پاکستان کے لوگ اس بات پر پریشان رہتے ہیں کہ مغرب میں آئے دن اسلام اور رسول اکرمؐ کی ذاتِ مبارکہ پر حملے ہوتے رہتے ہیں۔ لیکن اسلام پر حملے اب مغرب کا ’’اختصاص‘‘ یا ’’امتیاز‘‘ نہیں۔ اسلامی جمہوریہ پاکستان کے ذرائع ابلاغ بالخصوص انگریزی پریس میں آئے دن ایسے مضامین شائع ہوتے رہتے ہیں۔ جن میں براہِ راست یا بالواسطہ طور پر اسلام یا اہل اسلام کا مذاق اُڑایا جاتا ہے۔ لیکن اس ضمن میں اب انگریزی پریس کو مطعون کرنا بھی درست نہیں۔ اسی لیے کہ اب اسلام پر حملوں کا معاملہ عام ذرائع ابلاغ کیا وزیراعظم میاں نواز شریف تک آ پہنچا ہے۔ اس کی ایک مثال کراچی میں ہولی کے حوالے سے ہونے والی تقریب سے میاں نواز شریف کا خطاب ہے۔ آئیے اس خطاب کے اہم نکات کا نکتہ بہ نکتہ تجزیہ کرکے دیکھتے ہیں کہ میاں صاحب نے اسلام اور اہل اسلام کے ساتھ کیا ظلم کیا ہے؟
میاں صاحب نے تقریب سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا کہ دنیا میں جنت اور دوزخ کا فیصلہ کرنے والوں کا ایجنڈا کامیاب نہیں ہونے دیں گے۔ اس سے میاں صاحب کی مراد یہ ہے کہ جنت اور دوزخ میں کون جائے گا یہ بات خدا ہی جانتا ہے۔ اس سلسلے میں مسلمانوں کو یہ حق نہیں کہ وہ کسی کے جنت یا دوزخ میں جانے کا فیصلہ کریں۔ میاں صاحب کی یہ بات سو فی صد درست ہے۔ مسلمانوں کو واقعتاً اس بات کا حق نہیں دیا جاسکتا کہ وہ کسی کے بارے میں خود یہ فیصلہ کریں کہ کون جنت کا مستحق ہے اور کون جہنم کا سزا وار۔ لیکن میاں صاحب اپنی نام نہاد روشن خیالی کے اندھیرے میں یہ بھول گئے کہ قرآن مجید نے صاف کہا ہے کہ کافر اور مشرک ہمیشہ ہمیشہ کے لیے جہنم میں رہیں گے۔ چناں چہ قرآن کے اس صریح حکم اور اعلان کی بنیاد پر اگر مسلمان کافروں اور مشرکوں کو جہنم کا ایندھن سمجھتے ہیں تو اس میں بیچارے مسلمانوں کا کوئی قصور نہیں۔ اس اعتبار سے دیکھا جائے تو میاں صاحب نے اپنے خطاب کے مذکورہ نکتے میں قرآن پاک کے واضح حکم اور اعلان کا اعلان کیے بغیر انکار کیا ہے۔ یہ اسلام پر ایک کھلا اور ہولناک حملہ ہے۔ میاں صاحب شاید نہیں جانتے کہ اسلام میں اصل چیز ایمان ہے اور ایمان کے دو پہلو ہیں۔ ایک خدا پر ایمان لانا اور اس کے ساتھ ساتھ رسول اکرمؐ کی رسالت کی گواہی دینا اور تصدیق کرنا۔ رسول اکرمؐ کے زمانہ مبارک سے آج تک مسلمانوں کا اس بات پر ’’اجماع‘‘ ہے کہ ایک خدا اور رسول اکرمؐ پر ایمان لائے بغیر کسی کا ایمان قابل قبول نہ ہوگا اور جس کے پاس ایمان نہیں ہوگا وہ جنت میں نہ جاسکے گا۔ لیکن میاں صاحب نے ایمان کو معمولی اور اتنی مجّدد یا abstract چیز بنادیا ہے کہ جیسے اس کی کوئی اہمیت اور ٹھوس شکل و صورت ہی نہ ہو۔ حالاں کہ ایسا نہیں ہے۔ اس تناظر میں دیکھا جائے تو کافروں اور مشرکوں کے بارے میں تو دنیا ہی میں فیصلہ ہوگیا کہ وہ دوزخ میں جائیں گے۔ رہے اہل ایمان تو ان کے بارے میں بھی اسلام کی تعلیم واضح ہے۔ جو مسلمان گناہ کریں گے وہ سزا کے طور پر ضرور جہنم میں جائیں گے لیکن جس شخص کے دل میں رتی برابر بھی ایمان ہوگا اسے دوزخ سے نکال لیا جائے گا اور اسے بالآخر جنت میں داخل کردیا جائے گا۔ یہ بھی کسی مسلمان کی ’’خودساختہ‘‘ رائے نہیں۔ یہ قرآن و سنت سے ماخوذ تعلیمات سے ماخوذ عقیدہ ہے اور اس پر بھی مسلمانوں کا ’’اجماع‘‘ ہے۔ اس اعتبار سے دیکھا جائے تو اپنے خطاب میں میاں صاحب نے اس ’’اجماع‘‘ کا بھی انکار کیا ہے۔ یہ بھی اعلان کیے بغیر اسلام کے بنیادی عقیدے پر حملہ ہے۔
میاں نواز شریف نے کراچی میں ہولی کے موقعے پر ہندو برادری کے اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے یہ بھی فرمایا کہ ہم سب اللہ کی مخلوق ہیں، ہر مذہب کے لوگ اپنے عقائد کے مطابق عبادت کرتے ہیں، کوئی اللہ کہتا ہے، کوئی خدا، کوئی بھگوان اور کوئی ایشور۔ لیکن تمام مذاہب کا درس انسانیت کا احترام ہے۔ تجزیہ کیا جائے تو میاں صاحب نے ان فقروں میں اسلام اور دیگر تمام مذاہب کو ایک صف میں لاکھڑا کیا ہے۔ ان کے نزدیک ان میں فرق ہے تو اتنا کہ کوئی اپنے خالق کو اللہ کہتا ہے، کوئی خدا یعنی god اور کوئی بھگوان یا ایشور۔ میاں صاحب کی یہ بات بھی اسلام پر حملہ ہے۔ اس لیے کہ اسلام اور دیگر مذاہب ’’مساوی‘‘ نہیں۔ قرآن و سنت اور مسلمانوں کے اجماع کے مطابق عیسائیت ہو یا یہودیت، ہندو ازم ہو یا کوئی اور مذہب اسلام یعنی شریعت محمدیؐ کے ظہور کے بعد تمام دیگر ادیان ’’منسوخ‘‘ ہوگئے۔ صرف اسلام موجود اور موثر ہے۔ چناں چہ اسلام اور باقی مذاہب کو ایک سطح پر لانا یا انہیں ’’مساوی‘‘ بنا کر پیش کرنا اسلام پر کھلا حملہ ہے اور میاں صاحب نے دن دہاڑے یہ کام کیا ہے۔ میاں صاحب نے یہ بات درست کہی ہے کہ ہم سب اللہ کی مخلوق ہیں۔ لیکن مخلوق میں فرق ہے۔ ورنہ ابلیس بھی اللہ کی مخلوق ہے اور نمرود، فرعون اور ابو جہل بھی اللہ ہی کی مخلوق تھے۔ لیکن محض اللہ کی مخلوق ہونے کی وجہ سے ہم ابلیس، نمرود، فرعون اور ابوجہل کی تعریف نہیں کرسکتے، ان سے دوستی نہیں کرسکتے، انہیں اپنے لیے نمونہ نہیں بناسکتے۔ بلاشبہ اسلام کافروں، مشرکوں اور اہل کتاب کو انسان سمجھتا ہے اور انہیں اپنے عقائد کے مطابق زندگی بسر کرنے کا حق دیتا ہے، لیکن اسلام انہیں ’’اہل ایمان‘‘ کے مساوی قرار نہیں دیتا۔ اس درجہ بندی پر بھی مسلمانوں کا ’’اجماع‘‘ ہے اور میاں صاحب اس اجماع پر مسلسل حملے کررہے ہیں۔
میاں صاحب نے اپنے خطاب میں یہ بھی فرمایا کہ کسی مذہب کے خلاف بُرے خیالات گری ہوئی سوچ ہے۔ کسی مذہب کے خلاف بُرے خیالات کا اظہار واقعتاً گھٹیا بات ہے۔ لیکن بُرے خیال اور حق گوئی میں زمین آسمان کا فرق ہے۔ مثلاً اصول توحید کی رو سے ’’تثلیت‘‘ شرک ہے اور شرک گمراہی ہے۔ چناں چہ اگر مسلمان شرک کو شرک اور گمراہی کو گمراہی کہیں تو کیا یہ ’’گری ہوئی بات‘‘ ہے؟ نہیں میاں صاحب یہ حق کا بیان ہے۔ بلکہ اس کے برعکس جو گمراہی کو گمراہی نہ کہے وہ حق کو چھپاتا ہے اور یوں ضلالت کا مظاہرہ کرتا ہے۔ ایسی ہی ایک مثال ہندوؤں کی ہے۔ ہندو بتوں کو پوجتے ہیں اور یہ بھی شرک کی ایک صورت ہے۔ چناں چہ اگر مسلمان ہندوؤں کو مشرک قرار دیتے ہیں تو کیا وہ ’’گری ہوئی بات‘‘ کا مظاہرہ کرتے ہیں۔ حضور اکرمؐ سے زیادہ صاحب اخلاق اور انسانوں کا احترام کرنے والا نہ کوئی ہوا ہے نہ ہوگا۔ اسلام کی تعلیم یہ ہے کہ کسی کو برے نام سے نہ پکارو لیکن حضور اکرمؐ نے ابوجہل کو ابوجہل ہی کہا حالاں کہ یہ اس کا اصل نام تھا نہ اس میں ’’توصیف‘‘ کا کوئی پہلو تھا لیکن حضورؐ نے ابوجہل کو ابو جہل کیوں کہا؟ اس لیے کہ ابوجہل ابو جہل تھا۔ اسے معلوم تھا کہ آپؐ نبی ہیں مگر اس کے باوجود وہ آپؐ کی نبوت کا انکار کرتا رہا۔ ویسے میاں صاحب اور ان کی پارٹی جتنی مہذب اور انسانوں کا احترام کرنے والی ہے وہ سب جانتے ہیں۔ قوم دیکھ رہے ہے کہ میاں صاحب کی جماعت کے رہنما عمران خان کو روز ایک نئے اور برے نام سے یاد کرتے ہیں۔ لیکن میاں صاحب نے آج تک ان کو ایسا کرنے سے نہیں روکا۔ اس کے معنی یہ ہیں کہ عمران خان کی توہین میں میاں صاحب کی مرضی شامل ہے۔ ایک جانب میاں صاحب کی ننگ رسی کا یہ عالم ہے کہ جب تک وہ اپنے سیاسی حریف کو گالی نہ دلوالیں انہیں چین نہیں آتا۔ دوسری جانب ان کی ’’کشادہ رسی‘‘ کا یہ عالم ہے کہ اگر مسلمان اسلام کی تعلیمات کے مطابق کافر کو کافر اور مشرک کو مشرک کہیں تو میاں صاحب فرماتے ہیں کہ یہ ’’گری ہوئی بات‘‘ ہے۔ لیکن اسلام پر حملوں کے سلسلے میں میاں صاحب تنہا نہیں۔
چند روز پیش تر یعنی 14 مارچ 2017ء جیو کے پروگرام ’’رپورٹ کارڈ‘‘ میں بھی اسلام پر کئی حملے کیے گئے۔ مثلاً معروف کالم نویس حسن نثار نے رسول اکرمؐ کے زمانہ مبارک میں پیش آنے والے ایک واقعے کا ذکر کیا ہے، اس واقعے میں مسلمان لڑکیوں کی تذلیل کی گئی تھی، بعد میں پتا چلا کہ وہ مسلمانوں کی بچیاں ہیں تو معافی تلافی کی گئی۔ اس پر حضور اکرمؐ نے فرمایا کہ ہماری بچیاں علیحدہ نظر آنی چاہییں۔ واقعے کا ذکر کرنے کے بعد حسن نثار نے کیا کہا۔ نقل کفر کفر نباشد کے اصول کے مطابق ملاحظہ فرمائیے۔ حسن نثار نے کہا ’’اب مجھے بڑا دکھ ہوتا ہے جب میں پڑھتا ہوں کہ امریکا میں ہماری کسی بچی کے ساتھ لوگوں نے mis behave کیا کیوں کہ اس نے حجاب پہنا ہوا تھا۔ او بھائی ساڑھے چودہ سو سال پہلے تمہیں بالکل علیحدہ نظر آنا سوٹ کرتا تھا۔ اب ’’اُن میں‘‘ ضم ہوجانا اور گم ہو جانا سوٹ (suit) کرتا ہے۔ یہ wisdom کی interpretation کی بات ہے۔ حدیث شریف کی بھی ایک فلاسفی ہے۔
changig rules for the changing needs
unchanging rules for the unchanging needs
۔۔۔۔۔۔جاری ہے۔۔۔۔۔۔
وزیراعظم کی ’’بکواس‘‘ کی طرح حسن نثار کی ’’بکواس‘‘ کے بھی کئی پہلو ہیں۔ مثلاً ایک پہلو یہ ہے کہ پردہ ساڑھے چودہ سو سال پہلے تو ٹھیک تھا مگر اب ٹھیک نہیں۔ لیکن پردے کا حکم تو قرآن کا حکم ہے۔ رسول اکرمؐ کا حکم ہے۔ اس اعتبار سے حسن نثار کی بات کا مفہوم یہ ہے کہ پردے سے متعلق قرآن پاک اور رسول اکرمؐ کے حکم کی ساڑھے چودہ سو سال پہلے تو ’’ضرورت‘‘ تھی مگر اب ’’ضرورت‘‘ نہیں۔ کیوں کہ اب دنیا بدل گئی ہے۔ اس کے معنی یہ ہیں کہ حسن نثار کے نزدیک قرآن و سنت کے احکامات ایک خاص زمانے کے لیے تھے تاہم ان کی نوعیت دائمی نہیں۔ ہم عالم نہیں، مگر اتنی سی بات تو ہمیں بھی معلوم ہے کہ قرآن مجید کی ایک نص صریح کا انکار پورے قرآن کا انکار ہے اور قرآن کی ایک نص یا پورے قرآن کا انکار کفر ہے۔
حسن نثار نے یہ بھی کہا کہ ساڑھے چودہ سو سال پہلے مسلمانوں کو الگ نظر آنا suit کرتا تھا مگر اب امریکا اور یورپ کے معاشرے میں ضم اور گم ہونا suit کرتا ہے۔ لیکن اس بات کا مفہوم کیا ہے؟ کیا اس کا مطلب ہے کہ مسلمان مرد ڈاڑھی رکھنا اور عورتیں پردے کی کوئی بھی شکل اختیار کرنا بند کردیں۔ اگرچہ ایسا کرنا بھی قرآن و سنت سے بغاوت کے مترادف ہوگا لیکن اگر مسلمان دل پر جبر کرکے یہ کام کر ڈالیں تو کیا اہل امریکا اور اہل یورپ مسلمانوں سے خوش ہوجائیں گے؟ حسن نثار کو معلوم ہے کہ امریکا اور یورپ میں شراب اور سور کے گوشت کا استعمال عام ہے اور مسلمانوں پر یہ دونوں چیزیں حرام ہیں۔ چناں چہ مسلمان نہ شراب پیتے ہیں نہ خنزیر کا گوشت کھاتے ہیں۔ اس کا نتیجہ یہ ہے کہ امریکا اور یورپ میں حلال گوشت کے خلاف بھی زبردست مہم چل رہی ہے۔ چناں چہ کچھ عرصے کے بعد مسلمانوں کو امریکا اور یورپ کے معاشروں میں ضم اور گم ہونے کے لیے حلال گوشت چھوڑ کر حرام گوشت اختیار کرنا ہوگا۔ یہ امر بھی راز نہیں کہ امریکا اور یورپ میں شراب نہ پینے والے مسلمانوں کو ’’روشن خیال‘‘ نہیں سمجھا جاتا۔ چناں چہ اس سلسلے میں بھی مطالبات اٹھیں گے تو مسلمانوں کو امریکا اور یورپ کے معاشروں میں ضم اور گم ہونے کے لیے شراب کا استعمال بھی شروع کرنا پڑے گا۔ لندن کے ہفت روزے دی اکنامسٹ کے ایک سروے کے مطابق مغربی یورپ کے 75 فی صد اور مشرقی یورپ کے 80 فی صد باشندے کسی خدا اور کسی مذہب پر ایمان نہیں رکھتے۔ چوں کہ مسلمان خدا اور مذہب کو مانتے ہیں اس لیے وہ یورپ میں ’’اجنبی‘‘ نظر آئیں گے اور کل ان سے کہا جائے گا یورپ کے معاشرے میں ضم اور گم ہونے کے لیے خدا اور مذہب کو بھی ترک کرو۔ حسن نثار نے بدلتی ہوئی ضروریات لیے بدلتے ہوئے قوانین اور ناقابل تغیر ضروریات کے لیے ناقابل تغیر قوانین کو فلسفہ حدیث قرار دیا ہے۔ لیکن جیسے ان کا تصور اسلام ذاتی و انفرادی ہے ویسے ہی ان کا فلسفہ حدیث بھی من گھڑت ہے۔ اسلام کا اصول یہ ہے کہ مسلمانوں کو کوئی مسئلہ درپیش ہوگا تو اس کا حل قرآن میں ڈھونڈا جائے گا۔ قرآن سے رہنمائی نہیں ملے گی تو حدیث اور سنت رسولؐ سے رجوع کیا جائے گا۔ یہاں سے بھی رہنمائی فراہم نہیں ہوگی تو صحابہ کے اقوال سے رجوع کیا جائے گا اور اجماع سے دستگیری چاہی جائے گی۔ یہاں سے بھی رہنمائی نہیں ملے گی تو قیاس یا اجتہاد سے کام لیا جائے گا، لیکن قیاس یا اجتہاد اندھا دھند غور و فکر کا سلسلہ اور دین کو دنیا کے مطابق بنانے کا کام نہیں بلکہ اجتہاد پہلے سے موجود کسی اصول سے نیا ضابطہ وضع کرنے کا نام ہے۔ حسن نثار کو معلوم ہونا چاہیے کہ دین ناقابل تغیر ہے اس لیے کہ وہ دنیا کو اپنے مطابق بنانے کے لیے ہے۔ اگر دین کو دنیا کے مطابق بنانا ہے تو پھر دین کی ضرورت ہی کیا ہے۔ حالات یہی رہے تو پاکستان کے سیکولر اور روشن خیال رہنما اور دانش ور ایک دن یہی کہہ دیں گے کہ ہمیں دین کی ضرورت نہیں اور ہے تو اسے دنیا کے مطابق ہونا چاہیے۔
جیو کے پروگرام رپورٹ کارڈ میں ریٹائرڈ وائس ایڈمرل شہزاد چودھری نے بھی اسلام کے ایک بنیادی تصور کے خلاف بغاوت کے جذبات پیدا کرنے کی پوری کوشش کی۔ انہوں نے پنجاب حکومت کی جانب سے تعلیمی اداروں میں پردے کو رائج کرنے کی قیاس آرائی کے حوالے سے فرمایا۔
’’مجھے لاہور کی لڑکیوں پر اتنا یقین ہے، اس حد تک یقین ہے جو مرضی ہے کرلیں، یہ کون سے گیلانی صاحب ہیں اور اب کون سے چیف منسٹر صاحب ہیں۔ آپ فکر مت کیجیے۔ ان شاء اللہ، ان شاء اللہ ان میں سے کوئی ان کو (برقع یا اسکارف) پہنا کے دکھا دے تو میں مان جاؤں گا۔ یہ اپنی مرضی کرنے والی خواتین اور لڑکیاں ہیں۔ لاہور کی یا پنجاب کی۔ they are going to do جو ابھی تک وہ کررہی ہیں‘‘۔
ہمارے معاشرے میں کروڑوں لوگ ہیں جو نماز نہیں پڑھتے مگر وہ نماز نہ پڑھنے پر شرمندہ رہتے ہیں۔ یہ نہیں کہتے کہ نماز نہیں پڑھنی چاہیے۔ ہمارے معاشرے میں لاکھوں لوگ ہیں جو روزے نہیں رکھتے مگر وہ روزے نہ رکھنے پر شرمندہ ہوتے ہیں یہ نہیں کہتے کہ روزے نہیں رکھنے چاہییں۔ ہمارے معاشرے میں لاکھوں خواتین ہیں جو خدا اور رسولؐ کے حکم کے مطابق پردہ نہیں کرتیں مگر وہ یہ نہیں کہتیں کہ ہمیں پردہ کرنا ہی نہیں چاہیے۔ لیکن شہزاد چودھری نے اپنے تجزیے میں قرآن و سنت کے ایک واضح حکم کو ظلم، جبر اور جہالت کی طرح پیش کیا ہے اور اس کے خلاف مبینہ طور پر پہلے سے موجود باغیانہ خیالات کی تعریف کی ہے اور ان پر اطمینان کا اظہار کیا ہے۔ پردہ اگر کسی مولوی، ملا کا یا کسی مذہبی جماعت کا حکم یا کلچر ہوتا تو اس کے سلسلے میں مذکورہ رویہ قابل فہم ہوسکتا تھا لیکن اسلامی جمہوریہ پاکستان میں قرآن کے واضح حکم کو چیلنج کرنا، اس کا مذاق اُڑانا اور اس کے خلاف باغیانہ رویے کی حمایت کرنا ناقابل فہم ہے۔ لوگ میر شکیل الرحمن اور جیو پر اینٹی اسلام اور اینٹی پاکستان ہونے کا الزام لگارہے ہیں۔ ہم اس الزام کو دہرانا نہیں چاہتے لیکن میر شکیل الرحمن سے پوچھنا چاہتے ہیں کہ ان کے چینل پر یہ کیا ہورہا ہے اور اس کا کیا مفہوم ہے؟ یہ سوال اس لیے بھی اہم ہے کہ مذکورہ پروگرام پر سیکولر دانش وروں کا غلبہ تھا۔ پروگرام کے ایک شریک مظہر عباس تھے اور ان کا تعلق بائیں بازو سے ہے۔ پروگرام کے دوسرے شریک امتیاز عالم تھے اور لوگ انہیں سیکولر ازم کے حوالے سے بدنام زمانہ کہتے ہیں۔ حسن نثار نے پروگرام میں خود کہا کہ میں سیکولر ہوں۔ پروگرام کے ایک شریک شہزاد چودھری تھے، انہوں نے کھل کر پردے کے تصور کی تذلیل کی۔ پروگرام کے ایک شریک منیب فاروق تھے اور وہ بھی بہرحال ’’اسلام پسند‘‘ نہیں سمجھے جاتے۔ اس اعتبار سے میر شکیل الرحمن نے قرآن کے ایک حکم کو سیکولر بھیڑیوں کے آگے ڈال دیا اور کہا کہ لو اس کو بھنبھوڑو۔ کیا یہ اسلام دوستی ہے؟ اور اگر یہی اسلام دوستی ہے تو اسلام دشمنی کسے کہتے ہیں؟۔ لیکن یہ قصہ یہی ختم نہیں ہوتا۔
میر شکیل الرحمن کے اخبار روزنامہ جنگ کراچی کی 15 مارچ 2017ء کی اشاعت میں صفحہ اوّل پر دو خبریں موجود ہیں۔ ان میں سے ایک خبر کی سرخی ہے۔
’’حجاب کا فروغ ملک کے لیے جگ ہنستائی کا باعث بنے گا۔ مہتاب اکبر راشدی کی پنجاب حکومت کے مبینہ فیصلے پر تنقید‘‘۔
غور کیا جائے تو یہ سرخی خود اسلام پر ہولناک حملہ ہے اس لیے کہ اس میں قرآن مجید کے ایک صریح حکم کو جگ ہنسائی کا سبب قرار دیا گیا ہے۔ بلاشبہ اس سرخی کی اصل ذمے دار مہتاب اکبر راشدی ہیں لیکن جنگ نے اس خبر کو کسی ذہنی تحفظ کے بغیر شائع کیا ہے وہ بھی واضح ہے۔ اسی دن کی اشاعت میں آصف علی زرداری کی بیٹی آصفہ زرداری سے متعلق خبر بھی شائع ہوئی ہے۔ اس خبر میں آصفہ نے حجاب سے متعلق خبر کے حوالے سے پنجاب حکومت پر تنقید کی ہے۔ تو کیا اب مسلم خواتین کے حجاب کا تعین قرآن و سنت کے بجائے مہتاب اکبر راشدی اور آصفہ بھٹو کریں گی؟۔ اس صورت حال کو دیکھ کر خیال آتا ہے کہ اسلامی جمہوریہ پاکستان میں اسلام اور قرآن و سنت کے احکامات کتنے مجبور اور بے بس ہیں۔ سیاسی جماعتیں ہوں یا مذہبی جماعتیں۔ سیاسی رہنماؤں یا مذہبی رہنما یا علمائے کرام سب سوئے پڑے ہیں۔ اس لیے کہ حملے ان پر نہیں اسلام پر ہورہے ہیں۔ حملے سیاسی و مذہبی رہنماؤں اور جماعتوں پر ہوتے تو اب تک ایک طوفان برپا ہوچکا ہوتا۔