بی جے پی کے رہنما لعل کرشن ایڈوانی نے نئی دہلی میں ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے بھارتی وزیراعظم نریندر مودی سے کہا ہے کہ سندھ اور کراچی کو بھارت کا حصہ بنانے کے لیے طاقت استعمال کی جائے۔ انہوں نے کہا کہ سندھ میں ہندوؤں کی بڑی تعداد آباد ہے اس لیے کراچی سمیت پورے سندھ کو بھارت کا حصہ ہونا چاہیے۔ انہوں نے کہا کہ کراچی کے بغیر بھارت ادھورا لگتا ہے، لعل کرشن ایڈوانی کے بقول تقسیم کے وقت گاندھی سے غلطی ہوگئی۔ انہیں سندھ کو بھی بھارت میں شامل کرنا چاہیے تھا۔ انہوں نے کہا کہ کراچی کبھی ممبئی کا حصہ تھا اور ہمیں طاقت کے ذریعے کراچی کو ایک بار پھر بھارت کا حصہ بنالینا چاہیے۔
بلاشبہ شیطان انسان کا دشمن ہے اور وہ انسانوں کو بہکاتا ہے لیکن بعض لوگوں کو دیکھ کر خیال آتا ہے کہ شیطان ان کو نہیں وہ شیطان کو بہکاتے ہوں گے۔ یہی معاملہ بعض ملکوں کا ہے۔ امریکا، اسرائیل اور بھارت کو دیکھ کر خیال آتا ہے کہ وہ شیطان کے بھی استاد ہیں۔ لعل کرشن ایڈوانی کا مذکورہ بیان اس کا تازہ ترین ثبوت ہے۔ تقسیم برصغیر کا بنیادی اصول اکثریتی تھا، چناں چہ پاکستان برصغیر کے ان علاقوں میں قائم ہوا جہاں مسلمانوں کی اکثریت تھی۔ سندھ بھی مسلم اکثریت علاقہ تھا۔ لیکن لعل کرشن ایڈوانی کو اب خیال آرہا ہے کہ سندھ میں تو ہندو بھی آباد ہیں۔ لہٰذا اس بنیاد پر سندھ کو بھی بھارت کا حصہ ہونا چاہیے۔ اس اعتبار سے دیکھا جائے تو بھارت کی تقریباً ہر ریاست میں مسلمان آباد ہیں چناں چہ پاکستان کو چاہیے کہ وہ ان تمام ریاستوں کو اپنا حصہ بنانے کی کوشش کرے۔ لیکن یہ معاملہ صرف اتنا سا نہیں ہے۔ مسلمان ایسی باتیں سنتے ہیں تو انہیں اپنا طویل تاریخی تجربہ یاد آجاتا ہے۔
مسلمانوں کا تاریخی تجربہ یہ ہے کہ مسلمانوں نے دنیا کے بڑے حصے پر حکومت کی مگر انہوں نے کبھی اقلیتوں کے ساتھ زیادتی نہیں کی۔ مسلمان یہودیوں پر حکمران ہوئے اور انہوں نے یہودیوں کو ہر ممکن آزادی فراہم کی۔ چناں چہ مسلم ریاست میں یہودی موثر طبقات کا حصہ تھے۔ حضرت عمرؓ نے یہودیوں کو اسلامی ریاست سے نکالا تو اس کی وجہ یہ تھی کہ وہ ایک گروہ کی حیثیت سے اسلامی ریاست کے خلاف سازش کررہے تھے۔ مسلمانوں نے اسپین میں چھ سو سال تک حکومت کی اور عیسائی اسپین کی مسلم ریاست میں اقلیت تھے۔ لیکن مسلمانوں نے نہ کبھی عیسائیوں کے مذہبی معاملات میں مداخلت کی، نہ انہیں علم حاصل کرنے سے روکا، نہ صنعت و حرفت اور کاروبار کے دائرے میں ان کی راہ میں کوئی رکاوٹ کھڑی کی۔ مسلمانوں نے بھارت پر ایک ہزار سال حکومت کی مگر انہوں نے ہندو اکثریت کے مذہب کو ہاتھ لگایا نہ ان کے ذات پات کے ظالمانہ نظام کو چھیڑا۔ مسلمانوں کے پورے دور میں ہندو تجارت پر چھائے رہے، وہ مسلم بادشاہوں کے درباروں میں اعلیٰ مناصب پر فائز رہے۔ لیکن مسلمانوں کا تجربہ یہ ہے کہ دوسری اقوام نے کبھی مسلمانوں کے ساتھ انصاف نہ کیا۔ اسپین میں مسلمانوں کی حکومت ختم ہوئی تو عیسائیوں نے مسلمانوں کے سامنے تین امکانات رکھے۔ ایک یہ کہ مسلمان اسلام ترک کرکے عیسائی ہوجائیں۔ دوسرا یہ کہ مسلمان اسپین سے کہیں اور چلے جائیں یا پھر مسلمان قتل ہونے کے لیے تیار رہیں۔ اتفاق سے مسلمانوں کے ساتھ یہ تینوں کام ہوئے۔ مسلمانوں کو زبردستی عیسائی بھی بنایا گیا، مسلمانوں کو اسپین سے نقل مکانی کرنے پر مجبور بھی کیا گیا اور مسلمانوں کو بڑے پیمانے پر قتل بھی کیا گیا۔ برصغیر میں مسلمانوں کے ایک ہزار سالہ اقتدار کا سورج غروب ہوا تو پہلے انگریزوں نے ان کا ناطقہ بند کیا اور پھر ہندوؤں نے انہیں دیوار سے لگا کر کھڑا کردیا۔ چناں چہ آج بھارت میں مسلمانوں کی اکثریت شودروں اور دلتوں سے بدتر معاشی اور سماجی حالات کا شکار ہے۔ یورپ اور امریکا آزادی کے علمبردار ہیں، جمہوریت کے چیمپئن ہیں، مساوات کے پرستار ہیں۔ کثیر الثقافتی معاشرہ ان کا مثالیہ یا ideal ہے، لیکن یورپ ہو یا امریکا مسلمانوں کو ہر جگہ کچلا جارہا ہے۔ انہیں ہر جگہ گھیرا جارہا ہے، ان کی مذہبی آزادی سلب کی جارہی ہے، مسلم خواتین کو برقعے کیا اسکارف سے بھی دور کیا جارہا ہے۔ مساجد کی جگہ پر طرح طرح کی پابندیاں عائد کی جارہی ہیں، مسلمانوں کی نگرانی کی جارہی ہے۔ اہل خانہ سے کہا جارہا ہے کہ وہ اپنے جوانوں کی جاسوسی کریں۔ ان پر نظر رکھیں اور ان کے بارے میں تمام ضروری معلومات پولیس اور خفیہ اداروں کو مہیا کریں۔
مسلمانوں کے تاریخی تجربے کا ایک پہلو یہ ہے کہ مسلم معاشروں میں موجود غیر مسلم اقلیتوں نے ہمیشہ ایک سازشی کردار ادا کیا یا غیر ملکی قوموں نے انہیں اپنے مقاصد کے لیے استعمال کیا۔ یہودی فلسطین پر ایک اقلیت تھے اور وہ کسی بھی اعتبار سے ایک ریاست کے مستحق نہ تھے۔ بلاشبہ ہٹلر نے ان کے ساتھ ظلم کیا تھا لیکن اس ظلم کا ازالہ جرمنی یا یورپ میں ہونا چاہیے تھا۔ لیکن مغربی طاقتوں نے یہودیوں کی مظلومیت کا ازالہ فلسطینیوں پر ظلم کرکے کیا۔ انہوں نے فلسطین میں موجود یہودی اقلیت کو مسلح کیا، اسے مسلمانوں کے ساتھ معرکہ آرائی پر مائل کیا، ان طاقتوں نے یہودیوں کو یورپ سے لے کر ارض فلسطین میں آباد کیا اور باقاعدہ اعلان بالغور کے ذریعے اسرائیل کے قیام کو ممکن بنادیا۔ یہ سازش فلسطین میں آباد یہودی اقلیت کے بغیر کامیاب نہیں ہوسکتی تھی۔
بلاشبہ مشرقی پاکستان کی علیحدگی مغربی پاکستان کے حکمران طبقے کی نالائقی، نااہلی اور ہوس ملک گیری کا نتیجہ تھی۔ مگر اس سلسلے میں بھارت بالخصوص مشرقی پاکستان میں موجود ہندو اقلیت کا کردار بھی اہم ہے۔ ہندو اقلیت نے بھارت کی سازش کے تحت دو کام دل لگا کر کیے۔ اس نے بنگلا قوم پرستی کے تصور کو ہوا دی، ہندو اسکولوں، کالجوں اور جامعات میں اساتذہ کی حیثیت سے موجود تھے۔ انہوں نے بنگالیوں کی نئی نسل کو مغربی پاکستان کے خلاف بھڑکایا اور مغربی پاکستان کی ایک زیادتی کو دس زیادتیوں میں ڈھال کر بنگالیوں کی مایوسیوں اور اشتعال کو بڑھایا۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ پاکستان بنانے والے بنگالی صرف 24 سال میں پاکستان سے بیزار ہوگئے۔ یہاں تک کہ انہوں نے پاکستان سے علیحدگی کے لیے مسلح جدوجہد شروع کردی۔ اس جدوجہد کا نتیجہ بنگلا دیش کے قیام کی صورت میں برآمد ہوا۔
سوویت یونین کے انہدام کے بعد دوسرے کمیونسٹ ملکوں میں بھی بغاوت ہوگئی، سابق یوگوسلاویہ بھی کمیونسٹ ملک تھا۔ یوگو سلاویہ میں بغاوت ہوئی تو اس کے دائرے میں تین آزاد ریاستوں کے قیام کا امکان پیدا ہوا۔ ایک ریاست سرب اکثریت پر مشتمل تھی۔ دوسری کروٹس باشندوں کا مسکن تھی۔ سابق ہوگو سلاویہ میں ایک علاقہ بوسنیا ہر زیگووینا بھی تھا۔ اس علاقے میں مسلمانوں کو بھی یہ حق حاصل تھا کہ وہ اپنے علاقے میں مسلم ریاست قائم کریں۔ لیکن سرب اور کروٹس دونوں مسلمانوں کے خلاف صف آراء ہوگئے۔ اہم بات یہ تھی کہ بوسنیا میں آباد سربوں نے بھی مسلمانوں کے بجائے سربوں کا ساتھ دیا اور بوسنیا میں مسلمانوں کا جو قتل عام بلکہ نسل کشی ہوئی اس میں بوسنیا کے مقامی سرب بھی شامل تھے۔ جو لوگ چالیس پچاس سال سے مسلمانوں کے ’’پڑوسی‘‘ تھے وہ بھی سرب فوج کے زیر سایہ مسلمانوں پر ٹوٹ پڑے۔ نتیجہ یہ ہوا کہ بوسنیا کے مسلمانوں کو الگ اور آزاد ملک مہیا نہ ہوسکا اور وہ ایک کنفیڈریشن کا حصہ بننے پر مجبور ہوگئے۔
مشرقی تیمور انڈونیشیا کا حصہ تھا لیکن مشرقی تیمور میں عیسائیوں کی اکثریت تھی۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ عیسائیوں نے انڈونیشیا سے آزاد ہونے کی کوشش شروع کردی۔ اس کوشش کے ساتھ ہی امریکا اور یورپ مشرقی تیمور کے عیسائیوں کی پشت پر آکر کھڑے ہوگئے اور صرف دو ڈھائی سال میں مشرقی تیمور کے نام سے ایک نئی ریاست وجود میں آگئی۔ ایک مسلم ریاست میں ایک بار پھر غیر مسلم اقلیت کی سازش کامیاب ہوئی۔ سوڈان کے علاقے دارفور میں بھی قابل ذکر عیسائی آبادی موجود ہے۔ اس آبادی نے بھی حالیہ برسوں میں سر اٹھانے کی کوشش کی اور مغربی ذرائع ابلاغ میں دارفور ایک اہم موضوع بن کر اُبھرا۔ لیکن جنرل بشیر کی حکمت عملی نے صورت حال کو ایک حد سے زیادہ بگڑے نہ دیا۔ چناں چہ دار فور کی علیحدگی کے امکانات معدوم ہوگئے۔ اب لعل کرشن ایڈوانی نے سندھ کے ہندوؤں پر توجہ مرکوز کی ہے۔ حالاں کہ سندھ میں ہندوؤں پر کسی طرح کا کوئی ظلم نہیں ہورہا۔ لیکن ایڈوانی نے کسی ظلم کی بنیاد پر بات کی بھی نہیں ہے۔ بھارت کی ہندو قیادت کا اصل مسئلہ اکھنڈ بھارت کا تصور ہے۔ اس تصور کے تحت بھارت پورے پاکستان کو کیا افغانستان کو بھی بھارت کا حصہ سمجھتا ہے۔ یہ بات کوئی قیاس آرائی نہیں ہے۔ بی جے پی کی حکومت نے بھارت کے اسکولوں میں تاریخ کی جو کتب متعارف کرائی ہیں ان میں پورے پاکستان، بنگلا دیش، سری لنکا، مالدیپ اور بھوٹان کو اکھنڈ بھارت کا حصہ باور کرایا گیا ہے۔