرائیل کے مفادات کے عین مطابق تھا مگر ایک یہودی نوجوان نے رابین کو ’’غدار‘‘ سمجھتے ہوئے قتل کر ڈالا۔ ہندو اور سکھ صدیوں سے ’’اتحادی‘‘ ہیں۔ مگر اندرا گاندھی نے سکھوں کے ’’مقدس مقام‘‘ گولڈن ٹمپل پر حملہ کیا تو اندرا گاندھی کے دو سکھ محافظوں نے اندرا گاندھی کو موت کے گھاٹ اتار دیا۔ شیخ مجیب بنگلا دیش کے ’’بابائے قوم‘‘ مگر انہوں نے بنگلا دیش کو بھارت کی کالونی بنادیا تھا اور ’’کرپشن کی گنگا‘‘ بہا دی تھی۔
چناں چہ بنگلادیش کی فوج نے جنرل ضیا الرحمن نے بابائے قوم ہی کو نہیں ان کے پورے خاندان کو قتل کردیا۔ حالاں کہ جنرل ضیا الرحمن کا جذبہ صرف سیاسی تھا۔ اس تناظر میں دیکھا جائے تو جس نوجوان نے میاں صاحب کو جوتا مارا اس کی ’’مذہبیت‘‘ اس کی ’’تہذیب‘‘ اس کے ’’اخلاق‘‘ اور اس کی ’’برداشت‘‘ کی تعریف کی جانی چاہیے تھی۔ اس لیے کہ ختم نبوت کے تصور پر حملہ معمولی بات نہیں۔ اس کے نتیجے میں معمولی سے معمولی مسلمان کے جذبات کسی بھی حد تک مشتعل ہوسکتے ہیں۔ یہ زیادہ پرانی بات نہیں شیطان صفت مغرب میں رسول اکرمؐ کے کارٹون شائع کرنے کی واردات ہوئی تو کراچی میں شاعروں، ادیبوں نے بھی احتجاج کیا۔ اس موقع پر خطاب کرتے ہوئے معروف شاعر جمیل الدین عالی نے ایک بنیادی بات کہی۔ عالی صاحب نے کہا کہ توہین رسالت مسلمانوں کے لیے اتنی بڑی بات ہے کہ اس پر عالمی جنگ چھڑ سکتی ہے۔ معروف معنوں میں عالی صاحب کوئی ’’مذہبی شخصیت‘‘ نہیں تھے مگر کمزور سے کمزور مسلمان بھی رسول اکرمؐ پر حملہ برداشت نہیں کرسکتا۔ غازی علم دین نے توہین رسالت کے مرتکب کو واصل بہ جہنم کیا تو اقبال جیسے عالم، شاعر اور عبقری نے کہا کہ ہم باتیں ہی کرتے رہے اور ترکھان کا بیٹا اپنا کام کرگیا یا سب پر بازی لے گیا۔ ختم نبوت کے تصور پر حملہ کسی بھی مسلمان کے لیے ہولناک بات اور توہین رسالت کی ایک واردات ہے مگر اس پر مشتعل ہو کر ایک نوجوان نے میاں صاحب کی جانب جوتا پھینک دیا ہے بہت سے لوگوں کو اسلام، تہذیب اور اخلاق یاد آرہا ہے۔ ایسے لوگوں سے کہنے کی ضرورت ہے۔ اچھا تو یہ ہے آپ کا ایمان، اسلام، تہذیب اور اخلاق، اللہ اکبر۔ اللہ اکبر۔ اللہ اکبر۔
اعتزار
زیر نظر مضمون جمعہ کو شائع ہوا تھا جس کا بقیہ شائع ہونے سے رہ گیا اس لیے اسے دوبارہ شائع کیا جارہا ہے اس سہو پہ ادارہ صاحب مضمون اور قارئین سے معذرت خواہ ہے