انسان اپنے نعروں سے نہیں اپنے خوابوں اور مثالیوں یعنی ideals سے پہچانا جاتا ہے۔ اس اعتبار سے دیکھا جائے تو ہمارا نعرہ مذہب ہے مگر ہمارے خوابوں اور مثالیوں کا تعلق مذہب سے نہیں مغرب سے ہے۔ لیکن مغرب سے ہماری مراد کیا ہے؟
ایک وقت تھا کہ مغرب ایک جغرافیہ تھا۔ مغرب امریکا اور یورپ تھا، لیکن اب مغرب جغرافیہ نہیں ہے، اب مغرب ایک ذہنیت ہے، ایک زاویہ نگاہ ہے، ایک تناظر ہے، ایک خواہش ہے، ایک آرزو ہے، ایک تمنا ہے، خوابوں کا ایک سلسلہ ہے، مثالیوں کا ایک عالم ہے، اب مغرب روس میں ہے، چین میں ہے، جاپان میں ہے، ہندوستان میں ہے، برازیل میں ہے، پاکستان میں ہے، میری اور آپ کی روح میں ہے، میرے اور آپ کے دل میں ہے، میرے اور آپ کے ذہن میں ہے، جب تک مغرب امریکا اور یورپ میں تھا اس کو سمجھنا اور اس سے لڑنا آسان تھا۔ لیکن روس اور چین کے مغرب سے لڑنا مشکل ہے، اس سے بھی زیادہ مشکل اس مغرب سے لڑنا ہے جو ہمارے خوابوں اور مثالیوں میں ڈھل چکا ہے۔ جو ہمارے ذہن، ذہنیت، روح، دل، ہماری خواہش، ہماری آرزو اور ہماری تمنا میں سرائیت کرچکا ہے۔ اس لیے کہ اب مذہب سے لڑنے کا مطلب اپنے آپ سے لڑنا ہے اور اپنے آپ سے لڑنا دنیا کا مشکل ترین کام ہے۔ اس لیے کہ یہ نفس کے تزکیے کی منزل ہے۔ یہ نفس امارہ سے نفس لوامہ اور نفس لوامہ سے نفس مطمئنہ تک کا سفر ہے۔ لیکن ان باتوں کے ذکر سے قبل چند اور امور کا تذکرہ ضروری ہے۔
ساری دنیا میں سرمایہ دارانہ نظام اور سوشلزم کو ایک دوسرے کی ضد سمجھا گیا ہے۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ دونوں نظاموں کی محاذ آرائی نے دنیا کو دو حصوں میں تقسیم کرکے ان کے مابین سرد جنگ برپا کردی تھی۔ لیکن مولانا مودودی نے سرد جنگ کے اس زمانے میں فرمایا تھا کہ سوشلزم دراصل مغربی تہذیب ہی کا شاخسانہ یا off shoot ہے۔ لیکن مولانا کی اس بات کو کہیں اور کیا خود تحریک اسلامی میں بھی پوری طرح نہ سمجھا گیا۔ حالاں کہ یہ حقیقت عیاں تھی کہ سرمایہ دارانہ تہذیب اور سوشلزم کی الٰہیات یا ontology ایک تھی۔ دونوں ہی زندگی اور کائنات کو بے خدا سمجھتے تھے اور دونوں نے مادے کو اپنا معبود بنایا ہوا تھا۔ دونوں کا تصور علم یا دونوں کی epistemology ایک تھی۔ دونوں ہی وحی کے منکر تھے اور دونوں ہی اس بات پر ایمان رکھتے تھے کہ انسان کی عقل اس کی رہنمائی کے لیے کافی ہے، دونوں نظاموں کا تصور انسان بھی ایک تھا، دونوں انسان کو سیاسی یا معاشی حیوان سمجھتے تھے اور دونوں کے نزدیک انسان اوّل و آخر ایک مادی وجود تھا۔ دونوں کے نزدیک سائنسی فکر انسانی فکر کی معراج تھی اور سائنسی تناظر کے سوا اور کوئی تناظر لائق اعتبار نہ تھا۔ ان مماثلتوں ہی کا نتیجہ تھا کہ سوویت یونین کے خاتمے اور سوشلزم کے آنجہانی ہوتے ہی روس چند برسوں میں سوشلسٹ ریاست سے سرمایہ دارانہ نظام کی حامل ریاست میں تبدیل ہوگیا۔ روس بدلا تو چین بھی تبدیل ہو گیا اور اس کا معاشی ماڈل امریکا اور یورپ کے معاشی ماڈل سے ہم آہنگ ہوگیا۔ یہ تبدیلی اتنی تیزی کے ساتھ وقوع پزیر ہوئی کہ جیسے سرمایہ دارانہ نظام اور سوشلزم میں کوئی دشمنی ہی نہ رہی ہو۔ لیکن جدید مغرب کے سلسلے میں مسلم دنیا کا معاملہ مختلف ہے۔
اس کا ثبوت یہ ہے کہ اسلامی تہذیب اور جدید مغربی تہذیب کی الٰہیات ایک دوسرے سے مختلف ہیں۔ ان کا تصور علم ایک دوسرے سے جدا ہے، ان کا تصور انسان ایک دوسرے سے الگ ہے، یہی وجہ ہے کہ ان تہذیبوں کے انسانوں کی خواہشات، آرزوئیں، تمنائیں، خواب اور مثالیے یعنی ideals بھی ایک دوسرے سے یکسر مختلف رہے ہیں۔ لیکن بدقسمتی سے اب مغربی انسان اور مسلم ممالک کے باشندوں کی خواہشات، آرزوئیں، تمنائیں، خواب اور مثالیے ایک جیسے ہوگئے ہیں۔ لیکن اس بات کا مفہوم کیا ہے؟
عسکری صاحب کہا کرتے تھے کہ ترقی یا progress ایک ایسا لفظ ہے جس میں جدید مغرب کی پوری ذہنیت بند ہے، عسکری صاحب کا خیال غلط نہ تھا۔ ترقی جدید مغرب کا اہم ترین عقیدہ ہے۔ اس تصور کی پشت پر تاریخ کا ایک مخصوص تناظر موجود ہے۔ اس تناظر کا لب لباب یہ ہے کہ انسانی تاریخ سیدھی لکیر یا خط مستقیم کی صورت میں سفر کررہی ہے۔ یہ خط کہیں ٹھیر نہیں رہا۔ یہ مسلسل آگے بڑھ رہا ہے۔ یہی انسان کی ترقی ہے۔ فریزر نے اپنی مشہور زمانہ تصنیف ’’شاخ زریں‘‘ میں انسانی ترقی کے سفر کو چار ادوار میں تقسیم کیا ہے۔ اس نے کہا ہے کہ انسان کسی زمانے میں جادو کے عہد میں زندہ تھا۔ انسان نے ترقی کی تو مذہب کا زمانہ شروع ہوا۔ انسانی ذہن مزید مرتب ہوا تو انسان مذہب کے عہد سے نکل کر فلسفے کے زمانے میں داخل ہوگیا۔ لیکن یہ زمانہ بھی گزر گیا اور اب انسان سائنس کے دور میں سانس لے رہا ہے۔ اس طرح انسان کبھی پتھر کے زمانے میں زندہ تھا۔ پھر زراعت کا زمانہ آیا۔ زراعت کے دور کو صنعتی انقلاب کے عہد نے پرانا کردیا اور اب صنعتی عہد بھی ختم ہوگیا ہے اور انسان اب مابعد صنعتی دور یا post industrial عہد میں داخل ہوچکا ہے۔ ترقی کی ایک صورت یہ ہے کہ مغربی انسان کی طرح ہمارا شعور بھی معاشی اصطلاحوں کی گرفت میں جاچکا ہے۔ مثلاً ترقی کا ایک پیمانہ ’’معیار بودوباش‘‘ ہے۔ اس اصطلاح پر ہم ایسے عاشق ہوئے ہیں کہ ہم اسے معیار بدوباش کے بجائے ’’معیار زندگی‘‘ کہتے ہیں۔ حالاں کہ معیار بودوباش یا رہن سہن کے معیار اور زندگی کے معیار میں زمین آسمان کا فرق ہے۔ معیار زندگی کی تفصیلات ہمارے خون کی گردش اور دلوں کی دھڑکنوں کو تیز کردیتی ہے۔ مثلاً دنیا سوال کرتی ہے۔ تمہاری مجموعی قومی پیداوار یا GDP کیا ہے؟ تمہاری فی کس آمدنی کیا ہے؟ تمہاری برآمدات کتنی ہیں؟ تمہارے پاس زرمبادلہ کے کتنے ذخائر ہیں۔ تمہارا ایک آدمی سال میں کتنی توانائی صرف کرتا ہے؟ تمہارے یہاں شعور کی نہیں خواندگی کی شرح کیا ہے؟ ان چیزوں سے افراد ہی نہیں اقوام کی بھی درجہ بندی ہوتی ہے۔ کوئی ترقی یافتہ کہلاتا ہے۔ کوئی ترقی پزیر اور کوئی غریب و پسماندہ۔ مادی ترقی کے یہ تمام تصورات ہماری خواہشات ہیں، ہماری آرزوئیں ہیں۔ ہماری تمنائیں ہیں۔ ہمارے خواب ہیں، ہمارے مثالیے یا ideals ہیں۔
جب تک ترقی کے تصورات امریکا اور یورپ سے متعلق تھے اس وقت ان تصورات میں ہمارے لیے ایک اجنبیت تھی۔ ان تصورات کے اور ہمارے درمیان ایک فاصلہ تھا۔ ہم مغرب سے مرعوب تھے اس لیے اس کی ترقی کے تصورات سے بھی مرعوب تھے اور ہم سمجھتے تھے کہ جو ترقی مغرب نے کی وہ ’’شاید‘‘ ہم نہیں کرسکتے یا اس کو کرنے کے لیے ہمیں کئی سو سال درکار ہوں گے۔ لیکن چین نے ترقی کے ان تصورات کی ساری اجنبیت اور سارا رعب و دبدبہ ختم کرکے رکھ دیا۔ امریکا اور یورپ نے یہ معاشی ترقی ڈیڑھ سو سال میں کی، چین نے صرف تیس پینتیس سال میں وہ ترقی کر ڈالی۔ چین نے تیس سال میں اپنے چالیس کروڑ لوگوں کو غربت سے نکال کر متوسط طبقے میں شامل کردیا۔ چناں چہ مادی اور معاشی ترقی کا خواب اور مثالیہ پہلے سے کہیں زیادہ پُرکشش اور طاقت ور ہوگیا ہے۔ بعض لوگ کہتے ہیں کہ ایسا ہوگیا ہے تو اس میں برائی ہی کیا ہے؟ کیا اسلام مادی اور معاشی ترقی کے خلاف ہے؟۔
بلاشبہ اسلام مادی اور معاشی ترقی کے خلاف نہیں ہے۔ لیکن وہ مادی اور معاشی ترقی کو خواب اور مثالیہ یا ideal بنانے کے سخت خلاف ہے۔ اس لیے کہ اسلام کے دائرے میں فضیلت صرف دو چیزوں کو حاصل ہے۔ ایک تقویٰ اور دوسرا علم۔ چناں چہ ہمارے لیے ترقی کا پیمانہ اور معیار بھی یہی دو چیزیں ہیں۔ اکبر نے کہا تھا۔
نہیں پرستش کچھ اس کی الفت اللہ کتنی ہے
سبھی یہ پوچھتے ہیں آپ کی تنخواہ کتنی ہے؟
یہاں کہنے کی اصل بات یہ ہے کہ اکبر کے زمانے میں الفت اللہ جتنی کم تھی اب اس سے کہیں کم ہوچکی ہے اور تنخواہ کی اہمیت ڈیڑھ سو سال کا سفر طے کرکے آسمان سے باتیں کرنے لگی ہے۔ یہاں اقبال کا بھی ایک شعر یاد آگیا۔ اقبال نے کہا ہے
خداکے بندے تو ہیں ہزاروں بنوں میں پھرتے ہیں مارے مارے
میں اس کا بندہ بنوں گا جس کو خداکے بندوں سے پیار ہوگا
اقبال کے اس شعر کو اکبر کے شعر کے تناظر میں رکھ کر دیکھا جائے تو اس شعر کا مطلب یہ ہے کہ ہماری تہذیب میں خدا اور رسول اللہ کی محبت کے بعد عام انسانوں سے محبت کے تصور کو بلند مقام حاصل ہے۔
یہاں سوال یہ ہے کہ وہ لوگ کہاں ہیں جو خدا اور اس کے بندوں کی محبت میں ’’ترقی‘‘ کرنا چاہتے ہیں؟ جو ان دائروں میں ایم اے، پی ایچ ڈی کرنا چاہتے ہیں۔ اس سلسلے میں علم کا تذکرہ کیا جاتا ہے۔ رسول اکرمؐ نے فرمایا ہے کہ انبیاء کا ورثہ علم ہے اور دنیا پرستوں کا ورثہ مال۔ یہاں سوال یہ ہے کہ ہمارے یہاں مرنے والے علم کا ورثہ چھوڑ کر جارہے ہیں یا مال کا ورثہ؟ اس سوال کا جواب ہمارے اصل مثالیے یا ideal کو ظاہر کرنے کے لیے کافی ہے۔
مغرب نے جو دنیا خلق کی ہے اس کی منفیت کا ادراک کبھی ’’کتاب‘‘ کیا ’’قلم‘‘ تک میں موجود تھا۔ مثلاً جدید زندگی کا ایک مظہر ’’صنعتی شہر‘‘ ہے۔ لیکن صنعتی شہر کی روح انسان اور اس کی زندگی کے ساتھ کیا کرتی ہے اس کا بیان 1956ء میں منظر عام پر آنے والی ہندوستانی فلم سی آئی ڈی کے اس گیت میں ملاحظہ کیجیے۔ اس گیت کے خالق مجروح سلطان پوری تھے۔
اے دل ہے مشکل جینا یہاں
ذرا ہٹ کے ذرا بچ کے
یہ ہے بومبے مری جاں
**
کہیں بلڈنگ، کہیں ٹرامیں
کہیں موٹر کہیں مل
ملتا ہے یہاں سب کچھ
اک ملتا نہیں دل
انسان کا نہیں کہیں نام و نشاں
ذرا ہٹ کے۔۔۔۔۔۔
بقیہ صفحہ11نمبر1
کہیں سٹا، کہیں پتّا
کہیں چوری کہیں ریس؟
کہیں ڈاکا، کہیں فاقہ
کہیں ٹھوکر، کہیں ٹھیس
بیکاروں کے ہیں کئی کام یہاں
ذرا ہٹ کے ذرا بچ کے۔۔۔۔۔۔۔۔۔
**
بے گھر کو آوارہ
یہاں کہتے ہنس ہنس
خود کاٹیں گلے سب کے
کہیں اس کو بزنس
اک چیز کے ہیں کئی نام یہاں
ذرا ہٹ کے ذرا بچ کے۔۔۔۔۔۔
کہنے کو یہ ’’بومبے‘‘ کا بیان ہے لیکن اصل میں یہ دنیا کے ہر بڑے شہر کی کہانی ہے۔ لیکن یہاں کہنے کی اصل بات یہ ہے کہ جس چیز کا شعور 1956ء میں فلم کے گیت میں موجود تھا اس بات کا شعور اب ہمارے علم و ادب میں بھی موجود نہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اب ہمارے لیے بڑے شہر کی زندگی خود اک خواب اور خود ایک مثالیہ یا ideal ہے۔ احمد جاوید نے کہا ہے۔
دنیا مرے پڑوس میں آباد ہے مگر
میری دعا سلام نہیں اس ذلیل سے
اس شعر میں انسان ’’محترم‘‘ ہے اور دنیا ’’ذلیل‘‘ لیکن اب صورت حال یہ ہے کہ ہم دنیا کے حصول کی جدوجہد میں خود ذلیل ہو جاتے ہیں مگر دنیا کو ذلیل نہیں ہونے دیتے۔