مسلمان اس خیال سے جتنی جلد نجات حاصل کرلیں بہتر ہے کہ مغرب مسلمان دشمن ہے۔ مغرب مسلمان دشمن نہیں۔ ایک ارب 60 کروڑ مسلمانوں میں کوئی ایسی بات نہیں کہ مغرب ان سے دشمنی مول لے۔ مگر مسئلہ یہ ہے کہ مسلمانوں کا دین بڑا زبردست ہے چناں چہ اولین سطح پر مغرب کو اسلام ہی سے بیر ہے۔ چوں کہ مسلمان اسلام کے ماننے والے ہیں اس لیے اسلام کی نسبت سے مسلمان بھی مغرب کو زہر لگتے ہیں۔ لیکن یہاں سوال یہ ہے کہ مغرب اسلام کو کیوں ناپسند کرتا ہے؟ وہ عرصے سے کیوں اسلام دشمنی میں مبتلا ہے؟ آئیے ان سوالات پر ذرا گہرائی میں اُتر کر غور کرتے ہیں۔
یہ زیادہ پرانی بات نہیں کہ مغرب عیسائیت کا ماننے والا تھا۔ لیکن پھر مغرب کو عیسائیت میں نقائص اور کمزوریاں نظر آنے لگیں۔ چناں چہ اس نے عیسائیت کی ’’اصلاح‘‘ کی تحریک شروع کی لیکن عیسائیت کی اصلاح کی یہ مہم بالآخر عیسائیت کے انکار پر منتج ہوئی۔ ابتدا میں عیسائیت کے انکار کا دائرہ وسیع نہ تھا۔ لیکن جیسے جیسے فلسفے اور بعدازاں سائنس کا اثر عام ہوا عیسائیت کا انکار کرنے والوں کی تعداد بڑھتی چلی گئی۔ آج یورپ کی آبادی 50 کروڑ افراد پر مشتمل ہے۔ ان افراد کی عظیم اکثریت یعنی تقریباً 75 فی صد افراد کسی خدا اور کسی مذہب پر ایمان نہیں رکھتے۔ اس اعتبار سے دیکھا جائے تو براعظم یورپ میں عیسائیت ایک ’’مردہ مذہب‘‘ ہے۔ اسی لیے موجودہ پوپ نے یورپ کی نئی نسلوں کو گمشدہ نسلیں یا lost generation قرار دیا ہے۔ امریکا میں عیسائیت کی صورت حال یورپ سے بہتر ہے مگر وہاں بھی عیسائیوں میں لادین افراد کی تعداد مسلسل بڑھ رہی ہے۔ اس اعتبار سے امریکا میں بھی عیسائیت فنا ہوتی ہوئی قوت ہے۔
اس کے برعکس جب مغرب عالم اسلام پر نظر ڈالتا ہے تو یہ حقیقت عیاں ہو کر اس کے سامنے آتی ہے کہ اسلام پوری آب و تاب کے ساتھ زندہ ہے۔ مسلمانوں کے تمام عقائد محفوظ اور موثر ہیں۔ کروڑوں لوگ روز پانچ وقت نماز ادا کررہے ہیں، کروڑوں لوگ روزے رکھتے ہیں، لاکھوں لوگ ہر سال حج کرتے ہیں۔ کروڑوں لوگ زکوٰۃ دیتے ہیں۔ مسلمان ناقص العمل تو ہیں مگر ناقص الایمان نہیں۔ اور جب تک ایمان زندہ ہے اس وقت تک یہ امکان ہر وقت موجود ہے کہ مسلمان آج نہیں تو کل اپنے اعمال کے نقائص بھی دور کرلیں گے۔ مغربی دنیا کے تحقیقی ادارے تحقیق کرتے ہیں تو انہیں معلوم ہوتا ہے کہ عالم اسلام کے 80 فی صد سے زائد عوام اسلامی نظام کو ہر مسئلے کا حل سمجھتے ہیں۔ مسلمانوں کے اعمال اور اخلاق دونوں ہی کمزور ہیں مگر ان کے جذبے اور ایمان کا یہ عالم ہے کہ وہ اسلام یا پیغمبر اسلام کی معمولی سی توہین بھی برداشت نہیں کرسکتے۔ مغرب اپنے یہاں عیسائیت کو مردہ حالت اور اسلام کو زندہ حالت میں دیکھتا ہے تو اسے حیرت بھی ہوتی ہے اور ملول بھی ہوتا ہے، یہاں تک کہ وہ اسلام اور مسلمانوں سے حسد بھی محسوس کرتا ہے۔ مسلمان کسی اور چیز میں ’’امیر‘‘ ہوں یا نہ ہوں مگر مذہب، مذہبی فکر اور مذہبی جذبے میں کھرب پتی ہیں اور مغرب ان دائروں میں ہزار پتی بھی نہیں ہے۔ اس بات کا ایک ثبوت یہ ہے کہ سابق پوپ بینی ڈکٹ شش دہم نے ایک بیان میں فرمایا تھا کہ مسلمان خود کو اس لیے برتر سمجھتے ہیں کہ ان کے دعوے کے مطابق ان کے پاس word of god یعنی قرآن موجود ہے۔ اور اسی طرح موجود ہے جس طرح وہ نازل ہوا تھا۔ آرنلڈ ٹوائن بی 20 ویں صدی کے عظیم ترین مورخین میں سے ایک ہے۔ اس نے ایک گفتگو میں صاف کہا ہے کہ مغربی تہذیب مر رہی ہے لیکن اسے ابھی بچایا جاسکتا ہے۔ تاہم اس کی دو شرائط ہیں۔ ایک یہ کہ مغربی تہذیب اپنے اندر کسی نہ کسی قسم کی روحانیت کو داخل کرے اور دوسری یہ کہ وہ ٹیکنالوجی کے عشق سے جان چھڑالے۔ اس بیان کا مطلب یہ ہے کہ اہل مغرب روحانیت کے خلا اور اپنے یہاں اس کی عدم موجودگی کو محسوس کرتے ہیں اور مسلمانوں کے پاس یہ چیز مغرب کے مقابلے پر ’’وافرمقدار‘‘ میں موجود ہے۔ چناں چہ اسلام اور مسلمانوں سے مغرب کا حسد سمجھ میں آتا ہے۔ مغرب مسلمانوں کی ’’روحانی امارت‘‘ سے نمٹنے کے لیے طرح طرح کی حرکتیں کرتا رہتا ہے۔ کبھی وہ کہتا ہے کہ اسلام معاذ اللہ ایک جھوٹا مذہب ہے اور پیغمبر اسلام معاذ اللہ پیغمبر نہیں۔ وہ صرف ایک عبقری یا genius ہیں۔ لیکن اگر ایسا ہی ہے تو ایک جھوٹے مذہب اور غیر نبی کو اہمیت دینے کی ضرورت ہی کیا ہے۔ لیکن مغرب کے نزدیک پیغمبر اسلام اتنے اہم ہیں کہ مغرب نے آپؐ کی توہین کو ’’معمول‘‘ بنادیا ہے۔ انسان کا مسئلہ یہ ہے کہ وہ کبھی دوسرے کی تعریف کرکے اس کی اہمیت کا اعتراف کرتا ہے۔ کبھی اس کی مذمت کرکے اس کی اہمیت کو تسلیم کرتا ہے۔ لیکن مغرب کا مسئلہ صرف اتنا سا نہیں ہے کہ وہ اسلام کو ایک زندہ مذہب کی حیثیت سے ملاحظہ کرکے اپنی روحانی عسرت کا ماتم کرتا ہے۔
اسلام کی تخلیقی صلاحیتیں اور خود کو ازسر نو دریافت یا reinvent کرنے کی استعداد بھی غیر معمولی ہے اور اسلام کا یہ پہلو بھی مغرب کو پریشان کرتا ہے۔ آج سے 70، 80 سال پہلے مغرب کا خیال تھا کہ اسلام دنیا کو جو کچھ دے سکتا تھا دے چکا اور اب اس کے پاس دنیا کو دینے کے لیے کچھ نہیں ہے۔ یعنی مغرب کی اصطلاح میں اسلام معاذ اللہ ایک spent force ہے اور اب اس کا اثر عقائد، عبادات اور اخلاقیات تک محدود رہے گا۔ لیکن اقبال اور ان سے کہیں زیادہ مولانا مودودی نے ثابت کیا کہ اسلام ایک مکمل ضابطہ حیات ہے۔ چناں چہ اسلامی معاشرے کی ریاست و سیاست، قانون و معیشت اور علم و ادب بھی اسلامی اصولوں اور تصورات کی پاسداری کریں گے۔ ایک وقت تھا کہ اسلام کے ایک ضابطہ حیات ہونے یا نہ ہونے کے مسئلے پر بحثیں ہوتی تھیں۔ لیکن اقبال، مولانا مودودی، سید قطب شہید اور حسن البنا کی فکر نے اس بحث کو ختم کردیا اور اب سوال صرف اسلام کو ایک نظام میں ڈھالنے اور اس کا تجربہ کرنے کا ہے۔ فکر اور تصورات کے دائرے میں یہ ایک بہت بڑا انقلاب ہے اور مغرب اس انقلاب کو دیکھ رہا ہے اور حیران ہو رہا ہے کہ کس طرح اسلام نے چند دہائیوں میں اپنی بازیافت کی ہے یا خود کو re-discover کیا ہے۔ لیکن مغرب کا نفسیاتی مسئلہ صرف یہی نہیں ہے۔
بیسویں صدی مغرب کیا پوری دنیا میں سیکولر ازم کے غلبے کی صدی ثابت ہوئی۔ مغرب میں عیسائیت نے اور مشرق میں ہندوازم، یہودیت اور بدھ ازم نے سیکولر ازم کے آگے ہتھیار ڈالے اور ریاست و سیاست اور معیشت و علوم و فنون میں اس کی بالادستی کو دل سے تسلیم کیا۔ لیکن اسلام اور اس کے زیر اثر اسلامی تحریکوں نے مغرب اور اس کے سیکولر ازم کی بالادستی کو تسلیم کرنے سے انکار کردیا۔ چناں چہ کم و بیش تمام اہم مسلم ریاستوں اور معاشروں میں اسلام ایک زبردست مزاحمتی قوت بن کر سامنے آیا۔ اسلام کی اس مزاحمتی قوت کے کئی پہلو ہیں۔ مثلاً ایک پہلو یہ ہے کہ مغرب کبھی اسلام کو طاقت کے ساتھ منسلک کرتا تھا اور کہتا تھا کہ اسلام پسند صرف طاقت کے ذریعے اقتدار میں آسکتے ہیں لیکن اسلامی تحریکوں نے جمہوری طریقے سے اقتدار میں آکر دکھادیا۔ الجزائر، فلسطین، مصر، تیونس اور ترکی اس کی بڑی بڑی مثالیں ہیں مگر مغرب نے ہر جگہ اسلام اور اسلامی تحریکوں کے خلاف شرمناک اور رکیک سازشیں کیں۔ لیکن یہ سازشیں صرف اسلامی تحریکوں کو اقتدار سے محروم کرسکتی ہیں۔ اسلام اپنی تمام تر قوت و شوکت اور امکانات کے ساتھ مسلم معاشروں میں موجود ہے اور یہی اہم بات ہے۔ اسلام کی مزاحمت کے دو عظیم الشان مظاہرے مغرب نے افغانستان میں دیکھے۔ پہلے اس نے افغانستان میں اس جہاد ’’بازیافت‘‘ ہوتے دیکھا جسے ماضی کا قصہ قرار دیا جاچکا تھا۔ پھر مغرب نے جہاد کی قوت سے وقت کی سپر پاور سوویت یونین کو افغانستان میں شکست سے دوچار ہوتے دیکھا۔ یہ 20 ویں صدی کا ایک معجزہ تھا۔ لیکن اس سے بھی بڑا معجزہ افغانستان میں امریکا اور اس کے تین درجن سے زیادہ اتحادیوں کی شکست ہے۔ امریکا 16 سال پہلے افغانستان میں آیا تھا۔ مگر وہ وہاں نہ طالبان کو ختم کرسکا نہ کوئی موثر حکومت قائم کر سکا۔ اب امریکی خود کہہ رہے ہیں کہ افغانستان کے پچاس فی صد حصے پر طالبان کا کنٹرول ہے۔ یہ طالبان کی قوت مزاحمت کی نہیں اسلام کی قوت مزاحمت کی مثال ہے۔
۔۔۔جاری ہے۔۔۔
مغرب اسلام دشمن کیوں ہے؟
اس کے ساتھ ساتھ ہم دیکھ رہے ہیں کہ فلسطینی 70 سال سے اسرائیل کی مزاحمت کررہے ہیں اور کشمیر کے حوالے سے خود بھارتی یہ کہہ رہے ہیں کہ وہاں ایسی نسلیں ہمارے سامنے آکر کھڑی ہوگئی ہیں جنہوں نے موت کے خوف کو فتح کرلیا ہے۔ یہ بھی اسلام کی قوت کا ایک ’’شاہکار‘‘ ہے۔ مغرب اسلام کی اس غیر معمولی اور تاریخ ساز قوت مزاحمت کو دیکھ رہا ہے اور اسلام اور مسلمانوں کے خلاف اس کا خون کھولتا چلا جارہا ہے۔ لیکن اسلام کے حوالے سے مغرب کے کچھ اور ’’مسائل‘‘ بھی ہیں۔
مادی اعتبار سے دیکھا جائے تو اس وقت اسلام اور مغرب کا کوئی موازنہ ہی نہیں۔ اسلام کے پاس نہ عسکری طاقت ہے، نہ معاشی قوت، اس کے پاس نہ سائنس ہے نہ ٹیکنالوجی، اسلام کے پیروکاروں میں علم اور اخلاق کی حالت بھی اچھی نہیں، اس کے باوجود اسلام مغرب میں لاکھوں اہل مغرب کو مشرف بہ ایمان یا مشرف بہ اسلام کرچکا ہے۔ اہم بات یہ ہے کہ ان لوگوں میں صرف عام لوگ شامل نہیں، ان میں دانش ور، سفارت کار، صحافی، گلوکار، اداکار اور اعلیٰ تعلیم یافتہ افراد شامل ہیں۔ یہ صورت حال ایک ’’معجزے‘‘ کی طرح ہے۔ اس لیے کہ مادی اعتبار سے مغربی تہذیب ’’برتر تہذیب‘‘ ہے اور اسلامی تہذیب ایک ’’کمتر تہذیب‘‘ ہے اور تجربہ بتاتا ہے کہ برتر تہذیب کے لوگ کمتر تہذیب کا مذہب قبول نہیں کیا کرتے۔ اس کے معنی یہ ہیں کہ اسلام اور اس کی تہذیب میں کوئی ایسی کشش ہے جو مغرب کے لوگوں کے لیے اسلام اور اہل اسلام کی مادی عسرت کو اہم نہیں ہونے دے رہی۔ مسلم معاشروں کے حکمران اور سیکولر و لبرل دانش ور نیز ذرائع ابلاغ تو گھامڑ ہیں ورنہ اس معجزے میں انہیں اسلام کی کئی فوقیتیں صاف نظر آسکتی تھیں۔
اسلام کی ایک اور خوبی مغرب کا درد سر ہے۔ یہ درد سر ہے اسلام اور اسلامی تہذیب کی جامعیت۔ مغرب کا کمال یہ ہے کہ اس نے ایک بے خدا اور لامذہب تہذیب پیدا کی لیکن اس تہذیب میں اتنی جامعیت ہے کہ مادی دائرے میں زندگی کا کوئی گوشہ جدید مغربی تہذیب کی دسترس سے باہر نہیں رہتا۔ مغرب اپنی تہذیب کی جامعیت پر بجا طور پر اتراتا ہے۔ لیکن جب وہ اسلام اور اسلامی تہذیب کو دیکھتا ہے تو یہ سوچ کر حیران اور پریشان ہو جاتا ہے کہ اسلامی تہذیب جتنی جامع ہے جدید مغربی تہذیب اس کا تصور بھی نہیں کرسکتی۔ اسلامی تہذیب اتنی جامع نہ ہوتی تو دوسرے مذاہب کے ماننے والوں کی طرح مسلمان کبھی کے سیکولر ہوچکے ہوتے۔ یہی وجہ ہے کہ مغرب مسلم معاشروں میں ریاست اور مذہب کے تعلق کو توڑ کر مذہب اور اسلامی تہذیب کی رسائی کو محدود کرنا چاہتا ہے۔
دیکھا جائے تو اسلام کے حوالے سے مغرب کا ایک خوف یہ ہے کہ اسلام صرف زندہ اور مزاحمت کرنے والا ہی نہیں بلکہ وہ اپنی جامعیت کی وجہ سے مغرب کا ’’متبادل‘‘ بننے اور اس عمل میں کامیاب ہونے کی صلاحیت بھی رکھتا ہے۔ مغرب کے لیے متبادل کا خوف اتنا بڑا خوف ہے کہ مغرب نے 70 سال تک اس خوف سے سوشلزم کی مزاحمت کی اور اس کے خلاف سازشیں کیں کہ کہیں سوشلزم اس کے نظام کا متبادل نہ بن جائے۔ اسلام مغرب کے نظام کا متبادل مہیا کرنے میں کامیاب ہوگیا تو ایک ارب 50 کروڑ مسلمان اور مسلمانوں کی پچاس سے زیادہ ریاستیں مغرب کی گرفت سے ہمیشہ ہمیشہ کے لیے نکل جائیں گی۔