بھارت کے ایک نیم سرکاری اور نیم آزاد وفد نے حال ہی میں مقبوضہ کشمیر کا دورہ کیا۔ اس دورے میں وفد نے صرف سید علی گیلانی ہی سے ملاقات نہیں کی، بلکہ وفد کے اراکین مقبوضہ کشمیر کے نوجوانوں سے بھی ملے۔ ان ملاقاتوں سے وفد پر انکشاف ہوا کہ کشمیر کے دو چار نوجوان نہیں، بلکہ نوجوانوں کی ایک پوری نسل موت کے خوف سے بے نیاز ہوگئی ہے۔ مقبوضہ کشمیر کے نوجوان بھارت کے خلاف احتجاج کے لیے نکلتے ہیں تو ان کے دلوں اور چہروں پر خوف کا نام و نشان تک نہیں ہوتا۔ بھارت کے فوجی اور پولیس کے سپاہی درجنوں مواقع پر مظاہرین کو براہِ راست نشانہ بناتے ہوئے پائے گئے ہیں۔ مقبوضہ کشمیر میں پیلٹ گنوں کے استعمال سے سیکڑوں نوجوان بینائی سے محروم ہوچکے ہیں، مگر مقبوضہ کشمیر کے نوجوان کسی خوف کو خاطر میں لانے کے لیے تیار نہیں۔ بھارت اس صورت حال پر حیران بھی ہے اور پریشان بھی۔ لیکن مسلمانوں کو اس بات پر کوئی حیرانی نہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ موت کے خوف سے بے نیازی اسلامی تاریخ کا ایک مانوس منظر ہے۔ اسلامی تاریخ میں گاہے گاہے ایسے افراد یہاں تک کہ ایسی نسلیں سامنے آتی رہی ہیں جنہوں نے موت کے خوف کو شکست دی ہے، جو موت کے خوف پر غالب آئی ہیں۔
غزوۂ بدر اسلامی تاریخ کا وہ لمحہ ہے جس کے حوالے سے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ تعالیٰ کے حضور دُعا کرتے ہوئے فرمایا کہ اگر اس معرکے میں مسلمان فتح یاب نہ ہوئے تو روئے زمین پر تیرا نام لیوا کوئی نہ ہوگا۔ لیکن زیربحث موضوع کے حوالے سے اس معرکے کا اہم ترین پہلو یہ ہے کہ مسلمانوں کی تعداد صرف 313 تھی اور کافروں کا لشکر ایک ہزار افراد سے متجاوز تھا۔ اکثر مسلمانوں کے پاس لڑنے کے لیے مناسب ہتھیار نہ تھے اور کافروں کا لشکر پوری طرح مسلح تھا۔ اس اعتبار سے مسلمان ایک یقینی موت کی جانب بڑھ رہے تھے، لیکن صحابہ کرامؓ کے دلوں میں کوئی خوف نہ تھا، یہاں تک کہ اللہ کی مدد کی خوشخبری آگئی، لیکن صحابہ کرامؓ کے دل اس خوشخبری سے پہلے بھی قوی تھے، اور یہی بدری صحابہ کی سب سے بڑی عظمت ہے۔
حضرت امام حسینؓ کا معاملہ بھی یہی ہے، اس حوالے سے اقبال نے کہا ہے
غریب و سادہ و رنگیں ہے داستانِ حرم
نہایت اس کی حسین ابتدا ہیں اسمٰعیل
حضرت اسمٰعیلؑ کی قربانی کے وقت حضرت اسمٰعیلؑ کو نبوت نہیں ملی تھی لیکن اس کے باوجود یقینی موت کی طرف جاتے ہوئے ان کے دل میں موت کا کوئی خوف نہ تھا۔ یہ اتنی بڑی بات اور اتنا حیرت انگیز منظر تھا کہ اقبال نے اس سلسلے میں کہا ہے
یہ فیضانِ نظر تھا یا کہ مکتب کی کرامت تھی
سکھائے کس نے اسمٰعیل کو آدابِ فرزندی
حضرت امام حسینؓ یزید کے ہاتھوں پر بیعت نہ کرنے کے مفہوم سے آگاہ تھے لیکن میدانِ کربلا میں اس حوالے سے ان کے دل میں خوف کا شائبہ تک موجود نہ تھا۔ حالاں کہ وہ میدانِ کربلا میں تنہا نہیں تھے۔ ان کے ساتھ ان کا پورا خانوادہ تھا جس میں خواتین اور بچے بھی شامل تھے۔ خیر یہ تو اسلامی تاریخ کی بہت ہی بڑی مثالیں ہیں، ان مثالوں سے بہت نچلی سطح پر بھی اسلامی تاریخ نے موت کے خوف سے بے نیازی کا منظر تخلیق کیا ہے۔
جلال الدین خوارزم بادشاہ کی اولاد تھا، اور چنگیز خان کے مقابلے پر اس کی عسکری طاقت کچھ بھی نہ تھی۔ لیکن اس کے باوجود وہ چنگیز خان کی قوتِ قاہرہ کے سامنے سینہ سپر ہوگیا اور اس نے کئی محاذوں پر چنگیز کی فوج کو شکست سے دوچار کیا۔
ٹیپو سلطان کا مشہورِ زمانہ قول ہے کہ ’’شیر کی ایک دن کی زندگی گیدڑ کی سو سالہ زندگی سے بہتر ہے‘‘۔ یہ قول موت کے خوف پر غالب آنے کا اعلان ہے اور ٹیپو نے اپنے قول کو عمل بناکر دکھا دیا۔ حالاں کہ ٹیپو کے پاس صرف ایک ریاست کی قوت تھی اور انگریز اُس وقت ہندوستان کے ایک بڑے علاقے پر قابض ہوچکے تھے۔ 1857ء کی جنگِ آزادی اگرچہ ناکام ہوگئی اور جن حالات میں یہ جنگِ آزادی شروع ہوئی ان حالات میں اسے ناکام ہونا ہی تھا، لیکن یہ جنگِ آزادی بھی موت کے خوف سے بے نیازی کا مظہر تھی۔ افغانستان میں روس اور امریکا کے خلاف مجاہدین کا جہاد تو کل ہی کا واقعہ ہے۔ روس اور امریکا کے مقابلے پر مجاہدین کی قوت ہاتھی کے مقابلے پر چیونٹی کی قوت تھی، لیکن مجاہدین نہ روس سے ڈرے اور نہ امریکا سے گھبرائے۔ یہاں فلسطینیوں اور بالخصوص غزہ کے لوگوں کا ذکر بھی ناگزیر ہے۔ اسرائیل سر سے پاؤں تک مسلح ہے، وہ ایٹمی طاقت ہے، امریکا اور یورپ اُس کی پشت پر کھڑے ہیں، مگر فلسطینی اور غزہ کے بہادر مسلمان اسرائیل کی آنکھوں میں آنکھیں ڈالے کھڑے ہیں۔ وہ زبانِ حال سے کہہ رہے ہیں ہم تم سے اور موت سے ہرگز نہیں ڈرتے۔ لیکن یہاں سوال یہ ہے کہ انسان موت کے خوف پر کس طرح غالب آتا ہے؟
اصول ہے کہ بڑی چیز چھوٹی چیز پر اور قوی کمزور پر غالب آجاتا ہے۔ موت کا خوف ایک بہت ہی بڑا خوف ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ زندہ رہنے کی خواہش بہت ہی گہری اور شدید ہوتی ہے۔ انسان بہت مشکل حالات سے دوچار ہو تو بھی زندہ رہنا چاہتا ہے۔ لیکن اللہ تعالیٰ کی رضا اتنی بڑی چیز ہے کہ اس کا ذرا سا شعور بھی انسان کو فراہم ہوجائے تو موت کا خوف معمولی بن جاتا ہے۔ اندھیرے سے بھرے ہوئے کمرے کے مقابلے پر ماچس کی ایک تیلی کی کیا بساط ہوتی ہے! لیکن ماچس کی تیلی جلتی ہے تو چند لمحوں کے لیے سہی، کمرے کا اندھیرا تحلیل ہوجاتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کی رضا کا شعور تو سورجوں کا سورج ہے۔ اس کی ایک کرن بھی انسان کے پورے وجود کی تاریکی کو دور کرنے کے لیے کافی ہے۔
انسان کی ایک بڑی قوت اس بات کا شعور ہے کہ ہم حق پر ہیں۔ انسان کو جب یہ معلوم ہوجاتا ہے کہ ہم حق پر ہیں تو پھرانسان موت کے خوف پر غالب آجاتا ہے۔ حق پر ہونے کا احساس اتنی اہم چیز ہے کہ مسلمان کیا، کافر بھی اس تصور سے قوت کشید کرسکتے ہیں۔ اس کی ایک مثال ویت نام کی جنگ ہے۔ ویت نام کی جنگ میں ویت نامی مظلوم تھے اور امریکا ظالم تھا۔ ویت نامی مجروح تھے اور امریکا جارح تھا۔ چناں چہ ویت نامیوں نے دس لاکھ لوگوں کی قربانی دے کر امریکا کو اس طرح شکست سے دوچار کیا کہ امریکا ذلیل ہوکر ویت نام سے نکلا۔ جنوبی افریقا کے سیاہ فام مسلمان نہیں تھے اور وہ سفید فاموں کے خلاف ’’جہاد‘‘ نہیں کررہے تھے، مگر انہیں معلوم تھا کہ جنوبی افریقا کے اصل مالک وہ ہیں۔ انہیں احساس تھا کہ وہ مظلوم ہیں اور سفید فام ظالم ہیں، چناں چہ وہ چھ دہائیوں تک سفید فاموں کے خلاف صف آراء رہے اور بالآخر انہوں نے سفید فاموں کے چنگل سے آزادی حاصل کرلی۔
تاریخ کے سفر میں نظریات کے شعور اور نظریاتی جدوجہد نے بھی انسانوں کو خوف سے بے نیاز کیا ہے۔ کارل مارکس باطل پر کھڑا ہوا مفکر تھا، مگر اس نے زندگی کو بدلنے کے لیے ایک نظریہ پیش کیا، اس نے معاشرے کے پسے ہوئے طبقات کو مخاطب کیا، اس نے کہا: دنیا کے پرولتاریو متحد ہوجاؤ اور سرمایہ داروں کے خلاف جدوجہد کرو، یاد رکھو تمہارے پاس کھونے کے لیے کچھ بھی نہیں ہے۔ طبقاتی نفرت ایک منفی تصور تھا لیکن مارکس اور ماؤ نے اس منفی تصور کو ایک نظریے میں ڈھال کر روس اور چین میں انقلاب برپا کردیا۔ ان انقلابات میں تقریباً پانچ کروڑ لوگ مارے گئے۔ اہم بات یہ ہے کہ روس اور چین میں ہونے والی نظریاتی جدوجہد مذہب اور اخلاق کے تصور سے بے نیاز تھی۔ اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ اگر باطل کی بنیاد پر نظریاتی جدوجہد اتنی مؤثر ہوسکتی ہے تو حق کی بنیاد پر برپا ہونے والی نظریاتی جدوجہد کتنی مؤثر اور انسان کو موت کے خوف سے کتنا بے نیاز کرنے والی ہوسکتی ہے۔
تاریخ کا طویل تجربہ بتاتا ہے کہ قومیں اپنی قیادت کا عکس بن جاتی ہیں۔ اگر رہنما بے خوف ہو تو قومیں بھی بے خوف ہوجاتی ہیں۔ رہنما خوف زدگی کا شکار ہو تو قومیں خوف زدگی کا شکار ہوجاتی ہیں۔ مثلاً اس وقت مقبوضہ کشمیر کی نئی نسل خوف سے بے نیاز ہوگئی ہے تو اس کی وجہ کشمیر کے رہنما بالخصوص سید علی گیلانی کی قیادت ہے۔ سید علی گیلانی اس وقت دنیا کے سب سے بڑے پاکستانی ہیں۔ ان کی پاکستانیت کے سامنے پاکستان کے جرنیلوں کی پاکستانیت بھی بچوں کا کھیل ہے۔ اس لیے کہ پاکستان کے جرنیلوں کی پاکستانیت فائدوں کی ضمانت ہے، اس کے برعکس سید علی گیلانی کی پاکستانیت طے شدہ نقصان کی ضمانت ہے۔ مگر اس کے باوجود سید علی گیلانی بے باک ہیں۔ وہ نہ نظربند ہونے سے گھبراتے ہیں، نہ جیل جانے سے ڈرتے ہیں اور نہ انہیں بھارتی فوج کی گولی سے ڈر لگتا ہے۔ اہم بات یہ ہے کہ سید علی گیلانی یہ کام برسوں سے کررہے ہیں۔ چناں چہ مقبوضہ کشمیر کی پوری نوجوان نسل پر سید علی گیلانی کی بے خوفی، بے غرضی اور پاکستان پرستی سایہ کیے ہوئے ہے۔ مقبوضہ کشمیر کی نوجوان نسل اس وقت سید علی گیلانی کا عکس بنی ہوئی ہے۔ سید علی گیلانی کی بے خوفی اتنی غیر معمولی ہے کہ صرف مقبوضہ کشمیر کے نوجوان ہی نہیں کشمیر کے دیگر رہنما بھی ان کے زیراثر ہیں۔ یہاں تک کہ بھارت بھی سید علی گیلانی کی بے خوفی کے خوف میں مبتلا ہے۔ ایسا نہ ہوتا تو بھارت سید علی گیلانی کو کب کا راستے سے ہٹا چکا ہوتا۔ مگر سید علی گیلانی کا ایمان، رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی اُمت کے شہیدوں سے ان کی محبت، اور ان چیزوں سے پیدا ہونے والی بے خوفی نے سید علی گیلانی کو اتنا اہم بنادیا ہے کہ بھارت انہیں راستے سے ہٹانے کی قیمت ادا نہیں کرسکتا۔ اس بات پر کسی کو شبہ ہو تو اسے برہان مظفر وانی کی شہادت سے پیدا ہونے والے عوامی ردِعمل کا مطالعہ کرنا چاہیے۔
تاریخ میں کبھی کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ موت ارزاں ہوجاتی ہے۔ جب انسان کے ہر طرف موت رقصاں ہو تو انسان کے اعصاب ردِعمل ظاہر کرتے کرتے تھک جاتے ہیں۔ دوسری عالمی جنگ میں بعض محاذوں پر ایسے فوجی سامنے آئے جو میدانِ جنگ میں گولہ باری اور فائرنگ کے دوران سو جاتے تھے۔ یہ وہ لوگ تھے جن کے اعصاب ردِعمل ظاہر کرتے کرتے تھک گئے تھے اور یہ لوگ اس کے نتیجے میں موت سے بے نیاز ہوگئے تھے۔ لیکن یہ موت سے بے نیازی کی ایک منفی صورت ہے اور اس صورت کا اسلامی تاریخ سے کوئی تعلق نہیں۔ اسلامی تاریخ کا تجربہ تو یہ ہے کہ موت انسان کے تعاقب میں نہیں ہوتی، انسان موت کے تعاقب میں ہوتا ہے۔
آصف جیلانی ٹرمپ کی کابینہ، تضادات سے بھرپور پٹارہ
امریکا کے منتخب صدر، ڈونلڈ ٹرمپ نے جب اپنی کابینہ کے اراکین نامزد کیے تھے تو اس وقت کہا گیا تھا کہ یہ بھان متی کا کنبہ ہے لیکن اب سینیٹ کی کمیٹی کے سامنے، نامزدگیوں کی سماعت کے دوران، کابینہ کے اراکین کے جو نظریات اور موقف سامنے آئے ہیں، ان کے پیش نظر کابینہ تضادات سے بھر پور پٹارہ نظر آتی ہے۔ بہت سے اہم امور اور مسائل کے بارے میں ان کے موقف منتخب صدر ٹرمپ سے بالکل مختلف اور ان کے نظریات کے بر عکس نظر آتے ہیں۔
انتخابی مہم کے دوران ٹرمپ نے اعلان کیا تھا کہ وہ امریکا میں مسلمانوں کے داخلہ پر پابندی عائد کر دیں گے۔ انہوں نے امریکا میں آباد مسلمانوں کی رجسٹری قایم کرنے کے منصوبے کا بھی اعلان کیا تھا۔ جیف سیشن سے جنہیں ٹرمپ نے اٹارنی جنرل کے عہدہ پر نامزد کیا ہے، نامزدگی کی سماعت کے دوران جب یہ سوال کیا گیا کہ کیا مذہب کی بنیاد پر کسی تارک وطن کا امریکا میں داخلہ ممنوع قرار دیا جانا چاہیے تو انہوں نے واضح طور پر کہا کہ میں اس رائے سے اتفاق نہیں کرتا کہ مسلمانوں کے امریکا میں داخلہ سے انکار کیا جانا چاہیے۔ جیف سیشن نے کہا کہ وہ امریکا میں مسلمانوں کی رجسٹری کے بھی سخت خلاف ہیں۔
ہوم اینڈ سیکورٹی کے نامزد وزیر جان کیلی نے بھی امریکا میں مسلم امیگریشن پر پابندی عائد کرنے کی تجویز کی مخالفت کی اور مساجد کی کڑی نگرانی کو آئین کے منافی قرار دیا۔
ٹرمپ نے بارہا روس اور صدر پیوتن کے ساتھ دوستانہ تعلقات پربڑے فخر کا اظہار کیا ہے ۔اور حتیٰ کہ اس وقت بھی، پیوتن اور روس پر اپنے بھر پور اعتماد کا اظہار کیا تھا، جب یہ شہادتیں سامنے آئی تھیں کہ روس نے امریکا میں ہیکنگ کی ہے اور صدارتی انتخاب میں مداخلت کی ہے۔ نامزد وزیر دفاع جیمس میٹس نے نامزدگی کی سماعت کے دوران ڈونلڈ ٹرمپ کے اس رویے کے بالکل برعکس یہ رائے ظاہر کی کہ صدر پیوتن امریکا اور یورپ کے درمیان اتحاد کو پارہ پارہ کرنا چاہتے ہیں۔
سی آئی اے کے نامزد سربراہ پومپیو نے سماعت کے دوران صاف صاف کہا کہ وہ اس رپورٹ کو تسلیم کرتے ہیں جس میں کہا گیا ہے کہ روس نے امریکا میں ہیکنگ کی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ یہ بالکل واضح ہے کہ روس نے امریکا کی جمہوریت کو زک پہنچانے کے لیے ہیکنگ کی تھی اور روس نے شام میں شہریوں کو نشانہ بنا کر جنگ کے قانون کی خلاف ورزی کی ہے۔ جان پومپیو نے کہا کہ روس نے دنیا میں اپنا اثر پھیلانے کے لیے نہایت جارحانہ انداز اختیار کیا ہے اور وہ اس بارے میں اپنی آنکھیں کھلی رکھیں گے۔ جان پومپیو نے یہ بھی کہا کہ روس نے داعش کا قلع قمع کرنے کے لیے کچھ نہیں کیا۔ یہ رائے منتخب صدر کی رائے کے بالکل برعکس ہے۔
ڈونلڈ ٹرمپ نے انتخابی مہم کے دوران ناٹو کی افادیت پر تشکیک کا اظہار کیا اور کہا تھا کہ یہ معاہدہ اب ناکارہ ہو چکا ہے اور اس کی شرائط پر دوبارہ غور کریں گے اور صرف اس صورت میں ناٹو کے رکن ملکوں کا دفاع کریں گے جب یہ معاہدے کی شرائط پوری کریں گے۔ لیکن نامزد وزیر خارجہ ریکس ٹلرسن نے سماعت کے دوران ناٹو کی بھرپور حمایت کی اور کہا کہ امریکا ناٹو کے رکن ممالک کا دفاع کرے گا۔ ریکس ٹلر سن نے جو امریکی تیل کمپنی ایکسن موبل کے سربراہ رہ چکے ہیں اور جو صدر پیوتن کے قریبی دوست ہیں اور جنہیں صدر پیوتن نے روس کا اعلی اعزاز، آرڈر آف فرینڈ شپ دیا تھا، البتہ اس سوال کا براہ راست جواب دینے سے گریز کیا کہ کیا وہ روسی صدر پیوتن کو جنگی جرایم کو مجرم گردانتے ہیں، ان کا کہنا تھا کہ وہ یہ اصطلاح استعمال نہیں کریں گے۔
انتخابی مہم کے دوران ڈونلڈ ٹرمپ نے بڑے واضح انداز سے کہا تھا کہ وہ ایران کے ساتھ جوہری سمجھوتا منسوخ کر دیں گے۔ ان کا کہنا تھا کہ ان کی اول فوقیت ہوگی کہ ایران کے ساتھ اس ’’تباہ کن‘‘ سمجھوتا کو فی الفور منسوخ کردیا جائے۔ ان کے نامزد وزیر خارجہ ٹلر سن نے البتہ سماعت کے دوران کہا کہ وہ اس سمجھوتے کو منسوخ کرنے کے حق میں نہیں ہیں۔
ٹرمپ کے نامزد وزیر دفاع جنرل میٹس نے بھی یہ رائے ظاہر کی کہ گو ایران کے ساتھ جوہری سمجھوتا ناقص ہے لیکن وہ اسے منسوخ کرنے کے حق میں نہیں ہیں۔ ٹرمپ نے کہا تھا کہ یہ امریکا کے مفاد میں ہوگا اگر جاپان اور جنوبی کوریا بھی جوہری اسلحہ تیار کریں۔ لیکن ٹلر سن نے کہا کہ وہ اس رائے سے اتفاق نہیں کرتے کیوں کہ ان کی وزارت کا اہم رول ہوگا کہ جوہری اسلحہ کے پھیلاو کو روکا جائے۔
ٹرمپ نے انتخابی مہم میں سب سے زیادہ زور اس پر دیا تھا کہ وہ غیر قانونی تارکین وطن کے داخلہ کو روکنے کے لیے میکسیکو کی سرحد پر فصیل تعمیر کریں گے۔ ٹرمپ کا کہنا تھا کہ مکسیکو سے لوگ منشیات لاتے ہیں، یہ جرایم لاتے ہیں اور یہ زنا کار ہیں۔ ٹرمپ کے نامزد وزیر خارجہ ٹلر سن نے کہا کہ وہ اس سے اتفاق نہیں کرتے۔ میکسیکو ہمارا پڑوسی ہے اور میکسیکو کے لوگ ہمارے پرانے دوست ہیں۔
ہوم لینڈ سیکورٹی کے نامزد وزیر جان کیلی نے رائے ظاہر کی کہ میکسیکو کی سرحد پر فصیل بے سود ثابت ہوگی۔
غرض، اہم مسائل پر ٹرمپ اور ان کی کابینہ کے نامزد وزیروں کے موقف اور رائے میں شدید اختلاف ہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ایسی کابینہ کے ساتھ جس کے وزیروں کے موقف ٹرمپ سے بالکل مختلف اور متضاد ہیں، نئے صدر کس طرح حکومت چلا سکیں گے۔ کابینہ کے ان وزیروں کو یا تو اپنے موقف تبدیل کرنے پڑیں گے یا پھر اختلافات کی بنیاد پر استعفوں کا سلسلہ شروع ہو جائے گا۔
بہت سے مبصرین کی رائے ہے کہ ٹرمپ کی انتظامیہ کے مستقبل کا دارو مدار، انٹیلی جنس کی اس رپورٹ کی تحقیقات پر ہوگا جو 2013میں ماسکو میں ٹرمپ کے قیام کے دوران ان کی مبینہ جنسی سرگرمیوں کے بارے میں ہے اور اسی کے ساتھ اس تحقیقات کے نتیجہ پر بھی ٹرمپ کی انتظامیہ کے مستقبل کا دارو مدار ہوگا جو صدارتی انتخاب میں روس کی مداخلت کے بارے میں ہو رہی ہے۔ محکمہ انصاف ان دونوں روپورٹوں پر غور کر رہا ہے اور توقع ہے کہ اگلے نوے روز میں تحقیقات کا نتیجہ سامنے آجائے گا۔ عام خیال یہ ہے کہ ٹرمپ انتظامیہ کے لیے اس وقت شگون اچھے نہیں ہیں۔