جامعہ کراچی کے حوالے سے 21 مارچ 2017ء کے روزنامہ جسارت میں ایک افسوس ناک خبر شائع ہوئی ہے۔ خبر پڑھ کر ہمیں جامعہ کراچی میں گزارے ہوئے چار سال یاد آگئے۔ خبر کے مطابق جامعہ کراچی میں اساتذہ کی جانب سے طلبہ کے ساتھ غیر مہذبانہ رویہ اختیار کیے جانے کا انکشاف ہوا ہے۔ خبر کے مطابق جامعہ میں اس وقت 52 شعبوں میں تدریس کا عمل جاری ہے اور ان میں اکثر شعبوں کے طلبہ کو اساتذہ سے سنگین نوعیت کی شکایات ہیں۔ خبر میں کہا گیا ہے کہ جب طلبہ ڈین یا جامعہ کے اعلیٰ اہلکاروں سے معاملات کی شکایت کرتے ہیں تو انہیں مستقبل داؤ پر لگ جانے کی دھمکیاں دی جاتی ہیں اور ان دھمکیوں کا شکار بیش تر صورتوں میں طالبات ہوتی ہیں۔ خبر میں کہا گیا ہے کہ مائیکرو بایولوجی کے طلبہ نے شعبے کے استاد سے متعلقہ مضمون کے بارے میں سوالات کیے۔ خاتون استاد سوالات کا تسلی بخش جواب نہ دے سکیں۔ چناں چہ طلبہ نے مزید سوالات کرنے کی اجازت طلب کی۔ تاہم خاتون استاد کے مزید سوالات کی درخواست رد کردی اور کہا کہ جسے مجھ سے کچھ پوچھنا ہو میرے کمرے میں آکر پوچھے۔ طلبہ خاتون استاد نے کمرے میں پہنچے تو انہوں نے طلبہ کے ساتھ اجتماعی ملاقات سے انکار کردیا۔ انہوں نے کہا کہ طلبہ ایک ایک کرکے مجھ سے ملاقات کریں۔ طلبہ ایک ایک کرکے ان کے پاس گئے تو خاتون استاد نے کہا کہ تمہیں سوال کرنے کا بڑا شوق ہے۔ میں دیکھتی ہوں کہ اب تم لوگ کیسے پاس ہوتے ہو؟۔ خبر میں کہا گیا ہے کہ طلبہ اساتذہ کی تحریری شکایت کرکے ڈرتے ہیں۔ انہیں خوف ہوتا ہے، استاد انہیں فیل نہ کردے۔ خبر کے مطابق جامعہ کراچی کے اساتذہ کی انجمن کے صدر شکیل فاروقی نے اساتذہ کے افسوس ناک رویے کی تصدیق کی ہے۔ تاہم کہا کہ کئی بار طلبہ بھی غلطی پر ہوتے ہیں۔
ہم نے یہ خبر پڑھی ہے تو ہم 1985ء سے 1990ء تک کے اس زمانے میں چلے گئے جب ہم خود جامعہ کے طالب علم تھے۔ اسکول اور کالج کا ماحول ہمارے لیے دم گھونٹ دینے والا تھا۔ اس لیے کہ اس ماحول میں اساتذہ سے سوال پوچھنے اور بحث کرنے کی گنجائش نہ تھی۔ چناں چہ جب ہمارا داخلہ جامعہ کراچی میں ہوا تو ہم نے خود کو فضاؤں میں اُڑتا ہوا محسوس کیا۔ ہمارا خیال تھا کہ اب ہم جامعہ میں خوب پڑھیں گے۔ کلاس میں سوالات اٹھائیں گے، بحثیں کریں گے اور اپنی علمی و فکری سطح میں اضافہ کریں گے۔ لیکن ہماری یہ خوش فہمی چند ہفتوں میں دور ہوگئی اور ہم پر یہ تلخ حقیقت آشکار ہوئی کہ جامعہ کی فضا اسکول اور کالج کی فضا سے بھی زیادہ دم گھونٹنے والی ہے۔ اس لیے کہ جامعہ کے اساتذہ سوال کرنے اور بحث وغیرہ کی کوشش کرنے پر آپ کو فیل کرنے کی کوشش کرسکتے ہیں۔ کلاس میں آپ پر طنز کرکے آپ کی تذلیل کرسکتے ہیں۔ یہاں تک کہ وہ آپ کے مستقبل سے کھیل سکتے ہیں۔
جامعہ کراچی کے شعبہ ابلاغ عامہ کا شمار جامعہ کے ’’اچھے شعبوں‘‘ میں ہوتا تھا۔ لیکن ہم پر شعبے میں جو گزاری اس کی ’’چند جھلکیاں‘‘ ملاحظہ فرمائیے۔ نثار زبیری کا شمار شعبے کے لائق اساتذہ میں ہوتا تھا۔ ان کی خاص بات یہ تھی کہ وہ وقت پر آتے تھے۔ تیاری کے ساتھ آتے تھے اور پوری توجہ سے پڑھاتے تھے۔ زبیری صاحب کی ایک ادا یہ تھی کہ وہ طلبہ کو سوال کرنے پر اکساتے مگر چند ہی دن میں ہم پر یہ انکشاف ہوا کہ وہ سوال کرنے کو کہتے ضرور ہیں مگر جب طالب علم واقعتاً سوال کرتا ہے اور بحث کی کوشش کرتا ہے تو زبیری صاحب اس کا برا مانتے ہیں اور برا ماننے کا تاثر ان کے چہرے پر آجاتا ہے۔ یہ طلبہ کو ڈرا دینے والی صورت حال تھی مگر اس کے باوجود ہم سوال کرنے کی جرأت کرتے رہے۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ ایک پرچے میں انہوں نے ہمارے 20 نمبر کے سوال کے پورے جواب پر خط تنسیخ پھیر دیا اور اس سوال کے جواب میں ہمیں صفر مارکس دیے۔ اس پرچے کا قصہ یہ تھا کہ اس پرچے میں شماریات کا بھی ایک سوال آتا تھا اور شماریات یا الفاظ دیگر ریاضی بچین سے ہماری سمجھ میں نہیں آتا تھا۔ لیکن اتفاق سے پرچے میں ہم سے یہ سوال حل ہوگیا۔ یہ دیکھتے ہوئے زبیری صاحب نے ہمیں دوسرے سوال کے جواب میں صفر سے نواز دیا۔ ہم نے اس صورت حال پر احتجاج کیا تو زبیری صاحب نے فرمایا تم نے جواب غلط لکھا ہے۔ سوال یہ تھا کہ آپ ایک محقق کی حیثیت سے کس موضوع پر تحقیق کریں گے اور تحقیق کے سلسلے میں کون سا طریقہ تحقیق استعمال کریں گے۔ زبیری صاحب نے ہمیں تحقیق کے چار طریقے پڑھائے ہوئے تھے۔ ہم نے 17 صفحات پر مشتمل اپنے جواب میں بتایا کہ ہم فلاں موضوع پر تحقیق کریں گے۔ اس کے بعد ہم نے مختصر بتایا کہ تحقیق کے چار طریقے ہیں، چار طریقوں کو مختصراً بیان کرنے کے بعد ہم نے تفصیل سے بتایا کہ ہم تحقیق کے لیے کون سا طریقہ اختیار کریں گے اور کیوں؟ اس جواب میں اصولی اعتبار سے کوئی بھی غلطی نہ تھی لیکن اگر بالفرض محال غلطی تھی بھی تو اس کی مد میں میرے دو تین نمبر کم کیے جاسکتے تھے مگر زبیری صاحب نے 17 صفحات پر پھیلے ہوئے جواب پر ہمیں صفر عنایت کردیا۔ انہیں شاید معلوم تھا کہ ہماری ایم اے میں پوزیشن آنے والی ہے چناں چہ انہوں نے کم نمبر دے کر ہمیں اس پوزیشن سے محروم کرنے کی کوشش کی تھی۔ لیکن یہ تو زبیری صاحب کی ’’عنایات‘‘ کی محض ابتدا تھی۔ ہم نے ان کے ساتھ سلیم احمد کی کالم نویسی پر 200 صفحات کا ایک تحقیقی مقالہ لکھا۔ اس مقالے میں ہم نے سلیم احمد کے 750 کالموں کا تحقیقی اور تجزیاتی مطالعہ کیا۔ یہ مقالہ دن رات ایک کرکے چھ ماہ میں مکمل ہوا۔ مگر زبیری صاحب نے اس مقالے پر ہمیں سو میں سے 75 نمبر دیے۔ لیکن یہ تو تحقیق کی ابتدا تھی۔ ہم نمبر معلوم کرنے زبیری صاحب کے پاس پہنچے تو انہوں نے فرمایا کہ یار تم نے تو سلیم احمد کو فرشتہ بنادیا ہے بس ان کے پَر لگا دو تو وہ فرشتہ بن جائیں گے۔ ہم نے کہا کہ ہم نے سلیم احمد کے بارے میں جو کچھ کہا ہے ’’اسناد‘‘ کے ساتھ کہا ہے۔ آپ مقالے سے ایک فقرہ بھی ایسا نکال کر نہیں دکھا سکتے جو سند یا دلیل کے بغیر ہو۔ کہنے لگے یار رہنے دو مجھے معلوم ہے کہ تم نے سلیم احمد پر مقالہ کیوں لکھا ہے! ہم نے کہا کہ آپ بتائیے۔ فرمایا۔ میرا منہ نہ کھلواؤ، اس سے ان کی مراد یہ تھی کہ اس وقت تک سلیم احمد کی بیٹی سے ہماری منگنی ہوچکی تھی۔ یہ اتنی چھوٹی، اتنی پست، اتنی گھٹیا اور اتنی غلط بات تھی کہ ہم نے کہا کہ سر آپ کے اور میرے درمیان اب بس اتنا فرق ہے کہ آپ اس کرسی پر بیٹھے ہیں اور میں اس کرسی پر بیٹھا ہوں۔ لیکن زبیری صاحب کا جذبہ انتقام اس مقام پر بھی سرد نہ ہوا۔ ہم نے ایم اے کے بعد جامعہ کراچی کے شعبہ ابلاغ عامہ میں لیکچرار کی ’’job‘‘ کے لیے درخواست دی تو شعبہ ابلاغ عامہ کے ایک استاد کے مطابق زبیری صاحب اور متین الرحمن مرتضیٰ، چیئرمین ڈاکٹر شمس الدین کے پاس پہنچے اور انہیں دھمکی دی کہ اگر آپ نے شاہنواز فاروقی کو لیکچرار رکھا تو ہم استعفا دے دیں گے۔ دھمکی موثر ثابت ہوئی اور ہم لیکچرار نہ بن سکے۔ حالاں کہ بی اے آنرز میں ہماری فرسٹ کلاس سیکنڈ پوزیشن تھی۔ ایم اے میں فرسٹ کلاس فرسٹ پوزیشن تھی۔ ہم روزنامہ جسارت کے مستقل کالم نویس تھے۔ ہم بچوں کے رسالے آنکھ مچولی میں ساڑھے تین سال تک مجلس ادارت کا حصہ رہے تھے اور ہم نے بچوں کے لیے درجنوں نظمیں، کہانیاں اور درجنوں مضامین لکھے ہوئے تھے۔ ہمارے پاس پی ٹی وی کے نیوز روم میں سب ایڈیٹر کی حیثیت سے کام کرنے کا تجربہ بھی تھا۔ ہم نے ایم اے میں سلیم احمد اور مشفق خواجہ کی کالم نویسی پر دو تحقیقی مقالے لکھے ہوئے تھے۔ مگر یہ سب بیکار تھا۔ بد قسمتی سے ہماری جگہ جن دو افراد کا تقرر ہوا وہ نہ پوزیشن ہولڈر تھے نہ ان کے پاس کوئی تخلیقی اور تحقیقی کام تھا۔ یہاں تک کہ ان کے طالب علم ہمارے پاس آتے تھے اور کہتے تھے کہ وہ ماس کمیونی کیشن کو define کرنے اور نوٹس کو دیکھے بغیر لیکچر دینے کی صلاحیت نہیں رکھتے۔ آپ سمجھ رہے ہوں گے کہ اس کے بعد نثار زبیری نے ہمارا تعاقب ترک کردیا ہوگا۔ جی نہیں۔ ہمارے ایک دوست تھے احمد زاہد۔ وہ شعبے میں ہم سے ایک سال جونیئر تھے۔
(جاری ہے)
جامعہ کراچی اور اس کے اساتذہ
ہمارے ایم اے کرنے کے ایک سال بعد ایک دن وہ تقریباً روتے ہوئے ہمارے پاس آئے۔ کہنے لگے کہ صاحب آپ کی دوستی نے تو آج کلاس میں ہمیں ’’ذلیل‘‘ کرادیا۔ ہم نے اس اجمال کی تفصیل پوچھی تو کہنے لگے کہ آج نثار زبیری کی کلاس میں ہم نے ان سے ایک سوال پوچھ لیا تو انہوں نے ہمیں جھڑک دیا۔ کہنے لگے کہ مجھے خوب معلوم ہے کہ یہ سوال تمہیں کون بنا کر دیتا ہے؟۔ احمد زاہد نے حیرت سے پوچھا کہ مجھے کون سوال بنا کر دیتا ہے یا مجھے کون سوال سکھاتا ہے؟ زبیری صاحب نے فرمایا۔ شاہنواز فاروقی اور کون؟۔ ان واقعات سے اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ جامعہ کراچی کے اساتذہ سے سوال پوچھنے اور ان کے ساتھ بحث کرنے کے نتائج کتنے ہولناک ہوسکتے ہیں؟۔ لیکن مسئلہ صرف ایک نثار زبیری کا نہیں تھا۔
شعبے کے ایک استاد متین الرحمن مرتضیٰ بھی تھے۔ وہ ساری دنیا پر تنقید کرنے کی شہرت رکھتے تھے مگر وہ خود اپنے طالب علموں سے احترام آمیز سوال یا احترام آمیز تنقید سننے کے روا دار نہیں تھے۔ ایک دن وہ کلاس میں خاکہ نگاری پڑھا رہے تھے۔ کہنے لگے خاکہ نگاری سنجیدہ اسلوب میں بھی ہوتی ہے اور قدرے مزاح آمیز اسلوب میں بھی اور خاکہ نگاری کی اس قسم کو برتنا مشکل ہے۔ ہم نے کہا کہ آپ اپنے اداریوں میں یہی اسلوب برتنے کی کوشش کرتے ہیں۔ ہماری بات سنتے ہی متین صاحب کا رنگ غصے سے سرخ، پھر نیلا اور پھر پیلا ہوا۔ لیکن عملاً اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ انہوں نے ہم سے گفتگو بند کردی۔ یہاں تک کہ ہمارے سوال کا جواب دینا بھی ترک کردیا۔ یہ دیکھ کر ہم اپنے ایک ہم جماعت کے ساتھ ان کے گھر پہنچے اور غلطی نہ کرنے کے باوجود ان سے معذرت کی۔ ہم سمجھے کہ استاد مکرم نے ہماری معذرت کو قبول کرلیا ہے لیکن چند روز بعد استاد مکرم نے بھری کلاس میں ہم پر بھرپور حملہ کیا۔ اس زمانے میں ہماری عادت تھی کہ ہم کالم یا شعر لکھتے وقت لاشعوری طور پر بال پین کو منہ میں رکھ لیتے تھے جس سے رفتہ رفتہ بال پین کا پچھلا حصہ ٹوٹ جاتا تھا اور بال پین ’’مجروح‘‘ نظر آنے لگتا تھا۔ اس دن ایک مجروح پین کلاس روم میں ہمارے سامنے رکھا ہوا تھا۔ متین صاحب یہ دیکھ کر تیزی کے ساتھ آگے بڑھے اور ہمارے بال پین کو اُٹھا لیا اور پھر پوری کلاس سے مخاطب ہوتے ہوئے فرمانے لگے۔
’’اب دیکھیے ان کی جارحیت اور جارحانہ رویے کا شاخسانہ‘‘
استاد مکرم یہ کہہ کر خاموش نہیں ہوگئے بلکہ وہ پین سب کی طرف دکھا کر کہنے لگے، دیکھا آپ نے۔ اس سے ہمارا تو کوئی نقصان نہ ہوا البتہ کلاس کے طالب علم عرصے تک اس بات پر متین صاحب کا مذاق اڑاتے رہے۔ لیکن یہ قصہ یہاں ختم نہیں ہوا۔ ہم نے ایم اے کے دوسرے سمسٹر میں مشفق خواجہ کے فکاہیہ کالموں پر تحقیق کا ارادہ کیا تو اس خیال سے متین صاحب کے پاس پہنچے کہ متین صاحب بھی روزنامہ جسارت اور ہفت روزہ تکبیر سے وابستہ رہے ہیں اور مشفق خواجہ بھی۔ ہم نے متین صاحب پر مشفق خواجہ کے حوالے سے تحقیق کا ارادہ ظاہر کیا تو اس موضوع پر تحقیق کرانے کے لیے آمادہ نہ ہوئے۔ کہنے لگے آپ کوئی اور موضوع لے لیجیے۔ ہم نے کہا کہ چوں کہ ہم نے بچپن سے جسارت میں خواجہ صاحب کے کالم پڑھے ہیں اس لیے ہم ان کے کالموں کو تھوڑا بہت سمجھتے ہیں۔ بڑی بحث کے بعد طے ہوا کہ ہم خواجہ صاحب کے ادبی فکاہیہ کالموں کے بجائے سیاسی فکاہیہ کالموں پر تحقیق کریں گے۔ مشفیق خواجہ پر متین صاحب تحقیق کے لیے کیوں آمادہ نہ تھے اس کی وجہ خالد جامعی نے بہت بعد میں ہمیں بتائی۔ ان کے بقول خواجہ صاحب نے متین صاحب کا ایک مضمون پڑھ کر انہیں جاہل کہہ دیا تھا۔ یہ فقرہ کسی نے متین صاحب تک پہنچادیا۔ بہر حال موضوع طے ہوگیا تو ہم نے خواجہ صاحب سے ملاقات کی اور تحقیقی مواد حاصل کیا۔ بدقسمتی سے چند روز بعد جمعیت اور پی ایس اے کے درمیان تصادم ہوگیا اور جامعہ کراچی تین ماہ کے لیے بند کردی گئی۔ ہم نے سوچا کہ ہمیں یہ تین ماہ ضائع نہیں کرنے چاہئیں بلکہ اپنی تحقیق جاری رکھنی چاہیے۔ چناں چہ ہم نے فرصت سے فائدہ اُٹھاتے ہوئے تین ماہ میں تحقیقی کام مکمل کرلیا۔ تین ماہ بعد جامعہ کھلی تو ہم متین صاحب کے پاس پہنچے اور یہ سوچ کر متین صاحب یقیناً ہمیں داد و تحسین سے نوازیں گے ان سے کہا کہ صاحب یہ رہا ہمارا تحقیقی مقالہ۔ کہنے لگے کہ اس دوران آپ نے مجھ سے تو کچھ پوچھا ہی نہیں۔ ہم نے کہا کہ نارتھ ناظم آباد سے کسی پوائنٹس کی بس کے بغیر جامعہ آنا آسان نہ تھا۔ بہر حال آپ مقالہ پڑھ لیجیے اور جو خامی آپ بتائیں گے ہم اسے دور کریں گے اور جو تبدیلی اور ترامیم آپ کہیں گے کرلی جائیں گی۔ کہنے لگے کہ جی نہیں آپ کا یہ رویہ میرے لیے ناقابل قبول ہے۔ آپ اب کسی اور کے ساتھ تحقیق کرلیں۔ ہم نے کہا کہ اب ہمارے مقالے کی نگرانی کون قبول کرے گا؟۔ کہنے لگے کہ یہ آپ کا مسئلہ ہے۔ میں آپ کے ساتھ اس مقالے کی وجہ سے اپنے تعلقات خراب نہیں کرنا چاہتا۔ لیکن یہ محض ایک ’’سیاسی بیان‘‘ تھا۔ ورنہ حقیقت یہ تھی کہ متین صاحب ہمارے جوش انتقام سے بھر چکے تھے۔ چناں چہ جب ہم نے شعبے میں لیکچرار کی پوسٹ کے لیے درخواست دی تو نثار زبیری کے ساتھ متین صاحب بھی شعبے کے چیئرمین کے پاس پہنچے اور کہا کہ اگر آپ نے شاہنواز فاروقی کو لیکچرار بنایا تو میں استعفا دے دوں گا۔ ہمیں اس دھمکی کا کوئی علم ہی نہ تھا۔ اتفاق سے ایک روز شعبے کے ایک استاد نے اس ’’راز‘‘ سے پردہ اُٹھاتے ہوئے بتایا کہ ہمارے دو اساتذہ نے ہمیں سوال اور بحث کرنے کی کیا سزا دی۔ لیکن سوال یہ ہے کہ اگر جامعات بھی سوال اٹھانے اور بحث کرنے کے لیے نہیں ہیں تو پھر طالب علم یہ کام کرنے کہاں جائیں؟؟۔