سوال یہ ہے کہ عسکری صاحب کی یہ بات غلط ہے یا درست؟ اتفاق سے اس سوال کا جواب یہ ہے کہ عسکری صاحب کی بات جزوی طور پر درست ہے اور جزوی طور پر غلط؟ لیکن اس اجمال کی تفصیل کیا ہے؟
اس اجمال کی تفصیل یہ ہے کہ عسکری صاحب کے نزدیک مشرق روحانیت کی علامت ہے اور مغرب مادیت کی۔ اس حوالے سے مشرق کی بعض تہذیبوں کا مسئلہ یہ ہے کہ وہ مغرب کی مادیت اور سیکولر ازم کے آگے ہتھیار ڈال چکی ہیں۔ مثال کے طور پر مغرب کچھ عرصے پہلے تک خود ایک مذہبی تہذیب کا علمبردار تھا لیکن مغرب میں عقل پرستی کی تحریک نے اصلاح کے نام پر مذہب اور اس کی مابعد الطبیعات کا گلا گھونٹ دیا۔ رہی سہی کسر مغربی فلسفے کی روایت نے پوری کردی اور سائنسی تناظر نے تو گویا مذہب کی اینٹ سے اینٹ ہی بجادی۔ چناں چہ جدید مغرب سیکولر مغرب ہے اور مغرب کے دانش ور خود کہہ چکے ہیں کہ اب یورپ میں جس کی آبادی 50 کروڑ نفوس سے متجاوز ہے عیسائیت کا کوئی مستقبل نہیں۔ یورپ میں عیسائیت مر رہی ہے اور اسلام طلوع ہورہا ہے۔ مغرب میں اسلام اور مسلمانوں کے خلاف ردعمل پیدا ہونے کی ایک وجہ یہ بھی ہے۔ لیکن یہاں کہنے کی اہم بات یہ ہے کہ یورپ میں مذہب کے احیاء کا دور دور تک کوئی امکان نہیں۔ چناں چہ مغربی تہذیب میں مشرق کی روحانیت کی بازیافت کا بھی کوئی امکان نہیں۔ ہندو تہذیب بھی اپنی اصل میں ایک روحانی تہذیب تھی لیکن ہندوازم نے بھی سیکولر ازم کی بالادستی قبول کرلی ہے۔ بعض لوگ سمجھتے ہیں کہ بھارت میں بی جے پی آگئی تو ہندو ازم کا احیاء ہوگیا۔ لیکن بی جے پی کا ظاہر مذہبی ہے باطن سیکولر ہے۔ ویسے بھی ماتھے پر تلک لگالینے یا دھوتی پہننے اور مسلمانوں کو قتل کرنے سے کوئی ہندو نہیں ہو جاتا۔ یہودیت بھی اپنا روحانی ورثہ ترک کرچکی اور سیکولر ازم کے آگے ہتھیار ڈال چکی۔ یہی معاملہ بدھ ازم، تاؤ ازم اور کنفیوشزم وغیرہ کا ہے۔ اس تناظر میں دیکھا جائے تو خود مشرق میں مشرق کی بازیافت ممکن نہیں رہی۔ چناں چہ اس سلسلے میں عسکری صاحب کی مایوسی فطری اور قابل فہم ہے۔ لیکن مسئلہ یہ ہے کہ اسلامی تہذیب بھی مشرق ہی کا حصہ ہے تو کیا اسلامی تہذیب کی بازیافت بھی ناممکن ہے؟َ عسکری صاحب کا خیال یہی ہے لیکن یہ خیال درست نہیں۔ تاہم اس سے قبل کہ ہم اسلامی تہذیب کی بازیافت کے امکان پر بات کریں ہمیں اس سوال پر بھی کچھ نہ کچھ بات کرنی چاہیے کہ عسکری صاحب نے مشرق کے اسلامی گوشے کی بازیافت کو کیوں ناممکن سمجھا ہوگا؟۔
بلاشبہ اسلامی تہذیب کئی اعتبار سے ایک زندہ تہذیب ہے مگر دوسری تہذیبوں کی طرح یہ تہذیب بھی جدید مغربی تہذیب کے زیر اثر ہے۔ اس تہذیب کا سیاسی نظام بھی مغرب سے آیا ہے اور معاشی نظام بھی۔ یہاں تک کہ ہمارے تعلیمی اداروں میں مغرب ہی کے علوم و فنون پڑھائے جارہے ہیں۔ ہم کہتے اور مانتے نہیں ہیں مگر ہمارے خواب بھی مغرب سے آرہے ہیں اور ہمارے مثالیے یا ideals بھی مغرب سے درآمد شدہ ہیں۔ اہم بات یہ ہے کہ ان تمام چیزوں سے نجات کی کوئی صورت بھی نظر نہیں آتی۔ لیکن اسلامی تہذیب کی مکمل بازیافت مسلمانوں اور دنیا کا مقدر ہے۔ یہ کام آج نہیں ہوگا تو دس سال بعد ہوگا۔ دس سال بعد نہیں ہوگا تو پچاس سال بعد ہوگا۔ اس کا سب سے بڑا ثبوت ایک حدیث شریف ہے۔
اس حدیث شریف کا مفہوم یہ ہے کہ رسول اکرمؐ کا زمانہ رہے گا جب تک اللہ تعالیٰ کو منظور ہوگا۔ اس کے بعد خلافت راشدہ ہوگی اور اس کا عہد رہے گا جب تک اللہ تعالیٰ چاہیں گے۔ اس کے بعد ملوکیت ہوگی اور کا دور رہے گا جب تک اللہ تعالیٰ کی مرضی ہوگی۔ اس کے بعد کاٹ کھانے والی آمریت ہوگی اور سلسلہ اس وقت رہے گا جب تک اللہ تعالیٰ کا حکم ہوگا۔ لیکن اس کے بعد دنیا ایک بار پھر خلافت علیٰ منہاج النبوہ کے تجربے کی جانب لوٹے گی۔ ظاہر ہے کہ اگر مخبر صادق نے یہ بات فرمادی ہے تو اسے ہو کر رہنا ہے اور ہم دیکھ رہے ہیں کہ گزشتہ ساٹھ ستر سال میں اسلام ایک عالمگیر تہذیب اور ایک عالمگیر قوت کے طور پر سامنے آچکا ہے۔ اہم بات یہ ہے کہ اسلام کے تمام عقائد، عبادات کا پورا نظام اور اخلاقیات کا پورا بندوبست زندہ ہے۔ جب تک کسی تہذیب کی مبادیات زندہ ہوتی ہیں اس بات کا امکان موجود ہوتا ہے کہ اس تہذیب کے دائرے میں موجود لوگ مبادیات حقیقی روح کے ساتھ عمل کرنے لگیں گے۔ یہ زیادہ پرانی بات نہیں کہ ہماری مساجد بوڑھوں سے بھری ہوتی تھیں اور اب ہماری مساجد میں نوجوانون کی بڑی تعداد موجود ہوتی ہے۔ آج سے پچاس سال پہلے جہاد کو ایک مردہ ادارہ سمجھا جاتا تھا لیکن افغانستان کے جہاد نے اس ادارے کو چند سال میں زندہ کردیا اس لیے کہ ہمارا جہاد پر ایمان موجود تھا۔ چوں کہ خدا، رسول اکرمؐ اور اللہ کی کتاب سے ہمارا ایک جذباتی تعلق موجود ہے اس لیے اس بات کا قوی امکان ہے کہ آج نہیں تو کل جب یہ تصور کامل بن کر سامنے آسکتا ہے۔ چناں چہ اسلامی تہذیب کی مکمل بازیافت مشکل تو ہے ناممکن ہرگز نہیں۔