بیسویں صدی کے آغاز میں قومی ریاست انتہائی طاقت ور اور موثر بن کر اُبھری تو بعض مفکرین نے اندیشہ ظاہر کیا کہ ریاست کی طاقت اسی طرح بڑھتی رہی تو ریاست کہیں خدا ہی نہ بن جائے۔ اس اندیشے کا بنیادی سبب یہ تھا کہ قومی سیاست پر عوام کا انحصار بڑھتا جارہا تھا، ریاست عوام کے جان و مال کے تحفظ کی ضمانت فراہم کررہی تھی۔ ریاست بیرونی دشمنوں سے عوام کو بچا رہی تھی، ریاست عوام کو روزگار مہیا کررہی تھی، ریاست عوام کو تعلیم اور صحت کی سہولتیں فراہم کررہی تھی، سرمایہ دارانہ معاشروں میں سوشلزم کے خطرے نے ریاستوں کی ’’عوام دوستی‘‘ میں مزید اضافہ کیا۔ چناں چہ ریاست مادی فلاح کا نمونہ بن کر اُبھری۔ اگرچہ سوشلزم کا خطرہ تحلیل ہوچکا ہے اور سرمایہ دارانہ ریاستیں عوام اور محنت کشوں سے بہت سی مراعات واپس لے رہی ہیں لیکن مغرب میں ریاست اب بھی بڑی اہمیت کی حامل ہے۔ مغرب میں ریاست کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ نام نہاد قومی سلامتی کے نام پر ریاست کچھ بھی کرسکتی ہے۔ یہاں تک کہ وہ اس آزادی کو بھی سلب کرسکتی ہے جو مغرب کا طرۂ امتیاز ہے۔ ریاست کے ’’تقدس‘‘ کا یہ عالم ہے کہ ریاست خواہ کچھ کرے اس سے کوئی باز پرس نہیں کرتا اور کرتا بھی ہے تو اس کا کوئی خاص مفہوم نہیں ہوتا۔ ریاست کا یہ تقدس ریاست اور عوام کے رشتے سے پیدا ہوا ہے۔
اسلام کے دائرے میں کچھ بھی خدا کے جیسا نہیں ہوسکتا۔ ریاست بھی نہیں۔ لیکن اسلام کے دائرے میں ریاست ماں کی طرح محبت کرنے والی اور شفیق ہوتی ہے۔ ریاست مدینہ اور خلفائے راشدین کا عہد زریں اس کا سب سے بڑا ثبوت ہے۔ برصغیر کے مسلم اکثریتی صوبوں کے عوام خوش قسمت تھے کہ اللہ تعالیٰ نے انہیں دنیا کی سب سے بڑی اسلامی ریاست پاکستان کی صورت میں عطا کی۔ بلاشبہ یہ ریاست ماں کی طرح تھی لیکن بدقسمتی سے اس کے حکمران ڈائن کی طرح ہیں۔ یہ ڈائن صرف 24 برسوں میں آدھا پاکستان نگل گئی۔ باقی ماندہ آدھے پاکستان کی حالت کیا ہے۔ آئیے دیکھتے ہیں۔
پاکستان کو آزاد ہوئے 70 سال ہوگئے۔ لیکن پاکستان کے 40 فی صد افراد آج بھی خط غربت کے نیچے زندگی بسر کررہے ہیں۔ یہ وہ لوگ ہیں جن کی یومیہ آمدنی ایک ڈالر یا اس سے بھی کم ہے۔ مزید 20 سے 25 فی صد لوگ ایسے ہیں جن کی یومیہ آمدنی دو ڈالر یا اس سے کم ہے۔ پاکستان کو آزاد ہوئے 70 سال ہوگئے لیکن آج بھی ہماری شرح خواندگی چالیس، پینتالیس فی صد سے زیادہ نہیں۔ خواندگی کے ان اعداد و شمار کو بھی ماہرین کی اکثریت مشتبہ سمجھتی ہے۔ پاکستان کو آزاد ہوئے 70 سال ہوگئے لیکن آج بھی پاکستان کی 70 فی صد آبادی بیمار پڑتی ہے تو اسے علاج کے لیے کوئی اہل یا کوالیفائیڈ ڈاکٹر میسر نہیں آتا۔ پاکستان کو آزاد ہوئے 70 سال ہوگئے لیکن ہماری 82 فی صد آبادی کو پینے کے لیے پانی کا ایک صاف اور صحت بخش گلاس مہیا نہیں۔ اس سلسلے میں حال ہی میں دو دل دہلانے والی خبریں موصول ہوئی ہیں۔ پہلی خبر صرف سندھ سے متعلق تھی۔ خبر کے مطابق ایک سروے سے یہ حقیقت آشکار ہوئی ہے کہ سندھ کے 13 اضلاع میں دستیاب پانی پینے کے لائق نہیں۔ اس سلسلے میں ملک کے سب سے بڑے اور ترقی یافتہ شہر کراچی کی صورت حال رونگٹے کھڑے کردینے والی ہے۔ اطلاعات کے مطابق کراچی میں پینے کے پانی کے 80 فی صد نمونوں میں بیکٹریا پایا گیا ہے۔ اطلاعات کے مطابق ماہرین کئی سال سے سندھ کے وسیع علاقے میں پینے کے پانی کا تجزیہ کررہے ہیں اور انہیں تاحال صورت حال میں رتی برابر بھی بہتری نظر نہیں آئی۔ اس صورت حال کی وجہ سے عدالت عظمیٰ کے ایک تین رکنی بینچ نے کراچی کے فراہمی و نکاسی آب کے سربراہ کو برطرف کردیا ہے اور پانی کو پینے کے قابل بنانے کے احکامات جاری کیے ہیں۔ اس خبر کی سرخی کی سیاہی ابھی خشک بھی نہ ہوئی تھی کہ اس خبر نے پورے ملک کو ہلا کر رکھ دیا ہے کہ غیر معیاری پانی صرف سندھ کے 13 اضلاع ہی میں نہیں پورے ملک میں فراہم ہورہا ہے۔ خبر کے مطابق ملک بھر میں پانی فراہم کرنے والے 10 ہزار منصوبوں کا سروے کیا گیا ہے۔ ان منصوبوں میں 70 فی صد غیر فعال ہیں جب کہ 84 فی صد منصوبوں کا پانی مضر صحت ہے۔
پانی زندگی کی بنیادی ضرورت ہے۔ مادی معنوں میں اس سے زیادہ بنیادی ضرورت کا تصور محال ہے لیکن پاکستان کے حکمران طبقے نے پانی جیسی بنیادی ضرورت کو بھی ’’تعیش‘‘ بنا دیا ہے۔ چناں چہ ملک کے تمام بڑے شہروں میں منزل واٹر کی وبا عام ہوگئی ہے اس نے اربوں روپے کی صنعت کی صورت اختیار کرلی ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ پاکستان کے اکثر بڑے شہروں میں پینے کا صاف، شفاف اور صحت بخش پانی دستیاب نہیں۔ مزے کی بات یہ ہے کہ ’’منزل واٹر‘‘ کے دائرے میں بھی تماشا ہورہا ہے۔ منزل واٹر کے اکثر نمونوں کے تجزیے سے معلوم ہوچکا ہے کہ منرل واٹر بھی منرل واٹر نہیں ہے۔ حقیقی معنوں میں جو چیز منرل واٹر ہے وہ اتنی مہنگی ہے کہ عام لوگ کیا متوسط طبقے کے اکثر لوگ بھی اس کا مالی بوجھ نہیں اٹھا سکتے۔ لیکن یہاں کہنے کی اصل بات یہ ہے کہ جو حکمران طبقہ اپنے عوام کو پینے کا صاف پانی بھی فراہم نہیں کرسکتا کس بنیاد پر حکمران کہا جائے؟ میاں نواز شریف اس بات پر فخر کرتے ہیں کہ وہ تیسری بار ملک کے وزیراعظم بنے ہیں۔ پیپلز پارٹی اس بات پر فخر کرتی ہے کہ وہ مرکز میں چار بار اقتدار میں آچکی ہے اور سندھ میں بھی وہ 1970ء سے اب تک بار بار اقتدار میں آئی ہے لیکن یہ لوگ ملک کو ترقی یافتہ کیا ’’پانی یافتہ‘‘ بھی نہیں بناسکے ہیں۔ یہ اتنی شرمناک بات ہے کہ شریف اور بھٹو خاندان میں اگر شرم نام کی کوئی چیز ہو تو وہ چلّو بھی پانی میں ڈوب مریں۔
ہم نے 1982ء میں میٹرک، 1984ء میں انٹر اور 1990ء میں کراچی یونیورسٹی سے ایم اے کیا۔ اس وقت نجی اسکول بہت کم تھے اور نجی کالجوں اور نجی جامعات کا کوئی وجود نہ تھا۔ اس کے معنی یہ تھے کہ تعلیم کا پورا بندوبست پبلک سیکٹر میں تھا۔ لیکن سن 2017ء تک آتے آتے آدھے اسکول، آدھے کالج اور آدھی جامعات نجی شعبے کے حوالے ہوچکی ہیں۔ اس کے معنی یہ ہیں کہ حکمرانوں نے معاشرے کو ریاست کے سائے میں تعلیم فراہم کرنے سے صاف انکار کردیا ہے اور تعلیم کو ایک کاروبار کی صورت دے دی ہے۔ ہمیں یاد ہے کہ ایم اے کے آخری سال کے آخری سمسٹر کی فیس ساڑھے چار سو روپے تھی آج جامعہ کراچی میں ایم اے کے آخری سال کے آخری سمسٹر کی فیس 8 ہزار روپے ہے۔ اگر 1990ء کی دہائی میں بھی جامع کی فیس اتنی ہی ہوتی تو ہم کیا ہمارے جیسے لاکھوں طلبہ اعلیٰ تعلیم حاصل کر ہی نہیں سکتے۔ پبلک سیکٹر کی جامعہ میں تعلیم اتنی مہنگی ہوگئی ہے تو اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ نجی جامعات کا کیا حال ہوگا۔؟ تو کیا تعلیم کوئی جنس تجارت ہے؟ یا اس کا تعلق اہلیت اور صلاحیت سے ہے؟
صحت کے شعبے کا حال بھی یہی ہے۔ 1980ء کی دہائی تک نجی ہسپتال بہت کم تھے مگر اب نجی ہسپتالوں کی بھرمار ہوگئی ہے۔ اس کا مفہوم یہ ہے کہ پاکستان کے حکمرانوں نے عوام کو تعلیم کی طرح صحت کی سہولت فراہم کرنے سے بھی صاف انکار کردیا ہے۔ سوال یہ ہے کہ جو حکمران عوام کو تعلیم نہیں فراہم کرسکتے، علاج معالجے کی بنیادی سہولتیں نہیں فراہم کرسکتے، پینے کا ایک صحت بخش گلاس نہیں فراہم کرسکتے، ان کو اقتدار کیا سیاست میں بھی آنے کا حق کیوں دیا جائے؟ مسئلہ یہ ہے کہ جب ایک دو بار حکمران ناکام ہوتے ہیں تو صرف حکمران ناکام ہوتے ہیں، جب حکمران تین چار بار ناکام ہوتے ہیں تو سیاسی جماعتیں ناکام ہوتی ہیں لیکن جب ہر حکمران ناکام ہونے لگے تو پھر ریاست کی ناکامی کا تاثر پیدا ہونے لگتا ہے۔ لیکن وہ جرنیل ہوں یا سیاست دان انہیں اس بات سے دلچسپی ہی نہیں کہ ان کی ہولناک ناکامی ریاست کی ناکامی کا تاثر خلق کیے جارہی ہے۔