آج سے 26 سال پہلے ہم نے انہی کالموں میں عرض کیا تھا کہ ہماری دنیا تعلق کے بجائے تعلقات کی دنیا ہے۔ سوال یہ ہے کہ چھبیس سال بعد ہماری دنیا میں تعلق کا حال کیا ہے؟ اس سوال کا جواب یہ ہے کہ اس عرصے میں تعلق نے یہ ترقی کی ہے کہ اب معاملہ تعلقات سے آگے بڑھ چکا ہے۔ پہلے لوگ تعلق کے بجائے تعلقات کی جانب بھاگ رہے تھے اور اب لوگ تعلقات سے آگے بڑھ کر تعلقات عامہ یعنی Public Relationing اور انٹرنیٹ کے مراسم کی جانب لپک رہے ہیں۔ یہاں سوال یہ ہے کہ تعلق کی ان تمام صورتوں میں فرق کیا ہے؟ اس سوال کا جواب آسان ہے۔ تعلق ’’محبت‘‘ ہے۔ تعلقات ’’ضرورت‘‘ ہیں۔ تعلقات عامہ ’’مفادات‘‘ ہیں اور انٹرنیٹ کے مراسم بیش تر صورتوں میں ’’وقت گزاری‘‘ کے سوا کچھ نہیں۔ اس کے معنی یہ ہوئے کہ ہم نے تعلق کے دائرے میں محبت سے وقت گزاری تک کا سفر طے کرلیا ہے۔ مغرب ہی میں نہیں ہمارے یہاں بھی اسی طرح کی صورتِ حال کو اب ’’ترقی‘‘ کہا جاتا ہے۔ لیکن اقبال نے کہا ہے
ڈھونڈنے والا ستاروں کی گزر گاہوں کا
زندگی کی شب تاریک سحر کرنہ کا
یعنی مسئلہ تیز ترین انٹرنیٹ سے استفادے کا نہیں اس بات کا ہے کہ ہم انسان کہلانے کے مستحق بھی ہیں یا نہیں۔ کسی کے ساتھ تعلق کے حامل ہونے کا مطلب انسان ہونا ہے۔ اس لیے کہ تعلق کا مطلب یہ ہے کہ دل سے دل ملے ہوئے ہیں اور انسان محبت کے دریا سے اپنی روح، اپنے قلب، اپنے ذہن، اپنے جذبات اور اپنے احساسات کو سیراب کررہا ہے۔ محبت جس طرح انسان کے وجود کی پیاس کو بجھا سکتی ہے کوئی اور چیز اس طرح انسان کو تسکین فراہم نہیں کرسکتی۔ ساری دنیا کی بادشاہت اور ساری دنیا کی دولت بھی نہیں۔ تاہم حقیقت یہ ہے کہ مغرب ہی میں نہیں مشرق میں بھی انسانی تعلق پر بن آئی ہے، فراق نے کہا ہے
دنیا میں آج کوئی کسی کا نہیں رہا
اے چشم لطف تیری ضرورت ہے دور دور
فراق کا یہ شعر محض کوئی شاعرانہ خیال نہیں ہے، یہ زندگی کا ایک عام تجربہ ہے۔ ماں باپ کو شکایت ہے کہ اولاد ان کی نہیں رہی۔ ہم نے ایسی اولاد دیکھی ہے جو بڑے ہوتے ہی ماں باپ کو ترک کردیتی ہے۔ ہم نے ایسی اولاد بھی دیکھی جو ماں باپ کو گالی دیتی ہے اور ان پر ہاتھ اُٹھاتی ہے۔ ادھر مغرب میں یہ تجربہ عام ہے کہ اول تو ماں باپ اولاد پیدا ہی نہیں کرنا چاہتے اور کرتے بھی ہیں تو اولاد کو پالنے کے لیے کہیں ماں دستیاب نہیں ہوتی اور کہیں باپ مہیا نہیں ہوتا اور کہیں دونوں ہی غائب ہو جاتے ہیں۔ مغرب ہی میں نہیں ہمارے معاشرے میں بھی طلاقوں کی شرح روز بہ روز بڑھ رہی ہے۔ لاکھوں لوگوں کو ایسے دوست مہیا نہیں کہ شاعر یہ کہنے پر مجبور ہوگیا۔
اور اب دوستوں کی صفیں
اور اب سخت ہے معرکہ
ہم نے زندگی میں ایسے پڑوسی دیکھے ہیں کہ ان کو دیکھ کر امریکا، اسرائیل اور بھارت یاد آجاتے ہیں۔ غرض یہ کہ تعلق کی جتنی صورتیں موجود ہیں ان میں کوئی نہ کوئی بڑا عیب، بڑا نقص اور بڑی تکلیف در آئی ہے، اسی لیے فراق نے کہا ہے
اگر بدل نہ دیا آدمی نے دنیا کو
تو جان لو کہ یہاں آدمی کی خیر نہیں
لیکن یہاں سوال یہ ہے کہ انسانی تعلق کے دائرے میں زوال کا منظر کیوں طلوع ہوا ہے؟
اس صورت حال کی سب سے بڑی وجہ انسانی شعور کی لامذہبیت، انسانی شعور کی سیکولرائزیشن یا انسانی شعور کی دنیا پرستی ہے۔ مغرب نے خدا اور مذہب کا انکار کیا تو یہ کوئی معمولی بات نہیں تھی۔ اس صورت حال نے زندگی کے منظر نامے کو یکسر تبدیل کردیا۔ پہلے کائنات اور زندگی کا مرکز خدا تھا اب خدا کی جگہ انسان نے لے لی۔ مذہبی نقطۂ نگاہ سے خواہ یہ کتنی ہی افسوس ناک بات کیوں نہ ہو لیکن انسانی نقطۂ نظر سے یہ ایک اچھی بات تھی کہ اب انسان ہر چیز کا محور بن گیا ہے، چناں چہ توقع یہ تھی کہ اب انسان کی زندگی پہلے سے زیادہ شاداب، پہلے سے زیادہ آباد، پہلے سے زیادہ خوب صورت اور پہلے سے زیادہ سیراب ہوگی۔ اس لیے کہ اب خدا کے لیے صرف ہونے والی محبت اور توانائی بھی انسان پر صرف ہوگی۔ لیکن ہوا اس کے برعکس۔ خدا کے زندگی سے منہا ہوتے ہی مراسم کی پوری کائنات بکھر کر رہ گئی۔ انسان پہلے سے زیادہ ایک دوسرے کے حریف، پہلے سے زیادہ ایک دوسرے کے دشمن اور پہلے سے زیادہ ایک دوسرے سے لاتعلق ہوگیا۔ اس کی کئی وجوہ تھیں، اس کی ایک وجہ یہ تھی کہ انسانوں کے باہمی تعلق کو صحت مند اور خوب صورت بنانے کے لیے ضروری ہے کہ خدا ایک واسطے کے طور پر انسانوں کے درمیان نہ صرف یہ کہ موجود ہو بلکہ یہ موجودگی بھی موثر ہو۔ انسانوں کے درمیان خدا کی موجودگی اس لیے ضروری ہے کہ جب انسان ایک برتر تعلق کو نبھا لیتا ہے تو ایک کم تر تعلق کو نبھانا اس کے لیے آسان ہو جاتا ہے۔ مغرب میں انسانوں کے ایک دوسرے سے لاتعلق ہونے کی ایک وجہ تھی کہ خدا انسانوں کی زندگی سے خارج ہوا تو اس کے خلا کو انسان نے مادے اور اس کی محبت سے پُر کیا۔ بلاشبہ زندگی کے انسان مرکز ہونے کا غلغلہ تو بہت بلند ہوا مگر انسان، انسان کا مطلوب نہ بن سکا بلکہ انسان کا مطلوب مادہ اور اس کی ترقی بن گیا۔ انسانوں کے قلوب و اذہان مادے اور اس کی محبت سے بھر گئے تو ان میں انسانوں کے لیے کوئی جگہ ہی نہ رہی۔ یہی انسانی تصور کی Secularization تھی۔ بلاشبہ ہمارے یہاں خدا اور مذہب انسانوں کی زندگی سے خارج نہیں ہوئے لیکن ایسے لوگ نایاب ہیں جنہیں دیکھ کر خدا یاد آجائے یا جنہیں دیکھ کر مذہب ایک عظیم الشان نعمت محسوس ہو۔ اس کے معنی یہ ہیں کہ خدا اور مذہب ہماری زندگی میں موجود تو ہیں لیکن موثر یا Functional نہیں۔ یا ہم نے انہیں چند ظاہری چیزوں تک محدود کرلیا ہے۔ اس بات کو دوسرے الفاظ میں اس طرح بھی کہا جاسکتا ہے کہ خدا اور مذہب ہمارے دل کی دھڑکن اور ہماری زندگیوں میں دوڑتا ہوا خون نہیں ہیں بلکہ ان کی حیثیت ہماری روح، ہمارے قلب اور ہمارے ذہن کی دیواروں پر لٹکی ہوئی آرائشی اشیا کی طرح ہے، اگر کسی کے ڈرائنگ روم کی دیوار پر آیت الکرسی ٹنگی ہو تو اس سے کمرے کی فضا میں ایک طرح کا تقدس تو پیدا ہو جاتا ہے مگر یہ تقدس زندگی کو بدلنے والا تقدس نہیں ہوتا۔ یہ بھی انسانی شعور کی سیکولرائزیشن ہی ہے اور یہ سیکولرائزیشن حقیقی سیکولرائزیشن سے زیادہ خطرناک ہے اس لیے کہ اس سیکولرائزیشن کو کوئی سیکولرائزیشن بھی نہیں کہتا۔ غور کیا جائے تو ہمارے دلوں میں دنیا اور اس کی محبت اس طرح رچ بس گئی ہے کہ حقیقی تعلق کے لیے ہمارے دل میں کوئی جگہ ہی نہیں رہ گئی۔ یہی وجہ ہے کہ ہم تعلق کے بجائے تعلقات، تعلقات عامہ اور انٹرنیٹ کے مراسم سے کام چلا رہے ہیں۔ ایسے مراسم جن کا کوئی تشخص ہی نہیں ہوتا یہاں ہمیں ایک پرانے فلمی گیت کا مکھڑا یاد آرہا ہے۔
ترے پاس آکے مرا وقت گزر جاتا ہے
دو گھڑی کے لیے غم جانے کدھر جاتا ہے
انٹرنیٹ کے مراسم میں بھی یہی ہوتا ہے۔
یہ ایک ناقابل تردید حقیقی ہے کہ تعلق کی اصل بنیاد محبت ہے لیکن ہمارے شعور کی دنیا پرستی نے ہمیں محبت کے تجربے سے بھی محروم کردیا ہے۔ آپ اپنے دل میں بیک وقت انسان اور دنیا کی محبت کو نہیں پال سکتے۔ ایک وقت تھا کہ محبت کا تجربہ اپنے پورے جاہ و جلال کے ساتھ ہمارے درمیان موجود تھا۔ میر نے کہا ہے
محبت نے کاڑھا ہے ظلمت سے نور
نہ ہوتی محبت نہ ہوتا ظہور
میر کے مطابق محبت اتنی بڑی چیز ہے کہ یہ پوری کائنات محبت کے اظہار کا کرشمہ ہے۔خدا نے مخلوقات کی محبت کو اظہار عطا کیا تو یہ کائنات وجود میں آئی۔ یہ کائنات کبھی موجود نہ تھی، لیکن محبت کی قوت نے عدم کو موجود بنا دیا۔ اس نے عدم کی ظلمت سے وجود کا نور برآمد کرکے دکھا دیا۔ محبت انسانی تعلق کے دائرے میں بھی یہی کرتی ہے، میر کا ایک شعر ہے
دور بیٹھا غبار میر اُس سے
عشق بن یہ ادب نہیں آتا
بقیہ صفحہ9نمبر4
تعلق وغیرہ‘ وغیرہ
غبار میر کا مطلب میر کی انا بھی ہے۔ میر کی لاتعلقی بھی ہے، میر کا غصہ بھی ہے، ان کی جھنجھلاہٹ بھی ہے۔ انسان کو محبت ہوتی ہے تو وہ اپنی شخصیت کے منفی پہلوؤں کو قابو میں رکھتا ہے اور ان سے اپنے محبوب کو زخمی نہیں کرتا۔ مگر یہ قابو محبت ہی عطا کرتی ہے، محبت نہ ہو تو انسان اعلان کرتا ہے
تو نہیں اور سہی اور نہیں اور سہی
بدقسمتی سے محبت کا تجربہ ہماری زندگی سے منہا ہوتا جارہا ہے۔ لوگ نہ صرف یہ کہ محبت کرنے کی صلاحیت سے محروم ہوتے جارہے ہیں بلکہ اب تو ایسے لوگ بھی ڈھونڈنے ہی سے ملتے ہیں جنہیں محبت درکار ہو۔ اب لوگوں کو کوئی چیز درکار بھی ہوتی ہے تو صرف ’’توجہ‘‘۔ ایسی توجہ جیسی کہ اچھے ڈاکٹرز یا نرسیں مہیا کرتی ہیں۔ لوگ شاعری کو بڑی رومانوی چیز سمجھتے ہیں مگر ہماری جدید غزل محبت کی موت کے اعلانات سے بھری پڑی ہے۔ ان اعلانات میں سے چند ملاحظہ فرمایے۔
اپنی تکمیل کررہا ہوں میں
ورنہ تجھ سے تو مجھ کو پیار نہیں
یہ ہمارے دور کے ’’شاعر اعظم‘‘ فیض احمد فیض ہیں۔ ان کے اس شعر میں محبت ایک استحصالی رویے کے سوا کچھ نہیں۔
تعلقاتِ زمانہ کی اک کڑی کے سوا
کچھ اور یہ ترا پیمان دوستی بھی نہیں
(عزیز حامد مدنی)
زیست اب کس طرح بسر ہو گی
دل نہیں لگ رہا محبت میں
(جون ایلیا)
عزیز اتنا ہی رکھو کہ جی سنبھل جائے
اب اس قدر بھی نہ چاہو کہ دم نکل جائے
(عبداللہ علیم)
اب تو ہمیں بھی ترک مراسم کا دکھ نہیں
یہ دل یہ چاہتا ہے کہ آغاز تُو کرے
(احمد فراز)
اے دوست ہم نے ترک محبت کے باوجود
محسوس کی ہے تیری ضرورت کبھی کبھی
(ناصر کاظمی)
کچھ نہ تھا یاد بجز کارِ محبت اک عمر
وہ جو بگڑا ہے تو اب کام کئی یاد آئے
(جمیل الدین عالی)
وہ مجھے پیار سے دیکھے بھی تو پھر کیا ہوگا
مجھ میں اتنی ہی سکت کب ہے کہ دھوکا کھاؤں
(شہزاد احمد)
خزاں ان کی توجہ ایسی نا ممکن نہیں لیکن
ذرا سی بات پر اصرار بھی کرتے نہیں بنتا
(محبوب خزاں)
اسی کو جب نہ تھی قدرِ وفا کچھ
تو پھر میں کیوں مشقت کوش رہتا
(اندر شعور)
ہزار طرح کے صدمے اُٹھا کے سوچتے ہیں
جو عشق ہم نے کیا تھا وہ عشق تھا بھی کیا
(احمد ہمدانی)