ڈاکٹر ذاکر نائیک ان دنوں سعودی عرب میں مقیم ہیں اور بھارت کا کہنا ہے کہ وہ عنقریب ڈاکٹر ذاکر نائیک کے ریڈ وارنٹ جاری کرکے انہیں انٹرپول کے ذریعے بھارت لائے گا۔ بھارت ایسا کرے گا یا نہیں، اس کا فیصلہ تو آنے والا وقت کرے گا، تاہم یہاں سوال یہ ہے کہ برطانیہ اور بھارت ڈاکٹر ذاکر نائیک سے خوفزدہ ہیں یا اسلام سے؟ اور ان کا اصل مسئلہ ڈاکٹر ذاکر نائیک کی شخصیت ہے یا اسلام؟ اس سلسلے میں ڈاکٹر ذاکر نائیک کے فکری کام کا تجزیہ ہمیں کئی اہم باتوں کو سمجھنے میں مدد دے سکتا ہے۔
ڈاکٹر ذاکر نائیک کا شعبہ تقابلِ ادیان ہے۔ تقابلِ ادیان کے ذریعے تمام ادیان ہم پلہ ہوکر سامنے آتے ہیں۔ یہ بات کسی بھی اسلام دشمن طاقت کے لیے قابلِ قبول نہیں ہوسکتی۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ تمام اسلام دشمن طاقتیں اسلام سے خوفزدہ ہیں اور وہ اسلام کو دہشت گردی، انتہا پسندی، تشدد، عسکریت پسندی، پسماندگی، تنگ نظری، جہالت، غیر عقلیت پسندی یا Irrationality، ماضی پرستی اور جدیدیت دشمنی کے ساتھ منسلک کرنا چاہتی ہیں۔ لیکن جب مذاہبِ عالم کا تقابل کیا جاتا ہے تو اسلام بھی عیسائیت، ہندو ازم، یہودیت اور بدھ ازم کی طرح کا ایک مذہب بن کر کھڑا ہوجاتا ہے، اور یہ بات کسی اسلام دشمن طاقت کے لیے قابلِ قبول نہیں ہوسکتی۔ تقابلِ ادیان کے نتیجے میں ادیان کی مماثلتیں سامنے آتی ہیں۔ اس عمل سے ظاہر ہوتا ہے کہ تمام مذاہب کی بنیاد توحید ہے۔ تمام مذاہب نبوت کے ادارے سے وابستہ ہیں۔ تمام ادیان وحی پر ایمان رکھتے ہیں۔ تمام مذاہب آخرت کے ماننے والے ہیں۔ تمام ادیان فرشتوں کے وجود کے قائل ہیں۔ تمام مذاہب اخلاقیات کے مطلق ہونے پر یقین رکھتے ہیں۔ اس سلسلے میں اسلام دشمن قوتوں کا مسئلہ یہ ہے کہ وہ اسلام کو “Abnormal” مذہب باور کرانا چاہتی ہیں۔ لیکن ادیان کی مماثلتوں سے اسلام دوسرے ادیان کی طرح ایک “Normal” مذہب بن کر سامنے آتا ہے۔ تقابلِ ادیان کا ایک پہلو یہ ہے کہ اس طریقۂ کار سے اسلام کی ’’فوقیت‘‘ ظاہر ہوتی ہے۔ تقابلِ ادیان سے معلوم ہوتا ہے کہ اگرچہ توحید تمام ادیان کا بنیادی تصور ہے لیکن مسلمانوں کے سوا تمام بڑے مذاہب بالخصوص عیسائیت، ہندو ازم اور یہودیت نے توحید کے اصول کو ترک کردیا ہے۔ عیسائیت نے نعوذباللہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو خدا کا بیٹا بنادیا۔ اس کے ساتھ ساتھ عیسائیوں نے حضرت عیسیٰ اور روح القدس کو خدا کی خدائی میں شریک کردیا۔ ہندوؤں نے بھی توحید کو ایک طرح کی تثلیث میں ڈھال لیا۔ ہندوؤں کا عقیدہ ہے کہ برہما ہے جس نے کائنات بنائی ہے، وشنو ہے جو کائنات کو چلا رہا ہے، اور شیو ہے جو بالآخر کائنات کا خاتمہ کرے گا۔ تقابلِ ادیان سے صرف توحید کے حوالے سے ہی ادیان کے امتیازات عیاں نہیں ہوتے، تقابلِ ادیان سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ اسلام کے سوا تمام ادیان لادینیت یا سیکولرازم کے آگے ہتھیار ڈال چکے ہیں۔ چنانچہ عیسائیوں کے لیے عیسائیت اور ہندوؤں کے لیے ہندو ازم اب ایک انفرادی چیز ہے، اس کا ریاست اور سیاست سے کوئی تعلق نہیں۔ اس کے برعکس اسلام انفرادی ہی نہیں اجتماعی زندگی میں بھی پوری طرح دخیل ہے۔ اس کا اصرار ہے کہ صرف نماز اور روزے کے دائرے میں نہیں سیاست، معیشت اور ثقافت کے دائرے میں بھی اسلام کی بالادستی کو تسلیم کرنا ہوگا۔ اس تناظر میں دیکھا جائے تو تقابلِ ادیان سے اسلام کی ’’کافیت‘‘ یا Adequacy، اور دیگر ادیان کی ’’ناکافیت‘‘ یا In-adequacy نمایاں ہوکر سامنے آتی ہے۔ اس صورت حال میں اسلام ایک ’’حقیقی مذہب‘‘ اور ’’زندہ دین‘‘ بن کر سامنے آتا ہے اور ہر سعید روح کو متاثر کرتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ڈاکٹر ذاکر نائیک جہاں لیکچر دیتے ہیں، جہاں ادیان کا تقابل کرتے ہیں دوچار ہندو یا عیسائی مشرف بہ اسلام ضرور ہوتے ہیں۔ اس منظرنامے میں ڈاکٹر ذاکر نائیک کی ’’علمیت‘‘ خطرناک بلکہ تباہ کن بن کر سامنے آئی ہے اور اسلام دشمن طاقتیں اسے کسی طرح بھی قبول نہیں کرسکتیں۔
دس بارہ سال پہلے تہران میں ایک کانفرنس کے موقع پر ہماری ملاقات ڈاکٹر ذاکر نائیک کے والد سے ہوئی تھی تو ہم نے اُن سے عرض کیا تھا کہ ڈاکٹر صاحب جو کام کررہے ہیں وہ بھارت کے بالائی طبقات کے لیے کسی طرح بھی قابلِ قبول نہیں ہوسکتا، چنانچہ وہ آج نہیں تو کل ڈاکٹر صاحب کی جان کے درپے ہوسکتے ہیں، یہ نہیں تو وہ ڈاکٹر صاحب کا ناطقہ ضرور بند کرسکتے ہیں۔
ڈاکٹر ذاکر نائیک کی ایک اہلیت مناظرے سے متعلق ہے۔ مناظرہ ایک طرح کی علمی کُشتی ہے اور بلاشبہ ڈاکٹر ذاکر نائیک بہترین مناظرہ باز ہیں۔ ہم نے اب تک اُن کے جتنے مناظرے دیکھے ہیں ان میں انہوں نے اپنے حریفوں کے چھکے چھڑا دیے۔ لیکن مناظرے کے سلسلے میں ڈاکٹر ذاکر نائیک کی اہلیت صرف ان کی ذاتی اہلیت نہیں ہے۔ اس کی پشت پر اسلام کی حقانیت کھڑی ہوئی ہے۔ مناظرے میں ڈاکٹر ذاکر نائیک ’’کمزور فریق‘‘ کا نہیں، طاقت ور فریق کا دفاع کرتے ہیں، یہی وجہ ہے کہ وہ ہر مناظرہ جیت جاتے ہیں، اور یہ بات نہ عیسائی دنیا کے لیے قابلِ قبول ہوسکتی ہے اور نہ ہندو دنیا کے لیے۔ آخر عیسائی دنیا اور ہندو ذہن اسلام کو معلومات، علم اور دلیل کی بنیاد پر کس طرح فتح مند ہوتے ہوئے دیکھ سکتا ہے؟ اس تناظر میں دیکھا جائے تو اصل مسئلہ ڈاکٹر ذاکر نائیک کا نہیں ہے، اصل مسئلہ اسلام کا ہے۔ برطانیہ اور بھارت ڈاکٹر ذاکر نائیک سے نہیں اسلام سے خوفزدہ ہیں۔ لیکن عصر حاضر میں اسلام اور باطل قوتوں کے باہمی تعلق کی بھی ایک تاریخ ہے۔
آج سے 80،90 سال پہلے دنیا کے دانشور کہا کرتے تھے کہ بلاشبہ اسلام ایک بڑا مذہب ہے اور اس کے پیروکاروں کی تعداد کروڑوں میں ہے، لیکن اسلام اب دنیا میں کوئی تغیر برپا کرنے والی قوت نہیں۔ اسلام دنیا کو جو کچھ دے سکتا تھا، دے چکا، اور اب اس کے پاس دنیا کو دینے کے لیے کچھ نہیں ہے۔ لیکن بیسویں صدی کے وسط تک آتے آتے برصغیر میں یہ صورت حال پیدا ہوئی کہ برصغیر کی ملتِ اسلامیہ نے اسلام کو اصولِ حرکت بنالیا اور اس نے کہا کہ اسے اسلام کے نام پر اور اسلام کے لیے ایک علیحدہ مملکت درکار ہے۔ برصغیر کی ملتِ اسلامیہ نے صرف یہ مطالبہ کرنے پر اکتفا نہ کیا بلکہ اس نے ایک قلیل مدت میں اپنے لیے پاکستان کے نام سے دنیا کی سب سے بڑی اسلامی مملکت حاصل بھی کرلی۔ اس سے قبل برصغیر میں اقبال کی شاعری تخلیق ہوچکی تھی جو اسلام اور اسلامی تہذیب کے ’’امکانات‘‘ کو ظاہر کرچکی تھی۔ لیکن ایران میں انقلاب ایک ایسا تجربہ تھا جس نے ایک جدید معاشرے کو دیکھتے ہی دیکھتے روایتی معاشرہ بنا کر کھڑا کردیا۔ بلاشبہ ایران کا انقلاب ایک شیعہ انقلاب تھا، مگر شیعہ سنّی کی تفریق مسلمانوں کا داخلی معاملہ ہے۔ مغرب اور دیگر مسلم دشمن طاقتوں نے اسے ایک مذہبی تجربے کے طور پر دیکھا اور اُن کو محسوس ہوا کہ اسلام بیسویں صدی میں بھی سیاسی بندوبست کو تہہ و بالا کرنے اور ایک نیا منظر تخلیق کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ لیکن انہوں نے ایران کے انقلاب کو ملاّؤں کا انقلاب قرار دیا اور کہا کہ اسلام صرف طاقت کے ذریعے اقتدار پر قبضہ کرسکتا ہے۔ لیکن مولانا مودودیؒ ، سید قطب شہید اور حسن البناؒ کی فکر سے متاثر اسلامی تحریکوں نے یکے بعد دیگرے سیاسی محاذوں کو فتح کیا۔ الجزائر میں اسلامی فرنٹ انتخابات کے پہلے مرحلے میں دو تہائی اکثریت سے کامیاب ہوا، لیکن مغرب نے الجزائر کی فوج کے ذریعے اس جمہوری انقلاب کو کچل دیا۔ ترکی میں نجم الدین اربکان کی حکومت کو ایک سال سے زیادہ نہیں چلنے دیا گیا۔ فلسطین میں حماس نے انتخابی معرکہ سر کیا مگر مغرب نے حماس کی جمہوری کامیابی کو تسلیم کرنے سے انکار کردیا۔ یہاں تک کہ مصر میں صدر مرسی کی حکومت پر دن دہاڑے حملہ کیا گیا۔ ترکی میں رجب طیب اردوان کا معاملہ پوری دنیا کے سامنے ہے۔ رجب طیب اردوان ترکی کے سیکولر آئین کو تسلیم کرتے ہیں لیکن وہ انفرادی زندگی کے دائرے میں اسلام پر عمل کرنے والے ہیں، چنانچہ امریکہ فتح اللہ گولن اینڈ کمپنی کے ذریعے رات دن سازشوں میں مصروف ہے۔ ترکی میں مسلسل بم دھماکے ہورہے ہیں۔ کبھی روس کا طیارہ گروا دیا جاتا ہے اور کبھی روس کے سفیر کو قتل کرادیا جاتا ہے۔ ایک زمانہ تھا کہ امریکہ اور اُس کے اتحادیوں کا ہدف اسامہ بن لادن اور ملاّ عمر تھے۔ امریکہ کہتا تھا یہ انتہا پسند ہیں، یہ دہشت گرد ہیں اور ہم ان کا ناطقہ بند کرکے رہیں گے۔ لیکن اب امریکہ اور اُس کے اتحادی رجب طیب اردوان کا کیا ڈاکٹر ذاکر نائیک جیسے اسکالر کا بھی ناطقہ بند کرنے پر تلے ہوئے ہیں، حالانکہ رجب طیب اردوان ابھی تک ’’کھلے اسلامسٹ‘‘ نہیں ہیں اور ڈاکٹر ذاکر نائیک صرف تقابلِ ادیان کے ایک اسکالر ہیں۔ ان کے پاس نہ حکومت ہے، نہ ان کے ہاتھ میں کوئی ہتھیار ہے، اور نہ ہی وہ امریکہ، یورپ اور بھارت کے خلاف کوئی جہاد کررہے ہیں۔