امریکہ کے ممتاز دانشور نوم چومسکی امریکہ کو دنیا کی سب سے بدمعاش ریاست یا Rougue State کہتے ہیں، اور ان کا کہنا غلط نہیں ہے۔ امریکہ کہنے کو ایک ملک ہے مگر دنیا کے سو سے زیادہ ملکوں میں اس کی فوجیں موجود ہیں۔ اس کے معنی یہ ہیں کہ امریکہ خود کو دنیا کا واحد ’’پولیس مین‘‘ سمجھتا ہے اور ساری دنیا کے لیے اس کا پیغام یہ ہے کہ تمہیں اگر زندہ رہنا ہے تو امریکہ کی بالادستی کو تسلیم کرنا ہوگا۔ امریکہ دنیا کی واحد ریاست ہے جس نے ایک بار نہیں دو بار ایٹم بم استعمال کرکے لاکھوں انسانوں کو موت کے گھاٹ اتارا ہے۔ امریکہ دنیا کی واحد ریاست ہے جو اپنے دشمنوں ہی کی نہیں اپنے دوستوں اور اتحادیوں کی بھی جاسوسی کرتی ہے۔ ایڈورڈ سنوڈن اس سلسلے میں امریکہ کی جاسوسی کا بھانڈا پھوڑ چکا ہے۔ امریکی سی آئی اے دنیا کے متعدد ملکوں میں حکومتوں کے تختے الٹنے میں ملوث ہے۔ مشرق وسطیٰ میں اسرائیل نے گزشتہ 60 سال کے دوران جو مظالم ڈھائے ہیں امریکہ ان مظالم میں اسرائیل کا ’’شریکِ کار‘‘ رہا ہے۔ اس نے گزشتہ چالیس سال میں اسرائیل کو 120 ارب ڈالر سے زیادہ کی نقد مدد فراہم کی ہے۔ اس نے اسرائیل کے خلاف سلامتی کونسل کی 99.9 فیصد قراردادوں کو ویٹو کیا ہے۔ امریکی ذہن اتنا سفاک ہے کہ امریکہ اور اس کے اتحادیوں نے عراق کے خلاف جو پابندیاں عائد کیں ان کی وجہ سے 10لاکھ انسان غذا اور دواؤں کی قلت سے ہلاک ہوگئے۔ ہلاک ہونے والوں میں پانچ لاکھ معصوم بچے بھی تھے۔ لیکن اس سلسلے میں امریکہ کی سابق وزیر خارجہ میڈلین البرائیٹ سے سوال پوچھا گیا تو انہوں نے دس لاکھ بے گناہ لوگوں کی ہلاکتوں پر کہا کہ
“It is acceptable and worth it”
لیکن مسئلہ صرف امریکہ کا نہیں۔ برطانیہ امریکہ کا دُم چھلّا ہے۔ برطانیہ کی امریکہ پرستی اتنی بڑھی ہوئی ہے کہ برطانیہ کے سابق وزیراعظم ٹونی بلیئر کو ’’امریکہ کا پِلّا‘‘ کہا جاتا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ گزشتہ چالیس پچاس سال میں امریکہ نے جو جرائم کیے ہیں برطانیہ اُن میں کسی نہ کسی طرح شریک رہا ہے۔ چنانچہ برطانیہ بھی امریکہ کی طرح ایک بدمعاش ریاست ہے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ ان تمام باتوں کے معرضِ اظہار میں آنے کا سبب کیا ہے؟