ہماری شعری روایت میں شاعر کو تلمیذ الرحمن کہا گیا ہے۔ شاعر کے لیے اس سے بڑے ’’منصب‘‘ کا تصور محال ہے۔ سلیم احمد غالب کو برصغیر میں جدیدیت کا پہلا نمائندہ کہتے ہیں اور ان کی رائے غلط نہیں، لیکن شاعری کے سلسلے میں غالب کا شعور روایتی تھا۔ اس کا سب سے بڑا ثبوت غالب کا یہ شعر ہے
آتے ہیں غیب سے یہ مضامیں خیال میں
غالب صریر خامہ نوائے سروش ہے
شاعر اور شاعری کے بارے میں غالب کے تصورات جدید ہوتے تو غالب شاعری کو ’’لاشعور‘‘ کی اولاد قرار دیتے۔ لیکن غالب کے نزدیک شاعر تلمیذ الرحمن تھا اور اسے جو مضامین سوجھتے تھے وہ غیب سے آتے تھے۔ یہاں تک کہ شعر لکھتے ہوئے قلم سے جو آواز پیدا ہوتی ہے وہ غالب کو فرشتوں کے پروں سے نمودار ہونے والی آواز محسوس ہوتی تھی۔ لیکن اب ہم غالب کے زمانے سے بہت دور نکل آئے ہیں۔ ہمارے زمانے میں شاعروں کے مسائل کیا ہیں آئیے اس کی چند جھلکیاں ملاحظہ فرماتے ہیں۔
ایک دن ایک نوجوان شاعر نے ہم سے کہا کہ آپ کو پچاس سالہ اقبال اور 35 سالہ اقبال میں کسی ایک کا انتخاب کرنا پڑے تو آپ کس کا انتخاب کریں گے۔ ان کے اس ’’استفسار‘‘ میں پچاس سالہ اقبال اصل اقبال تھے اور 35 سالہ اقبال وہ خود۔ ایک روز ہمارے ایک دوست اور نوجوان شاعر نے بڑے جوش و جذبے کے ساتھ ہم سے کہا کہ میں خود کو دنیا کا سب سے بڑا شاعر سمجھتا ہوں۔ ہم نے کہا کہ آپ کو ایسا سمجھنے کا حق حاصل ہے لیکن دنیا کا مسئلہ یہ ہے کہ وہ دعوے کی دلیل بھی طلب کرتی ہے۔ یونیورسٹی کے زمانے میں ایک نوجوان شاعر نے ہم سے کہا کہ ہمیں اپنے استعمال کی چیزیں محفوظ کرلینی چاہئیں۔ ہم نے جب اس کی وجہ پوچھی تو انہوں نے کہا کہ کل جب ہمارا شمار بڑے لوگوں میں ہونے لگے گا تو پھر ہمارے استعمال کی موجودہ چیزیں کسی کو دستیاب نہ ہوسکیں گی۔ ہم نے ان کی بات سنی اور حیرت میں غرق ہوگئے۔ چند سال پہلے ایک بزرگ شاعر کا انٹرویو ایک رسالے میں شائع ہوا، ان بزرگ شاعر نے کامل یقین سے کہا کہ کل جب ہم مر جائیں گے تو ہم پر پی ایچ ڈی کے درجنوں مقالے لکھے جائیں گے۔ اتفاق سے ان صاحب کو دنیا سے رخصت ہوئے اب چودہ پندرہ سال ہوگئے ہیں اور ہم نے آج تک ان پر کسی کا تعزیتی کالم تک نہیں پڑھا ہے۔ ایک خاتون شاعر چند روز پیش تر ایک محفل میں ایک ’’بزرگ شاعر‘‘ کا ذِکر کررہی تھیں۔ وہ کہہ رہی تھیں کہ اُن کے سامنے کسی شاعر کی تعریف کرو تو وہ بُرا مان جاتے ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ خود کو عصر حاضر کا سب سے بڑا شاعر سمجھتے ہیں۔ عصر حاضر کے اس بڑے شاعر کی بڑائی کا یہ عالم ہے کہ ہم نے آج تک کسی شخص کی گفتگو، تقریر یا تحریر میں ان کا شعر استعمال ہوتے نہیں دیکھا۔ ہم شاعروں کے ان نفسیاتی اور ذہنی عوارض کو دیکھتے ہیں تو خیال آتا ہے کہ کیا شاعری کا زمانہ گزر چکا ہے؟ کیا اب شاعروں کی بڑی تعداد تلمیذ الرحمن کے بجائے تلمیذ الشیطان ہوگئی ہے۔ کیا اب ان کے مضامین ’’غیب‘‘ کے بجائے صرف ’’عیب‘‘ سے آنے لگے ہیں؟؟
مغربی دنیا میں شاعری کے حوالے سے ایک افراط و تفریط کا رجحان موجود رہا ہے۔ افلاطون نے اپنی مثالی ریاست سے یہ کہہ کر شاعروں کو نکال باہر کیا کہ شاعر جذبات کو بھڑکاتے ہیں جب کہ زندگی کی بنیادی ضرورت جذبات پر قابو پانا ہے۔ لیکن 19 ویں صدی میں بولیئر نے شاعری کی اہمیت کو نمایاں کرتے ہوئے کہا کہ ایک صحت مند انسان دو دن تک غذا کے بغیر تو رہ سکتا ہے مگر شاعری کا مطالعہ کیے بغیر نہیں رہ سکتا۔ میتھو آرنلڈ نے شاعری کی اہمیت کو اور بڑھا دیا۔ اس نے کہا کہ مذہب اور فلسفہ نہیں رہیں گے تو شاعری ان کی جگہ لے لے گی۔ یعنی جو کچھ مذہب اور فلسفہ فراہم کرتے ہیں شاعری فراہم کرے گی۔ لیکن 20 ویں صدی کے اواخر اور 21 صدی کے اوائل تک آتے آتے مغرب میں یہ خیال قوی ہورہا ہے کہ ہمارا عہد سائنس اور ٹیکنالوجی کا عہد ہے۔ معاشیات کا عہد ہے، شاعری کا زمانہ گزر چکا؟ یہاں سوال یہ ہے کہ کیا واقعتاً شاعری کا زمانہ گزر چکا ہے؟ اس سوال کو اس طرح بھی پیش کیا جاسکتا ہے کہ شاعری کے عہد کے گزر جانے کے خیال کے محرکات کیا ہیں؟
سیکولر طرزِ فکر نے انسانوں کے اندر پہلے سے موجود حماقت کو بڑھایا یہاں تک کہ اسے نظام بند یا systematize کیا ہے۔ ورنہ یہ ایک سامنے کی بات ہے کہ مذہب اور شاعری میں چار چیزیں مشترک ہیں۔ مذہب اور شاعری کے درمیان پہلی مشترک چیز محبت ہے، مذہب بھی خدا اور انسان کی محبت پر کھڑا ہے اور کسی زمانے میں شاعری بھی خدا اور انسان کی محبت پر کھڑی ہوئی تھی۔ چلیے آپ کہہ لیجیے کہ اب خدا کی محبت کروڑوں لوگوں کی زندگی کا حصہ نہیں۔ لیکن کیا انسان، انسانوں کی محبت سے بھی بے نیاز ہوچکا ہے۔ اگر نہیں تو انسانوں کی محبت، مذہب اور شاعری کے درمیان مشترک چیز ہے۔ لیکن مسئلہ یہ ہے کہ اب انسانوں کے درمیان بھی محبت کا تجربہ انتہائی مخدوش صورت حال کا شکار ہے۔ دنیا کے بہت سے معاشروں میں مذہب ایک زندہ حقیقت ہے لیکن بدقسمتی سے مذہب میں ’’ظاہر داری‘‘ کو سب کچھ سمجھ لیا گیا ہے اور مذہب کی حقیقی روح نایاب ہو گئی ہے۔ اس کے معنی یہ ہیں کہ اگر دنیا میں مذہب اور محبت دونوں اضمحلال کا شکار ہیں تو شاعری کی محبت کیسے اچھی ہوسکتی ہے؟
مذہب اور شاعری کے درمیان دوسری مشترک چیز معنی ہیں۔ مذہب زندگی میں معنی کا سرچشمہ ہے اور شاعری بھی انسان کو زندگی کی معنویت سے ہمکنار کرتی ہے۔ اگر کوئی کہے کہ اب صرف مذہب معنی کا سرچشمہ نہیں بلکہ انسان اپنے لیے خود معنی ایجاد کرسکتا ہے۔ اس بات کو تسلیم کرلیا جائے تب بھی انسان بہرحال معنی کے وجود کا انکار نہیں کرسکتا۔ بدقسمتی سے فی زمانہ انسانوں کے شعور اور علم کی سطح اتنی پست ہو گئی ہے کہ ہمارے لیے معنی کے بجائے معنی کا ’’تاثر‘‘ بھی کافی ہوگیا ہے۔ یہ معنی کے زوال کا منظر ہے اور اس منظر میں معنی کے فراہمی کے ذریعے کی حیثیت سے شاعری کی ضرورت کس کو ہوسکتی ہے؟
مذہب اور شاعری کا ایک اور مشترکہ پہلو جمال ہے۔ مذہب بھی انسان کی زندگی کو جمیل بناتا ہے اور شاعری بھی انسان کو جمالیاتی تجربے سے ہمکنار کرتی ہے۔ لیکن فی زمانہ شاعری کیا مذہب بھی انسانوں کی عظیم اکثریت کے لیے جمالیاتی تجربہ نہیں ہے۔ ہمیں اگر ضرورت محسوس ہوتی بھی ہے تو ظاہر کے جمال کی مگر یہ جمال بھی ہمیں صرف ’’دکھاوے‘‘ کے لیے درکار ہوتا ہے اور دکھاوا جمالیاتی تجربے کی ضد ہے۔ اس صورت حال میں عقیدے، عقیدت، محبت، خیال، جذبے اور احساس کا جمال کس کو درکار ہوگا۔ چوں کہ دنیا کو جمالیاتی تجربے کی ضرورت نہیں۔ اس لیے دنیا کو شاعری کی بھی ضرورت نہیں۔
مذہب اور شاعری کا ایک مترکہ زاویہ یہ ہے کہ ہم قدیم سے قدیم معاشرے میں بھی مذہب کو کسی نہ کسی صورت میں موجود پاتے ہیں۔ اسی طرح اکثر زبانوں کے آغاز میں ہم شاعری کو موجود پاتے ہیں۔ اس اعتبار سے دیکھا جائے تو قدامت مذہب اور شاعری کا مشترکہ تجربہ ہے۔ اس کے معنی اس کے سوا کیا ہیں کہ جس طرح مذہب انسان کی فطرت کا حصہ ہے اسی طرح شاعری بھی انسان کی فطرت کا ایک جزو محسوس ہوتی ہے۔ لیکن ’’جدید زندگی‘‘ کے اس زمانے میں ’’قدامت‘‘ کی طرف محبت سے کون دیکھتا ہے؟ اب تو جب تک مذہب کو بھی ’’جدید‘‘ نہ کہہ دیا جائے لوگ مذہب کی توقیر کے لیے آمادہ نہیں ہوتے۔
ہمارا زمانہ عقل پسندی کا نہیں عقل پرستی کا زمانہ ہے۔ جدید عقل پرستی کا ایک پہلو یہ ہے کہ اس نے وحی کی بالادستی کو تسلیم کرنے سے انکار کردیا ہے۔ یہ ایسا ہی ہے جیسے آنکھیں دیکھنے کے لیے روشنی کا انکار کردیں۔ اس کے معنی یہ ہیں کہ جدید عقل پرستی اندھی ہے چناں چہ اس نے ایک طرف مذہب کو مسترد کردیا ہے، دوسری جانب اس نے انسانی جذبے کو غیر عقلی یا irrational قرار دے کر اسے انسانی منظر نامے سے کہیں خارج ہی کردیا ہے اور کہیں اسے پس منظر میں دھکیل دیا ہے۔ اب مسئلہ یہ ہے کہ انسانی ذات میں شاعری کا مرکز عقل نہیں جذبہ ہے۔ بلاشبہ شاعری کی ہئیت یا formایک عقلی شے ہے لیکن شاعری کی ’’روح‘‘ کا تعلق اور چیزوں کے ساتھ ساتھ جذبے سے بھی ہے۔ جذبے کی شمولیت کے بغیر شاعری، شاعری نہیں بن سکتی۔ چوں کہ عقل پرستی ہمارے زمانے میں لوگوں کی پوری شخصیت پر حاوی ہوگئی ہے اور جذبہ فی نفسہٖ قابل قدر نہیں رہ گیا ہے۔ یہاں تک کہ لوگ کم ہمتی کے تحت جذبے کو جذباتیت کہنے لگے ہیں اس لیے شاعری کی قدر و قیمت کا کم ہونا قابل فہم ہے۔
معاش کا حصول زندگی کی بنیادی ضرورت ہے۔ لارنس نے بڑی اچھی بات کہی ہے، اس نے کہا کہ ہم اپنی جنس اور معاش کو شیطان کے حوالے نہیں کرسکتے۔ لیکن عہد حاضر میں جنس ہی نہیں معاش بھی شیطان کی گرفتار میں جاچکی ہے۔ اس کا سب سے بڑا مظہر یہ ہے کہ سرمایہ داری نے ’’تعیش‘‘ کو ضرورت بنا کر ہمارے سامنے لاکھڑا کیا ہے۔ یہاں تک کہ اس نے تعیش کو ایک مثالیے ideal کی شکل میں ڈھال دیا ہے۔ ایک زمانہ تھا کہ انسانوں کی عظیم اکثریت کے لیے تعیش ایک خواب تھا لیکن سرمایہ داری نے کروڑوں لوگوں کے لیے تعیش کو ایک حقیقت بنا کر اربوں لوگوں کو پرتعیش زندگی کے حصول کی جدوجہد میں اُلجھادیا ہے۔ کوئی مانے یا نہ مانے ہماری زندگی اب خدا مرکز، یا رسولؐ مرکز نہیں، دولت مرکز یا طاقت مرکز بن چکی ہے، ایک دولت مرکز یا money centric معاشرے میں نہ حقیقی مذہب کی کوئی ضرورت ہے نہ شاعری کی، ہمیں اب مذہب یا شاعری کی دولت نہیں دولت کی شاعری وجود میں لانی ہے۔ اس فضا میں ہمیں اگر کہیں شاعری نظر آرہی ہے تو اس کا مصرف تفریح، وقت گزاری اور مہذب ’’نظر آنے‘‘ سے متعلق ہے۔
شاعری اجمال اور اس کی شدت و گہرائی کا فن ہے۔ اس فن کو سمجھنے اور اس سے لطف اندوز ہونے کے لیے ایک تہذیبی، علمی، ذہنی، حسی اور لسانی سطح درکار ہے۔ چوں کہ ان تمام چیزوں کی سطح گر گئی ہے اس لیے شاعری کی حقیقی طلب بھی کم ہوگئی ہے۔ شاعری کے برعکس نثر تفصیل کا فن ہے اور تفصیل میں آکر بہت سی چیزیں قابل فہم ہو جاتی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ہمارے زمانے میں نثر کے سامع اور قاری شاعری کے سامعین اور قارئین سے زیادہ ہیں۔ گونثر میں بھی جہاں کسی اہم موضوع پر سجیدہ گفتگو ہوتی ہے لوگوں کا شعور غنودگی میں مبتلا ہو جاتا ہے۔ حالات یہی رہے تو کچھ عرصے کے بعد ہمیں شاعری کیا نثر کی بھی ضرورت نہیں رہے گی۔