مومنؔ نے کہا ہے:
عمر تو ساری کٹی عشقِ بتاں میں مومنؔ
آخری وقت میں کیا خاک مسلماں ہوں گے
لیکن امریکہ کے وزیر خارجہ جان کیری نے آخری وقت میں ’’مسلمان‘‘ ہوکر دکھا دیا۔ انہوں نے صدر اوباما کی حکومت کے خاتمے سے صرف 23 روز قبل اسرائیل کے خلاف تقریری جہاد کی مثال قائم کردی۔ امریکہ میں حکومت کے خاتمے کا وقت قریب ہوتا ہے تو حکمران صرف وقت گزارنے پر توجہ مرکوز کرتے ہیں، مگر جان کیری نے اپنی تقریر کے ذریعے اسرائیل پر خودکش حملہ کردیا۔
انہوں نے اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہو پر الزام لگایا کہ وہ مسئلہ فلسطین کے دو ریاستی حل سے فرار حاصل کررہے ہیں اور وہ خطے کو ایک ریاستی حل کی جانب دھکیل رہے ہیں۔ انہوں نے مقبوضہ علاقوں میں یہودی بستیوں کی تعمیر پر سخت تنقید کی۔ انہوں نے کہا کہ اسرائیل یا تو یہودی ریاست ہوسکتا ہے یا ایک جمہوری ریاست۔ انہوں نے اسرائیل سے کہا کہ وہ فلسطینیوں کے حقِ ریاست کو تسلیم کرے۔ انہوں نے اسرائیل پر الزام لگایا کہ وہ فلسطینیوں کی زمین پر دائمی قبضے کی جانب جارہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ اسرائیل نے ناجائز بستیوں کی تعمیر جاری رکھی تو اقوام متحدہ خاموش نہیں رہے گی۔ جان کیری نے سلامتی کونسل میں اسرائیل کے خلاف منظور ہونے والی حالیہ قرارداد کا دفاع کیا۔ انہوں نے کہا کہ یہ قرارداد مشرق وسطیٰ میں دو ریاستی حل کو بچانے کا واحد راستہ تھا جسے ویٹو نہ کرنے کا فیصلہ ان ’’اقدار‘‘ کے مطابق تھا جن پر امریکہ یقین رکھتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ قرارداد نے اسرائیل کو تنہا نہیں کیا بلکہ مقبوضہ فلسطینی علاقوں میں یہودیوں کی آبادکاری اسرائیل کو تنہا کررہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ اسرائیل سے دوستی کا یہ مطلب نہیں کہ امریکہ اسرائیل کی ہر پالیسی کا ساتھ دے۔ انہوں نے کہا کہ یہودیوں کی ناجائز آباد کاری نے امریکہ کو بھی امتحان میں ڈال دیا ہے۔ جان کیری نے اپنی تقریر میں اوسلو امن معاہدے کا بھی حوالہ دیا۔ انہوں نے کہا کہ اس معاہدے کے تحت اسرائیل کو مغربی کنارے کے جو علاقے خالی کرنے تھے اُن میں سے 60 فیصد علاقوں میں اب تک فلسطینیوں کو داخلے کی اجازت نہیں۔ جان کیری نے کہا کہ نیتن یاہو کی حکومت اسرائیل میں دائیں بازو کی سب سے قدامت پسند حکومت ہے۔ انہوں نے کہا کہ مسئلہ فلسطین کے حل کے کچھ رہنما اصول ہیں۔ اس سلسلے میں انہوں نے پانچ اصولوں کی نشاندہی کی:
(1) اسرائیل کے قیام کا حق تسلیم کیا جائے۔
(2) فلسطینیوں اور اسرائیلیوں کی علیحدہ علیحدہ ریاستیں قائم کی جائیں۔
(3) جلاوطن فلسطینیوں کی دوبارہ آبادکاری کا مسئلہ حل کیا جائے۔
(4) بیت المقدس کے مستقبل کا فیصلہ دونوں فریقوں کی خواہشات کے مطابق ہو۔
(5) اور اسرائیل کی سلامتی کی ضمانت مہیا کی جائے۔
امریکہ دنیا کی واحد سپرپاور ہے مگر امریکہ کا یہ ’’مرتبہ‘‘ روس کے لیے ہے، چین کے لیے ہے، مسلم دنیا کے لیے ہے، لیکن اسرائیل کے تناظر میں امریکہ کی حیثیت ایک ’’قیدی‘‘ کی ہے۔ اوباما کو اقتدار میں آئے ہوئے آٹھ سال ہوگئے ہیں، اور جب اوباما اقتدار میں آئے تھے تو انہوں نے کہا تھا کہ مشرق وسطیٰ میں قیام امن ان کا ہدف ہے اور وہ اسرائیل اور فلسطینیوں کے درمیان مفاہمت کی پوری کوشش کریں گے۔ لیکن عملاً یہ ہوا کہ اسرائیل کے وزیراعظم بنجامن نیتن یاہو نے فلسطینیوں کے ساتھ بامعنی مذاکرات سے بھی انکار کردیا۔ اس صورت حال نے ایک جانب فلسطینی رہنما محمود عباس کو بے توقیر کیا، دوسری جانب اسرائیل کی اس روش سے یورپی ممالک میں اسرائیل کے خلاف سخت ردعمل پیدا ہوا اور کئی یورپی ممالک نے پے درپے فلسطینی ریاست کو تسلیم کرنے کا اعلان کیا۔ تاہم اسرائیل کی نخوت کے باوجود بارک اوباما نے اسرائیل پر نوازشات کا سلسلہ جاری رکھا۔ ان نوازشات میں مالی امداد سرفہرست تھی۔ اگرچہ گزشتہ آٹھ برسوں کے دوران امریکی معیشت بحران کا شکار رہی، تاہم بارک اوباما نے اس عرصے میں اسرائیل کو ’’صرف‘‘ 38 ارب ڈالر امداد کے طور پر مہیا کیے۔ جدید ترین طیاروں اور اسلحہ کی فراہمی اس کے علاوہ ہے۔ ایک اطلاع کے مطابق جان کیری نے اب جو تقریر کی ہے یہی تقریر وہ دو سال پہلے کرنا چاہتے تھے مگر اوباما نے انہیں ایسا کرنے سے روک دیا اور اس کی وجہ یہ بتائی کہ ایسی تقریر سے بنجامن نیتن یاہو المعروف Bibi مشتعل ہوسکتا ہے۔ لیکن اگر ایسا ہے تو پھر اب جان کیری نے یہ تقریر کیوں کی؟
اس سوال کے جواب پر غور کرتے ہوئے ہمیں پاکستان میں امریکہ کی سابق سفیر وینڈی چیمبرلین کا ایک انٹرویو یاد آگیا۔ اس انٹرویو میں اُن سے پوچھا گیا کہ امریکہ کے ممتاز دانشور نوم چومسکی امریکہ کے کڑے ناقد ہیں، یہاں تک کہ وہ امریکہ کو ’’بدمعاش ریاست‘‘ قرار دیتے ہیں۔ آخر اس کی وجہ کیا ہے؟ اس سوال کے جواب میں وینڈی چیمبرلین نے کہا کہ نوم چومسکی کا کیریئر ختم ہوچکا ہے۔ یعنی ان کے مفادات نہیں ہیں، چنانچہ وہ جو کہنا چاہیں کہہ سکتے ہیں۔ وینڈی چیمبرلین کا یہ جواب اگرچہ مختصر ہے مگر جامع ہے۔ ہماری دنیا میں صداقت فی نفسہٖ کچھ بھی نہیں۔ اصل چیز انسانوں کے مفادات ہیں۔ مفاد ہو تو انسان رات کو دن اور دن کو رات قرار دے سکتا ہے۔ مفاد ہو تو انسان آزادی کی سب سے بڑی علامت بن کر سامنے آسکتا ہے۔ اور مفاد ہو تو غلامی کو بھی آزادی باور کرایا جاسکتا ہے۔ اس اعتبار سے دیکھا جائے تو جان کیری کی تقریر کا مفہوم یہ ہے کہ اوباما کی حکومت کا وقت ختم ہوچکا ہے، چنانچہ جاتے جاتے اگر حق گوئی کا پرچم اٹھالیا جائے تو ہینگ لگے نہ پھٹکری مگر رنگ آئے چوکھا والی صورت حال رونما ہوسکتی ہے۔ لیکن جان کیری کی تقریر کا مفہوم صرف اسی قدر نہیں ہے۔ امریکہ ایک بڑا ملک ہے، مگر اس کے مالیاتی، ابلاغی اور سیاسی اداروں پر یہودیوں کا غلبہ ہے۔ یہ امریکہ کے نظام کی ایک حقیقت ہے لیکن یہ بہت سے امریکیوں کے لیے ایک تلخ تجربہ ہے۔ امریکی کبھی کبھی اس تلخ تجربے کو پھلانگنے کا خواب دیکھتے ہیں اور یہ باور کرانے کی کوشش کرتے ہیں کہ ہم یہودیوں یا اسرائیل کے غلام نہیں، ہم صرف اس کے اتحادی ہیں۔ جان کیری نے اپنی تقریباً ایک گھنٹے کی تقریر کے ذریعے یہی تاثر تخلیق کرنے کی کوشش کی ہے۔ اس سلسلے میں ایک اور حقیقت پیش نظر رکھنے کی ضرورت ہے۔ امریکہ نے اسرائیل کی اندھی حمایت کے ذریعے صرف مسلم دنیا کو نہیں بلکہ آزاد دنیا کے اُن لوگوں کو بھی ناراض کیا ہے جن کی رگِ جاں پنجۂ یہود میں نہیں ہے۔ جب تک امریکہ دنیا کی واحد سپر پاور تھا اُس وقت تک اسرائیل کی اندھی حمایت بھی امریکہ کے لیے ضرر رساں نہیں تھی۔ مگر اب دنیا میں طاقت کے کئی مراکز ابھر رہے ہیں۔ روس یوکرین اور شام سمیت کئی مقامات پر امریکہ کو چیلنج کررہا ہے۔ چین دنیا کی دوسری بڑی معیشت بن چکا ہے اور پوری دنیا بالخصوص مسلم دنیا کے کئی اہم ملکوں میں چین کے اثرات ’’غیرمعمولی‘‘ ہوچکے ہیں۔ چنانچہ مستقبل میں اسرائیل کی اندھی حمایت امریکہ کے لیے نقصان کا باعث ہوسکتی ہے۔ اس اعتبار سے دیکھا جائے تو جان کیری نے اسرائیل پر نکتہ چینی کرکے امریکہ کی عالمی ساکھ کو سہارا دینے کی کوشش کی ہے۔ لیکن اس کوشش کی ’’اخلاقی حیثیت‘‘ نہ ہونے کے برابر ہے، البتہ یہ کوشش تاریخ کے ایک ریکارڈ کا حصہ ضرور بن گئی ہے اور بوقتِ ضرورت حوالے کے طور پر کام آئے گی۔ عملی اعتبار سے دیکھا جائے تو جان کیری کی تقریر کی رتی برابر اہمیت نہیں۔ اس کا سبب یہ ہے کہ امریکہ کے نومنتخب صدر ڈونلڈ ٹرمپ اسرائیل کے ’’عاشق‘‘ ہیں۔ وہ فرما چکے ہیں کہ اسرائیل کو بے عزت کرنے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔ انہوں نے اپنے ایک ٹوئٹ میں اسرائیل سے کہا کہ چند دن اور صبر کرلو، ڈٹے رہو، ہمارے اقتدار کا آغاز ہوا چاہتا ہے۔ اس سے قبل وہ یہ اعلان بھی کرچکے ہیں کہ امریکہ اسرائیل میں اپنا سفارت خانہ تل ابیب سے بیت المقدس منتقل کرے گا۔ اس کے معنی یہ ہیں کہ اسرائیل کی رعونت، ظلم اور توسیع پسندی مزید بڑھنے والی ہے۔ امریکہ کے سابق صدر جمی کارٹر حالیہ برسوں میں کئی بار بارک اوباما سے یہ کہتے ہوئے پائے گئے کہ اسرائیل امن مذاکرات پر آمادہ نہیں تو نہ ہو، امریکہ عالمی طاقت اور عظیم ملک ہے چنانچہ اسے یک طرفہ طور پر فلسطین کی آزاد ریاست کو تسلیم کرلینا چاہیے، اس سے اسرائیل پر دباؤ بڑھے گا اور وہ امن مذاکرات پر مجبور ہوگا۔ لیکن جس بارک اوباما نے اپنے وزیر خارجہ جان کیری کو دو سال قبل اسرائیل کے خلاف تقریر کی اجازت نہ دی وہ فلسطین کی آزاد ریاست کو تسلیم کرنے کی جرأت کہاں سے مہیا کرتے؟