اگر کسی شخص کو سرطان ہو جائے تو اس کے پورے وجود میں زلزلہ برپا ہو جاتا ہے۔ یہی نہیں اس کے متعلقین بھی لرز کر رہ جاتے ہیں۔ اس لیے کہ سرطان جان لیوا ہے۔ خیر سرطان تو بڑی بیماری ہے۔ بعض لوگ دس بارہ دن بخار میں مبتلا ہو کر بھی اس طرح واویلا کرنے لگتے ہیں جیسے اب ان کا انتقال ہونے ہی والا ہو۔ جسمانی بیماریوں کے سلسلے میں انسان کا مذکورہ بالا طرزِ عمل قابل فہم بات ہے۔ لیکن زندگی کا مشاہدہ اور تجربہ بتاتا ہے کہ انسان ’’جان لیوا‘‘ بیماریوں سے جس طرح پریشان ہوتا ہے روحانی اور اخلاقی یا ’’ایمان لیوا‘‘ بیماریوں پر اس طرح پریشان نہیں ہوتا، جس طرح وہ جسمانی یا جان لیوا بیماریوں پر پریشان ہوتا ہے، حالاں کہ جان جانے سے تو صرف دنیا ہی جاتی ہے لیکن ایمان جانے سے تو دنیا اور آخرت دونوں ہی ہاتھ سے نکلنے کا احتمال پیدا ہو جاتا ہے۔ لیکن انسان کا مسئلہ یہ ہے کہ وہ نقد کو دیکھتا ہے، اُدھار کو نہیں، اور دنیا نقد ہے اور آخرت اُدھار۔ چناں چہ انسان دنیا کو دیکھتا ہے آخرت کو نہیں۔ حالاں کہ آخرت کی زندگی کبھی نہ ختم ہونے والی زندگی ہے، لیکن یہاں سوال یہ ہے کہ روحانی بیماریوں سے کیا مراد ہے؟
ہمارے صوفیاء اور علماء نے روحانی یا قلبی بیماریوں کی ایک طویل فہرست مرتب کی ہوئی ہے۔ مثلاً غیبت، حسد، بغض، تکبر، جھوٹ، فریب وغیرہ۔ ہمارے زمانے میں یوں تو تمام روحانی بیماریاں ہی عام ہوگئی ہیں لیکن ان بیماریوں میں غیبت اور حسد اس لیے سر فہرست ہیں کہ مسلمانوں کی عظیم اکثریت غیبت اور حسد میں مبتلا ہے۔ لیکن ہم اپنے ایک کالم میں غیبت پر گفتگو کرچکے ہیں اس لیے آج غیبت پر بات نہیں ہوگی بلکہ آج کا موضوع حسد ہے اور حسد پر امام غزالیؒ نے جس طرح کلام کیا ہے کسی اور نے اس طرح کلام نہیں کیا۔ احیاء العلوم غزالی کی معرکہ آراء تصنیف ہے۔ اس کتاب میں غزالی نے حسد پر بہت تفصیل کے ساتھ بات کی ہے، چناں چہ حسد سے متعلق اس کالم میں آپ غزالی کے خیالات ملاحظہ کریں گے۔
غزالی کے مطابق حسد صرف نعمت اور عطائے خداوندی پر ہوتا ہے۔ اللہ تعالیٰ اپنے بندے پر جب کوئی انعام فرماتا ہے تو اس کے بھائی کی دو حالتیں ہوتی ہیں، ایک یہ کہ وہ اس نعمت کو نا پسند کرتا ہے اور اس کے زوال کی خواہش کرتا ہے، یہی حسد ہے۔ اس تفصیل کی رو سے حسد کی تعریف یہ ہوئی، نعمت کو ناپسند کرنا اور اس کے زوال کی خواہش کرنا۔ دوسری صورت یہ ہے کہ وہ اس نعمت کے زوال کی خواہش نہیں کرتا لیکن وہ یہ ضرور چاہتا ہے کہ اسے بھی ایسی ہی نعمت مل جائے۔ یہ عظیم ہے۔ رسول اکرمؐ نے فرمایا ہے: مومن غِطبہ کرتا ہے اور منافق حسد کرتا ہے۔ رسول اکرمؐ نے ایک حدیث شریف میں فرمایا ہے کہ حسد نیکیوں کو اس طرح کھا لیتا ہے جیسے آگ لکڑی کو کھالیتی ہے۔ چناں چہ رسول اللہ نے فرمایا ہے کہ آپس میں حسد نہ کرو، نہ ایک دوسرے سے ملنا چھوڑو۔ نہ باہم بغض رکھو، نہ ایک دوسرے سے منہ پھیرو اور اللہ کے بندے اور بھائی بن جاؤ۔
سیّدنا انسؓ روایت کرتے ہیں کہ ہم رسول اکرمؐ کی خدمت میں حاضر تھے، آپؐ نے فرمایا ابھی اس راستے سے تمہارے سامنے ایک جنتی آئے گا، اتنے میں ایک انصاری صحابی نمودار ہوئے، ان کے بائیں ہاتھ میں جوتے تھے اور ڈاڑھی سے پانی ٹپک رہا تھا۔ دوسرے دن بھی آپؐ نے اسی طرح فرمایا اور یہی صحابی سامنے آئے۔ تیسرے دن بھی یہی واقعہ ہوا۔ سیّدنا عبداللہ بن عمرو بن العاص نے ان انصاری صحابی کا پیچھا کیا اور ان سے کہا کہ میرا اپنے والدین سے اختلاف ہوگیا ہے اور میں نے قسم کھائی ہے کہ میں تین دن تک ان کے پاس نہ جاؤں گا۔ آپ اجازت دیں تو میں یہ تین دن آپ کے ساتھ بسر کرلوں۔ انصاری صحابی نے اجازت دے دی۔ سیّدنا عبداللہ تین دن ان کے ساتھ رہے اور انہوں نے دیکھا کہ وہ رات کو تھوڑی دیر کے لیے بھی نماز کی غرض سے نہیں اُٹھے۔ البتہ اس عرصے میں سیّدنا عبداللہ نے ان کی زبان سے خیر کے علاوہ کچھ نہ سنا۔ جب سیّدنا عبداللہ کو ان کے اعمال کے معمولی ہونے کا یقین ہوگیا تو انہوں نے انصاری صحابی سے کہا کہ میرا اپنے والدین سے کوئی اختلاف نہیں ہوا۔ میں نے آپ کے بارے میں رسول اللہ سے ایک بات سنی، اس لیے میں نے سوچا کہ آپ کے وہ اعمال تو دیکھوں جن کی بنیاد پر آپ کو دنیا ہی میں جنتی ہونے کی بشارت دی گئی۔ لیکن میں نے تین دنوں میں کوئی خاص عمل کرتے نہیں دیکھا پھر آپ اس درجے تک کیسے پہنچے۔ انہوں نے جواب دیا کہ میرے اعمال تو بس یہی ہیں جو تم نے دیکھے۔ جب سیّد عبداللہ جانے لگے تو انہوں نے آواز دے کر انہیں روکا اور کہا کہ میں نہ کسی سے اس لیے حسد کرتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ نے اسے نعمت دی ہے اور نہ کسی مسلمان کے لیے اپنے دل میں کدورت رکھتا ہوں۔ سیّدنا عبداللہ نے یہ سن کر کہا کہ انہی خوبیوں نے آپ کو اس درجے تک پہنچایا ہے۔
حسد کی طاقت اور ہلاکت کا اندازہ رسول اکرمؐ کے دو ارشادات سے بخوبی کیا جاسکتا ہے۔ رسول اکرمؐ نے فرمایا کہ قریب ہے کہ فقر کفر ہو جائے اور حسد تقدیر پر غالب آجائے۔ یعنی تقدیر کے لکھے کو غیر موثر کرکے حسد کرنے والے کی ایک نئی تقدیر لکھ ڈالے۔ ایک اور حدیث شریف میں رسول اللہ نے فرمایا ہے کہ کچھ لوگ حساب کتاب سے ایک سال پہلے دوزخ میں چلے جائیں گے۔ صحابہ نے پوچھا یا رسول اللہ وہ کون لوگ ہیں۔ رسول اللہ نے فرمایا امراء ظلم کی وجہ سے، عرب عصبیت کی وجہ سے، دہقان تکبر کی وجہ سے، تاجر خیانت کی وجہ سے اور علماء حسد کی وجہ سے۔
روایت میں ہے کہ سیّدنا موسیؑ ٰ اللہ تعالیٰ سے باتیں کرنے کے لیے طور پر گئے تو ایک آدمی کو عرش کے سائے میں دیکھا۔ آپ کو اس شخص کے مرتبے پر رشک آیا تو اللہ تعالیٰ سے کہا کہ مجھے اس آدمی کا نام بتایئے۔ اللہ تعالیٰ نے کہا نام کیا بتائیں تمہیں اس کے اعمال بتاتے ہیں۔ اس کا ایک عمل یہ ہے کہ یہ کسی سے حسد نہیں کرتا تھا، دوسرا عمل یہ ہے کہ یہ والدین کی نافرمانی نہیں کرتا تھا اور تیسرا عمل یہ ہے کہ چغل خور نہیں۔ سیّدنا زکریاؑ نے فرمایا ہے کہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ حاسد میری نعمت کا دشمن ہے، میرے فیصلے پر ناراض ہے، میری تقسیم سے ناخوش ہے۔ ایک بزرگ فرماتے ہیں کہ پہلا گناہ حسد کا گناہ تھا۔ ابلیس کو سیّدنا آدمؑ کے شرف اور رتبے سے حسد ہوا اور اس نے سجدہ کرنے سے انکار کردیا۔ حضرت حسن بصریؒ سے کسی نے پوچھا کہ کیا مومن حسد کرسکتا ہے؟ انہوں نے فرمایا کہ تم سیّدنا یعقوبؑ کے بیٹوں کا حال بھول گئے۔ مومن حسد کرتا ہے لیکن اسے چاہیے کہ وہ اپنے حاسدانہ خیالات کو اپنے پسینے میں مخفی رکھے۔ جب تک زبان اور ہاتھ سے ظلم و زیادتی نہیں ہوگی نقصان نہ ہوگا۔ سیّدنا حسن بصریؒ فرماتے ہیں۔ اے انسان اپنے بھائی سے حسد مت رکھ، اگر اللہ نے اسے اس کے فضائل کی بناء پر عطا کیا ہے تو تجھے اس شخص سے حسد نہ کرنا چاہیے، جسے اللہ نے عزت دی ہو اور اگر وہ ایسا نہیں ہے تو پھر تجھے جلنے کی کیا ضرورت ہے۔ اس کا ٹھکانہ جہنم ہے ہی۔ ایک بزرگ کا مقولہ ہے کہ حاسد اپنے ہم نشین سے ذلت، فرشتوں سے لعنت، مخلوق سے غم و غصہ، بہ وقت نزع سختی اور خوف اور قیامت کے دن عذاب کے علاوہ کچھ نہیں پاتا۔ سیّدنا امیر معاویہؓ نے فرمایا ہے کہ میں حاسد کے سوا سب کو خوش کرسکتا ہوں کیوں کہ حاسد زوال نعمت سے کم پر راضی نہیں ہوتا۔ کسی شاعر نے کہا ہے کہ (ترجمہ) ہر عداوت کے خاتمے کی توقع کی جاسکتی ہے، سوائے اس شخص کی عداوت کے جو حسد کی وجہ سے تمہارا دشمن ہو۔
رسول اکرمؐ کو اندیشہ تھا کہ اُمت مسلمہ حسد کی لعنت میں مبتلا ہوگی۔ چناں چہ آپؐ نے فرمایا کہ میری اُمت کو عن قریب دوسری قوموں کی بیماری لگ جائے گی۔ صحابہ نے عرض کیا، دوسری قوموں کی بیماری کیا ہے؟ تکبر، مال کی کثرت، دنیاوی اسباب میں مقابلہ آرائی، ایک دوسرے سے بعد، آپس میں حسد کرنا، یہاں تک کہ سرکشی ہو۔ پھر فتنہ پھیلے گا، ترمذی کی ایک حدیث شریف میں آیا ہے کہ اپنے بھائی کی مصیبت پر خوش نہ ہو، اللہ تعالیٰ اسے نجات دے دے گا اور تجھے اس مصیبت میں مبتلا کردے گا۔ ایک اور حدیث شریف میں آپؐ نے ارشاد فرمایا ہے کہ اپنی ضرورتیں پوری کرنے کے لیے خفیہ مدد چاہو کیوں کہ ہر نعمت والے سے حسد کیا جاتا ہے۔
ایک روایت میں آیا ہے کہ حسد اتنی عام بیماری ہے کہ اس سے اکثر لوگوں کا بچنا مشکل ہے، البتہ کچھ لوگ ایسے ہوتے ہیں جو حسد سے پاک ہوتے ہیں۔ قرآن مجید میں انصار کی خوبی بیان کرتے ہوئے کہا گیا ہے کہ مہاجرین کو جب کچھ ملتا ہے تو یہ یعنی انصار اپنے دلوں میں رشک نہیں پاتے۔
(جاری ہے)