۔’’اقلیتوں کے حقوق کا تحفظ یقینی بنایا جائے گا۔ وہ دن دور نہیں جب پاکستان کو عالمی سطح پر اقلیت دوست ملک کے طور پر پہچانا جائے گا‘‘۔ انہوں نے کہا کہ ’’میں صرف مسلمانوں کا نہیں پورے پاکستان کا وزیراعظم ہوں۔ پگڑی والے ہوں یا ننگے سر۔۔۔ داڑھی والے ہوں یا بغیر داڑھی والے۔۔۔ مسلمان ہوں یا غیر مسلم سب کی خوشیوں میں شریک ہوتا ہوں۔ اقلیتوں کو مساوی حقوق دینا ہمارے ایمان کا حصہ ہے‘‘۔ انہوں نے فرمایا: ’’مذہب سب کا اپنا اپنا، لیکن انسانیت مشترکہ اثاثہ ہے۔‘‘
میاں صاحب نے اس موقع پر مسلم صوفیوں کی روایات اور ان کی وسیع المشربی کا بھی ذکر کیا۔ ہمیں اچھی طرح یاد ہے کہ میاں صاحب اس سے قبل ہولی کھیلنے کی خواہش کا اظہار بھی فرما چکے ہیں اورکہہ چکے ہیں کہ ان کا دل چاہتا ہے کہ کوئی ان پر بھی رنگ پھینکے۔ اطلاعات کے مطابق میاں صاحب نے مذکورہ تقریب سے خطاب کرتے ہوئے جب یہ فرمایا کہ وہ پورے پاکستان کے وزیراعظم ہیں تو انہوں نے ’پورے پاکستان‘ کی وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ وہ ہندوؤں، سکھوں، عیسائیوں، پارسیوں اور بہائیوں کے بھی وزیراعظم ہیں اور ان کی نظر میں تمام مذاہب کے لوگ برابر ہیں۔ مبصرین نے اس سلسلے میں یہ بات نوٹ کی کہ میاں صاحب اپنے خطاب میں قادیانیوں کو بھول گئے۔ اس سے یقیناًقادیانیوں کے دل ٹوٹے ہوں گے لیکن انہیں خاطر جمع رکھنی چاہیے۔ میاں صاحب آئندہ کسی خطاب میں انہیں بھی مسلمانوں کے برابر قرار دے دیں گے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ یہاں اصل میں بحث کا نکتہ کیا ہے؟
میاں صاحب کے ایک دو نہیں، کئی سیاسی حریف اُن پر اعتراض کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ وہ صوبائی معنوں میں پورے پاکستان کے وزیراعظم نہیں ہیں، وہ صرف پنجاب کے وزیراعظم ہیں۔ چنانچہ ان کی ساری توجہ پنجاب پر ہے۔ وہ زیادہ وقت پنجاب میں گزارتے ہیں، پنجاب کے علاقوں کا دورہ کرتے ہیں، یہاں تک کہ انہوں نے سی پیک کو بھی پنجاب مرکز یا Panjab Centric منصوبہ بنادیا ہے۔ میاں صاحب کے بعض سیاسی حریف کہتے ہیں کہ وہ پورے پنجاب کے بھی وزیراعظم نہیں ہیں بلکہ ان کی توجہ صرف پنجاب کے مخصوص علاقے تک محدود ہے۔ کچھ لوگ اس سلسلے میں مزید آگے جاتے ہیں اور کہتے ہیں کہ میاں صاحب صرف لاہور کے وزیراعظم ہیں۔ اس کا ثبوت یہ ہے کہ میاں صاحب اور اُن کے برادرِ خورد میاں شہبازشریف پنجاب کے بیشتر ترقیاتی فنڈ لاہور کی ترقی پر خرچ کررہے ہیں۔ لیکن یہ تو بحث کا محض ایک پہلو ہے۔
پاکستان میں آئینی اعتبار سے اقلیتوں کے لیے جداگانہ انتخاب کا طریقۂ کار موجود ہے، چنانچہ وطنِ عزیز میں پاکستان کا وزیراعظم بنیادی طور پر مسلمانوں کے ووٹ سے منتخب ہوتا ہے۔ اس اعتبار سے میاں صاحب پورے پاکستان کے مسلمانوں کی اکثریت کے وزیراعظم ہیں۔ لیکن میاں صاحب کا مسئلہ یہ ہے کہ وہ اقلیتوں کے کیا، حقیقی معنوں میں مسلمانوں کے بھی وزیراعظم نہیں ہیں۔ لیکن اس دلیل کی تفصیل کیا ہے؟
اس دلیل کی تفصیل یہ ہے کہ ایک سروے کے مطابق پاکستان کے 87 فیصد لوگ ملک میں قرآن و سنت کی بالادستی چاہتے ہیں۔ پاکستان کا آئین ملک میں قرآن و سنت کی بالادستی کا تصور پیش کرتے ہوئے اس کی مکمل تائید کرتا ہے۔ میاں صاحب تیسری بار ملک کے وزیراعظم بنے ہیں لیکن انہوں نے ملک میں قرآن و سنت کی بالادستی کو یقینی بنانے کے لیے معمولی سی کوشش بھی نہیں کی۔ مثال کے طور پر ایک اسلامی ریاست کے حکمران کی بنیادی ذمے داری یہ ہے کہ وہ امربالمعروف اور نہی عن المنکر کا پاسدار اور پاسبان بن کر سامنے آئے۔ لیکن میاں صاحب ذرا بتائیں کہ انہوں نے اسلامی جمہوریہ پاکستان میں نیکیوں کے فروغ اور برائیوں کے سدباب کے لیے کیا کیا ہے؟ اسلامی ریاست کا ایک بنیادی تقاضا یہ ہے کہ حکمران ملک میں نظام صلوٰۃ قائم کریں۔ میاں صاحب بتائیں کہ انہوں نے اس ضمن میں کیا کیا ہے؟ اسلامی معاشرے کی ایک بنیادی ضرورت سستے بلکہ مفت اور فوری نظامِ انصاف کی راہ ہموارکرنا ہے۔ میاں صاحب قوم کو بتائیں کہ انہوں نے اس ضمن میں اب تک کیا کیا ہے؟ قرآن کہتا ہے کہ سود اللہ اور اس کے رسولؐ کے خلاف اعلانِ جنگ ہے۔ لیکن اسلامی جمہوریہ پاکستان کا معاملہ یہ ہے کہ یہاں ریاست سودی نظام کے خاتمے کے عدالتی فیصلے کے خلاف اپیل کیے کھڑی ہے۔ میاں صاحب کا فرض یہ ہے کہ وہ سودی نظام کو فوری طور پر ختم کریں۔ میاں صاحب بتائیں کہ انہوں نے اس دائرے میں اب تک کیا کیا ہے؟ اسلام کہتا ہے کہ اسلامی ریاست کے نظام تعلیم کو اسلامی خطوط پر استوار ہونا چاہیے۔ میاں صاحب فرمائیں کہ انہوں نے ملک کے تعلیمی نظام کو مشرف بہ اسلام کرنے کے لیے اب تک کیا کیا ہے؟ ان تمام سوالات کا ایک ہی جواب ہے: اسلام کی بالادستی کے ضمن میں میاں صاحب کی کارکردگی ایک بہت بڑے زیرو کے سوا کچھ نہیں۔ ان حقائق سے ثابت ہوتا ہے کہ میاں صاحب مسلمان ہونے کے باوجود حقیقی معنوں میں مسلمانوں کے وزیراعظم بھی نہیں ہیں۔ چنانچہ میاں صاحب اقلیتوں کے وزیراعظم بننے کا شوق پورا کرنے سے پہلے اکثریت کے وزیراعظم بننے کے تقاضے تو پورے کرلیں۔
میاں صاحب نے اپنے مذکورہ خطاب میں ایک بات یہ بھی فرمائی کہ اللہ تعالیٰ رب المسلمین نہیں ہے بلکہ وہ رب العالمین یعنی تمام عالموں کا رب ہے ۔ بلاشبہ اللہ تعالیٰ تمام عالموں کا رب ہے۔ یہاں تک کہ وہ ابلیس کا بھی رب ہے۔ مگر اللہ تعالیٰ ابلیس کا صرف رب ہے، وہ ابلیس کو پسند نہیں کرتا۔ چنانچہ روایات میں آیا ہے کہ ابلیس جہنم کے بدترین مقام پر ہوگا۔ بلاشبہ اللہ تعالیٰ کافروں اور مشرکوں کا بھی رب ہے۔ وہ ان سب کی ضرورتیں پوری کرتا ہے، لیکن وہ کفر اور شرک کو عظیم ترین گناہ قرار دیتا ہے اور اس نے قرآن مجید میں صاف کہا ہے کہ اس نے انسانوں کے لیے اسلام کو پسند فرما لیا ہے۔ میاں صاحب مسلمانوں اور ہندوؤں، عیسائیوں، سکھوں اور بہائیوں کو ’’مساوی‘‘ قرار دے رہے ہیں اور اسلام صاف کہتا ہے کہ ایمان رکھنے والے اور کافر برابر نہیں ہوسکتے۔ علم رکھنے والے اور علم نہ رکھنے والے ہم پلہ نہیں ہوسکتے۔ اس لیے نجات صرف اہلِ ایمان کے لیے ہے۔ کافر اور مشرک کے لیے نہیں ہے۔ چنانچہ مسلمانوں اور کافروں اور مشرکوں کو ’’مساوی‘‘ قرار دینے کا میاں صاحب کا دعویٰ باطل اور خلافِ اسلام ہے۔ برابری کا تصور جمہوریت سے آیا ہے۔ جمہوریت کہتی ہے کہ امام غزالی اور ایک جاہل برابر ہیں کیونکہ دونوں کا ایک ایک ووٹ ہے۔ لیکن بدقسمتی سے میاں صاحب تو جمہوریت پسند بھی نہیں ہیں۔ ہوتے تو وہ ن لیگ میں حقیقی انتخابات اور جمہوریت کی راہ ہموار کرتے۔ سوال یہ ہے کہ اگر میاں نوازشریف اور چودھری نثار بھی برابر نہیں تو اہلِ ایمان اور کافر، اہلِ ایمان اور مشرک کیسے برابر ہوسکتے ہیں؟ میاں صاحب اپنی لاعلمی کی وجہ سے ایسی باتوں کو ’’انسانیت کی محبت‘‘ سمجھتے ہیں، لیکن ایسی انسانیت جو ایمان اورکفر کے فرق کو نہ پہچانے وہ جعلی انسانیت ہے۔
میاں صاحب نے اپنے خطاب میں فرمایا ہے کہ مذہب سب کا اپنا اپنا لیکن انسانیت مشترکہ اثاثہ ہے۔ میاں صاحب کی اطلاع کے لیے عرض ہے کہ اسلام ایک کامل دین اور ایک مکمل ضابطۂ حیات ہے، اور اس کے پاس کامل انسانیت بھی موجود ہے، چنانچہ اسلام کے ہوتے ہوئے کسی دوسرے مذہب اور اس کی انسانیت کی مسلمانوں کو کوئی ضرورت ہی نہیں ہے۔ چنانچہ جو شخص بیک وقت تمام مذاہب کو درست سمجھتا ہو وہ اسلام اور امت کے اجماع کی روشنی میں صحیح الدماغ نہیں ہے۔ بلاشبہ اسلام اہلِ کتاب سے کہتا ہے آؤ ان باتوں پر متحد ہوجاتے ہیں جو ہمارے اور تمہارے درمیان مشترک ہیں۔ مگر تمام ادیان کے مابین جو امور مشترک ہیں ان میں سے ایک توحید ہے، دوسرا رسالت ہے، تیسرا وحی ہے۔ لیکن مسئلہ یہ ہے کہ مسلمانوں کے سوا تمام مذاہب نے توحید کو مسخ کردیا ہے۔ رسالت کے سلسلے میں مسلمانوں کی فوقیت یہ ہے کہ وہ تمام انبیاء پر ایمان رکھتے ہیں مگر یہودی اور عیسائی رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو نبی ہی نہیں مانتے۔ چونکہ اُن کے نزدیک رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نبی ہی نہیں ہیں اس لیے وہ قرآن مجید کو وحی کے تصور سے منسلک بھی نہیں کرتے۔ سوال یہ ہے کہ جب ادیان کے مابین اتنی بڑی بڑی باتوں پر اتفاق نہیں تو مجرد انسانیت ان کے درمیان کیسے مشترک ہوسکتی ہے؟
میاں صاحب نے اپنے خطاب میں صوفیانہ فکر سے اپنے شغف کو نمایاں کیا ہے۔ حضرت مجدد الف ثانیؒ کا معاملہ یہ ہے کہ وہ صوفیوں کے صوفی اور عالموں کے عالم ہیں اور انہیں ہزار سال کی اہم ترین شخصیت قرار دیا گیا ہے۔ چنانچہ آیئے دیکھتے ہیں کہ وہ مسلمانوں اور دیگر مذاہب کے ماننے والوں کو کتنا ’’مساوی‘‘ سمجھتے ہیں۔
مجدد الف ثانیؒ نے اپنے ایک مکتوب میں لکھا ہے:
’’سید البشر صلی اللہ علیہ وسلم کی تصدیق کرنے والے تمام امتوں سے بہتر ہیں۔۔۔ اور حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو جھٹلانے والے سب بنی آدم سے بدتر ہیں۔‘‘
(مکتوبات امام ربانی۔ جلد اول، صفحہ 110)
حضرت مجدد الف ثانیؒ کی اس بات کا مفہوم عیاں ہے۔ مسلمان اور کافر و مشرک مساوی نہیں ہیں۔ مسلمان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تصدیق کرنے والے ہیں، اس لیے وہ تمام امتوں سے بہتر ہیں۔ اور یہودی، عیسائی اور ہندو رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی تصدیق کرنے والے نہیں ہیں، اس لیے وہ سب بنی آدم میں بدتر ہیں۔ حضرت مجدد الف ثانیؒ اپنے ایک اور مکتوب میں لکھتے ہیں:
’’حق تعالیٰ اپنے حبیب علیہ الصلوٰۃ والسلام کو فرماتا ہے کہ اے نبی کافروں اور منافقوں سے جہاد کرو۔ پس جب اپنے پیغمبر کو جو خلقِ عظیم سے موصوف ہے، کفار کے ساتھ جہاد کرنے اور ان پر سختی کرنے کا حکم فرمایا تو معلوم ہوا کہ ان پر سختی کرنا خلقِ عظیم میں داخل ہے۔ پس اسلام کی عزت کفر اور کافروں کی خواری میں ہے۔ جس نے اہلِ کفر کو عزیز رکھا اُس نے اہلِِ اسلام کو خوار کیا۔ ان کو عزیز رکھنے سے یہ مراد نہیں کہ صرف ان کی تعظیم کریں اور بلند بٹھائیں، بلکہ اپنی مجلسوں میں جگہ دینا اور ان کی ہم نشینی کرنا اور ان کے ساتھ گفتگو کرنا سب اعزاز میں داخل ہے۔ کتوں کی طرح ان کو دور کرنا چاہیے۔۔۔ حق تعالیٰ نے اہلِ کفر کو اپنا اور اپنے پیغمبر کا دشمن فرمایا ہے۔ پس ان خدا اور رسولؐ کے دشمنوں کے ساتھ ملنا جلنا اور محبت کرنا بڑا بھاری گناہ ہے۔۔۔ خدا کے دشمنوں کے ساتھ دوستی و الفت کرنا خدا تعالیٰ اور اس کے پیغمبر علیہ الصلوٰۃ والسلام کی دشمنی تک پہنچا دیتا ہے۔۔۔ ہندوستان میں اہل کفر سے جزیہ دور ہونے کا باعث یہی ہے کہ اہلِ کفر اس ملک کے (مسلمان) بادشاہوں کے ساتھ ہم نشین ہیں۔ ان سے جزیہ لینے کا اصل مقصود ان کی ذلت و خواری ہے۔ اور یہ خواری اس حد تک ہے کہ جزیے کے ڈر سے اچھے کپڑے نہ پہن سکیں اور شان و شوکت سے نہ رہ سکیں۔۔۔ حق تعالیٰ نے جزیہ کو کفار کی خواری کے لیے وضع کیا ہے۔ اس سے مقصود ان کی رسوائی اور اہلِ اسلام کی عزت اور غلبہ ہے۔۔۔ اہلِ کفر کے ساتھ بغض و عناد رکھنا دولتِ اسلام کے حاصل ہونے کی علامت ہے۔‘‘
(مکتوبات امام ربانی۔ جلد اول، صفحہ 276،277 )
میاں نوازشریف، ان کے حواریوں اور ان کے ہم خیالوں سے عرض ہے کہ وہ حضرت مجدد الف ثانیؒ کے ان ارشادات کی روشنی میں اپنے خیالات کا جائزہ لیں اور دیکھیں کہ وہ صراط مستقیم
(باقی صفحہ 41)
پر چل رہے ہیں یا ایسے راستے پر گامزن ہیں جس کا اسلام کے حقیقی تصور سے کوئی علاقہ نہیں۔ لیکن میاں صاحب کا کیا ہے، وہ تو مجدد الف ثانیؒ کو بھی اسلام سکھا سکتے ہیں۔ لیکن انہیں یاد رکھنا چاہیے کہ اہلِ ایمان اور اہلِ کفر کے امتیازات کا خیال صرف حضرت مجدد الف ثانیؒ کے یہاں ہی موجود نہیں۔ مولانا روم ؒ کا ایک شعر ہے:
مصلحت در دینِ ما جنگ و شکوہ
مصلحت در دین عیسیٰ غار و کوہ
یعنی رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے دین کی مصلحت جنگ و شکوہ ہے اور حضرت عیسیٰ کے دین کی مصلحت غاروکوہ یعنی ترکِ دنیا ہے۔ سوال یہ ہے کہ اگر رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے دین کی مصلحت جہاد اور شکوہ ہے تو یہ جہاد کس کے خلاف ہوگا؟ مسلمانوں کے خلاف یا کافروں اور مشرکوں کے خلاف؟