سوشلزم کا عروج و زوال انسانی تاریخ کے بڑے واقعات میں سے ایک ہے۔ تاریخ کے دھارے کا رُخ موڑنا بالخصوص انسانوں کی زندگی میں انقلاب برپا کرنا مذاق نہیں۔ سقراط مارکس سے بڑا فلسفی تھا لیکن سقراط کی فکر کوئی انقلاب برپا نہ کرسکی۔ افلاطون کی شخصیت اتنی بڑی ہے کہ وائٹ ہیڈ نے پورے مغربی فلسفے کو افلاطون کی فکر کا حاشیہ قرار دیا ہے۔ افلاطون نے جمہوریہ کی صورت میں مثالی ریاست کا خاکہ بھی پیش کیا۔ لیکن افلاطون کی جمہوریہ کبھی حقیقت نہ بن سکی۔ لیکن کارل مارکس نے جدلیاتی مادیت اور طبقاتی کش مکش کی بنیاد پر انقلاب کا ایک خاکہ مرتب کیا۔ یہ خاکہ بھی خیال و خواب ہی رہ جاتا لیکن مارکس کی فکر کو لینن فراہم ہو گیا۔ لینن نے مارکس کی فکر کو عمل میں ڈھال دیا اور روس میں انقلاب برپا ہوگیا۔ مارکس کا خیال تھا کہ طبقاتی استحصال کی سب سے بدترین صورت برطانیہ میں موجود ہے اس لیے سوشلسٹ انقلاب سب سے پہلے برطانیہ میں آئے گا۔ لیکن مارکس کا یہ خیال غلط ثابت ہوا۔ سوشلسٹ انقلاب روس میں برپا ہوا جو ایک زرعی معیشت رکھنے والا ملک تھا اور جہاں مارکس کے تجزیے کے مطابق استحصال کی زیادہ بدتر صورت موجود نہ تھی۔ سوشلسٹ انقلاب کا ایک پہلو یہ تھا کہ وہ صرف روس تک محدود نہ رہا۔ جلد ہی چین میں ماؤ نے سوشلسٹ انقلاب برپا کردیا۔ دیکھتے ہی دیکھتے پورا مشرقی یورپ سوشلسٹ ہوگیا۔ لاطینی امریکا بھی سوشلزم سے گہرے طور پر متاثر ہوا۔ یہاں تک کہ سرمایہ داری کے بڑے مراکز مثلاً برطانیہ اور فرانس میں بھی سوشلسٹ پارٹیاں عرصے تک کام کرتی رہیں۔ لیکن سرمایہ دارانہ سماج نے آزادی کے تصور اور معاشی اصلاحات کے ذریعے سوشلزم سے خود کو بچایا۔ لیکن سوشلزم سے تقریباً آدھی دنیا متاثر ہوئی اور سوشلزم 70 سال تک آدھی دنیا پر حکومت کرتا رہا اور باقی آدھی دنیا اس کے خوف میں مبتلا رہی۔ انسانی ساختہ یا man made نظریے کی اس سے زیادہ کامیابی کی کوئی نظیر انسانی تاریخ میں موجود نہیں۔ لیکن سوال یہ ہے کہ سوشلزم کی کامیابی کا سبب کیا تھا؟
تجزیہ کیا جائے تو سوشلسٹ انقلاب ان معاشروں میں آیا جہاں مذہب بڑی حد تک بے اثر ہوچکا تھا۔ روس، چین اور مشرقی یورپ اس کی بڑی مثالیں ہیں۔ روس اور مشرقی یورپ میں عیسائیت غیر موثر ہوگئی تھی اور بے عقیدگی تیزی کے ساتھ پھیل رہی تھی۔ دوستو وسکی کے ناول روس کے انقلاب سے پہلے لکھے گئے اور ان ناولوں میں لامذہبیت کو ایک رجحان کے طور پر اُبھرتے ہوئے دیکھا جاسکتا ہے۔ چین قدیم تہذیب کا مرکز تھا۔ عسکری صاحب کے بقول ماؤ ازم چین میں موجود مذہب کی طریقت تھا اور کنفیوشزم اس مذہب کی شریعت تھا۔ لیکن 20 ویں صدی کے آغاز تک آتے آتے نہ کنفیوشزم باقی رہا تھا اور نہ ماؤ ازم۔ اس کے معنی یہ تھے کہ ان سرزمینوں پر انسانی ساختہ فکر و فلسفے کے پھیلاؤ اور قبولیت کے لیے حالات پوری طرح سے سازگار ہوچکے تھے۔ مسلم معاشروں میں سوشلسٹ انقلاب اس لیے برپا نہ ہوسکا کہ ان معاشروں میں مذہب، فکر اور عمل دونوں سطحوں پر زندہ تھا۔ ہندوستان میں طبقاتی تفریق کی انتہا یہ تھی مگر اس تفریق کی مذہبی تعبیر موجود اور موثر تھی اور ہندو ازم ظاہری سطح پر سہی اپنا کردار ادا کررہا تھا اس لیے ہندو سماج میں بھی سوشلسٹ انقلاب کا سورج طلوع نہ ہوسکا۔ سوشلسٹ انقلاب کی دوسری بڑی قوت طبقاتی تفریق تھی۔ اس تفریق کو مارکس نے طبقاتی کش مکش بلکہ طبقاتی نفرت میں تبدیل کردیا۔ اس نے کہا کہ سرمایہ دار ہمیشہ سے محنت کشوں کا استحصال کررہے ہیں اور یہ استحصال صنعتی انقلاب کے بعد انتہاؤں کو چھونے لگا ہے۔ روس اور چین میں طبقاتی کش مکش نے مسلح جدوجہد کی راہ ہموار کی، اس جدوجہد کو ماؤ نے یہ کہہ کر زبان دی کہ اصل طاقت تو بندوق کی نالی میں پوشیدہ ہے۔ کارل مارکس نے تاریخ کو جدلیات کی مادیت dialectic materialism کی صورت میں بیان کیا ہے۔ مارکس نے یہ تصور ہیگل سے لیا تھا۔ ہیگل کا تصور یہ تھا کہ تاریخ کے سفر میں ایک دعویٰ یا thesis طلوع ہوتا ہے۔ دعویٰ یا thesis ایک خیال یا تصور ہوتا ہے اور وہ اپنی قوت سے تاریخ پر چھا جاتا ہے۔ تاہم یہ دعوے یا thesis کا غلبہ دائمی نہیں ہوتا۔ تاریخ کے سفر کے ایک مرحلے پر دعوے کی ضد جواب دعویٰ یا anti thesis پیدا ہو جاتا ہے اس کے بعد دعویٰ اور جواب دعویٰ یعنی thesis اور anti thesis کے درمیان تصادم ہوتا ہے۔ جس سے ایک نیا خیال تالیف، امتزاج یا synthesis کی صورت میں سامنے آتا ہے۔ یہ تالیف، امتزاج یا synthesis خود ایک دعویٰ یا thesis بن جاتا ہے۔ پھر اس کی بھی ضد پیدا ہوتی ہے اور پھر ایک نیا امتزاج یا synthesis وجود میں آتا ہے اور تاریخ کا سفر اسی طرح آگے بڑھتا رہتا ہے۔ ہیگل نے جدلیات مادیت کا یہ تصور خیالات یا ideas میں دکھایا تھا مارکس نے اس تصور کو طبقات میں دکھادیا۔ اپنی اس کارگزاری پر مارکس نے کہا کہ ہیگل سر کے بل کھڑا تھا میں نے اسے سیدھا کھڑا کردیا۔ اس اعتبار سے دیکھا جائے تو سوشلزم ایک انقلابی نظریہ تھا اور اس نظریے نے دنیا میں انقلاب برپا کرکے بھی دکھایا۔ لیکن سوشلزم تاریخ کے صفحات پر جتنی تیزی کے ساتھ ظاہر ہوا تھا اس سے زیادہ تیزی کے ساتھ وہ تاریخ کے صفحات سے غائب ہوگیا۔ سوال یہ ہے کہ آخر سوشلزم کے زوال کے اسباب کیا ہیں؟
سوشلزم کے تحلیل ہونے کے بعد خود سوشلسٹ عناصر نے اس کی جو توجیہہ کی وہ یہ تھی کہ سوشلزم کا زوال سی آئی اے کی کارستانی ہے۔ انہوں نے سوویت یونین کے آخری صدر گوربا چوف کو سی آئی اے کا ایجنٹ قرار دیا۔ بلاشبہ سی آئی اے سوشلزم کو فنا اور سوویت یونین کو ختم کرنا چاہتی تھی مگر سوویت یونین ختم ہوا تو خود امریکی بھی حیران رہ گئے۔ امریکا کے ممتاز مورخ پال کینڈی نے قوموں کے عروج و زوال کے موضوع پر لکھی گئی اپنی کتاب میں لکھا ہے کہ سوویت یونین مالی دباؤ کا شکار ہے اور اس کی وجہ یہ ہے کہ اس نے اپنے اخراجات کو آمدنی سے بڑھالیا ہے۔ لیکن اس کے تجزیے میں ایک اشارہ بھی ایسا موجود نہیں جس کی بنیاد پر کہا جائے کہ وہ سوویت یونین کو بکھرتے ہوئے دیکھ رہا تھا۔ اہم بات یہ ہے کہ پال کینڈی کی مذکورہ بالا کتاب 1988ء میں شائع ہوئی اور سوویت یونین 1991ء میں ختم ہوا۔ سوال یہ ہے کہ پھر سوشلزم کے زوال کا سبب کیا ہے؟
(جاری ہے)