انسان کو جاننا دنیا کے مشکل ترین کاموں میں سے ایک ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ انسان ایک پیچیدہ مخلوق ہے اسے سمجھنے کے لیے اس کی روح میں اترنا ضروری ہوتا ہے۔ اس کے قلب میں جھانکنا ناگزیر ہوتا ہے۔ اس کی فطرت کو بے نقاب دیکھنالازمی ہوتا ہے۔ یہ سارے کام مشکل ہیں، اس لیے ہم انسان کو بھی اس کے عام تصور، عام image یا اس کی عام شہرت کے حوالے سے جانتے ہیں۔ اگر کسی انسان کی شہرت یہ ہوتی ہے کہ وہ نیک آدمی ہے تو ہم اسے نیک سمجھتے ہیں۔ انسان کی شہرت بری ہو تو ہم اسے برا انسان سمجھتے ہیں۔ لیکن انسانوں کی عظیم اکثریت نیکی اور بدی کا مرکب ہوتی ہے، اچھے انسانوں میں بھی کوئی نہ کوئی برائی، کوئی نہ کوئی نقص نکل ہی آتا ہے۔ اس کے برعکس برا انسان بھی کسی نہ کسی کے لیے اچھا ہوتا ہے۔ اس اعتبار سے دیکھا جائے تو اچھے انسان کی تعریف، یہ ہے کہ اچھے انسان میں اچھائی غالب ہوتی ہے اور برے انسان کی تعریف یہ ہے کہ اس پر برائیوں کا غلبہ ہوتا ہے۔ غور کیا جائے تو انسانی تاریخ میں ایسے بہت سے لوگ ملتے ہیں جو برے تھے مگر اپنی زندگی کے ایک مرحلے پر ان کے اندر تبدیلی آئی اور وہ کچھ سے کچھ ہوگئے۔
والمیکی سنسکرت کے عظیم شاعروں میں سے ایک ہے، اس نے رام کی سیرت کو ’’رامائن‘‘ کی صورت میں منظوم کیا ہے۔ اس عظیم نظم میں 24 ہزار شعر ہیں۔ والمسیکی رام کا ہم عطیہ تھا۔ اسے نہ صرف یہ کہ رام سے براہِ راست ملاقات کا شرف حاصل تھا بلکہ ایک روایت کے مطابق اس نے رام کے بیٹوں lve اور kush کی پرورش بھی کی۔ لیکن زیر بحث موضوع کے حوالے سے والمیکی کی اہمیت یہ ہے کہ نوجوانی میں والمیکی ڈاکو تھا۔ بعض روایات میں اسے ڈاکو کے ساتھ ساتھ قاتل بھی کہا گیا ہے۔ ایک روز والمیکی نے جنگل سے گزرنے والے ایک رشی یا صوفی نرو کو لوٹا۔ نرو نے والمیکی سے پوچھا کہ تم لوٹ مار کیوں کرتے ہو؟ والمیکی نے کہا کہ میں اپنے بیوی بچوں کو پالنے کے لیے لوٹ مار کرتا ہوں۔ نرو نے کہا کیا تمہارے مرنے کے بعد تمہاری بیوی بچے تمہارے گناہ کا بوجھ اُٹھانے کے لیے تیار ہوں گے؟ والمیکی نے کہا کیوں نہیں۔ میں یہ کام انہی کی وجہ سے کرتا ہوں، نرو سے والمیکی سے کہا کہ ذرا اپنے بیوی بچوں سے معلوم تو کرو کہ وہ تمہارے ساتھ کیا معاملہ کریں گے۔ والمیکی کو نرو کی بات میں معنی نظر آئے تو وہ اپنے بیوی بچوں کے پاس پہنچا۔ اس نے بیوی بچوں کے سامنے نرو کا سوال دہرایا۔ بیوی بچوں نے کہا کہ ہم مرنے کے بعد تمہارے گناہ میں ہر گز حصے دار نہیں ہوں گے۔ یہ لمحہ والمیکی کی زندگی میں قلب ماہیت کا لمحہ تھا۔ اس نے لوٹ مار ترک کردی اور وہ نرو کا شاگرد بن گیا۔ نرو نے اس سے کہا کہ تم جنگل کے کسی گوشے میں بیٹھ کر رام کے نام کا ورد کرو۔ والمسیکی نے ایسا ہی کیا۔ ورد میں اس کی محویت اتنی بڑھی کے اسے اپنا ہوش ہی نہ رہا۔ یہاں تک کہ اس کے جسم پر چیونٹیوں نے اپنا گھر بنالیا۔ اسی گھر کی نسبت سے والمیکی ، والمیکی کہلایا۔
شیخ عبدالقادر جیلانیؒ کا واقعہ بھی آپ نے ضڑور پڑھ یا سن رکھا ہوگا۔ شیخ عبدالقادر چودہ سال کے تھے تو ان کی والدہ نے انہیں تجارت کا کچھ مال دے کر ایک تجارتی قافلے کے ساتھ روانہ کیا۔ شیخ عبدالقادر جیلانی کی والدہ نے انہیں کچھ درہم بھی دیے، تاہم ان درہموں کو انہوں نے شیخ عبدالقادر کی سدری میں سی دیا تا کہ کسی کو آسانی کے ساتھ ان کی اطلاع نہ ہوسکے۔ اس زمانے میں تجارتی قافلوں کو ڈاکو لوٹ لیا کرتے تھے۔ شیخ عبدالقادر کے قافلے پر بھی ڈاکوؤں نے حملہ کردیا، ڈاکو سامان تجارت لوٹنے لگے، ایک ڈاکو شیخ عبدالقادر کے پاس آیا اور اس نے پوچھا کہ کیا تمہارے پاس بھی کچھ ہے۔ شیخ عبدالقادر نے کہا کہ ہاں میرے پاس کچھ درہم ہیں۔ ڈاکو نے یہ بات اپنے سردار کو جا کر بتائی۔ کچھ دیر بعد ڈاکوؤں کا سردار شیخ عبدالقادر کے پاس آیا، اس نے کہا میں نے سنا ہے کہ تمہارے پاس کچھ درہم ہیں؟ شیخ عبدالقادر نے یہ سنا تو اپنی سدری ادھیڑ کر سارے درہم ڈاکوؤں کے سامنے ڈال دیے۔ ڈاکوؤں کے سردار نے کہا کہ جب درہم چھپے ہوئے تھے تو تم نے ہمیں ان کے بارے میں کیوں بتایا۔ شیخ عبدالقادر نے کہا کہ میری والدہ نے مجھے ہدایات کی تھیں کہ کبھی جھوٹ نہ بولنا۔ شیخ عبدالقادر کی اس بات کا ڈاکوؤں کے سردار پر گہرا اثر ہوا۔ اس نے کہا کہ یہ بچہ ہو کر سچ کے راستے پر چل رہا ہے اور ہم اتنے بڑے ہو کر بھی لوٹ مار کررہے ہیں۔ ڈاکوؤں کے سردار نے یہ کہہ کر لوٹا ہوا سامان واپس کردیا۔
یہ اس وقت کا قصہ ہے جب بھارت کے موجودہ وزیراعظم بھارتی ریاست گجرات کے وزیراعلیٰ تھے۔ ان کے دور میں بھیانک مسلم کش فسادات ہوئے۔ ان فسادات میں دو ہزار سے زیادہ مسلمان شہید ہوئے۔ بی جے پی کے درندوں نے درجنوں مسلمانوں کو زندہ جلادیا۔ انہوں نے حاملہ خواتین کے پیٹ چاک کردیے۔ فسادات سے ہزاروں مسلم خاندان بے گھر ہوگئے۔ اس منظر نامے میں ایک عجیب و غریب واقعہ ہوا، بھارت کی ایک اداکارہ وجنتی مالا کے نام سے جانی جاتی ہیں۔ وجنتی مالا بھارت کی بڑی اداکاراؤں میں کبھی شمار نہ ہوئیں۔ ان کی واحد اہلیت یہ تھی کہ وہ کلاسیکل ڈانسر تھیں۔ ان سے سماجی خدمت کا تصور بھی کبھی وابستہ نہیں رہا تھا۔ لیکن گجرات کے مسلم کش فسادات نے وجنتی مالا کو ہلا کر رکھ دیا۔ انہوں نے بے آسرا مسلم خاندانوں کے لیے امدادی کیمپ قائم کیا۔ ان کی یہ حرکت بی جے پی کے رہنماؤں اور کارکنوں کو ایک آنکھ نہ بھائی۔ انہوں نے وجنتی مالا کو دھمکی دی کہ اگر انہوں نے مسلمانوں کی امداد بند نہ کی تو اس کے بہت خطرناک نتائج برآمد ہوں گے۔ اس دھمکی کا مفہوم اہل کراچی بہت اچھی طرح جانتے ہیں۔ اس لیے کہ انہوں نے 30 سال تک ایم کیو ایم کو بھگتا ہے۔ بی جے پی، وشوہندو پریشد اور بجرنگ دل، ایم کیو ایم کی طرح فاشسٹ تنظیمیں ہیں اور ان کی دھمکی کو کوئی نظر انداز نہیں کرسکتا۔ لیکن وجنتی مالا نے بی جے پی کے رہنماؤں اور کارکنوں سے کہا کہ تم مجھے مارو یا چھوڑو۔ مسلمانوں کی مدد تو میں ضرور کروں گی۔ اطلاعات کے مطابق وجنتی مالا کا امدادی کیمپ عرصے تک کام کرتا رہا۔ وجنتی مالا بلاشبہ کوئی ڈاکو یا قاتل نہ تھیں اور نہ ہی ان کی کوئی کایا کلپ ہوئی تھی لیکن انہوں نے ایک ایک مخصوص وقت میں کردار کی ایسی بلندی اور صلاحیت ظاہر کی جس کی توقع فلمی اداکاروں سے کیا اچھے اچھے شریف، مہذب اور دین دار لوگوں سے بھی نہیں کی جاتی۔ آخر ہم نے کراچی میں بڑے بڑے صحافیوں، بڑے بڑے علما، بڑے بڑے سیاست دانوں اور بڑے بڑے جرنیلوں کو ایم کیو ایم سے خوفزدہ دیکھا ہے۔
(جاری ہے)
یہاں ہمیں منٹو کے مشہور زمانہ یا بدنام زمانہ افسانے ٹھنڈا گوشت کا درندہ صفت سکھ کردار یاد آرہا ہے۔ سکھوں نے قیام پاکستان کے بعد ہونے والے مسلم کش فسادات میں ہندوؤں کے بازوئے شمشیر زن کا کردار ادا کیا۔ انہوں نے لاکھوں مسلمانوں کو شہید کیا۔ ہزاروں مسلم خواتین کو اغوا کیا۔ منٹو کے افسانے ٹھنڈا گوشت کا کردار بھی فسادات کے دوران ایک مسلم لڑکی کو بُری نیت سے اغوا کرکے لاتا ہے۔ لیکن جب وہ جذبات کے طوفان میں گھر کر زیادتی کی طرف مائل ہوتا ہے تو اس پر انکشاف ہوتا ہے اس اغوا شدہ مسلم لڑکی کا خوف کی وجہ سے انتقال ہوگیا ہے اور اس کے سامنے زندہ لڑکی نہیں صرف اس کی لاش پڑی ہوئی ہے۔ یہ تجربہ یا shock سکھ کو اس کی قوت مردمی سے محروم کردیتا ہے اور وہ پھر کسی عورت کے قابل نہیں رہتا۔ منٹو کے اس افسانے کا ایک مفہوم یہ ہے کہ درندہ صفت انسان میں انسانیت کی رمق موجود ہوسکتی ہے اور یہ رمق انسانی وجود کو گہرائی سے متاثر کرسکتی ہے۔
پاکستان کے نوجوان فلمی اداکار شان کی اداکاری کے بارے میں شاید ہی کوئی معقول شخص اچھی رائے رکھتا ہو گا۔ لیکن معروف کالم نویس حامد میر نے شان سے متعلق دو واقعات سنا کر ہمیں حیران کردیا۔ واقعات کے مطابق جن دنوں جنرل پرویز مشرف بھارت کے ساتھ دوستی کی پینگیں بڑھا رہے تھے، پاکستان کی ممتاز شخصیات کا ایک وفد بھارت کے دورے پر گیا، وفد کو بھارت کے ممتاز اداکار دھرمیندر نے اپنے یہاں کھانے پر مدعو کیا۔ کھانے کے دوران دھرمیندر نے نوٹ کیا کہ سب لوگ کچھ نہ کچھ کھا پی رہے ہیں مگر اداکار شان ایک طرف خاموش بیٹھے ہیں۔ دھرمیندر نے ان سے اس صورت حال کی وجہ پوچھی تو شان نے کہا کہ میں ایک ایسے شخص کے یہاں کھانا کیسے کھا سکتا ہوں جس کے بیٹے سنی دیول نے اپنی کئی فلموں میں میرے وطن پاکستان کو گالیاں دی ہوں۔ دھرمیندر نے یہ سن کر اپنے بیٹے کو بلایا اور شان سے معذرت کی اور کہا کہ آئندہ میرا بیٹا آپ کے ملک کو کبھی گالی نہ دے گا۔ واقعے کے مطابق شان کے اس رویے پر پاکستانی وفد کے کئی اراکین دھرمیندر سے معذرت کرنے لگے۔ وہ کہنے لگے کہ دراصل ہمارے ہیرو کو عام زندگی میں بات چیت کا ڈھنگ نہیں آیا۔ پاکستانی وفد کو بھارت کے معروف فلم ساز یش چوپڑا نے بھی کھانے پر بلایا۔ شان یہاں بھی خاموش رہے۔ یش چوپڑا نے اس کی وجہ پوچھی تو شان نے صاف کہا کہ مجھے آپ کے ملک میں آنے یا آپ کی کسی فلم میں کام کرنے کی کوئی خواہش نہیں۔ شان کے ان واقعات میں بھی کوئی بڑی ’’قلب ماہیت‘‘ موجود ہیں۔ لیکن ایک ایسی فضا میں جہاں ملک کے ممتاز صحافی، سیاست دان اور دانش ور یہاں تک کہ پاکستان کا صدر مملکت اور چیف آف آرمی اسٹاف بھارت پر فدا ہوا جارہا ہو ایک اداکار کا محب وطن بن کر سامنے آنا بڑی بات ہے۔
یہاں ہمیں دوستو وسکی کے معرکہ آراء ناول کا ایک کردار یاد آرہا ہے۔ یہ کردار چرچ سے وابستہ تھا اور تقوے کی بلند ترین علامت تھا۔ یہ کردار بڑھاپے کی وجہ سے مرنے کے قریب ہوا تو ہر کسی کو یہ توقع ہوگئی کہ اب یقیناًکسی کرامت کا ظہور ہو کر رہے گا۔ لیکن یہ کردار موت سے ہمکنار ہوا تو اس کے جسم سے ایک طرح کی بدبو نمودار ہو کر ہر طرف پھیل گئی۔ نتیجہ یہ کہ چند ہی گھنٹوں میں اس کی شہرت ایک گناہ گار شخص کی ہوگئی اور وہ لوگ بھی اس کے خلاف بدزبانی کرتے ہوئے پائے گئے جو اسے ساری زندگی ایک مقدس ہستی سمجھتے رہے تھے۔ عام کیا خاص لوگوں کی تعریف اور تنقید ایسی ہی ہوتی ہے، حضرت عمرؓ نے فرمایا ہے کہ اس شخص کی تعریف سے ڈرو جو تمہارے اندر وہ خوبیاں دیکھتا ہے جو تمہارے اندر نہیں ہیں کیوں کہ یہ شخص کل تمہارے اندر وہ برائیاں دیکھے گا جو تمہارے اندر نہیں ہوں گی۔ لیکن یہاں سوال یہ ہے کہ آخر انسان کی قلب ماہیت کیسے ہوتی ہے؟ اس کے کردار میں تغیر کیونکر رونما ہوتا ہے؟
اس سوال کا جواب یہ ہے کہ بعض لوگ ماحول کے زیر اثر برے ہوتے ہیں، ان کا ماحول بدلتا ہے تو وہ بھی بدل جاتے ہیں۔ بعض لوگ سلیم الفطرت ہوتے ہیں مگر ماحول کا جبر ان کی فطرت کو دبا دیتا ہے۔ کسی واقعے سے ماحول کا جبر کمزور پڑ جاتا ہے یا تحلیل ہو جاتا ہے، چناں چہ ان کی اصل فطرت سامنے آجاتی ہے۔ کچھ چیزیں انسان کی تقدیر ہوتی ہیں اور ان کے ظہور کے لیے ایک خاص وقت متعین ہوتا ہے۔ یہ وقت آتا ہے تو ان کی تقدیر آشکار ہوجاتی ہے، انسان کی زندگی میں چنوتی، للکار یا چیلنج کی بھی ایک اہمیت ہوتی ہے۔ چیلنج سامنے آتا ہے تو انسان کا اصل کردار نمایاں ہوجاتا ہے۔