ہمارا معاشرہ مدتوں سے بڑی باتوں اور چھوٹے عمل کا شکار ہے۔ اس فقرے کی تازہ ترین مثال چیف جسٹس آف پاکستان میاں ثاقب نثار کی وہ تقریر ہے جو چند روز پیش تر انہوں نے نامزد چیف جسٹس کی حیثیت سے لاہور میں کی تھی۔ اس تقریر میں جسٹس ثاقب نثار نے کہا ہے کہ ہم نہ خوف کا شکار ہوں گے نہ مصلحت کا۔ عدالتوں کا وقار بحال کریں گے۔ فیصلوں میں شفافیت نظر آئے گی۔ جسٹس صاحب نے سب سے اہم بات یہ کہی کہ دنیا کے فائدے کے لیے میں اپنی آخرت قربان نہیں کرسکتا۔ انہوں نے کہا کہ عدالتوں کو دباؤ میں لا کر فیصلے کرانے کی باتیں محض قیاس آرائیاں ہیں۔
معاشرے میں عدل کی اہمیت کو واضح کرنے کے لیے سیّدنا علیؓ نے فرمایا ہے کہ معاشرہ کفر کے ساتھ زندہ رہ سکتا ہے مگر عدل کے بغیر زندہ نہیں رہ سکتا۔ یہی وجہ ہے کہ اسلامی معاشرے میں عدل کے ادارے کو بنیادی اہمیت حاصل رہی ہے۔ لیکن ہماری قومی زندگی کی خرابیوں میں نظام عدل کی ابتری کا بنیادی کردار ہے۔ جسٹس نثار نے فرمایا ہے کہ ہم نہ خوف کا شکار ہوں گے نہ مصلحت کا۔ لیکن ہماری اعلیٰ عدالتیں تاریخ کے اکثر اہم مراحل میں خوف کا بھی شکار رہی ہیں اور مصلحت کا بھی۔ اس کا سب سے بڑا ثبوت اعلیٰ عدالتوں کا وہ نظریۂ ضرورت ہے جو فوجی آمروں کی مداخلت بیجا کو جواز مہیا کرنے کے لیے گھڑا گیا۔ پاکستان نظریۂ پاکستان، قائد اعظم کی بے مثال قیادت اور عوام کی عدیم النظیر جدوجہد کا حاصل ہے اور اس کی تخلیق میں جرنیلوں کا کیا فوج کے ادارے کا بھی کوئی کردار نہیں تھا۔ لیکن اس کے باوجود قائد اعظم کے انتقال کے بعد جرنیلوں نے پرپرزے نکالنے شروع کردیے تھے۔ اگرچہ جنرل ایوب نے 1958ء میں مارشل لا نافذ کیا لیکن چند سال پہلے سامنے آنے والے American Papers کے مطابق جنرل ایوب 1954ء سے امریکیوں کے ساتھ رابطے میں تھے اور وہ امریکیوں سے کہہ رہے تھے کہ سول قیادت ملک کو تباہ کررہی ہے اور جنرل ایوب امریکیوں کو باور کرا رہے تھے کہ فوج سول قیادت کو ایسا نہیں کرنے دے گی۔ چناں چہ انہوں نے 1958ء میں ملک کے سیاسی عدم استحکام کو جواز بنا کر ملک و قوم پر مارشل لا مسلط کردیا۔ یہ غیر آئینی اقدام تھا اور اعلیٰ عدلیہ کو اس کی مزاحمت کرنی چاہیے تھی مگر عدلیہ نظریۂ ضرورت ایجاد کرکے بیٹھ گئی۔ جنرل ضیاء الحق اور جنرل پرویز مشرف کا مارشل لا بھی بلا جواز تھا لیکن ملک کی اعلیٰ ترین عدالت نے جنرل ضیاء الحق اور جنرل پرویز مشرف کو بھی سزا سے بچالیا اور ان کے تمام غیر آئینی اقدامات کو تحفظ مہیا کردیا۔ ملک کی اعلیٰ ترین عدالت اگر نظریۂ ضرورت ایجاد نہ کرتی اور وہ فوجی آمروں کی مزاحمت کرتی تو ملک کی تاریخ مختلف ہوسکتی تھی۔ لیکن خوف اور مصلحت نے نظریۂ ضرورت کی تخلیق میں اہم کردار ادا کیا اور ملک کی تاریخ مسخ ہو کر رہ گئی۔ حالاں کہ اس زمانے کے جج صاحبان بھی یہی فرماتے تھے کہ ہم آزاد ہیں اور ہم خوف اور مصلحت کا شکار نہیں ہوں گے۔ لیکن مسئلہ صرف یہی نہیں ہے کہ ہماری اعلیٰ عدالتوں نے نظریۂ ضرورت کی تلوار سے عدل کو قتل کیا۔
وطن عزیز کی تاریخ میں یہ بھی ہوا کہ بے نظیر بھٹو اور میاں نواز شریف کی حکومتیں نااہلی اور بدعنوانی کے الزامات کے تحت برطرف ہوئیں۔ مگر عدالت عظمیٰ نے بے نظیر بھٹو کی حکومت کو بحال نہ کیا اور میاں نواز شریف کی حکومت کو بحال کردیا۔ حالاں کہ دونوں رہنماؤں پر ایک جیسے الزامات تھے۔ کہتے ہیں کہ قانون اندھا ہوتا ہے لیکن ہماری اعلیٰ ترین عدالت اندھی نہیں تھی، اس نے بے نظیر بھٹو اور میاں نواز شریف میں امتیاز کیا۔ اتفاق سے اس امتیاز کو روا رکھنے والے تمام جج مسلمان تھے، اگرچہ انہوں نے اعلان نہیں کیا تھا کہ ان کے لیے دنیا کے مقابلے میں آخرت اہم ہے مگر قیاس کیا جاسکتا ہے کہ ایک مسلمان کی حیثیت سے ان کا عقیدہ بھی وہی ہوگا جس کا اظہار جسٹس میاں ثاقب نثار صاحب نے کیا ہے۔
سپریم کورٹ آف پاکستان کی تاریخ میں جنرل مرزا اسلم بیگ کے مقدمے کی بھی ایک خاص اہمیت ہے۔ جنرل مرزا اسلم بیگ نے اپنے ایک بیان میں فرمایا تھا کہ وہ تاریخ کے ایک مرحلے پر اعلیٰ ترین عدالت کے فیصلے پر اثر انداز ہوئے۔ عدالت عظمیٰ نے جنرل مرزا اسلم بیگ کے اس بیان کو توہین عدالت کے طور پر لیا اور اس نے سابق آرمی چیف کو عدالت میں طلب کرلیا۔ لیکن عدالت عظمیٰ صرف جنرل صاحب کو اپنے روبرو طلب کرکے نہیں رہ گئی، اس نے جنرل صاحب پر مقدمہ چلایا اور فیصلہ دیا کہ جنرل مرزا اسلم بیگ توہین عدالت کے مرتکب ہوئے ہیں۔ اس فیصلے کا ناگزیر تقاضا یہ تھا کہ جنرل مرزا اسلم بیگ کو ان کے جرم کی سزا دی جائے تاہم عدالت نے جرم ثابت ہونے کے باوجود جنرل صاحب کو سزا دینے سے انکار کردیا اور کہا کہ جنرل مرزا اسلم بیگ کی سزا یہی ہے کہ اعلیٰ عدلیہ نے انہیں اپنے روبرو طلب کرلیا۔ اگر یہی بے خوفی اور مصلحت سے بے نیازی ہے تو جان خوف اور مصلحت کس چڑیا کے نام ہوں گے۔ گمشدہ افراد کا معاملہ تو حال ہی کی بات ہے، گمشدہ افراد کے متاثرین نے اس سلسلے میں کئی مقدمات درج کرائے ہوئے ہیں۔ ملک کی اعلیٰ ترین عدالت ان مقدمات کی کئی بار سماعت بھی کرچکی ہے اور سماعت کے دوران عدالت عظمیٰ کے جج کئی بار کہہ چکے ہیں کہ وہ کسی سے نہیں ڈرتے لیکن صورت حال یہ ہے کہ گمشدہ افراد ابھی تک گمشدہ ہیں اور ملک کے حساس یا بے حس اداروں کے اہلکاروں کو تاحال انصاف کے کٹہرے میں نہیں لایا جاسکا ہے۔ یہاں کہنے کی ایک بات یہ بھی ہے کہ گمشدہ افراد کے ورثاء یہ نہیں کہتے کہ گمشدہ افراد سے کوئی جرم سرزد نہیں ہوا۔ وہ یہ کہتے ہیں کہ ان سے جرم ہوا ہے تو انہیں عدالت میں پیش کرو اور ان پر کھلی عدالت میں مقدمہ چلاؤ۔ مقدمے کے نتیجے میں اگر گمشدہ افراد سزا کے مستحق ٹھیریں تو انہیں سزا دی جائے۔ لیکن گمشدہ افراد کے ورثاء کی اس بات کا اثر نہ بے حس اداروں پر ہوتا ہے نہ اعلیٰ عدلیہ پر۔ بلاشبہ اعلیٰ عدلیہ نے گمشدہ افراد کے مقدمات کی سماعت کی ہے مگر یہ سماعت ابھی تک کوہلو کے بیل کی طرح ایک دائرے میں گردش کیے چلی جارہی ہے۔ حالاں کہ اس سماعت کو اب تک نتیجہ خیز ہو جانا چاہیے تھا لیکن عدل کا مسئلہ صرف نظریۂ ضرورت اور بے حس المعروف حساس اداروں تک محدود نہیں۔
وطن عزیز میں عدل انتہائی مہنگا ہے۔ ہائی کورٹس اور سپریم کورٹ میں عدل لاکھوں خرچ کرکے ہی حاصل کیا جاسکتا ہے۔ ایک ایسے ملک میں جہاں 70 فی صد سے زیادہ آبادی یومیہ دو ڈالر سے بھی کم کماتی ہو وہاں لاکھوں کا عدل کون خریدے گا! لیکن وطن عزیز میں عدل صرف مہنگا ہی نہیں ہے عدل انتہائی سست رفتار بھی ہے۔ اتنا سست رفتار کے اس تک پہنچنے کے لیے آٹھ آٹھ، دس دس سال بلکہ اس سے بھی زیادہ عرصہ درکار ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہماری عدالتوں میں ہزاروں نہیں لاکھوں مقدمات زیر سماعت ہیں۔ عدل کے حوالے سے یہ امر کوئی راز نہیں کہ ہماری ماتحت عدالتوں میں انصاف فروخت ہوتا ہے اور کہنے والے یہ تک کہتے ہیں کہ ان عدالتوں سے انصاف کے حصول کے لیے وکیل کرنے سے بہتر یہ ہے کہ جج کرلیا جائے۔ اس صورت حال کے باوجود جج صاحبان اکثر اس بات کی شکایت کرتے نظر آتے ہیں کہ معاشرہ یا اشخاص ذرائع ابلاغ ان کی عزت نہیں کرتے۔ بلاشبہ ہمارے معاشرے اور ذرائع ابلاغ کی حالت اچھی نہیں۔ لیکن عدلیہ سے وابستہ افراد کو اس حقیقت کا ادراک کرنا چاہیے کہ عزت مانگنے سے نہیں ملتی۔ عزت بڑی بڑی باتیں کرنے سے بھی ہاتھ نہیں آتی۔ عزت کے حصول کا صرف ایک طریقہ ہے اور وہ یہ کہ انسان عمل کرکے دکھائے۔ اتفاق سے جسٹس میاں ثاقب نثار نے بھی بڑی بڑی باتیں تو بہت سی کر ڈالی ہیں مگر اب تک ان کا کوئی ایسا عمل سامنے نہیں آسکا ہے جسے دیکھ کر لوگ کہہ سکیں کہ جسٹس صاحب بڑی باتیں ہی نہیں کرتے بڑا اور کھرا عمل بھی پیش کرتے ہیں۔ جسٹس صاحب بڑی باتوں کے بعد بڑا عمل بھی پیش کریں گے تو ان کے کہے بغیر ہر طرف ان کا چرچا ہوگا۔ ورنہ لوگ کہیں گے ایک بار پھر بڑی باتوں اور چھوٹے عمل کا نمونہ ہمارے سامنے آگیا ہے۔