بڑی طاقتوں کا عروج و زوال تاریخ کے ’’معمولات‘‘ کا حصہ ہے۔ لیکن تاریخ کا تجربہ بتاتا ہے کہ جب کوئی قوم عروج پر چلی جاتی ہے تو اس قوم کو ہی نہیں، اس کے حریفوں کو بھی ایسا محسوس ہونے لگتا ہے کہ اب اس قوم کو کبھی زوال لاحق نہیں ہوگا۔ انگریزوں کا عالمگیر غلبہ تاریخ کا ’’حالیہ تجربہ‘‘ ہے۔ یہ غلبہ اتنا غیر معمولی تھا کہ سرسید اور ان کے جیسے نفسیاتی اور ذہنی سانچے کے لوگ انگریزوں کے ’’عاشق‘‘ بن گئے۔ سرسید کو محسوس ہوا کہ انگریزوں سے زیادہ عظیم اور مہذب قوم انسانی تاریخ میں نہیں گزری۔ سرسید کا خیال تھا کہ انگریزوں کا مذہب، ان کی تہذیب، ان کے علوم و فنون، ان کی سائنس، ان کی ٹیکنالوجی، ان کی سیاست، ان کا رہن سہن، ان کے طور طریقے غرضیکہ ہر چیز بے مثال اور لائقِ تقلید ہے۔ سرسید نے کہیں لکھا نہیں لیکن اُن کے طرزِ فکر و عمل سے صاف ظاہر تھا کہ انھیں یقین تھا کہ انگریزوں کا غلبہ دائمی ہے۔ انگریز آگئے ہیں اور اب وہ قیامت تک واپس نہیں جائیں گے۔
سرسید کو اگر محسوس ہوتا کہ انگریزوں کا غلبہ عارضی ہے تو وہ انگریزوں کے آگے ہتھیار تو ڈالتے مگر انہیں اپنا ’’محبوب‘‘ نہ بناتے۔ لیکن یہ مسئلہ سرسید تک محدود نہ تھا۔ اکبر الٰہ آبادی انگریزوں کی تہذیب کے سخت خلاف تھے اور انہوں نے اپنی شاعری میں مغربی اور اسلامی تہذیبوں کو باہم ٹکرا کر دکھایا ہے اور مغربی تہذیب پر اسلامی تہذیب کی فوقیت ثابت کی ہے، مگر اکبر بھی یہی سمجھتے تھے کہ انگریزوں کا اقتدار اور غلبہ عارضی نہیں دائمی ہے۔ یہی معاملہ اُس وقت کے اکثر علماء کا تھا۔ علماء کو اسلام اور اسلامی تہذیب سے شدید محبت تھی مگر وہ بھی اس نتیجے پر پہنچ گئے تھے کہ اب اسلام عقائد، عبادات اور اخلاقیات تک محدود ہوگا۔ ریاست اور سیاست کے معاملات سے اس کا کوئی تعلق نہ ہوگا۔ علماء کو محسوس ہورہا تھا کہ مغربی تہذیب کا غلبہ بڑھتا چلا جائے گا اور ایک وقت ایسا آئے گا کہ اسلامی تہذیب بقا کے مسئلے سے دوچار ہوجائے گی۔ چنانچہ انھوں نے اپنی مدد آپ کے اصول کے تحت پورے برصغیر میں مدارس کا جال بچھادیا۔ لیکن ان مدارس کی نوعیت اقدامی نہیں دفاعی تھی۔ انسان اقدامی طرزِ عمل اُس وقت اختیار کرتا ہے جب اُسے اپنی انفرادی یا اجتماعی قوت پہ بھروسا ہوتاہے۔ اس کے برعکس دفاعی طرزِعمل کمزوری کی علامت ہوتا ہے۔ لیکن دنیا نے دیکھا کہ انگریزوں کا غلبہ ڈیڑھ سو سال میں اس طرح ختم ہوا جیسے وہ کبھی موجود ہی نہ تھا۔ پہلی اور دوسری جنگِ عظیم نے تمام یورپی طاقتوں کے کس بل نکال دیے اور وہ اپنے مقبوضات پر قابض رہنے کے قابل نہ رہیں۔ برطانیہ کبھی ایسا ملک تھا جس کی حدود میں سورج غروب نہیں ہوتا تھا، لیکن آج برطانیہ کی حیثیت امریکہ کے دُم چھلے کے سوا کچھ نہیں۔ برطانیہ امریکہ کا دُم چھلا نہ رہے تو یورپ میں جرمنی اور فرانس کے مقابلے میں بھی اُس کی کوئی حیثیت نہ رہے۔
یورپی طاقتوں کے زوال کے ساتھ ہی امریکہ اور سوویت یونین دنیا کی دو بڑی طاقتیں بن کر ابھرے۔ ان طاقتوں کے غلبے کا یہ عالم تھا کہ آدھی دنیا میں امریکہ کا سکہ چل رہا تھا اور باقی آدھی دنیا سوویت یونین کی چھتری کے نیچے کھڑی تھی۔ اس منظرنامے کو دیکھ کر خیال آتا تھا کہ امریکہ اور سوویت یونین کا غلبہ دائمی ہے۔ مولانا مودودیؒ نے جب یہ کہا کہ ایک وقت آئے گا جب کمیونزم کو ماسکو میں اور لبرل ازم کو لندن اور پیرس میں پناہ نہیں ملے گی تو مولانا کی بات پر کسی نے اتنی توجہ بھی نہ دی جتنی توجہ کسی بچے کی بات کو میسر آجاتی ہے۔ 1985ء میں جب ہم جامعہ کراچی میں بی اے آنرز سالِ اول کے طالب علم تھے تو مشہور ترقی پسند نقاد کمال صاحب بھارت سے کراچی آئے۔ ہمارے بزرگ دوست اور معروف افسانہ نگار و نقاد علی حیدر ملک نے ہم سے کہاکہ تم کمال صاحب کا انٹرویو کرلو۔ ہم نے کمال صاحب کا انٹرویو کیا تو اُس میں ہم نے ایک سوال کمیونزم کے مستقبل سے متعلق مولانا کے تجزیے پر کرلیا۔ ہم نے کہا کہ مولانا مودودیؒ کہہ چکے ہیں کہ ایک وقت آئے گا کہ کمیونزم کو خود ماسکو میں پناہ نہ ملے گی۔ ہمارا سوال سن کر کمال صاحب اس طرح مسکرائے جیسے کہہ رہے ہوں کہ آپ نے اپنے سوال میں دیوانے کی بڑ دہرائی ہے۔ پھر کہنے لگے کہ اگر کسی دن سوویت یونین میں کمیونزم کو پناہ نہ ملے تو آپ مجھے خط لکھ کر ضرور مطلع کیجیے گا۔ اُس وقت کسی اور کو کیا‘ امریکی سی آئی اے کو بھی معلوم نہ تھا کہ مولانا مودودیؒ کا کہا 1991ء میں حقیقت بننے والا ہے۔ 1991ء میں سوویت یونین ٹوٹ گیا اور کمیونزم دنیا سے اس طرح تحلیل ہوا جیسے وہ کبھی دنیا میں موجود ہی نہ تھا۔
سوویت یونین کے خاتمے کے بعد امریکہ دنیا کی واحد سپر پاور بن گیا۔ اس صورت حال نے امریکہ کے معروف دانشور فوکویاما کو جو امریکی اسٹیبلشمنٹ کے “Darling”کہلاتے تھے‘ اتنا پُرجوش کیا کہ انہوں نے انسانی تاریخ کے خاتمے کا اعلان کردیا۔ انہوں نے کہا کہ تاریخ کا سفر سرمایہ دارانہ نظام اور کمیونزم کی کشمکش سے عبارت تھا۔ اس کشمکش میں بالآخر کمیونزم کو شکست ہوگئی ہے، چنانچہ تاریخ کا سفر اختتام کو پہنچ گیا ہے اور اب دنیا کے پاس کرنے کے لیے اس کے سوا کچھ نہیں کہ وہ خود کو سرمایہ دارانہ نظام اور سرمایہ دارانہ تہذیب سے ہم آہنگ کرے۔ فوکویاما کے اس تجزیے نے پوری مغربی دنیا بالخصوص امریکہ میں ایک رقص کی کیفیت پیدا کردی۔ اس کیفیت نے امریکہ سے افغانستان کے خلاف جارحیت کرائی۔ اس رقص نے امریکہ کے ہاتھوں عراق کی تباہی کی راہ ہموار کی۔ اس رقص نے امریکہ سے بگرام ایئربیس، ابوغریب جیل اور گوانتاناموبے کے عقوبت خانے ایجاد کرائے۔ اس پورے عرصے میں امریکہ خدائی لب و لہجے میں کلام کرتا نظر آیا۔ لیکن امریکہ کی ’’می رقصم‘‘ کی یہ کیفیت زیادہ عرصے برقرار نہ رہ سکی۔ فوکویاما کے تاریخ کے خاتمے کے تصورکو سیموئل ہن ٹنگٹن نے تہذیبوں کے تصادم کے نظریے سے چیلنج کردیا۔ ہن ٹنگٹن نے بتایا کہ آنے والے دنوں میں تصادم کا مرکز ریاستیں نہیں تہذیبیں ہوں گی۔ اس نے اہلِ مغرب کو یاد دلایا کہ جس طرح تمہاری تہذیب زندہ ہے اسی طرح اسلامی تہذیب بھی زندہ ہے۔ اتنی زندہ کہ وہ جگہ جگہ مغربی تہذیب کو چیلنج کرے گی۔ ہن ٹنگٹن کی بات نئی نہ تھی۔ تہذیبوں کا تصادم امام غزالیؒ کے زمانے میں برپا تھا۔ تہذیبوں کے تصادم کی گواہی اکبر الٰہ آبادی نے اپنی شاعری میں دی ہے۔ تہذیبوں کے تصادم کو اقبال کی شاعری نے مزید نمایاں کیا، اور مولانا مودودیؒ نے تو اپنی تحریروں میں تہذیبوں کے تصادم کی اصطلاح کو شدومد سے استعمال کیا ہے۔ لیکن بہرحال دنیا تصادم کی اس طرز کو بھولی ہوئی تھی۔ ہن ٹنگٹن نے ایک بھولی ہوئی بات سب کو یاد دلادی۔ لیکن یہاں کہنے کی اہم بات یہ ہے کہ تہذیبوں کے تصادم کے نظریے نے امریکہ کی بالادستی اور اس کے غلبے کو چیلنج ہوتے دکھادیا۔ تاہم معاملات تہذیبوں کے تصادم کے نظریے تک محدود نہ رہے۔
آج سے محض 30 سال پہلے چین سلامتی کونسل کے پانچ بڑوں میں شامل ہونے کے باوجود عالمی سطح پر کوئی قابلِ ذکر قوت نہ تھا۔ لیکن گزشتہ کچھ برسوں میں چین دنیا کی دوسری بڑی اقتصادی قوت بن کر ابھرا ہے اور آئندہ پانچ سے دس سال کے دوران وہ دنیا کی سب سے بڑی اقتصادی قوت ہوگا۔ اس عرصے میں چین نے 35 سے 40 کروڑ لوگوں کا ایک نیا متوسط طبقہ پیدا کیا ہے۔ چین دنیا میں زرمبادلہ کے سب سے بڑے ذخائر کا حامل ہے۔ یہاں تک کہ امریکہ کی معیشت میں اُس نے ایک ہزار ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کی ہوئی ہے۔ چین اپنا یہ سرمایہ نکال لے تو بلاشبہ چین کو بھی بڑا نقصان ہوگا لیکن امریکہ کی معیشت منہ کے بل گر پڑے گی۔ چین کی اقتصادی قوت میں اضافے کے ساتھ ہی اُس کے عالمگیر سیاسی اثرات کا دائرہ بھی وسیع ہورہا ہے۔ اس کی ایک مثال پاکستان ہے۔ پاکستان کا حکمران طبقہ گزشتہ 60 سال سے خود بھی امریکہ کا غلام بنا ہوا ہے اور اس نے پاکستانی قوم کو بھی امریکہ کا غلام بنایا ہوا ہے۔ لیکن چین نے سی پیک کے ذریعے پاکستان کی اقتصادی زندگی میں مرکزیت حاصل کرلی ہے۔ اگرچہ پاکستان ابھی تک امریکہ ہی کے زیراثر ہے، مگر امریکہ کے اثرات تیزی سے کم ہورہے ہیں، اور جیسے جیسے پاکستان میں چین کی دلچسپی بڑھے گی، یہ اثرات مزید کم ہوں گے۔ یہ زیادہ پرانی بات نہیں کہ گوادر کو گرم آلو یا Hot Pottato کہا جاتا تھا اور خیال تھا کہ چین اس گرم آلو سے اپنے ہاتھ اور اپنا منہ جلانا پسند نہیں کرے گا۔ مگر چند ہی برسوں میں گوادر ایک حقیقت بن چکاہے۔ چین بنگلہ دیش اور سری لنکا میں بھی بڑے پیمانے پر سرمایہ کاری کررہا ہے، اور یہ سرمایہ کاری خطے میں امریکہ کے اتحادی بھارت کے اثرات کو محدود کرے گی۔ چین one belt ono road کے تصور کے تحت افریقہ میں اہم قوت بن کر ابھر چکا ہے اور اس نے BRICS کی صورت میں آئی ایم ایف کا متبادل پیش کردیا ہے۔
امریکہ کے زوال کا ایک مظہر روس کی طاقت کا ظہور ہے۔ سوویت یونین کے انہدام کے بعد یہ تصور محال تھا کہ روس اپنی کھوئی ہوئی طاقت دوبارہ حاصل کرنے میں کامیاب رہے گا۔ لیکن صدر پیوٹن نے مختصر عرصے میں ناممکن کو ممکن کر دکھایا ہے۔ پیوٹن نہ صرف یہ کہ شام سمیت کئی علاقوں میں امریکہ کے عزائم کے لیے چیلنج بنے ہوئے ہیں بلکہ وہ روس اور چین کے اتحاد کو تقویت فراہم کرکے عالمی اور علاقائی سطح پر امریکہ کے لیے مشکلات کھڑی کررہے ہیں۔ امریکہ کی طاقت کے زوال کا ایک مظہر یہ ہے کہ بارک اوباما آٹھ سال میں بھی اسرائیل اور فلسطینیوں کے درمیان بامعنی مذاکرات شروع نہ کرا سکے۔ یہاں تک کہ مشرق وسطیٰ میں اب امریکہ کو ایک غیرجانب دار مصالحت کار کی حیثیت حاصل نہیں رہی۔ امریکہ کی کمزوری اس امر سے بھی ظاہر ہے کہ یورپ کے کئی ملکوں نے حالیہ مہینوں میں فلسطینی ریاست کو تسلیم کیا ہے اور امریکہ انہیں ایسا کرنے سے روک نہیں سکا ہے۔ لیکن امریکہ کی داخلی کمزوری کا سب سے بڑا مظہر یہ ہے کہ چین کا سیاسی نظام ابھی تک کمیونسٹ پارٹی کے ہاتھ میں ہے، اس کے باوجود چین دنیا میں آزاد منڈی کی معیشت اور عالمگیریت کا سب سے بڑا چیمپئن بن کر سامنے آیا ہے۔ اس کے برعکس امریکہ آزاد دنیا کا رہنما ہونے کے باوجود عالمگیریت کے بجائے America First کا نعرہ لگا رہا ہے۔ امریکہ کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ فرمارہے ہیں کہ ہم آزادانہ تجارت کے قائل نہیں چنانچہ ہم چین کی درآمدات پر 30 سے 40 فیصد ڈیوٹی عائد کریں گے۔ اس طرزِ عمل کا مفہوم یہ ہے کہ امریکہ معیشت کے میدان میں چین کے مقابلے کے قابل نہیں رہا، حالانکہ چین کی صنعتی ترقی کی عمر تیس پینتیس سال ہے، اس کے برعکس امریکہ ڈیڑھ سو سال سے صنعتی انقلاب سے مستفید ہورہا ہے۔ لیکن یہاں سوال یہ ہے کہ امریکہ کے زوال کے اسباب کیا ہیں؟
اگرچہ انسانی تاریخ میں اخلاقیات اور طاقت کی یکجائی خال خال ہی نظر آتی ہے، لیکن امیج یا تاثرکی سطح پر ہی سہی، ہر غالب قوت کو اس بات کی ضرورت ہوتی ہے کہ دنیا میں اس کی اخلاقی برتری کا احساس موجود ہو۔ امریکہ دوسری عالمی جنگ کے بعد ایک بڑی قوت بن کر ابھرا تھا اور ابتدائی مراحل میں امریکہ دوسری عالمی جنگ سے الگ تھلگ تھا، لیکن ایک مرحلے پر جب اتحادی مشکلات کا شکار تھے تو اُس نے کئی محاذوں پر اُن کی مدد کی اور امریکہ کی مدد نے جنگ کا پانسہ پلٹ دیا۔ اس تناظر میں دیکھا جائے تو امریکہ آزاد دنیا کا ایک ایسا رہنما بن کر ابھرا جو قومی مفادات سے بالاتر ہوکر سوچ اور عمل کرسکتا تھا۔ لیکن امریکہ اپنی اس اخلاقی برتری کو زیادہ دیر برقرار نہ رکھ سکا اور اُس نے دوسری عالمی جنگ کے آخری مراحل میں جاپان کے خلاف کسی جواز کے بغیر ایٹم بم استعمال کرکے یہ ثابت کردیا کہ اُس کی اخلاقی برتری ایک اتفاقی امر تھی ورنہ امریکہ صرف ننگی طاقت کا مظہر ہے۔
امریکہ کی خوش قسمتی تھی کہ دوسری عالمی جنگ کے بعد جب وہ عالمی طاقت بن کر ابھر رہا تھا تو کمیونزم ایک عالمگیر نظریے کی صورت میں سامنے آچکا تھا اور سرمایہ دارانہ ریاستیں کمیونزم کے خوف میں مبتلا ہوچکی تھیں۔ اس ماحول میں امریکہ چونکہ نام نہاد آزاد دنیا کا رہنما تھا، اس لیے کمیونزم کے ساتھ کشمکش میں بھی رہنمائی کا تاج اُس کے سر پر رکھا گیا۔ چونکہ آزاد دنیا کے نزدیک کمیونزم ایک شیطانی نظریہ تھا اور سوویت یونین ایک شیطانی ریاست تھی، اس لیے اُس کی مزاحمت کرنے والے بڑی اخلاقی قدروقیمت کے حامل تھے، حالانکہ امریکہ اُس وقت خود بھی ایک شیطانی طاقت تھا۔ وہ حکومتوں کے تختے الٹ رہا تھا۔ وہ مقبول مگر حریف سیاسی رہنماؤں کو قتل کرا رہا تھا۔ امریکہ اسرائیل جیسی دہشت گرد ریاست کا سب سے بڑا پشت پناہ تھا۔ امریکہ اور اُس کے اتحادیوں کے تخلیق کردہ مالیاتی ادارے آئی ایم ایف اور عالمی بینک تیسری دنیا کے ملکوں کو اپنا غلام بنارہے تھے، لیکن کمیونزم کے خلاف جدوجہد نے ان تمام امور کو پس منظر میں دھکیل دیا تھا۔ تاہم سوویت یونین کے خاتمے اور کمیونزم کے تحلیل ہونے کے بعد امریکہ دنیا کی واحد بڑی طاقت بنا تو تمام پردے ہٹ گئے، چنانچہ امریکہ ہی نہیں اُس کے اتحادی بھی ننگے ہوکر سامنے آگئے۔ اس صورت حال نے صرف 27 سال کی قلیل مدت میں امریکہ کی اخلاقی ساکھ کے پرخچے اڑا دیے۔ مسلم دنیا میں امریکہ کی اخلاقی ساکھ ہی نہیں سیاسی اور جمہوری ساکھ بھی تباہ ہوگئی۔ اس کی وجہ بھی خود امریکہ ہے۔ امریکہ نے گزشتہ 27 برسوں میں افغانستان اور عراق کے خلاف ننگی جارحیت کا ارتکاب کیا ہے۔ اس نے پاکستان اور صومالیہ میں ہزاروں بے گناہوں کو ڈرون حملوں میں قتل کیا ہے۔ لیبیا اور شام میں مداخلتِ بے جا کی ہے۔ امریکہ نے مسلم دنیا میں اسلامی تحریکوں کی سیاسی اور جمہوری کامیابیوں کے خلاف پے درپے سازشیں کی ہیں۔ امریکہ نے مسلم دنیا میں جمہوریت اور مارشل لا دونوں کو مذاق بنادیا۔ مسلم دنیا ایک ارب 60 کروڑ انسانوں کی دنیا ہے، اور اس دنیا میں کہیں امریکہ کو 60 فیصد لوگ ناپسند کرتے ہیں، کہیں 70 فیصد، اورکہیں 85 فیصد۔ لیکن امریکہ کے زوال کا ایک اور زاویہ بھی ہے۔
مغربی دنیا معاشیات کی دنیا ہے۔ چنانچہ مغربی دنیا میں قوموں کے عروج و زوال کو اقتصادی تناظر میں بھی دیکھا اور بیان کیا جاتا ہے۔ پال کینڈی کی تصنیف “The Rise and Fall of the Great Powers” میں پال کینڈی نے سلطنتِ عثمانیہ، برطانیہ، سوویت یونین اور امریکہ کے زوال کو معاشی تناظر میں دیکھا اور بیان کیا ہے۔ پال کینڈی کے بقول ان طاقتوں کے زوال کا ایک ہی سبب ہے اور وہ یہ کہ ان طاقتوں نے اپنی ذمے داریوں کو بہت پھیلالیا چنانچہ ان کے اخراجات ان کی آمدنی سے بڑھ گئے۔ پال کینڈی کی یہ کتاب 1988ء میں شائع ہوئی تھی۔ اُس وقت تک سوویت یونین منہدم نہیں ہوا تھا لیکن پال کینڈی نے خیال ظاہر کیا تھا کہ سوویت یونین نے خود کو اتنا پھیلالیا ہے کہ اس کے وسائل پر دباؤ بہت بڑھ گیا ہے۔ پال کینڈی نے اپنی کتاب میں امریکہ کے زوال کو حقیقت قرار دیا تھا اور کہا تھاکہ بعض حوالوں سے امریکہ کا زوال سوویت یونین سے زیادہ برق رفتار ہے مگر اس میں اپنے زوال کو سہنے اور سنبھالنے کی استعداد سوویت یونین سے زیادہ ہے۔ پال کینڈی نے لکھا ہے کہ صدر ریگن کے دور میں امریکہ کے دفاعی اخراجات میں غیرمعمولی اضافہ ہوا لیکن ریگن نے محصولات میں اضافے کے بجائے ان میں کمی کی۔ اس کے ساتھ ہی ریگن نے دوسری مدوں میں اخراجات کم کرنے پر توجہ نہ دی، چنانچہ امریکہ کا بجٹ، خسارے کا بجٹ بن کر رہ گیا اور امریکہ کے اندرونی قرضوں میں غیرمعمولی اضافہ ہوگیا۔ پال کینڈی نے امریکہ کے سرکاری اعداد و شمار کے حوالے سے لکھا ہے کہ 1980ء میں امریکہ کے اندرونی قرضے صرف 914 ارب ڈالر تھے جو پانچ سال میں بڑھ کر 1823 ارب ڈالر ہوگئے۔ پال کینڈی نے اس صورت حال کو امریکہ کے زوال سے تعبیر کیا تھا اور کہا تھا کہ قرضوں اور ان پر سود میں اضافے کا یہ رجحان جاری رہے گا۔ اور پال کینڈی کی یہ بات درست ثابت ہوئی ہے۔ امریکہ کے معاشی زوال کا شور اب اتنا بلند ہوچکا ہے کہ اس کی ’’اطلاع‘‘ چین کے ممتاز سرمایہ دار جیک ما کو بھی ہوگئی ہے۔ چنانچہ جیک ما نے ڈیووس میں عالمی اقتصادی فورم سے خطاب کرتے ہوئے کہا ہے کہ اگر امریکہ میں بے روزگاری مسلسل بڑھ رہی ہے تو اس کی وجہ عالمگیریت نہیں ہے بلکہ فنڈز کی غیرمنصفانہ تقسیم اور غیر معمولی جنگی اخراجات ہیں۔ جیک ما کے بقول امریکہ نے گزشتہ 30 سال کے دوران 13جنگیں لڑی ہیں اور ان جنگوں میں 40 کھرب ڈالر خرچ ہوئے ہیں۔ جیک ما نے کہا کہ اگر یہ رقم امریکہ میں صنعتوں کے قیام پر صرف کی جاتی تو صورت حال بہت مختلف ہوتی۔ اس اعتبار سے دیکھا جائے تو امریکہ صرف اخلاقی اعتبار سے ہی نہیں‘ مالی اعتبار سے بھی مشکلات میں گھر چکا ہے اور اس کے زوال کا تاثر وقت گزرنے کے ساتھ بڑھ رہا ہے۔