166مارا زمانہ بادشاہت کی مذمت کا زمانہ ہے۔ بلاشبہ اسلام میں بادشاہت کی کوئی گنجائش نہیں لیکن ہمارے زمانے میں بادشاہت کے ادارے کی مذمت اسلام کی بنیاد پر نہیں جمہوریت کی بنیاد پر کی جاتی ہے۔ حالاں کہ حقیقت یہ ہے کہ دنیا کے اکثر ملکوں کے جمہوری حکمران ’’جمہوری بادشاہت‘‘ کی علامت ہیں۔ بلاشبہ بادشاہوں کے اپنے نقائص ہیں مگر تاریخ میں ایسے بادشاہ بھی ہوئے ہیں جن کے آگے نام نہاد جمہوری حکمرانوں کی کوئی حیثیت ہی نہیں۔ مثال کے طور پر اورنگ زیب عالمگیر بادشاہ ہی تھا مگر وہ بادشاہ ہو کر بھی شریعت کا پاسدار تھا۔ وہ خود عالم تھا اور علما سے محبت کرتا تھا۔ ’’فتاویٰ عالمگیری‘‘ اس کے عہد کا ایک بڑا علمی کارنامہ ہے۔ اورنگ زیب اگرچہ بادشاہ ہی تھا لیکن اس کی زندگی میں ایک سادگی تھی۔ لیکن اورنگ زیب تو ماضی کا قصہ ہے۔ ہمارے زمانے میں بادشاہت کی ایک نسبتاً بہتر مثال شاہ فیصل شہید تھے۔ شاہ فیصل بادشاہ تھے اور ان کے زمانے میں بھی امریکا دنیا کی دو سپر پاورز میں سے ایک تھا۔ لیکن اس کے باوجود انہوں نے امریکا کیا پورے مغرب کی بالادستی کو چیلنج کیا اور اس کے خلاف تیل کو ہتھیار کے طور پر استعمال کرکے مغرب کو ہلا کر رکھ دیا۔ شاہ فیصل بادشاہ تھے لیکن انہیں اُمت کے تصور سے خصوصی دلچسپی تھی۔ اسلامی کانفرنس کی تنظیم اگرچہ پوری اُمت کا تصور تھا لیکن اس کی پشت پر اصل قوت شاہ فیصل کی تھی۔ شاہ فیصل پاکستان کے امکانات کو بخوبی سمجھتے تھے اسی لیے انہیں پاکستان سے خاصی محبت تھی۔ پاکستان کا کوئی اعلیٰ سطحی وفد ان سے ملنے جاتا تو وہ اپنے ہاتھ سے اسے پھل کاٹ کر کھلاتے۔ مشرقی پاکستان بنگلا دیش بنا تو شاہ فیصل نے اسے تسلیم نہ کیا۔ تاہم جب خود پاکستان نے بنگلا دیش کو تسلیم کرلیا تو شاہ فیصل نے بھی ہتھیار ڈال دیے۔ شاہ فیصل بادشاہ تھے اور پیٹرو ڈالر کا دریا ان کے زمانے میں بھی پوری آب و تاب کے ساتھ بہہ رہا تھا لیکن شاہ فیصل عرب شہزادوں کی پُرتعیش زندگی کو پسند نہیں کرتے تھے۔ وہ کہتے تھے کہ ہمارے آباو اجداد اونٹ چرانے والے تھے اور اگر ہم نے تیل کی دولت کو لٹانے کا سلسلہ جاری رکھا تو ہماری آئندہ نسلیں جیٹ طیاروں کے بجائے ایک بار پھر اونٹوں پر سفر کریں گی۔ شاہ فیصل بادشاہ ہی تھے مگر ان کی بادشاہی میں جمہوری حکمرانوں سے زیادہ انقلابیت تھی۔ اسی لیے یہ خیال عام ہے کہ امریکا نے شاہ فیصل کو ان کے بھتیجے کے ذریعے راستے سے ہٹادیا۔ مگر شاہ فیصل اپنی خوبیوں کی وجہ سے آج تک مسلم عوام کے دلوں میں زندہ ہیں۔ لیکن بدقسمتی سے اب عالم اسلام میں اورنگ زیب تو کیا شاہ فیصل شہید جیسا بھی کوئی نہیں۔
ہمارا زمانہ تو سعودی عرب کے شاہ سلمان بن عبدالعزیز کا زمانہ ہے۔ سلمان بن عبدالعزیز کا مسئلہ کیا ہے، اس کا اندازہ کرنا ہو تو ہمیں امریکا کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور شاہ سلمان بن عبدالعزیز کے درمیان حال ہی میں ٹیلی فون پر ہونے والی گفتگو پر ایک سرسری نظر ڈال لینی چاہیے۔
اطلاعات کے مطابق ڈونلڈ ٹرمپ نے سلمان بن عبدالعزیز کے ساتھ ایک گھنٹے تک ٹیلی فون پر گفتگو فرمائی۔ وائٹ ہاؤس کے مطابق امریکا کے صدر نے گفتگو کے دوران فرمایا کہ شام اور یمن میں پناہ گزینوں کی محفوظ پناہ گاہیں یا safe zone قائم کرنے کی ضرورت ہے تاکہ شام اور یمن کے پناہ گزین مغربی ملکوں کا رُخ نہ کرسکیں۔ وائٹ ہاؤس کے مطابق شاہ سلمان بن عبدالعزیز نے ڈونلڈ ٹرپ کے اس تجویز نما حکم سے اتفاق کیا۔ وائٹ ہاؤس نے مزید بتایا ہے کہ دونوں رہنماؤں نے radical islamic terrorism کے سلسلے میں مشترکہ کوششوں کو مزید مستحکم اور موثر بنانے پر بھی اتفاق کیا۔ خبر کے مطابق شاہ سلمان بن عبدالعزیز نے ڈونلڈ ٹرمپ سے کہا کہ وہ مشرق وسطیٰ میں دہشت گردی کو شکست دینے کی کوششوں کی قیادت فرمائیں۔ اطلاعات کے مطابق دونوں رہنماؤں نے اخوان المسلمون کے حوالے سے بھی گفتگو کی اور گفتگو میں اس ’’امر‘‘ کی ’’نشاندہی‘‘ کی گئی کہ اسامہ بن لادن اپنے ابتدائی زمانے میں اخوان سے وابستہ تھے۔ اطلاعات کے مطابق ڈونلڈٹرمپ امریکا کی صدارتی مہم کے دوران شام اور یمن میں محفوظ پناہ گاہوں یا safe zones کا تصور پیش کرتے رہے اور ان کا خیال ہے کہ اس سلسلے میں مشرق وسطیٰ کے ملکوں کو وسائل مہیا کرنے چاہئیں۔ (روزنامہ ڈان کراچی۔ 31 جنوری 2017ء)
سعودی عرب مسلم دُنیا کا طاقت ور ترین ملک ہے۔ اس کی ایک وجہ مذہبی اور دوسری وجہ مادی ہے۔ مذہبی وجہ یہ ہے کہ کعبۃ اللہ بھی سعودی عرب میں ہے اور روضۂ رسولؐ بھی سعودی عرب میں ہے۔ مادی سبب یہ ہے کہ سعودی عرب مسلم دُنیا کا امیر ترین ملک ہے اور اُمت مسلمہ کا شاید ہی کوئی ملک ایسا ہوگا جس کی سعودی عرب نے کبھی نہ کبھی مالی مدد نہ کی ہو۔ اس اعتبار سے سعودی عرب عالم اسلام کا رہنما ہے۔ اس لیے دیکھا جائے تو شاہ سلمان بن عبدالعزیز کا فرض تھا کہ وہ ڈونلڈ ٹرمپ سے اس بات پر احتجاج کرتے کہ انہوں نے مسلم دنیا کے سات ملکوں کے باشندوں پر امریکا کے دروازے بند کردیے ہیں۔ یہ فیصلہ مذہبی، نسلی اور تہذیبی تعصب کی علامت ہے اور اس پر کہیں اور کیا خود امریکا میں بھی احتجاج ہورہا ہے۔ لیکن شاہ سلمان بن عبدالعزیز نے ایک گھنٹے کی گفتگو میں اس مسئلے پر دس سیکنڈ گفتگو فرمانے کی بھی زحمت نہ کی۔ جہاں تک شام اور یمن بالخصوص شام کا تعلق ہے تو شام کا مسئلہ خود امریکا اور اس کے مغربی اتحادیوں کا پیدا کردہ ہے۔ یہ زیادہ پرانی بات نہیں کہ امریکا نے عراق کے خلاف یہ کہہ کر جارحیت کا ارتکاب کیا تھا کہ صدام حسین کے پاس بڑے پیمانے پر تباہی پھیلانے والے ہتھیار ہیں، حالاں کہ امریکا اور یورپ کے خفیہ اداروں کے پاس اس سلسلے میں کوئی درست اطلاع موجود نہ تھی۔ لیکن شام میں بشارالاسد تین ساڑھے تین سال تک اپنے ہی لوگوں کا قتل عام کرتا رہا، یہاں تک کہ اس نے اپنے ہی لوگوں کے خلاف کئی بار کیمیائی ہتھیار بھی استعمال کیے لیکن اس بحران میں نہ امریکا نے مداخلت کی اور نہ یورپ کے کسی ملک نے۔ یہاں تک کہ ایران اور روس میدان میں کود پڑے اور انہوں نے بشارالاسد کی حمایت کا شرم ناک کام انجام دینا شروع کردیا۔ لیکن امریکا نے ایران اور روس کو بھی چیلنج نہ کیا۔ امریکا اور یورپ کے بعض ملکوں نے زبانی جمع خرچ کے ساتھ ساتھ صرف اتنا کیا کہ بشار کی مزاحمت کرنے والے ایک آدھ گروپ کو مالی اور عسکری مدد فراہم کی۔ ان دو باتوں سے قطع نظر کرکے دیکھا جائے تو شام میں امریکا اور روس پرامن بقائے باہمی کے اصول پر عمل کرتے نظر آتے ہیں۔ اس اعتبار سے دیکھا جائے تو شام کا مسئلہ سعودی عرب یا علاقے کے دوسرے ملکوں کا نہیں امریکا، یورپ، روس اور ایران کا پیدا کردہ ہے اور شام کے پناہ گزینوں کا بوجھ بھی انہی ملکوں کو اُٹھانا چاہیے۔ لیکن ڈونلڈ ٹرمپ نے ایک ٹیلی فون کال کے ذریعے پناہ گزینوں کی ساری ذمے داری اور ان کا سارا بوجھ سعودی عرب اور علاقے کے دوسرے ملکوں پر ڈال دیا اور شاہ سلمان بن عبدالعزیز نے ایک لمحے میں ڈونلڈ ٹرمپ کے سامنے ’’یس سر‘‘ کہہ کر ہتھیار ڈال دیے۔ شام کے پناہ گزینوں کا المیہ ایسا ہے کہ اس کا جتنا ماتم کیا جائے کم ہے لیکن اس مسئلے نے امریکا اور یورپ کے انسانیت پرستی اور انسانی حقوق سے متعلق دعووں کا جنازہ نکال دیا ہے۔ اس لیے کہ انجیلامرکل کے جرمنی کے سوا پورے یورپ نے شام کے پناہ گزینوں کے لیے اپنے دروازے بند کردیے۔ ڈونلڈ ٹرمپ کو اندیشہ ہے کہ شام کے پناہ گزینوں کا رُخ امریکا اور یورپ کی طرف رہے گا تو امریکا اور یورپ کی نام نہاد انسانیت پرستی کے منہ پر روز کالک ملی جائے گی اور یہ کام کوئی اور نہیں خود امریکا اور یورپ کے رہنما کریں گے۔ چناں چہ انہوں نے شام کے پناہ گزینوں کو شام تک محدود رکھنے کا بندوبست کردیا ہے۔ سوال یہ ہے کہ اگر امریکا شام میں محفوظ پناہ گاہیں تسلیم کراسکتا ہے تو بشار الاسد کی شیطانی حکومت کو گرانے کا کام کیوں نہیں کرتا؟ تجزیہ کیا جائے تو ڈونلڈ ٹرمپ نے شام کے اندر محفوظ پناہ گاہیں قائم کرنے کا تصور پیش کرکے شام کو ایک بڑے سے پناہ گزین کیمپ میں تبدیل کردیا ہے اور مسلمانوں کے دو مقدس مقامات کے نگہبان شاہ سلمان بن عبدالعزیز نے ڈونلڈ ٹرمپ کی آواز میں اپنی آواز ملادی ہے۔
یہ زیادہ پرانی بات نہیں کہ سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات نے اخوان المسلمون کو دہشت گرد تنظیم قرار دے کر جنرل سیسی جیسے درندہ صفت انسان کی کامل حمایت کی تھی۔ تاہم حال میں بعض اطلاعات ایسی آئی تھیں جن سے ظاہر ہورہا تھا کہ سعودی عرب نے اخوان کے سلسلے میں اپنے مؤقف پر نظرثانی کی ہے۔ تاہم ڈونلڈ ٹرمپ اور شاہ سلمان بن عبدالعزیز کے درمیان گفتگو میں اخوان کا ذِکر جس انداز میں ہوا ہے وہ اور تمام اسلامی تحریکوں کے لیے تشویش ناک ہونا چاہیے۔ یہاں کہنے کی اصل بات یہ ہے کہ اخوان نے اپنی طویل تاریخ میں تشدد کیا طاقت کے استعمال کا بھی مظاہرہ نہیں کیا، اس کے باوجود امریکا اسے دہشت گرد تنظیم قرار دینے کے لیے بے تاب ہے اور ٹرمپ کے کیمپ میں اس حوالے سے بحث و مباحثہ جاری ہے کہ اخوان المسلمون کو دہشت گرد قرار دیں یا نہ دیں۔ لیکن یہاں اصل مسئلہ امریکا کا نہیں سعودی عرب کا ہے۔ سعودی عرب نے اگر اخوان کے سلسلے میں اپنے مؤقف پر نظرثانی کی ہے تو شاہ سلمان بن عبدالعزیز کو چاہیے تھا کہ وہ ڈونلڈ ٹرمپ پر واضح کرتے کہ اخوان کا دہشت گردی سے کوئی تعلق نہیں۔ لیکن سعودی حکمران نے ایسا نہیں کیا۔ تو کیا اس کا مطلب یہ ہے کہ اخوان کے سلسلے میں ڈونلڈ ٹرمپ اور شاہ سلمان بن عبدالعزیز ایک ہی رائے کے حامل ہیں؟؟