ٹیپو سلطان نے کہا تھا کہ شیر کی ایک دن کی زندگی گیدڑ کی سو سالہ زندگی سے بہتر ہے۔ میاں نواز شریف اور ان جیسے لوگ یہ فقرہ سنتے ہوں گے تو کہتے ہوں گے کہ سو سال ایک دن سے۔ بہر حال زیادہ ہوتے ہیں۔ اس بات کا مفہوم واضح ہے۔ یعنی شیر مردہ باد اور گیدڑ زندہ باد۔ لیکن اس رائے کے اظہار کا سبب کیا ہے؟
اس کا سبب یہ ہے کہ بھارت پاکستان کے خلاف غیر علانیہ جنگ چھیڑے ہوئے ہے۔ وہ پاکستان کے دو دریاؤں کا پانی روکے ہوئے ہے اور اس نے اعلان کیا ہے کہ وہ پاکستان کا مزید پانی روکنے کا ارادہ رکھتا ہے۔ دوسری جانب اس نے سرحد پر خون کا دریا بہایا ہوا ہے اور وہ طالب علموں کی گاڑیوں تک پر حملے کررہا ہے لیکن میاں نواز شریف نے پاکستان میں بھارتی فلموں کی نمائش کا کھیل شروع کرادیا ہے۔ اس کا مفہوم عیاں ہے کہ میاں صاحب کے لیے بھارتی فلمیں پاکستانیوں اور کشمیریوں کی جانوں سے زیادہ اہم اور ان سے زیادہ مقدس ہیں۔ میاں صاحب اعلان کیے بغیر پاکستانی قوم سے کہہ رہے ہیں کہ بھارت چاہے ہمارا کوئی حشر کردے ہمیں بہر حال بھارت کی فلمیں دیکھتے رہنا ہے۔ تجزیہ کیا جائے تو یہ صورت حال بھارت کی عام فلموں سے زیادہ فحش ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ فلموں کا تبادلہ معمول کے حالات میں ہوتا ہے۔ قومیں جنگ کے میدان میں بیٹھ کر دشمنوں کی فلموں کو انجوائے نہیں کیا کرتیں۔ کیا میاں صاحب کے نزدیک بھارتی اداکاراؤں کے ٹھمکے پاکستان کے شہدا کے خون سے زیادہ اہم ہیں؟ میاں صاحب بھارت سے دوستی کرنا چاہتے ہیں یا اس کی غلامی کا ان کا اصل ہدف ہے؟
بھارت پاکستان کے خلاف کیا کررہا ہے یہ بات راز نہیں۔ بھارت پاکستان کے خلاف آبی جارحیت کے دائرے کو وسعت دے رہا ہے۔ بھارت کے وزیر داخلہ راج ناتھ نے حال ہی میں دھمکی دی ہے کہ وہ پاکستان کے دس ٹکڑے کردیں گے۔ بھارت پاکستان سے کئی گنا بڑا ملک ہے مگر اس کے چھوٹے پن کا یہ عالم ہے کہ اس نے پاکستانی اداکاروں تک پر اپنے دروازے بند کردیے ہیں۔ یہاں تک کہ ایک بھارتی نوجوان کو محض اس لیے گرفتار کرلیا گیا کہ وہ شاہد آفریدی کی جیکٹ سے ملتی جلتی جیکٹ زیب تن کیے ہوئے تھا۔ بھارت کا بس چلے تو وہ اپنی زبانوں کے دائرے سے حرف ’’پ‘‘ کی آواز دینے والے حروف کو بھی خارج کردے اس لیے کہ ’’پ‘‘ سے پاکستان وجود میں آتا ہے۔ لیکن دوسری جانب میاں صاحب کی کشادہ دلی کا یہ عالم ہے کہ وہ بھارتی جاسوس کل بھوشن یادو کا ذکر کرنا بھی پسند نہیں کرتے۔ بلکہ انہوں نے پاکستان میں بھارتی فلموں کی نمائش کی اجازت بھی دے دی ہے۔ اس صورت حال کا مطلب واضح ہے۔ وہ دن دور نہیں جب میاں صاحب پاکستان میں بھارتی ٹی وی چینلوں کو بھی پاکستان میں آن ائر کرنے کی اجازت دے دیں گے۔ مثل مشہور ہے کہ آدمی گڑ نہ کھلائے تو گڑ جیسی بات ہی کہہ دے۔ مگر بھارت پاکستان کو گڑ تو کیا کھلائے گا وہ پاکستان کے سلسلے میں گڑ جیسی بات بھی کرنے پر آمادہ نہیں۔ بھارت کے رہنما آئے دن پاکستان کے خلاف زہر اگل رہے ہیں مگر میاں صاحب ایسے انداز میں بھارت ماتا کی جے کا نعرہ لگائے جارہے ہیں۔ وہ کبھی بھارت کے ساتھ دوستی کی خواہش کا اظہار کرتے ہیں، کبھی مان نہ مان میں تیرا مہمان کے مصداق سرتاج عزیز کو ہارٹ آف ایشیا کانفرنس میں شرکت کے لیے بھارت بھیج دیتے ہیں اور کبھی وہ کسی بھی جواز کے بغیر پاکستان میں بھارتی فلموں کی نمائش کی اجازت دے دیتے ہیں۔
میاں صاحب کے اس طرزِ عمل سے قوم کو ان کا ماضی یاد آگیا۔ میاں صاحب کا دوسرا دور حکومت تھا اور میاں صاحب اندھا دھند نج کاری کی راہ پر دوڑتے ہوئے پاکستان اسٹیل ملز کو اونے پونے داموں فروخت کرنے کے لیے کوشاں تھے۔ انہی دنوں ہم نے ہفت روزہ فرائیڈے اسپیشل میں ایک کالم تحریر کیا۔ اس کالم میں ہم نے عرض کیا تھا کہ نج کاری کا عمل اتنا پراسرار ہے کہ اس سلسلے میں اصل خریدار کے بارے میں وثوق سے کچھ کہنا ممکن نہیں۔ معلوم نہیں اس کالم کے زیر اثر یا کسی اور سبب سے پاکستان اسٹیل کی نج کاری عدالت عظمیٰ میں چیلنج ہوگئی۔ تحقیقات کی گئیں تو معلوم ہوا کہ پاکستان اسٹیل ملز کو بظاہر کوئی اور پارٹی خرید رہی تھی مگر اس کا اصل خریدار بھارت کا مِتّل گروپ تھا۔ یہ حقیقت آشکار ہوئی تو عدالت عظمیٰ نے پاکستان اسٹیل ملز کی نج کاری کی راہ مسدودکی۔ اصولی اعتبار سے اس وقت اس امر کی بھی تحقیق ہونی چاہیے تھی کہ میاں صاحب کو اس بات کا علم تھا یا نہیں کہ پاکستان اسٹیل ملز کا اصل خریدار کون ہے؟ بھارت کے ساتھ میاں صاحب کے رابطے بہت گہرے ہیں اور میاں صاحب بھارت کے اس حد تک عاشق رہے ہیں کہ اندر کمار گجرال کے زمانے میں وہ رات بارہ بجے کے بعد بھی اندر کمار گجرال کو خواہ مخواہ فون کردیا کرتے تھے۔ پاک بھارت تعلقات کے پل کے نیچے سے بہت سا پانی بہہ گیا ہے مگر میاں صاحب بھارت کے سلسلے میں ’’بچپن کی محبت کو دل سے نہ جدا کرنا‘‘ کا راگ الاپے جارہے ہیں۔ بد قسمتی سے میاں صاحب کا یہ راگ یک طرفہ ہے اور بھارت کبھی بھی اسے ’’دوگانا‘‘ یا Duet نہیں بننے دے گا۔
بعض لوگ کہتے ہیں کہ میاں صاحب کا مسئلہ بھارت کی محبت نہیں بھارت کا خوف ہے اس بات میں ایک حد تک صداقت موجود ہے۔ اس لیے کہ میاں صاحب ہی نہیں ہمارے فوجی حکمران بھی بھارت کے خوف میں مبتلا رہے ہیں۔ ایک وقت تھا کہ جنرل پرویز مشرف ’’کارگل کے ہیرو‘‘ تھے لیکن پھر ایک وقت وہ بھی آیا کہ وہ صبح شام بھارت سے مذاکرات کی بھیک مانگنے لگے۔ امریکا کے دباؤ پر بھارت جنرل پرویز کے ساتھ مذاکرات پر آمادہ ہوا تو جنرل پرویز مشرف کی عقل ہی ماری گئی اور انہوں نے کشمیر کے اصولی حل پر اصرار کے بجائے کشمیر کے ایسے پانچ چھ حل پیش کردیے جو نہ پاکستانی قوم کے لیے قابل قبول تھے اور نہ کشمیریوں کے لیے۔ چناں چہ کشمیر کی تحریک آزادی کے رہنما اور عصری دنیا کے سب سے بڑے پاکستانی سید علی گیلانی نے ایک ملاقات میں جنرل پرویز مشرف سے احتجاج کیا تو جنرل پرویز غصے میں آگئے اور ملاقات درمیان ہی میں ختم ہوگئی۔ سید علی گیلانی کا مسئلہ یہ ہے کہ وہ بھارت میں رہ کر بھی پاکستان زندہ باد کہتے ہیں اور انہیں بھارت سے کوئی خوف نہیں۔ اس کے برعکس جنرل پرویز مشرف کا مسئلہ یہ تھا کہ وہ آزاد پاکستان کے حکمران ہو کر بھی بھارت سے خوف زدہ تھے۔ چناں چہ وہ کشمیر کا out of the box حل تلاش کرنے کے لیے کوشاں تھے اور سید علی گیلانی انہیں یاد دلارہے تھے کہ انہیں کشمیر کے سلسلے میں پاکستان اور کشمیریوں کے اصولی موقف سے دستبردار نہیں ہونا چاہیے۔ اگرچہ جنرل پرویز مشرف کشمیر کا کوئی بھی حل قبول کرنے پر آمادہ تھے مگر بھارت نے پاکستان کی ’’غیر اصولی پوزیشن‘‘ کو بھی قبول نہ کیا اور آگرہ میں ہونے والے مذاکرات آخری مرحلے میں ناکام ہوگئے۔
میاں صاحب اس سلسلے میں جنرل پرویز سے بھی زیادہ بری کارکردگی کا مظاہرہ کرچکے ہیں۔ انہوں نے واجپائی کو لاہور بلایا تھا مگر اعلان لاہور میں کشمیر کا ذِکر بھی موجود نہ تھا۔ بدقسمتی سے میاں صاحب ایک بار پھر پاکستان کے حکمران ہیں اور پاک بھارت تعلقات کو ایک ذاتی اور گھریلو مسئلہ بناتے ہوئے بھارت کے آگے سجدہ ریز ہوئے جارہے ہیں۔ میاں صاحب کا کیمپ اس سلسلے میں اس تاثر کو عام کرنے کے لیے کوشاں ہیں کہ اب پاک بھارت تعلقات کے سلسلے میں سول اور عسکری قیادت ایک صفحے پر موجود ہے۔ ہمیں نہیں معلوم کہ یہ بات درست ہے یا نہیں لیکن ایک بات ہمیں اچھی طرح معلوم ہے کہ سول حکمران ہو یا فوجی قیادت جو کوئی بھی بھارت کے آگے جھکے گا اور اس کے سامنے ہتھیار ڈالے گا وہ ایک دن میں پوری قوم کی نگاہ سے گر جائے گا اور قوم کا ہاتھ اس کے گریبان کی جانب ضرور بڑھے گا۔