وزیراعظم کی ’’بکواس‘‘ کی طرح حسن نثار کی ’’بکواس‘‘ کے بھی کئی پہلو ہیں۔ مثلاً ایک پہلو یہ ہے کہ پردہ ساڑھے چودہ سو سال پہلے تو ٹھیک تھا مگر اب ٹھیک نہیں۔ لیکن پردے کا حکم تو قرآن کا حکم ہے۔ رسول اکرمؐ کا حکم ہے۔ اس اعتبار سے حسن نثار کی بات کا مفہوم یہ ہے کہ پردے سے متعلق قرآن پاک اور رسول اکرمؐ کے حکم کی ساڑھے چودہ سو سال پہلے تو ’’ضرورت‘‘ تھی مگر اب ’’ضرورت‘‘ نہیں۔ کیوں کہ اب دنیا بدل گئی ہے۔ اس کے معنی یہ ہیں کہ حسن نثار کے نزدیک قرآن و سنت کے احکامات ایک خاص زمانے کے لیے تھے تاہم ان کی نوعیت دائمی نہیں۔ ہم عالم نہیں، مگر اتنی سی بات تو ہمیں بھی معلوم ہے کہ قرآن مجید کی ایک نص صریح کا انکار پورے قرآن کا انکار ہے اور قرآن کی ایک نص یا پورے قرآن کا انکار کفر ہے۔
حسن نثار نے یہ بھی کہا کہ ساڑھے چودہ سو سال پہلے مسلمانوں کو الگ نظر آنا suit کرتا تھا مگر اب امریکا اور یورپ کے معاشرے میں ضم اور گم ہونا suit کرتا ہے۔ لیکن اس بات کا مفہوم کیا ہے؟ کیا اس کا مطلب ہے کہ مسلمان مرد ڈاڑھی رکھنا اور عورتیں پردے کی کوئی بھی شکل اختیار کرنا بند کردیں۔ اگرچہ ایسا کرنا بھی قرآن و سنت سے بغاوت کے مترادف ہوگا لیکن اگر مسلمان دل پر جبر کرکے یہ کام کر ڈالیں تو کیا اہل امریکا اور اہل یورپ مسلمانوں سے خوش ہوجائیں گے؟ حسن نثار کو معلوم ہے کہ امریکا اور یورپ میں شراب اور سور کے گوشت کا استعمال عام ہے اور مسلمانوں پر یہ دونوں چیزیں حرام ہیں۔ چناں چہ مسلمان نہ شراب پیتے ہیں نہ خنزیر کا گوشت کھاتے ہیں۔ اس کا نتیجہ یہ ہے کہ امریکا اور یورپ میں حلال گوشت کے خلاف بھی زبردست مہم چل رہی ہے۔ چناں چہ کچھ عرصے کے بعد مسلمانوں کو امریکا اور یورپ کے معاشروں میں ضم اور گم ہونے کے لیے حلال گوشت چھوڑ کر حرام گوشت اختیار کرنا ہوگا۔ یہ امر بھی راز نہیں کہ امریکا اور یورپ میں شراب نہ پینے والے مسلمانوں کو ’’روشن خیال‘‘ نہیں سمجھا جاتا۔ چناں چہ اس سلسلے میں بھی مطالبات اٹھیں گے تو مسلمانوں کو امریکا اور یورپ کے معاشروں میں ضم اور گم ہونے کے لیے شراب کا استعمال بھی شروع کرنا پڑے گا۔ لندن کے ہفت روزے دی اکنامسٹ کے ایک سروے کے مطابق مغربی یورپ کے 75 فی صد اور مشرقی یورپ کے 80 فی صد باشندے کسی خدا اور کسی مذہب پر ایمان نہیں رکھتے۔ چوں کہ مسلمان خدا اور مذہب کو مانتے ہیں اس لیے وہ یورپ میں ’’اجنبی‘‘ نظر آئیں گے اور کل ان سے کہا جائے گا یورپ کے معاشرے میں ضم اور گم ہونے کے لیے خدا اور مذہب کو بھی ترک کرو۔ حسن نثار نے بدلتی ہوئی ضروریات لیے بدلتے ہوئے قوانین اور ناقابل تغیر ضروریات کے لیے ناقابل تغیر قوانین کو فلسفہ حدیث قرار دیا ہے۔ لیکن جیسے ان کا تصور اسلام ذاتی و انفرادی ہے ویسے ہی ان کا فلسفہ حدیث بھی من گھڑت ہے۔ اسلام کا اصول یہ ہے کہ مسلمانوں کو کوئی مسئلہ درپیش ہوگا تو اس کا حل قرآن میں ڈھونڈا جائے گا۔ قرآن سے رہنمائی نہیں ملے گی تو حدیث اور سنت رسولؐ سے رجوع کیا جائے گا۔ یہاں سے بھی رہنمائی فراہم نہیں ہوگی تو صحابہ کے اقوال سے رجوع کیا جائے گا اور اجماع سے دستگیری چاہی جائے گی۔ یہاں سے بھی رہنمائی نہیں ملے گی تو قیاس یا اجتہاد سے کام لیا جائے گا، لیکن قیاس یا اجتہاد اندھا دھند غور و فکر کا سلسلہ اور دین کو دنیا کے مطابق بنانے کا کام نہیں بلکہ اجتہاد پہلے سے موجود کسی اصول سے نیا ضابطہ وضع کرنے کا نام ہے۔ حسن نثار کو معلوم ہونا چاہیے کہ دین ناقابل تغیر ہے اس لیے کہ وہ دنیا کو اپنے مطابق بنانے کے لیے ہے۔ اگر دین کو دنیا کے مطابق بنانا ہے تو پھر دین کی ضرورت ہی کیا ہے۔ حالات یہی رہے تو پاکستان کے سیکولر اور روشن خیال رہنما اور دانش ور ایک دن یہی کہہ دیں گے کہ ہمیں دین کی ضرورت نہیں اور ہے تو اسے دنیا کے مطابق ہونا چاہیے۔
جیو کے پروگرام رپورٹ کارڈ میں ریٹائرڈ وائس ایڈمرل شہزاد چودھری نے بھی اسلام کے ایک بنیادی تصور کے خلاف بغاوت کے جذبات پیدا کرنے کی پوری کوشش کی۔ انہوں نے پنجاب حکومت کی جانب سے تعلیمی اداروں میں پردے کو رائج کرنے کی قیاس آرائی کے حوالے سے فرمایا۔
’’مجھے لاہور کی لڑکیوں پر اتنا یقین ہے، اس حد تک یقین ہے جو مرضی ہے کرلیں، یہ کون سے گیلانی صاحب ہیں اور اب کون سے چیف منسٹر صاحب ہیں۔ آپ فکر مت کیجیے۔ ان شاء اللہ، ان شاء اللہ ان میں سے کوئی ان کو (برقع یا اسکارف) پہنا کے دکھا دے تو میں مان جاؤں گا۔ یہ اپنی مرضی کرنے والی خواتین اور لڑکیاں ہیں۔ لاہور کی یا پنجاب کی۔ they are going to do جو ابھی تک وہ کررہی ہیں‘‘۔
ہمارے معاشرے میں کروڑوں لوگ ہیں جو نماز نہیں پڑھتے مگر وہ نماز نہ پڑھنے پر شرمندہ رہتے ہیں۔ یہ نہیں کہتے کہ نماز نہیں پڑھنی چاہیے۔ ہمارے معاشرے میں لاکھوں لوگ ہیں جو روزے نہیں رکھتے مگر وہ روزے نہ رکھنے پر شرمندہ ہوتے ہیں یہ نہیں کہتے کہ روزے نہیں رکھنے چاہییں۔ ہمارے معاشرے میں لاکھوں خواتین ہیں جو خدا اور رسولؐ کے حکم کے مطابق پردہ نہیں کرتیں مگر وہ یہ نہیں کہتیں کہ ہمیں پردہ کرنا ہی نہیں چاہیے۔ لیکن شہزاد چودھری نے اپنے تجزیے میں قرآن و سنت کے ایک واضح حکم کو ظلم، جبر اور جہالت کی طرح پیش کیا ہے اور اس کے خلاف مبینہ طور پر پہلے سے موجود باغیانہ خیالات کی تعریف کی ہے اور ان پر اطمینان کا اظہار کیا ہے۔ پردہ اگر کسی مولوی، ملا کا یا کسی مذہبی جماعت کا حکم یا کلچر ہوتا تو اس کے سلسلے میں مذکورہ رویہ قابل فہم ہوسکتا تھا لیکن اسلامی جمہوریہ پاکستان میں قرآن کے واضح حکم کو چیلنج کرنا، اس کا مذاق اُڑانا اور اس کے خلاف باغیانہ رویے کی حمایت کرنا ناقابل فہم ہے۔ لوگ میر شکیل الرحمن اور جیو پر اینٹی اسلام اور اینٹی پاکستان ہونے کا الزام لگارہے ہیں۔ ہم اس الزام کو دہرانا نہیں چاہتے لیکن میر شکیل الرحمن سے پوچھنا چاہتے ہیں کہ ان کے چینل پر یہ کیا ہورہا ہے اور اس کا کیا مفہوم ہے؟ یہ سوال اس لیے بھی اہم ہے کہ مذکورہ پروگرام پر سیکولر دانش وروں کا غلبہ تھا۔ پروگرام کے ایک شریک مظہر عباس تھے اور ان کا تعلق بائیں بازو سے ہے۔ پروگرام کے دوسرے شریک امتیاز عالم تھے اور لوگ انہیں سیکولر ازم کے حوالے سے بدنام زمانہ کہتے ہیں۔ حسن نثار نے پروگرام میں خود کہا کہ میں سیکولر ہوں۔ پروگرام کے ایک شریک شہزاد چودھری تھے، انہوں نے کھل کر پردے کے تصور کی تذلیل کی۔ پروگرام کے ایک شریک منیب فاروق تھے اور وہ بھی بہرحال ’’اسلام پسند‘‘ نہیں سمجھے جاتے۔ اس اعتبار سے میر شکیل الرحمن نے قرآن کے ایک حکم کو سیکولر بھیڑیوں کے آگے ڈال دیا اور کہا کہ لو اس کو بھنبھوڑو۔ کیا یہ اسلام دوستی ہے؟ اور اگر یہی اسلام دوستی ہے تو اسلام دشمنی کسے کہتے ہیں؟۔ لیکن یہ قصہ یہی ختم نہیں ہوتا۔
میر شکیل الرحمن کے اخبار روزنامہ جنگ کراچی کی 15 مارچ 2017ء کی اشاعت میں صفحہ اوّل پر دو خبریں موجود ہیں۔ ان میں سے ایک خبر کی سرخی ہے۔
’’حجاب کا فروغ ملک کے لیے جگ ہنستائی کا باعث بنے گا۔ مہتاب اکبر راشدی کی پنجاب حکومت کے مبینہ فیصلے پر تنقید‘‘۔
غور کیا جائے تو یہ سرخی خود اسلام پر ہولناک حملہ ہے اس لیے کہ اس میں قرآن مجید کے ایک صریح حکم کو جگ ہنسائی کا سبب قرار دیا گیا ہے۔ بلاشبہ اس سرخی کی اصل ذمے دار مہتاب اکبر راشدی ہیں لیکن جنگ نے اس خبر کو کسی ذہنی تحفظ کے بغیر شائع کیا ہے وہ بھی واضح ہے۔ اسی دن کی اشاعت میں آصف علی زرداری کی بیٹی آصفہ زرداری سے متعلق خبر بھی شائع ہوئی ہے۔ اس خبر میں آصفہ نے حجاب سے متعلق خبر کے حوالے سے پنجاب حکومت پر تنقید کی ہے۔ تو کیا اب مسلم خواتین کے حجاب کا تعین قرآن و سنت کے بجائے مہتاب اکبر راشدی اور آصفہ بھٹو کریں گی؟۔ اس صورت حال کو دیکھ کر خیال آتا ہے کہ اسلامی جمہوریہ پاکستان میں اسلام اور قرآن و سنت کے احکامات کتنے مجبور اور بے بس ہیں۔ سیاسی جماعتیں ہوں یا مذہبی جماعتیں۔ سیاسی رہنماؤں یا مذہبی رہنما یا علمائے کرام سب سوئے پڑے ہیں۔ اس لیے کہ حملے ان پر نہیں اسلام پر ہورہے ہیں۔ حملے سیاسی و مذہبی رہنماؤں اور جماعتوں پر ہوتے تو اب تک ایک طوفان برپا ہوچکا ہوتا۔