سقوطِ ڈھاکا پاکستان کی بہت بڑی شکست اور بھارت کی بہت بڑی کامیابی تھی۔ بھارت پاکستان کی اس شکست اور اپنی اس کامیابی پر قناعت کرلیتا تو یہ بھی بہت تھا، لیکن بھارت اس پر قانع نہ رہ سکا۔ چنانچہ بھارت کی وزیراعظم اندراگاندھی نے یہ کہنا ضروری سمجھا کہ ہم نے دو قومی نظریے کو خلیج بنگال میں غرق کردیا ہے، اور یہ کہ ہم نے ایک ہزار سالہ تاریخ کا بدلہ لے لیا ہے۔ اندراگاندھی کا یہ بیان اس امر کا عکاس تھا کہ بھارت کے حکمران پاکستان کو صرف ناپسند نہیں کرتے بلکہ وہ پاکستان سے نفرت کرتے ہیں، اور یہ نفرت ان کی رگوں میں خون بن کر دوڑ رہی ہے۔ بھارت کی خفیہ ایجنسی ’’را‘‘ کے سابق سربراہ باہُو کشمبی رامن نے اپنی خودنوشت لکھی تو اس میں سقوط ڈھاکا کو ’’را‘‘ کی تاریخ کا بہترین لمحہ قرار دیا۔ بھارت کے سابق وزیراعظم آنجہانی راجیو گاندھی کی بیوہ سونیا گاندھی کو پاکستان یاد آیا تو انہوں نے فرمایا کہ پاکستان کے ساتھ جنگ کی ضرورت نہیں۔ ہم نے فلموں کے ذریعے پاکستان کو فتح کرلیا ہے۔ 2007ء میں سونیا گاندھی کے بیٹے راہُل گاندھی کو پاکستان کا خیال آیا تو انہوں نے بھارت کے لوگوں کو یاد دلایا کہ ان کے خاندان کا ایک بڑا کارنامہ یہ ہے کہ اس نے پاکستان کو دولخت کردیا۔ بھارت کے موجودہ وزیراعظم نریندر مودی نے کچھ عرصے قبل کھل کر کہا کہ بھارت نے بنگلہ دیش کی تخلیق میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ اس سلسلے کی تازہ ترین واردات یہ ہے کہ بھارت کے وزیرداخلہ راج ناتھ سنگھ نے دھمکی دی ہے کہ پاکستان نے اپنی پالیسیاں تبدیل نہ کیں تو اس کے مزید دس ٹکڑے ہوجائیں گے۔ انہوں نے کہا کہ ہندوستان کو 1947ء میں مذہبی بنیادوں پر تقسیم کیا گیا جو ہمیں آج بھی یاد ہے۔ انہوں نے نہ جانے کس بنیاد پر یہ بھی کہا کہ پاکستان بھارت کو مذہبی بنیادوں پر تقسیم کرنے کی سازشیں کررہا ہے۔ اس اعتبار سے دیکھا جائے تو کہا جاسکتا ہے کہ پاکستان سے نفرت بھارتی قیادت کا ایک بڑا نفسیاتی مسئلہ ہے۔ اتنا بڑا نفسیاتی مسئلہ کہ بھارت کی قیادت گزشتہ 70 سال سے اس مسئلے کا شکار ہے اور مسئلہ حل ہونے کے بجائے گمبھیر ہوتا جارہا ہے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ بھارت کی پاکستان سے نفرت کی وجہ کیا ہے؟
مسلمانوں نے بھارت پر ایک ہزار سال حکومت کی اور ہندو اس دوران مسلمانوں کی کوئی خاص مزاحمت نہ کرسکے، یہاں تک کہ مغل سلطنت زوال آمادہ ہوگئی اور بھارت پر انگریزوں کا تسلط ہوگیا۔ اس تسلط کے خاتمے کا وقت آیا تو بھارت کی ہندو قیادت کا گمان یہ تھاکہ اب پورے برصغیر پر بلاشرکتِ غیرے ان کی حکومت ہوگی۔ لیکن ایسا نہ ہوسکا۔ بھارت کی مسلم قیادت نے اسلام کے جداگانہ تشخص کی بنیاد پر ایک الگ مسلم ریاست کا مطالبہ کردیا۔ یہ مطالبہ دیوانے کا خواب تھا مگر قائداعظم کی قیادت میں یہ خواب صرف سات سال میں شرمندۂ تعبیر ہوگیا اور پاکستان کی صورت میں ایک وسیع علاقہ ہندو قیادت کے ہاتھ سے نکل گیا۔ ہندو قیادت نے اپنی اس شکست کو کبھی دل سے تسلیم نہ کیا، چنانچہ وہ پہلے دن سے پاکستان کے خلاف سازشوں میں مصروف ہوگئی۔ قیام پاکستان کی پوری تحریک پُرامن تھی اور قائداعظم نے اس تحریک کے کسی بھی موقع پر طاقت کا استعمال نہ کیا، لیکن ہندو قیادت نے پاکستان کی آزادی اور پاکستان کی تخلیق کو مسلم کُش فسادات کراکے لہو رنگ کردیا۔ بھارت نے صرف مسلم کُش فسادات پر اکتفا نہ کیا بلکہ اس نے پاکستان کے حصے کے اثاثے بھی روک لیے۔ یہاں تک کہ ان اثاثوں کے لیے گاندھی جی کو احتجاج کرنا پڑا۔ اس صورت حال نے بھارت کی متعصب ہندو قیادت کے دلوں میں پہلے سے موجود نفرت کی آگ کو مزید بھڑکادیا۔
کانگریس کی قیادت کو توقع تھی کہ پاکستان ایک عارضی منصوبہ ہے اور یہ منصوبہ بہت جلد ناکام ہوگا۔ لیکن پاکستان نہ صرف یہ کہ اپنی تخلیق کے ابتدائی برسوں کو پھلانگ گیا بلکہ اس نے معیشت اور صنعت کاری کے شعبوں میں بھارت سے بہتر کارکردگی کا مظاہرہ کیا۔ یہاں تک کہ 1965ء کی جنگ میں اس نے بھارت کی کئی گنا زیادہ فوجی طاقت کا بھرپور مقابلہ کرکے دکھا دیا۔ بعض لوگ کہتے ہیں کہ 1965ء کی جنگ میں پاکستان کی فتح کا تاثر درست نہیں۔ لیکن اگر پاکستان نے 1965ء کی جنگ میں فتح حاصل نہیں کی تھی تو اسے بھارت کے ہاتھوں شکست بھی نہیں ہوئی تھی، اور یہ بات غیر معمولی تھی۔ مگر بھارت 1965ء میں محصور ہوکر نہیں رہ گیا۔ اس کی پاکستان سے نفرت کا سلسلہ جاری رہا۔ یہاں تک کہ1968ء میں اس نے RAW کے نام سے ایک خفیہ ایجنسی قائم کی۔ اس ایجنسی کا بنیادی کام پاکستان کو کچلنا تھا۔ 1971ء میں ’’را‘‘ کو پاکستان کے خلاف بڑی کامیابی حاصل ہوئی۔
سقوطِ ڈھاکا پاکستان اور پاکستانی قوم کے لیے ایک بڑا سانحہ تھا اور بھارت کا خیال تھا کہ پاکستان اس سانحے کے بوجھ تلے دب جائے گا۔ لیکن آدھے پاکستان کے وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو نے ملک میں بھارت مخالف جذبات کو ہوا دی۔ 1974ء میں بھارت نے ایٹمی دھماکا کیا تو بھٹو صاحب نے اعلان کیا کہ ہم گھاس کھائیں گے مگر ایٹم بم بنائیں گے۔ بھٹو خود تو ایٹم بم نہ بناسکے مگر وہ ایٹم بم کی تخلیق کے لیے سازگار ماحول پیدا کرگئے۔ یہاں تک کہ 1984ء میں پاکستان نے ایٹم بم بنالیا۔ یہ خطے میں طاقت کے توازن کو بحال کرنے کی ایک غیرمعمولی کوشش تھی، اور اس کوشش نے بھارت کے پاکستان سے متعلق ناپاک عزائم کی راہ میں بڑی رکاوٹ کھڑی کردی۔ اس کا اندازہ اس بات سے کیا جاسکتا ہے کہ راجیو گاندھی کے دور میں بھارت پاکستان پر بڑے حملے کی تیاری کرچکا تھا، لیکن جنرل ضیاء الحق کرکٹ ڈپلومیسی کی آڑ میں بھارت پہنچے اور انہوں نے بھارت کی سرزمین پر کھڑے ہوکر راجیو گاندھی کو بتایا کہ اگر بھارت نے پاکستان پر حملہ کیا تو یہ جنگ ایٹمی تصادم میں تبدیل ہوجائے گی۔ جنرل ضیاء الحق کی اس ایٹمی دھمکی نے کام دکھایا اور بھارت نے اپنا جنگی منصوبہ ترک کردیا۔
پاکستان اسلام کے نام پر وجود میں آیا تھا مگر پاکستان کے حکمران طبقات پاکستان کو ابھی تک حقیقی معنوں میں اسلامی ملک نہیں بناسکے ہیں۔ تاہم پاکستان میں اسلامی جماعتوں بالخصوص جماعت اسلامی کی جدوجہد نے اسلام کو پاکستان کا مرکزی مسئلہ بنادیا ہے۔ پاکستان کا آئین بڑی حد تک اسلامی ہے اور آئین کی اسلامی دفعات سے کھلا انحراف ناممکن نہیں تو بہت مشکل ضرور ہے۔ اسلام پر پاکستان کا یہ اصرار بھارت کے لیے ناقابلِ قبول ہے، کیونکہ پاکستان میں اسلام پر اصرار بھارتی حکمرانوں کو اس دو قومی نظریے کی یاد دلاتا ہے جسے اندرا گاندھی کے بقول بھارت نے خلیج بنگال میں غرق کردیا تھا۔
بھارت کی سیاست پر ہندوؤں کی اعلیٰ ذاتوں کا غلبہ ہے اور یہ ذاتیں بالادستی کی نفسیات رکھتی ہیں۔ چنانچہ بھارت کے حکمرانوں نے نیپال کو اپنی باج گزار ریاست بناکر رکھا ہوا ہے، انہوں نے سری لنکا کے معاملات میں مداخلت کی تاریخ رقم کی ہے، انہوں نے مالدیپ کے معاملات میں مداخلتِ بے جا کا ارتکاب کیا ہے، انہوں نے بنگلہ دیش کو اپنی کالونی بنا لیا ہے۔ اور وہ چاہتے ہیں کہ پاکستان بھی بھارت کی بالادستی کو تسلیم کرلے۔ لیکن پاکستان نے بھارت کی اس ناپاک خواہش کی مزاحمت کی ہے اور امریکہ و یورپ کے دباؤ کے باوجود اس نے ابھی تک بھارت کے سامنے ہتھیار نہیں ڈالے۔ بھارت پاکستان کی اس مزاحمت کو دیکھتا ہے تو اس کا اجتماعی دل پاکستان کی نفرت سے بھر جاتا ہے۔ ایک وقت تھا کہ پاکستان کم و بیش ہر شعبۂ زندگی میں بھارت کی مزاحمت کی مثالیں پیش کرتا تھا۔ 1980ء کی دہائی میں پاکستان کی کرکٹ ٹیم اتنی شاندار تھی کہ بھارت پاکستان سے میچ جیتنے کے بارے میں سوچ بھی نہیں سکتا تھا۔ ہاکی میں پاکستان اور بھارت کی ٹیمیں مساوی صلاحیت کی حامل تھیں۔ چنانچہ بڑے ٹورنامنٹ کے اکثر فائنل پاکستان اور بھارت کے درمیان کھیلے جاتے تھے۔ بلاشبہ بھارت نے فلم کے دائرے میں بہتر کارکردگی کا مظاہرہ کیا ہے۔ پاکستان کبھی بھارت کی طرح کی فلمیں نہیں بناسکا۔ لیکن پاکستان نے ٹیلی ڈرامے کے میدان میں شاندار کارکردگی کا مظاہرہ کیا۔ اس میدان میں پاکستان کی کارکردگی اتنی عمدہ ہے کہ بھارت پچاس سال میں بھی پاکستانی ڈرامے کی سطح کو نہیں چھوسکتا۔ یہ صورت حال اس کے باوجود ہے کہ پاکستان کی آبادی بھارت سے بہت کم ہے۔ بھارت کی آبادی ایک ارب 20کروڑ ہے تو پاکستان کی آبادی صرف 20 کروڑ۔ اس کے باوجود پاکستان نے ہر میدان میں بھارت کا مقابلہ کیا ہے۔ یہ کوئی معمولی بات نہیں۔ بھارت پاکستان کی اس مزاحمتی صلاحیت سے بخوبی آگاہ ہے۔ یہی وجہ ہے کہ بھارت کے حکمران پاکستان سے نفرت کرتے ہیں اور وہ ہر وقت پاکستان کے حصے بخرے کرنے کے بارے میں سوچتے رہتے ہیں۔ پاکستان کی مزاحمتی قوت کا تازہ ترین اظہار پاکستان کے چھوٹے ایٹم بم ہیں۔ بھارت نے حالیہ برسوں میں پاکستان کی سرحد کے ساتھ کئی بڑی چھاؤنیاں قائم کی تھیں۔ ان کا مقصد یہ تھا کہ عددی فوقیت کی بنیاد پر پاکستان پر حملہ کیا جائے او رپاکستان کی مزاحمت کو صفر کرکے پاکستان کے وسیع علاقے پر قبضہ کرلیا جائے۔ لیکن پاکستان کے چھوٹے ایٹم بموں نے جنہیں Tactical ہتھیار کہا جارہا ہے، بھارت کی اس چال کو ناکام کردیا ہے۔
ہماری قومی تاریخ کا ایک پہلو یہ ہے کہ قیام پاکستان کے بعد قائداعظم نے آل انڈیا مسلم لیگ کے آخری اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ہم نے پاکستان بنالیا ہے، اب آپ اسے سنبھالیے۔ بھارت کے مسلمان، رہنماؤں سے محروم ہوگئے ہیں، چنانچہ میں بمبئی میں جاکر رہوں گا اور بھارتی مسلمانوں کی رہنمائی کروں گا۔ لیکن ان کی یہ تجویز نہ منظور ہوئی اور نہ ہوسکتی تھی، مگر اس بات سے یہ حقیقت آشکار ہوتی ہے کہ قائداعظم کو بھارت کے مسلمانوں کی کتنی فکر تھی، بھارت یہ بات اچھی طرح سمجھتا ہے کہ پاکستان مضبوط ہوگا تو اس سے بھارت کے مسلمان قوی ہوں گے اور بھارت کی داخلی مشکلات بڑھیں گی۔ یہی وجہ ہے کہ بھارت کے حکمران گاہے گاہے پاکستان سے اپنی نفرت کا اظہار کرتے رہتے ہیں۔