محمد حسن عسکری اردو کے سب سے بڑی نقاد ہی نہیں وہ برصغیر کی ملت اسلامیہ کی دانش کا ایک اہم ستون بھی ہیں۔ ایک زمانہ تھا کہ عسکری صاحب مغرب کے زیر اثر تھے اور وہ مغرب ہی کو سب کچھ سمجھتے تھے۔ اس زمانے میں اسلام عسکری صاحب کو ’’Mediocre‘‘ مذہب نظر آتا تھا۔ لیکن عسکری صاحب کے طرزِ فکر میں تغیر رونما ہوا اور دیکھتے ہی دیکھتے اسلام ان کی زندگی کا مرکز و محور بن گیا۔ عسکری صاحب کے سلسلے میں اہم بات یہ ہے کہ جب عسکری صاحب کے لیے مغرب سب کچھ تھا تو یہ کوئی اوڑھی ہوئی بات یا کسی فیشن پرستی کا شاخسانہ نہیں تھا۔ یہ ان کے باطن کا ایک تقاضا تھا۔ لیکن جب عسکری صاحب پوری طرح مذہبی ہوگئے تو یہ بھی کسی خارجی دباؤ کا نتیجہ نہیں تھا بلکہ یہ ان کے دل کی آواز تھی۔ عسکری صاحب کی اس ایمانداری نے ان کی ہر زمانے کی تحریروں کو غیر معمولی بنادیا۔ لیکن آج ہمارا موضوع عسکری صاحب کی ایمانداری یا ان کا اخلاص فکر نہیں ہے۔ آج ہمارا موضوع عسکری صاحب کی فکر کے وہ گوشے ہیں جو ان کی زندگی کے آخری مراحل میں ظاہر ہوئے۔ ان گوشوں کا مرکزی نکتہ وہ دھماکے خیز اعلان ہے جس میں عسکری صاحب نے مشرق و مغرب کے بارے میں تین بنیادی باتیں کہی ہیں لیکن یہ اعلان کیا ہے؟
اس اعلان کا ایک نکتہ یہ خیال ہے کہ مغرب کی پیروی ممکن نہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ مغرب مر رہا ہے اور اگر ہم مغرب کی پیروی کریں گے تو دیر یا سویر ہم بھی مر جائیں گے۔
عسکری صاحب نے دوسری بات یہ کہی کہ مشرق حق ہے اور مغرب باطل۔ چناں چہ مشرق و مغرب کا امتزاج ممکن نہیں۔ کیوں کہ حق اور باطل کو آمیز نہیں کیا جاسکتا۔
عسکری صاحب کے اعلان کا تیسرا نکتہ یہ تھا کہ مشرق کی بازیافت ممکن نہیں۔
عسکری صاحب کے ان اعلانات نے عسکری صاحب کے شاگرد رشید سلیم احمد کو بڑا حیران اور پریشان کیا۔ انہوں نے عسکری صاحب سے کہا کہ آپ نے تو ہمیں بے دست و پا کردیا اب ہم کریں تو کیا کریں۔ عسکری صاحب نے سلیم احمد سے کہا کہ نماز پڑھا کرو۔ سلیم احمد کے بقول وہ عسکری صاحب کے آدھے شاگرد تھے۔ سلیم احمد عسکری کے پورے شاگرد ہوتے تو وہ عسکری کا جواب سن کر خاموش ہو جاتے اور نماز پڑھنے کی کوشش کرتے۔ لیکن چوں کہ سلیم احمد عسکری کے آدھے شاگرد تھے اس لیے انہوں نے کہا کہ مغرب نے ہمارا سب کچھ بدل دیا پتا نہیں ہماری نماز بھی مغرب کے اثر سے بچی ہوگی یا نہیں۔ لیکن یہاں سوال یہ ہے کہ عسکری صاحب نے مغرب کو ایک مرتی ہوئی قوت کیوں قرار دیا؟۔
مغرب کے سلسلے میں عسکری صاحب کی فکر کی ایک اہمیت یہ ہے کہ عسکری صاحب نے مغرب کی موت کا خاکہ بھی مغرب کے اہم ترین لوگوں کے بیانات کے حوالے سے مرتب کیا۔ مثلاً نٹشے نے کہا خدا مرگیا۔ مارلو نے کہا انسان مر گیا۔ لارنس نے کہا انسانی تعلقات کا ادب مر گیا۔ ظاہر ہے کہ اگر کسی
تہذیب میں خدا غیر موثر یا non functional ہوگیا ہے اس تہذیب کو زندہ تہذیب نہیں کہا جاسکتا۔ اسی طرح اگر کسی تہذیب میں خدا کے ساتھ ساتھ انسان کی موت بھی واقع ہوچکی ہے تو اس تہذیب کی موت کا تاثر مزید گہرا ہو جائے گا اور یہ بات تو ظاہر ہے کہ جب انسان مرجائے گا تو انسانی تعلقات بھی باقی نہیں رہیں گے اور نہ ہی ان کی بنیاد پر کوئی ادب تخلیق ہوسکے گا۔ اس اعتبار سے دیکھا جائے تو عسکری صاحب نے مغرب کی موت کا پورا خاکہ مرتب کردیا۔ لیکن عسکری صاحب صرف یہ خاکہ مرتب کرکے نہیں رہ گئے، انہوں نے ’’جدیدیت‘‘ یعنی ’’مغربی فکر کی گمراہیوں کا خاکہ‘‘ کے عنوان سے ایک کتاب بھی تحریر کی۔ اس کتاب میں عسکری صاحب نے مغربی فکر کی گمراہیوں کی پوری تاریخ مرتب کی ہے اور بتایا ہے کہ مغرب نے کیا اور کیسے اپنی بنیادی اصطلاحوں کو غلط معنوں میں استعمال کرنا شروع کیا۔ تجزیہ کیا جائے تو عسکری صاحب نے مغرب کی موت کے حوالے سے جو کچھ کہا اس کی شہادت خود مغرب کے مفکرین اور دانش وروں نے بھی دی۔ مثال کے طور پر مغرب کے اہم مورخ اشپنگلر نے اپنی معرکہ آراء تصنیف زوال مغرب میں بنیادی بات یہی کہی ہے کہ مغربی تہذیب زوال آمادہ ہے اور اس کی داخلی توانائی وقت گزرنے کے ساتھ کم ہورہی ہے۔ نٹشے نے نہ صرف یہ کہ خدا کی موت کا اعلان کیا بلکہ اس نے یورپی کلچر کی داخلی کمزوری میں مبتلا ہونے کا ماتم بھی کیا ہے۔ اس نے کہا کہ کبھی ہم دیوقامت لوگ پیدا کرتے تھے مگر اب ہم بالشتیے پیدا کررہے ہیں۔ 20 ویں صدی میں ٹی ایس ایسٹ کو مغربی ادب کے اماموں کا درجہ حاصل ہے۔ ٹی ایس ایسٹ کی سب سے مشہور تصنیف wast land ہے۔ اس کتاب پر ایسٹ کو ادب کے نوبل انعام سے نوازا گیا۔ اہم بات یہ ہے کہ اس کتاب میں ایلٹ نے لکھا ہے کہ مذہب سے محروم ہو کر مغربی تہذیب ایک بنجر سرزمین میں تبدیل ہوگئی ہے۔ ٹوائن بی مغرب کے عظیم ترین مورخین میں سے ایک ہیں۔ انہوں نے جاپانی دانش ور ایکدا کے ساتھ اپنے ایک مکالمے میں اعتراف کیا ہے کہ مغرب کی تہذیب زوال پزیر ہے۔ البتہ اگر اس میں روحانیت کو داخل کردیا جائے اور یہ تہذیب ٹیکنالوجی کے ’’عشق‘‘ سے جان چھڑا لے تو اس کو مکمل زوال سے بچایا جاسکتا ہے۔ ایلاف ٹو فلر امریکا کے ممتاز ماہرین عمرانیات میں سے ہیں۔ ان کی تین کتب یعنی future shock، third wave اور power shift یورپی دنیا بالخصوص امریکا اور یورپ میں بہت مشہور ہوئیں۔ ان کتب
میں ٹو فلر نے تسلیم کیا ہے کہ سائنس اور ٹیکنالوجی کی ترقی نے مغربی تہذیب کو بحران میں مبتلا کردیا ہے اور اندیشہ ہے کہ مغربی تہذیب کی ٹرین بے قابو ہو کر کسی حادثے بلکہ سانحے سے دوچار ہوجائے گی۔ لیکن ٹوفلر نے اصرار کیا ہے کہ اس بحران کو حل کرنے کے لیے ہمیں مذہب کی ضرورت نہیں۔ سائنس اور ٹیکنالوجی نے مغرب کو بحران میں مبتلا کیا ہے اور یہی دونوں بالآخر مغرب کو بحران سے نکالیں گی۔ اس اعتبار سے دیکھا جائے تو عسکری صاحب کی اس بات میں بڑی بصیرت مضمر ہے کہ ہم اگر مغرب کی تقلید کریں گے تو ہم بھی مغرب کی طرح موت سے ہمکنار ہوجائیں گے۔ اسی طرح عسکری صاحب کا یہ خیال بھی اپنی جگہ بڑا اہم ہے کہ مشرق اور مغرب کا امتزاج حق و باطل کا امتزاج ہوگا اور یہ ناممکن ہے اور نہ اسے ممکن بنانے کی کوشش کرنی چاہیے۔ اب یہاں مسئلہ یہ ہے کہ عسکری صاحب مشرق کی بازیافت کو ناممکن سمجھتے ہیں۔
(جاری ہے)
عسکری صاحب اور مشرق کی بازیافت
سوال یہ ہے کہ عسکری صاحب کی یہ بات غلط ہے یا درست؟ اتفاق سے اس سوال کا جواب یہ ہے کہ عسکری صاحب کی بات جزوی طور پر درست ہے اور جزوی طور پر غلط؟ لیکن اس اجمال کی تفصیل کیا ہے؟
اس اجمال کی تفصیل یہ ہے کہ عسکری صاحب کے نزدیک مشرق روحانیت کی علامت ہے اور مغرب مادیت کی۔ اس حوالے سے مشرق کی بعض تہذیبوں کا مسئلہ یہ ہے کہ وہ مغرب کی مادیت اور سیکولر ازم کے آگے ہتھیار ڈال چکی ہیں۔ مثال کے طور پر مغرب کچھ عرصے پہلے تک خود ایک مذہبی تہذیب کا علمبردار تھا لیکن مغرب میں عقل پرستی کی تحریک نے اصلاح کے نام پر مذہب اور اس کی مابعد الطبیعات کا گلا گھونٹ دیا۔ رہی سہی کسر مغربی فلسفے کی روایت نے پوری کردی اور سائنسی تناظر نے تو گویا مذہب کی اینٹ سے اینٹ ہی بجادی۔ چناں چہ جدید مغرب سیکولر مغرب ہے اور مغرب کے دانش ور خود کہہ چکے ہیں کہ اب یورپ میں جس کی آبادی 50 کروڑ نفوس سے متجاوز ہے عیسائیت کا کوئی مستقبل نہیں۔ یورپ میں عیسائیت مر رہی ہے اور اسلام طلوع ہورہا ہے۔ مغرب میں اسلام اور مسلمانوں کے خلاف ردعمل پیدا ہونے کی ایک وجہ یہ بھی ہے۔ لیکن یہاں کہنے کی اہم بات یہ ہے کہ یورپ میں مذہب کے احیاء کا دور دور تک کوئی امکان نہیں۔ چناں چہ مغربی تہذیب میں مشرق کی روحانیت کی بازیافت کا بھی کوئی امکان نہیں۔ ہندو تہذیب بھی اپنی اصل میں ایک روحانی تہذیب تھی لیکن ہندوازم نے بھی سیکولر ازم کی بالادستی قبول کرلی ہے۔ بعض لوگ سمجھتے ہیں کہ بھارت میں بی جے پی آگئی تو ہندو ازم کا احیاء ہوگیا۔ لیکن بی جے پی کا ظاہر مذہبی ہے باطن سیکولر ہے۔ ویسے بھی ماتھے پر تلک لگالینے یا دھوتی پہننے اور مسلمانوں کو قتل کرنے سے کوئی ہندو نہیں ہو جاتا۔ یہودیت بھی اپنا روحانی ورثہ ترک کرچکی اور سیکولر ازم کے آگے ہتھیار ڈال چکی۔ یہی معاملہ بدھ ازم، تاؤ ازم اور کنفیوشزم وغیرہ کا ہے۔ اس تناظر میں دیکھا جائے تو خود مشرق میں مشرق کی بازیافت ممکن نہیں رہی۔ چناں چہ اس سلسلے میں عسکری صاحب کی مایوسی فطری اور قابل فہم ہے۔ لیکن مسئلہ یہ ہے کہ اسلامی تہذیب بھی مشرق ہی کا حصہ ہے تو کیا اسلامی تہذیب کی بازیافت بھی ناممکن ہے؟َ عسکری صاحب کا خیال یہی ہے لیکن یہ خیال درست نہیں۔ تاہم اس سے قبل کہ ہم اسلامی تہذیب کی بازیافت کے امکان پر بات کریں ہمیں اس سوال پر بھی کچھ نہ کچھ بات کرنی چاہیے کہ عسکری صاحب نے مشرق کے اسلامی گوشے کی بازیافت کو کیوں ناممکن سمجھا ہوگا؟۔
بلاشبہ اسلامی تہذیب کئی اعتبار سے ایک زندہ تہذیب ہے مگر دوسری تہذیبوں کی طرح یہ تہذیب بھی جدید مغربی تہذیب کے زیر اثر ہے۔ اس تہذیب کا سیاسی نظام بھی مغرب سے آیا ہے اور معاشی نظام بھی۔ یہاں تک کہ ہمارے تعلیمی اداروں میں مغرب ہی کے علوم و فنون پڑھائے جارہے ہیں۔ ہم کہتے اور مانتے نہیں ہیں مگر ہمارے خواب بھی مغرب سے آرہے ہیں اور ہمارے مثالیے یا ideals بھی مغرب سے درآمد شدہ ہیں۔ اہم بات یہ ہے کہ ان تمام چیزوں سے نجات کی کوئی صورت بھی نظر نہیں آتی۔ لیکن اسلامی تہذیب کی مکمل بازیافت مسلمانوں اور دنیا کا مقدر ہے۔ یہ کام آج نہیں ہوگا تو دس سال بعد ہوگا۔ دس سال بعد نہیں ہوگا تو پچاس سال بعد ہوگا۔ اس کا سب سے بڑا ثبوت ایک حدیث شریف ہے۔
اس حدیث شریف کا مفہوم یہ ہے کہ رسول اکرمؐ کا زمانہ رہے گا جب تک اللہ تعالیٰ کو منظور ہوگا۔ اس کے بعد خلافت راشدہ ہوگی اور اس کا عہد رہے گا جب تک اللہ تعالیٰ چاہیں گے۔ اس کے بعد ملوکیت ہوگی اور کا دور رہے گا جب تک اللہ تعالیٰ کی مرضی ہوگی۔ اس کے بعد کاٹ کھانے والی آمریت ہوگی اور سلسلہ اس وقت رہے گا جب تک اللہ تعالیٰ کا حکم ہوگا۔ لیکن اس کے بعد دنیا ایک بار پھر خلافت علیٰ منہاج النبوہ کے تجربے کی جانب لوٹے گی۔ ظاہر ہے کہ اگر مخبر صادق نے یہ بات فرمادی ہے تو اسے ہو کر رہنا ہے اور ہم دیکھ رہے ہیں کہ گزشتہ ساٹھ ستر سال میں اسلام ایک عالمگیر تہذیب اور ایک عالمگیر قوت کے طور پر سامنے آچکا ہے۔ اہم بات یہ ہے کہ اسلام کے تمام عقائد، عبادات کا پورا نظام اور اخلاقیات کا پورا بندوبست زندہ ہے۔ جب تک کسی تہذیب کی مبادیات زندہ ہوتی ہیں اس بات کا امکان موجود ہوتا ہے کہ اس تہذیب کے دائرے میں موجود لوگ مبادیات حقیقی روح کے ساتھ عمل کرنے لگیں گے۔ یہ زیادہ پرانی بات نہیں کہ ہماری مساجد بوڑھوں سے بھری ہوتی تھیں اور اب ہماری مساجد میں نوجوانون کی بڑی تعداد موجود ہوتی ہے۔ آج سے پچاس سال پہلے جہاد کو ایک مردہ ادارہ سمجھا جاتا تھا لیکن افغانستان کے جہاد نے اس ادارے کو چند سال میں زندہ کردیا اس لیے کہ ہمارا جہاد پر ایمان موجود تھا۔ چوں کہ خدا، رسول اکرمؐ اور اللہ کی کتاب سے ہمارا ایک جذباتی تعلق موجود ہے اس لیے اس بات کا قوی امکان ہے کہ آج نہیں تو کل جب یہ تصور کامل بن کر سامنے آسکتا ہے۔ چناں چہ اسلامی تہذیب کی مکمل بازیافت مشکل تو ہے ناممکن ہرگز نہیں۔